أبو العلاء المعري سے ملاقات تب ہوئی جب ایک روز بی بی سی پر خبر پڑھی کہ داعش ایک نابینا عربی شاعر کے مجسمے توڑ رہے ہیں، سوچا دیکھوں تو سہی کون ہے یہ شخص۔ پتا چلا کہ أبو العلاء المعري وہ شخص ہیں جن کا رنگ خیام نے بھی اپنایا اور کیا کیا کمال کی رباعی لکھی۔ سو میں عربی سے نابلد انگریزی میں ان کا کام ڈھونڈھنے لگا۔ اس تلاش کے دوران پتا چلا کی علامہ اقبال بھی أبو العلاء المعري کے معتقد تھے اور ان کے نام ایک نظم کر چکے تھے۔ یہ مصرع تو آپ نے لازما سن رکھا ہو گا ، ’ ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات’، یہ مصرع ان کی نظم أبو العلاء المعري سے ماخوذ ہے۔ مجھے آخرکار لزومیات کا ترجمہ جو امین فارس ریحانی نے کیا تھا مل ہی گیا۔ جب انکی کواٹرینز پڑھیں تو دل میں آیا کہ انھیں کیوں نہ اردو میں ترجمہ کیا جائے۔ سو چند کواٹرینز کے ترجمے جو میں نے کیے وہ پیشِ خدمت ہیں۔اس کاوش کو translation کےبجائے trans-creation ہی سمجھا جائے۔ ممکن ہے فٹز جیرالڈ کی عمر خیام کی رباعیات کی trans-creation کی طرح، ابو العلا معری کی لزومیات کا انگریزی ترجمہ بھی دراصل trans-creation ہی ہو۔ سو اسی trans-creation کی زنجیر میں انگریزی سے اردو میں ایک اور کڑی کا اضافہ کر رہا ہوں۔
The sable wings of Night pursuing day Across the opalescent hills display The wondrous star gems which the fiery suns Are scattering upon their fiery way شب سیاہ پنکھ پسارے رگِ جاں نوچتی ہے دودھیا کوہ پہ خاموش پڑے ہیں سائے دل شکستہ ہے گگن جس کے اگن رستے پر مہرِ آزردہ نے تاروں کو بکھیرا ہے ابھی ,O my Companion, Night is passing fair ;Fairer than aught the dawn and sundown wear And fairer, too, than all the gilded days .Of blond Illusion and its golden snare اے میری جان شبِ نور کے چندر گیسو شفقِ صبح سے مغرب سے کہیں زریں ہیں جن کے پھندوں میں ہیں کندن سے درخشندہ سراب ان کے جھانسوں سے منور ہیں یہ خاموشی کہ پل Everywhere that there has been a rose or tulip bed There has been spilled the crimson blood of king Every violet shoot that grows from the earth Is a mole that was once upon the cheek of beauty نکلے ہیں کسی رانی کے تِل سے یہ سیاہ پھول کانٹے کسی سالار کے ناوک سے اُگے ہیں اس دشت میں تیری ہی فقط خاک نہیں جو بے انت زمانوں کے بگولوں میں اڑے ہے ;The Earth then spake: "My children silent be :Same are to God the camel and the flea , He makes a mess of me to nourish you "Then makes a mess of you to nourish me اس گردشِ مدام میں ہر دل زدہ ہے سیر تو نے نمو کو بھوک کا عقدہ بنا دیا دل پھاڑ کر زمین کا لقمہ دیا مجھے پھر میرا دل نکال کہ اس کو کھلا دیا I heard it whispered in the cryptic streets : Where every sage the same dumb shadow meets We are but words fallen from the lips of Time" ."Which God, that we might understand, repeats ہم ہیں گِلِ نابود میں کھلتے ہوئے لالے ہم چاک میں ایام کی پراگندہ پیالے ہم وقت کے ہونٹوں سے چھلکے ہوئے الفاظ ہم خالقِ تنہا کی تنہائی کے نالے