Laaltain

سوچتا ہوں
ہم جو ” مابعد جدید” غلام زادے ہیں
گنگ زادے ہیں
ہم اُنہی کے بنائے ہوئے ماپ دنڈ پر اپنے بدن،
اُنہی کی دکانوں کے باہر کھڑے mannequins پر منڈھ دیتے ہیں
پھر ان ہی کے حکم کے مطابق دھندلے لفظ چن چن کر بڑبڑاتے ہیں

“یہ زمانہ مابعد جدید زمانہ ہے
ہمیں اپنے دکھ صاف کہنے کا حق نہیں
ہمیں فقط بدبدانے کی اجازت ہے “

بے معنائی ہماری داہنی ران پر چھپا تمغا ہے
اور ہم جو “اشقرِ تازی” ہیں ،
ان کی سفید رانوں میں دبے ہیں

جب وہ ہماری اولادوں پر میزائل گراتے ہیں
تو ہم ان میزائلوں کے کھانچوں پر کندہ نخوت بھرے نعروں کے دھندلے ترجمے کرتے ہیں
دوسرے غلام زادوں کو سناتے ہیں
اپنی دھونس جماتے ہیں

ہم کنکریٹ کے ملبوں میں دھنسی اپنی اولادوں کی چیخیں سنتے تو ہیں
پر کچھ بولتے نہیں
بول سکتے نہیں
ہم جو ” مابعد جدید” غلام زادے ہیں
گنگ زادے ہیں
انہوں نے ہمارے جبڑوں میں زبانوں کی جگہ چھپکلیوں کی پھڑکتی دمیں رکھ دی ہیں
اور آنکھوں کے کاسوں میں ڈیلوں کی جگہ گھیکوار
اور ہمیں بتایا ہے کہ یہ آنکھوں کے لئے اچھا ہوتا ہے

ہم اپنے خون سے ان کی دکانوں کی دیواریں دھوتے ہیں
اور ان دیواروں کو سبز بھینت کہتے ہیں
ہمیں ان گھیکواری آنکھوں سے ہر شے سبز دکھتی ہے
ہاں کبھی کبھی کچھ خاروں کا شائبہ سا ہوتا ہے

میری آنکھوں کے کاسوں میں بویا گھیکوار ایک Shrapnel نے نوچ لیا ہے
میں نے mannequin پر منڈھا اپنا بدن اتارا تو ہے
پر اب اندھیرے میں وہ الماری ڈھونڈھ رہا ہوں جہاں اس معمورے کی سب آنکھیں رکھی ہیں
اور وہ دراز جہاں اس معمورے کی سب زبانیں بند ہیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *