Laaltain

أبو العلاء المعري کی رباعیوں کے تراجم (رٖضی حیدر)

3 مئی، 2021
Picture of رضی حیدر

رضی حیدر

 

أبو العلاء المعري سے ملاقات تب ہوئی جب ایک روز بی بی سی پر خبر پڑھی کہ داعش ایک نابینا عربی شاعر کے مجسمے توڑ رہے ہیں، سوچا دیکھوں تو سہی کون ہے یہ شخص۔ پتا چلا کہ أبو العلاء المعري وہ شخص ہیں جن کا رنگ خیام نے بھی اپنایا اور کیا کیا کمال کی رباعی لکھی۔ سو میں عربی سے نابلد انگریزی میں ان کا کام ڈھونڈھنے لگا۔ اس تلاش کے دوران پتا چلا کی علامہ اقبال بھی أبو العلاء المعري کے معتقد تھے اور ان کے نام ایک نظم کر چکے تھے۔ یہ مصرع تو آپ نے لازما سن رکھا ہو گا ، ’ ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات’، یہ مصرع ان کی نظم أبو العلاء المعري سے ماخوذ ہے۔ مجھے آخرکار لزومیات کا ترجمہ جو امین فارس ریحانی نے کیا تھا مل ہی گیا۔ جب انکی کواٹرینز پڑھیں تو دل میں آیا کہ انھیں کیوں نہ اردو میں ترجمہ کیا جائے۔ سو چند کواٹرینز کے ترجمے جو میں نے کیے وہ پیشِ خدمت ہیں۔اس کاوش کو translation کےبجائے trans-creation ہی سمجھا جائے۔ ممکن ہے فٹز جیرالڈ کی عمر خیام کی رباعیات کی trans-creation کی طرح، ابو العلا معری کی لزومیات کا انگریزی ترجمہ بھی دراصل trans-creation ہی ہو۔ سو اسی trans-creation کی زنجیر میں انگریزی سے اردو میں ایک اور کڑی کا اضافہ کر رہا ہوں۔

 

The sable wings of Night pursuing day
Across the opalescent hills display
The wondrous star gems which the fiery suns
Are scattering upon their fiery way

شب سیاہ پنکھ پسارے رگِ جاں نوچتی ہے
دودھیا کوہ پہ خاموش پڑے ہیں سائے
دل شکستہ ہے گگن جس کے اگن رستے پر
مہرِ آزردہ نے تاروں کو بکھیرا ہے ابھی

,O my Companion, Night is passing fair
;Fairer than aught the dawn and sundown wear
And fairer, too, than all the gilded days
.Of blond Illusion and its golden snare

اے میری جان شبِ نور کے چندر گیسو
شفقِ صبح سے مغرب سے کہیں زریں ہیں
جن کے پھندوں میں ہیں کندن سے درخشندہ سراب
ان کے جھانسوں سے منور ہیں یہ خاموشی کہ پل

Everywhere that there has been a rose or tulip bed
There has been spilled the crimson blood of king
Every violet shoot that grows from the earth
Is a mole that was once upon the cheek of beauty

نکلے ہیں کسی رانی کے تِل سے یہ سیاہ پھول
کانٹے کسی سالار کے ناوک سے اُگے ہیں
اس دشت میں تیری ہی فقط خاک نہیں جو
بے انت زمانوں کے بگولوں میں اڑے ہے

;The Earth then spake: "My children silent be
:Same are to God the camel and the flea
, He makes a mess of me to nourish you
"Then makes a mess of you to nourish me


اس گردشِ مدام میں ہر دل زدہ ہے سیر
 تو نے نمو کو بھوک کا عقدہ بنا دیا
 دل پھاڑ کر زمین کا لقمہ دیا مجھے
 پھر میرا دل نکال کہ اس کو کھلا دیا

I heard it whispered in the cryptic streets 
 : Where every sage the same dumb shadow meets
We are but words fallen from the lips of Time" 
."Which God, that we might understand, repeats

ہم ہیں گِلِ نابود میں کھلتے ہوئے لالے
 ہم چاک میں ایام کی پراگندہ پیالے
 ہم وقت کے ہونٹوں سے چھلکے ہوئے الفاظ
 ہم خالقِ تنہا کی تنہائی کے نالے


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *