بے لفظی کا خوف اور دیگر نظمیں (حسین عابد)

بے لفظی کا خوف لفظ مجھ سے روٹھ گئے ہیں یا وہ معنی کی تلاش میں چلے گئے ہیں روٹھا ہوا لفظ زیادہ دور نہیں جا سکتا معنی کا حمل سنبھالے اس کی سانس پھول سکتی ہے وہ کہیں بھی بیٹھ سکتا ہے کسی نیم تاریک گلی کے ...

فرق کی موت (حسین عابد)

زندگی اور موت میں ایک سانس کا فرق ہے ایک سوچ کا سانس اکھڑ سکتی ہے انکاری دل کی دہلیز پر پس سکتی ہے آخری دانے کی طرح روزمرہ کی چکی میں ضبط ہو سکتی ہے ہیرے کی طرح بحقِ سرکار چھلنی ہوسکتی ہے سستے مذاق کی طرح امپ...

ایک لمحہ کافی ہے (حسین عابد)

کسی اجنبی، نیم وا دریچے سے کھنکتی ہنسی پر ٹھٹھکتے محبوب آنکھوں میں جھانکتے پکی خوشبو اور معصوم آوازوں کے شور میں بدن سے دن کی مشقت دھوتے یا کھلے، وسیع میدان میں بہتی ندی کے ساتھ چلتے جس کے کناروں کی گھاس پانی م...

سیدھی بارش میں کھڑا آدمی (حسین عابد)

بارش بہت ہے وہ ٹین کی چھت کو چھیدتی دماغ کے گودے میں اور دل کے پردوں میں چھید کرتی پیروں کی سوکھی ہڈیاں چھید رہی ہے میں چاہتا ہوں چھت پہ جا کر لیٹ جاوں اور سوراخوں کو چھلنی وجود کے بوجھ سے بند کردوں مگر سیدھی ب...

شاعر

حسین عابد: دروازوں، رستوں اور پرندوں نے مجھ سے ایسی باتیں کیں جو مسحور آپس میں کرتے ہیں

سراب میں جل پری

حسین عابد: سمندر یہ زہر نہیں دھو سکتا جو میری آنکھوں، رگوں روئیں روئیں میں ٹھاٹھیں مارتا ہے

مجھے ایک سرجن کی تلاش ہے

حسین عابد: میں اس مجنون نوحہ گر کے ساتھ اب نہیں جی سکتا میں دل کے اس چھوٹے سے ٹکڑے کے ساتھ جیوں گا جو اندھا دھند گالیوں سے لبریز ہے

آگاہی

حسین عابد: بچہ روشن دان سے آتا ہے آسمان سے یا ماں کے پیٹ سے وہ ہمیں نہیں بتاتے