کبھی کبھی سوچتا ہوں شاعری سیکھی، وقت ضائع کیا۔ ایک ان کہی ان سنی زبان بناتے بناتے بہت دل جلایا، وقت ضائع کیا۔
لوگوں کو کہتے کہتے شاعری دکان داری نہیں ہے، شاعری اپنی ذات کے غیر مرئی گوشوں کی تجسیم ہے۔
حقیقت میں زیادہ چیزیں انکہی ہی رہ جاتی ہیں۔
لوگوں کا کہتا پھرا :
یہ زعم نہ رکھو کہ تم اپنے ہر احساس کو جامہ پہنا دو گے ۔ نہیں!
ہر احساس کو سراپا دیا نہیں جا سکتا۔ پر وہ چند احساسات جنہیں تم جامہ پہنا سکتے ہو، ان کے لئے تمہیں کسی مجسمہ ساز کی طرح حواس خمسہ کو کام میں لانا ہو گا۔ حسِ باصرہ، حس سامعہ، حس لامسہ، حس ذائقہ، حسِ شامہ 5 کھڑکیاں ہے قاری کے دل کی۔ کھڑکیاں تو کھلی ہیں اور تم دیواروں کو ٹکریں مار رہے ہو۔
وقت ضائع کیا۔
کسی نے کہا شاعری سیکھی جا سکتی ہے؟ میں نے کہا ہاں جیسے کوئی دوسرا کرافٹ سیکھا جا سکتا ہے شاعری بھی سیکھی جا سکتی ہے۔ پر شاعر بنا نہیں جا سکتا۔ تو وہ گھورنے لگا کہ یہ کیا بکواس ہے تو میں نے یہ کہا کہ اگر الفاط کے چشمے تم سے پھوٹنا بند ہو جائیں تو تمھیں یوں محسوس ہو کہ تمھارا گلا گھونٹا جا رہا ہے۔ ہر کسی پر یہ عذاب نہیں آتا، کاش نہ ہی آئے۔تم رات کی ناڑ پر دھڑکنوں کی چیونٹیاں کو چلتے ہوئے دیکھو، تم انتظار میں جاگتے رہو،جاگتے رہو۔ پھر ایک رات ہر چیونٹی اپنے سر پر ایک لفظ اٹھائے آئے، کہہ رہا ہوں یہ عذاب ہر کسی پر نہیں آتا۔
بات یہ ہے کہ آدمی شاعر
یا تو ہوتا ہے یا نہیں ہوتا
محبوب خزاں کا شعر سنا کر کلیشے پورا کیا، وقت ضائع کیا۔
شاعری کیا ہے سوچتے سوچتے ارسطو سے پوچھا، فارابی سے پوچھا، ابن سینا، غزالی، ابن رشد کے دروازے کھٹکھٹائے۔ ابے کوئی تو بتائے شاعری کیا ہے؟
فاروقی صاحب کہنے لگے شاعری کے چار عناصر ہیں :
موزونیت، اجمال، جدلیات، ابہام۔ پھر ہر عنصر پر دوسروں سے بحث کرتے کرتے خود کو سمجھایا، شاعری کیا ہے۔
شاعری اپنے آپ کی کھوج ہے۔
خود کلامی کی
شاعر بھول بھلیوں کا تخلیق کار ہے جو نئے نئے موڑ بناتا ہے اور ایک خدا کی طرح اپنے سامع کو اس میں چھوڑ کر کہتا ہے، بھول بھلیوں سے باہر آؤ تو جانوں۔
جو لوگ ان بھول بھلیوں سے باہر نکل آئیں گے۔ تمھارے بت بنائیں گے۔ پر تمھارے لئے ان کی داد، تحسین، ان کے سجدے بیکار ہونگے۔ تمھیں صرف اپنی بھول بھلیاں بنانے سے سودا ہے باقی سب بیکار ہے۔ شاعر آئینہ ساز بھی ہے جو اس بھول بھلیوں میں قاری کی ان دنیاؤں کی تجسیم کرتا ہے جو عقل کے شکنجے سے دور ہیں۔ قاری کو اس کا اصل دکھاتا ہے۔
پھر میر کا شعر با بانگ دہل پڑا
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کارگہۂ شیشہ گری کا
شاعری کو آفاق کی کارگہہ سے ملایا، وقت ضائع کیا۔