کردار آخری صفحے پر جمع ہونے لگے۔
“تو کیا یہ سب دھوکا ہے، یہ جو زندگی ہم گزار رہے ہیں اصل میں اس بوڑھے عینک والے کی لکھی ہوئی ہے۔” ناول کے protagonist نے antagonist سے بغلگیر ہو کر کہا
“یہ جو میں نے تمہارے ساتھ کیا، میں نے کب کیا اور جو تم نے میرے ساتھ کیا تم نے کب کیا۔ یہ سب تو ایک سوانگ ہے۔ ”
اسے یہ کہتے ہوئے کتنا ہلکا محسوس ہو رہا تھا۔ Antagonist نے اسے پیچھے ہٹایا اور کہا
“بیٹے! ہاتھ ہٹا ورنا ایسا زور کا گھونسا ماروں گا کہ اس بڑھو کے پین کی سیاہی سارے منہ پہ لپ جائے گی۔” کرداروں نے سوچا کہ ہم جلوس نکالیں گے۔ پلے کارڈز بنائیں گے۔ پر پلے کارڈ بنانے کے لیے بھی تو کاغذ درکار تھا سو وہ ناول کے پلاٹ کے کسل کنندہ صفحے ڈھونڈھنے لگے۔ انھیں زیادہ مشکل نہ ہوئی کیونکہ یہ بوڑھا مصنف بار بار تو اردگرد کی بکواس گناتا رہتا تھا۔ کتنی چڑیاں اڑ رہی تھیں، آسمان کتنا گاڑھا نیلا تھا، کتنی بکریاں دھول میں اپنے بھرے تھن لے کر اپنے بچوں کو تلاش کر رہی تھیں۔ protagonist نے سارے کرداروں کو تحکم کے لحجے میں کہا
“فقط وہ صفحے پھاڑو جو کہانی کو آگے نہیں بڑھاتے۔”
سب کردار توصیفی پیراگراف کی طرف بڑھنے لگے۔ بکریاں، چڑیاں، آسمان کا نیلا گاڑھا رنگ، شفق کے اڑتے پرندے، نہ جانے کیسی کیسی پس منظر کی آوازیں ناول کی سطروں سے اٹھ اٹھ کر کہنے لگیں
“ہمارے ساتھ یہ ظلم کیوں؟ ہاں ہم کہانی کو آگے نہیں بڑھاتے مگر تمہارے اندروں کیا چل رہا ہے اس کا استعارہ بھی تو ہم ہی ہیں۔ جہاں تم اداس ہوتے ہو، مضطرب ہوتے ہو، ہنستے ہو، قہقے لگاتے یا ہیجانی حالت میں بکواس کرتے ہو، ہم آ جاتے ہیں قاری کے حواس خمصہ کو مرتعش کرنے کے لئے۔ ہمارے بغیر کیسے ہو گی کہانی۔ ”
شور اس قدر بڑھ گیا کہ مصنف جو چائے پر چائے غٹک رہا تھا کچھ متوجہ ہوا۔
“میرا ہیجان اس قدر بڑھ گیا ہے کہ خرافات سنائی دینے لگے ہیں، بہتر ہے سو جاؤں۔ ” وہ بڑبڑایا
کردار چیختے رہے پر وہ بستر پر لیٹ گیا۔ ایک فقیر نے پھلجھڑی چھوڑی
” اگر ہم کسی چیز کو ٹوٹ کر چاہیں تو وہ دعا بن جائے گی اور مصنف اس کی تکمیل میں جٹ جائے گا۔ ”
ایک قنوطی کردار نے زوروں کا قہقہہ لگایا اور کہا
“تمہیں کیا لگتا ہے کہ مصنف اپنے گریٹ پلاٹ میں تمہاری دعاؤں سے تبدیلی کر دے گا؟ یا تو تم بہت گردن فراز ہو، یا بہت بے وقوف۔”
وہ فقیر بولا
” یہ تکبر یا بیوقوفی بھی تو اس ہی کی تخلیق ہو گی”
ایک فلسفی جو کبھی کبھی مونولوگ کی خاطر کہیں نا کہیں سے آن ٹپکتا تھا کہنے لگا
“اگر مصنف خود اپنے بارے میں لکھے تو کیا وہ بھی ہماری طرح کردار بن کر ہمارے ساتھ کھڑا ہو گا کیا تب اس کی خود مختاری ختم ہو جائے گی۔ یہ بھی تو ممکن ہے کہ یہ مصنف کسی اور ناول کا کردار ہو اور اس کا مصنف کسی اور ناول کا اور اس کا مصنف کسی اور ناول کا تو یہ لا متناہی سلسلہ کب تک چلے گا ۔”
وہ اور قنوطی کردار ٹھٹھے مار کر ہنسنے لگے پھر فلسفی کے ذہن میں ایک اور خیال کوندا اور وہ گویا ہوا
“یہ بھی تو ممکن ہے کہ یہ آشوب، یہ ھمھمہ، یہ احتجاج کی خواہش یہ سب بھی اسی کا لکھا ہو، اور یہ جو الفاظ میرے منہ سے نکلتے ہیں اسی کے نیلے پن کے آڑھے ترچھے خطوط ہوں۔”
مکمل خاموشی چھا گئی۔ مصنف نے مسکراتے ہوئے قصہ لکھنا شروع کی.
بوڑھی کرسٹین اپنی معصومیت اور بچچنے کو یاد کر کے ہنسی، وہ بھی کیا وقت تھا جب وہ انجان لوگ بارش میں اپنے مردے لے کر احتجاج کئے جا رہے تھے۔ کریستین کو کوئٹہ میں آئے دن ہی کتنے ہی ہوئے تھے پر وہ عیسائی ہونے کے باوجود شعیہ عزاداروں کے ساتھ ماتم کر رہی تھی۔ میگنم فوٹوز کی طرف سے بھیجی گئی وہ اکیلی فوٹوگرافر تھی۔ اس کو ان لاشوں میں اپنے جوخم اور بیرنڈ کے چہرے نظر آ رہے تھے۔ وہ اس روز غم میں اس قدر گم تھی کہ فوٹوگرافی کے سب اصول بھول گئی تھی۔ Henri Cartier-Bresson کی طرح decisive moment کی تلاش میں وہ بٹن دبائے جا رہی تھی۔ اسے محسوس ہو رہا تھا کہ کیمرا اس کے جسم کا حصہ بن تھا ہے۔ اور شاید یہ دن اس کا decisive moment ہے۔
اس رات اس نے سوچا تھا کہ اگر یہ سفید کفنوں میں لپٹے مسخ چہرے اس کو سونے نہیں دے رہے تو جن لوگوں کو ان چہروں میں اپنی گزری سانسیں نظر آتی ہوں گی۔ ان کی نیند کا کیا ہو گا۔
اس نے سوچا تھا کہ وہ ان تصویروں کو دکھا کر ان لوگوں کے غم کا مداوا کرے گی۔ وہ اپنی فوٹوز کے بل پر ہر ظلم کو بے نقاب کر دے گی۔ پر آج اسے یہ سب داد و تحسین کتنی بے معنی لگ رہی تھی۔
“کاش میں نے ڈاکٹری پڑھی ہوتی، فلنتھرومسٹ ہوتی تو زندگی میں کوئی معنویت ہوتی۔ فلسفہ پڑھ کر فوٹوگرافی کرنا میری بہت بڑی بھول تھی” اس نے سوچا۔
اسے اس نوجوان فوٹوگرافر میں اپنی جوانی کے پل نظر آ رہے تھے جو ان کفنوں میں لپٹی لاشوں کی بلیک اینڈ وائٹ تصویر دیکھ کر دمبخود تھا۔ ان میں لیڈنگ لائینز، گولڈن ریشو، رول آف تھرڈز جیسے تمام اصولوں کا خیال رکھا گیا تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کاش میں کریستین کی جگہ ہوتا تو میری زندگی کتنی معنی خیز ہوتی۔
What a piece of art! your art has changed the attitudes of people , this is the power of art
اس نے جوشیلے انداز میں کہا
,It’s no art son, it’s life, that orbit in which we will repeat the same transgressions again and again, the place might change, the time might change but, the human nature — it won’t, No art has the power to change human nature, remember that
کرسٹین نے غمدیدہ ہو کر جواب دیا
اسے کیا معلوم تھا کہ وہ آج سے دس سال بعد ،ان دو بیٹوں کو کھو دے گی جن کے ہونے پر اس کی ساس نے اس کی بلائیں لینا ہیں ۔ ایک کو تھیلیسیمیا نگل جائے گا اور دوسرے کو اپنا گودا دان کرتے زیادہ انیستھیزیا کی ڈوز۔ وہ تو بس اپنے ماں بات کو چھوڑنے کے غم میں پھولوں سجی گاڑی میں بیٹھی رو رو کر ہلکان ہو رہی تھی۔
وٹس ایپ پر ترکی بہ ترکی جواب دینے کے بعد اس نے سوچا سعدی واقعی چلا گیا اب وہ اسکا نہیں رہا۔ وہ یوں تو نہیں بولتا تھا۔
“It’s none of your business”
بھلا یہ کوئی طریقہ ہے بات کرنے کا۔ اس نے تو بس اسکی بیوی کے ویزا کا ہی پوچھا تھا۔ شاید سعدی نے اپنی بیوی کو فون کا پاسورڈ دے دیا ہو گا۔
کون مان سکتا ہے کہ اس کا میاں بلڈ کینسر سے مر گیا۔ اس کے چہرے پر جو رنگ روپ تھا۔ وہ پہلے کبھی نہ دیکھا تھا۔ احمد نے افسوس کرتے ہوئے کہا
“جمال بھائی بہت ہی نیک انسان تھے۔ جتنا ساتھ انھوں نے ہمارے مشکل وقت میں دیا کون دے سکتا تھا”
وہ خاموش ہو گئی ،ایک سیکنڈ کو اس کا رنگ اڑ گیا۔ پھر جب اس کی بیٹی نے اس کی چوٹی کھینچی تو وہ درد کے باوجود مسکرانے لگی۔
وہ جانے لگی تو دونوں زار و قطار رو رہے تھے۔ شامل سے اس نے پوچھا
” Give me one reason that I stay”
وہ خاموش ہو گیا پھر اچانک بولا
” Wash your laundry at least, you don’t have a washing machine”
اس نے کپڑے واشگ مشین میں ڈالے اور اس کی گود میں سر رکھ کر لیٹی رہی۔ جیسے ہی کپڑے دھلے وہ کپڑے سبز لفافے میں ڈالنے لگی۔ اس کے ہونٹوں پر بوسہ دیا اور بولی
” I can’t believe this is the last time I will see you”
شامل نے لاکھ کہا کہ کپڑے خشک ہونے تک رک جاؤ پر وہ گیلے کپڑوں کی پوٹلی لے کر چلی گئی۔
شامل خالی واشنگ مشین کو گھورتے گھورتے ایک اور کہانی میں چلا گیا ۔
خدا کے ہونے نہ ہونے پر لمبی بحث ہوتی رہی۔ ابنِ سینا کی کتاب برھان الصدقین میں لکھے گئے واجب الوجود کے مفہوم کو سمجھاتے سمجھاتے اس نے اچانک جون کا شعر ببانگِ دہل پڑھا
ہم نے خدا کا رد لکھا نفی بہ نفی لا بلا
ہم ہی خدا گزیدگاں تم پر گراں گزر گئے
کیا دیوانہ شخص تھا۔ جون اولیا
“آلو جل گئے تمھاری اس بکواس میں۔ “کامران نے کہا۔ وسکی کے ساتھ اس رات کھانے کو ان کے پاس کچھ بھی نہیں تھا۔
” Diabetes mellitus کیوں کہتے ہیں اسے کبھی سوچا ہے تم نے۔ mellitus لاطینی زبان کا لفظ ہے جس سے مراد ہے شہد جیسا میٹھا ۔ ذیابیطس کے مریضوں کے پیشاب پر چیونٹیاں آتی دیکھیں تو پتا چلا کہ ان کا پیشاب میٹھا ہوتا ہے۔ ڈاکٹر چکھ کر بتاتے تھے پہلے۔۔۔ او ہو آپ کو تو ذیابیطس کا مرض لاحق ہو گیا ہے۔”
پتا نہیں کتنا چکھنے کے بعد مٹھاس نصیب ہوتی ہو گی۔ ”
یہ سب کہتے ہوئے ڈاکٹر علی ہنسے جا رہا تھا۔ تب عائشہ منہ بنائے ہوئے بولی
” بہت ہی گندے ہو تم ”
پھر عائشہ نے اچانک بولا
” انسولین ڈسکوور ہو گئی ،شکر کیجیے خدا کا، بچ گئے آپ۔ ورنہ گھاٹ گھاٹ کا پانی پینا پڑتا آپ کو ڈاکٹر صاحب ”
علی اور عائشہ ٹھٹھے مار کر ہنستے ساتھ ساتھ نادم ہوتے رہے کہ کہیں کوئی سن ہی نہ لے یہ بکواس۔
مشفق ویسٹ پاکستانی فوجی کا پیٹ کاٹنے کے بعد اکڑوں بیٹھا اسے مرتے گھورتا رہا۔ اسے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے اس نے بنگالیوں پر ہونے والے ہر ظلم کا بدلا لے لیا ہو۔ ویسٹ پاکستانی فوجی نے مرتے ہوئے نحیف آواز میں پانی مانگا تو مشفق نے بوتل اسے فوراً تھما دی۔ پانی پیتے ہی انتڑیوں سے رستی خون اور پانی کی آمیزش دیکھ کر اس کے چہرے پر اچانک مسکراہٹ نمودار ہو گئی۔ اور اس نے گاڑھے بنگالی لہجے میں زور سے کہا
” اور پیو اور ”
مشفق نے اپنی گرل فرینڈ سے نئی نئی اردو سیکھنا شروع کی تھی جو 71 کے دنگوں میں لاہور سے اپنے باپ کے ساتھ واپس ڈھاکا آ گئی تھی ۔
آج جمیل کی بونڑی ہو جائے گی۔ احسن، اسد اور جمیل کمرے میں داخل ہوئے تو صوفیہ دبکی بیٹھی تھی۔ اسد اور احسن نے جمیل کو آگے دھکیلا۔ جمیل نے ڈرتے ہوئے صوفیہ کا ازار بند کھینچا۔ تو کیا بری بد بو آئی۔ اس کا خون رستا دیکھ کر جمیل کو آبکائی آنے لگی۔
” تے کی ہویا، کم پا فر”
ان دنوں میں سیکس کرنا گناہ ہے جمیل نے کہا اور احسن اور اسد قہقہے مار کر ہنسنے لگے۔
وزیراعظم کو طلسمی چراغ مل گیا۔ اس نے سوچا کہ اب وہ اس ڈوبتے ملک کے لئے کچھ نہ کچھ کر پائے گا۔ اس نے چراغ رگڑا تو اندر سے وردی والا جن وارد ہو گیا۔ وزیراعظم ڈر کر بولا
“کیا حکم ہے میرے آقا؟”
ایک روز وردی نے اپنے زعم میں سوچا ، کیا مجھے کسی انسان کی ضرورت ہے؟ مجھے اتارنے کے لئے صدر صاحب کو کہا گیا پر وہ نہ جانے کتنا عرصہ مجھے اتارنے سے انکار کرتے رہے۔ اور جیسے ہی مجھے اتارا گیا تھوڑے ہی دنوں میں ملک چھوڑ کر بھاگنا پڑا۔ جرنل صاحب بھی ایکسٹینشن کروانے کا میری ہی وجہ سے ہی کہتے ہیں۔ مجھے انسان کے ساتھ symbiosis میں رہنے کی کیا پڑی ہے ۔ کیوں نہ میں خود ہی حکومت شروع کر دوں۔ اسی اثناء میں ایک بینڈ والے نے آ کر اسے پہن لیا۔ آجکل
” ویل ویل، ویلاں والیاں دی خیر ” پکارتی شادیوں میں گھومتی ہے۔
ڈھول بجتے بجتے اچانک رک گیا۔ چودھری نے ہاتھ کے اشارے سے اسے خاموش ہونے کو کہا تھا۔
” ڈھول ڈھمکا بند کرو بے غیرتو”۔
“چُکنائیزر” نے پیسے “چُکنے” بند کر دیے۔
“اے کی کنجر تال لایا ہے تساں”
” نور جہاں دا گانا گاؤ، جدوں ہولی جئی لیندا میرا ناں”
” مندڈا نواں ہے چودھری جی، اینوں ای گانا یاد نہئ”
شراب کے نشہ میں دھت چودھری نے نوجوان لڑکے کو دھکیلا اور خود ہارمونیم پر بیٹھ کر بھونڈی لے میں کچھ بجانے لگا۔
” ہون کنجر پُنڑاں ہی اسی سکھاویے توانوں”
بوڑھے جہانگیر نے نور جہاں کا گانا گانا شروع کیا اور 15 سال کے ظہر الدین بابر نے جس کو پیار سے لوگ چکنائزر کہتے تھے پھر سے پیسے اٹھانا شروع کر دیے۔