Laaltain

بے لفظی کا خوف اور دیگر نظمیں (حسین عابد)

25 اپریل, 2020
Picture of حسین عابد

حسین عابد

بے لفظی کا خوف

لفظ مجھ سے روٹھ گئے ہیں
یا وہ معنی کی تلاش میں چلے گئے ہیں
روٹھا ہوا لفظ زیادہ دور نہیں جا سکتا
معنی کا حمل سنبھالے
اس کی سانس پھول سکتی ہے
وہ کہیں بھی بیٹھ سکتا ہے
کسی نیم تاریک گلی کے موڑ پر
دن کے صور سے متوحش
دفتروں، کارخانوں، عبادت گاہوں میں
پناہ لیتی خلقت کے بیچوں بیچ
بچے کھُچے کھیتوں کے پار
معدوم ہوتے دریا سے پہلے
آخری پیڑ کے نیچے
معنی سے لبریز ہانپتے لفظ کو
کوئی بھی اغوا کر سکتا ہے
دنیا بے معنی لوگوں سے بھری پڑی ہے
مجھے فوراً اس کی تلاش میں نکل جانا چاہیے
مگر میں خوفزدہ ہوں
اگر میرے لفظ معنی کی تلاش میں گئے ہیں
تو کیا واپسی پر وہ مجھے ڈھونڈ پائیں گے؟

خوشی کا گیت

خوش ہوں بھی
تو خوشی کا گیت
ہم سے نہیں گایا جاتا
آدمی خوشی سے چوکنا رہتا ہے
وہ کسی بھی لمحے گم سکتی ہے
دکھ کہیں بھی مل سکتا ہے
ڈھونڈے بغیر
دیر تک ساتھ چلنے کے لیے
دکھی گیت کیسی فرحت دیتے ہیں
جیسے ہم اجتماعی غم کا حصہ ہوں
خوشی
کمینے محبوب کی طرح
منظرکے عقب سے جھانکتی ہے
ہمیں ہر لمحہ چوکنا رہنا پڑتا ہے
خوشی کا گیت
ہم نہیں گا سکتے

درخت اور لائٹ ہاوس

ستارے آسمان پر ہیں
زمین پر پانی
بیچ میں رات تنی ہے
میرے جزیرے سے
تمہارے جزیرے تک
یہاں ایک پیڑ ہے
جس سے میں ٹیک لگائے بیٹھا ہوں
اور جسے کشتی بنانے کے منصوبے باندھتا ہوں
لیکن وہ دن میں گم ہو جاتا ہے
دن میں مجھے اپنی پشت پر
دیمک کا ڈھیر ملتا ہے
محبوب عورت
کیا تم اپنے دل کے لائٹ ہاوس کی
ایک مضبوط شعاع
اِدھر مرکوز رکھ سکتی ہو
تاکہ میں رات میں کشتی بنا سکوں؟

ذلتوں کے مارے لوگ

ہمارے گُردے بیچ کر جدید اسلحہ خریدا گیا
دور دراز کے ملکوں میں بنگلے
دور دراز کے سمندروں میں جزیرے
اور متروک اسلحے کی بھٹی میں پکائی
باسی ڈبل روٹیاں ہمارے آگے پھینک دی گئیں
ہمیں اُبکائی آتی ہے
تو وہ آسمان کی جانب اٹھی ہماری مقعدوں پر
ٹھوکر مار کر دھاڑتے ہیں
“غدارو، نمک حراموں، کفرانِ نعمت کرتے ہو؟”
معصوم اعضائے تناسل کے چیتھڑوں پر پلے
خدا کے دلال
ہماری ابکائیوں سے لتھڑی ڈبل روٹیاں بھی کھا جاتے ہیں
وہ مقدس جھنڈوں کی طرح پھڑپھڑاتی داڑھیوں سے
آسمان تاریک کردیتے ہیں
ان کے پالتو کتے
ہماری کھوپڑیاں پھاڑ کر ہمارے بھیجے کھا رہے ہیں
ہماری چیخیں لاوارث لاشوں کی طرح
تپتی ریت میں دبا دی جاتی ہیں
بھوک، ذلت اور تاریکی کے غار میں
اپنے وجود کے چیتھڑے ڈھونڈتے
ہمیں یاد تک نہیں رہا کہ
ہم انسان ہیں
انہی انسانوں جیسے
جنہوں نے بندوقوں پر مقدس جھاڑ جنکار لپیٹ کر
ان کے مالکوں کی مقعدوں میں گھسیڑ دیا
اور تاریک آسمان کو پھاڑ کر
اپنی دھرتی کا سورج نکال لائے

غلام نبی بٹ کی تنہائی

چچا کہتا ہے
تم میرے سگے بیٹے ہو
تم میرے ساتھ رہوگے
تایا کہتا ہے
تم میری اولاد ہو
میں تمہیں کبھی بچھڑنے نہ دوں گا
میرا باپ میری پیدائش پر مرگیا
ماں پاگل ہوگئی
میں نہیں جانتا سگا کون ہے
میں اپنے ہی گھر میں یرغمال ہوں
چچا تایا روز لڑتے ہیں
دیوانوں کی طرح
میرے برتن ٹوٹ گئے
میری چارپائی ٹوٹ گئی
ان کی لڑائی میں میری ناک ٹوٹ گئی
ایک آنکھ میں سوراخ ہوگیا
میرا خون بہہ رہا ہے
ہمسایہ ابہے نندن کہتا ہے
تم نمک حرام ہو
جس زمین کا کھاتے ہو
اسے ہی اپنے خون سے داغدار کرتے ہو
میں نے سنا ہے
زمین بہت بڑی ہے
مہاپُرشوں سے بھری
میرے گھر کوئی نہیں آتا
چچا تایا کے سوا

فتح محمد کا اقرارنامہ

ہم اتنی بار فتح ہو چکے ہیں
کہ ہم میں سے ہر ایک کا نام مفتوح ہے
مفت میں پیدا ہو جانے والی نسلوں پر یہی نام جچتا ہے
یوں بھی
مفتوح کو مقتول کرنے میں
تین حرف بھی نہیں لگتے
ہمیں اپنے فاتحین سے عقیدت ہے
خوف کو عقیدت میں بدل لینا
ہمارا وراثتی ہنر ہے
ہم کاغذات میں
بچوں کے فرضی نام لکھوا دیتے ہیں
کہ سرکار کے کان
ایک ہی نام سنتے پک نہ جائیں

قومی دن

ہمارے کیلنڈر کے ہر خانے پر
سیاہی پھری ہے
کہیں کہیں یہ سیاہی
سرخی مائل ہوجاتی ہے
جہاں لہو کا رنگ سیاہی ڈھانپ لیتا ہے
ہم جان جاتے ہیں
سال بھر کے آنسو بہانے کا دن آ گیا

کوئی ہونا چاہیے

آوازوں کے غبارے پھٹتے ہوں جب
چاروں جانب
لایعنیت شفاف زیر جامے میں
ٹھمکے لگاتی، ہونٹ پچکاتی، قہقہہ زن ہو گلی گلی
کوئی ہونا چاہیے
جسے یاد ہو کوئل کی کُوک
سنگ زنی سے گھائل دن
جب آن گرے سروں اور کندھوں پر
ٹکرا جائیں زم زم سے دُھلی پیشانیاں
فاحشہ رات کی متعفن لاش سے
کوئی ہونا چاہیے
جسے یاد ہو چنبیلی کا چٹکنا
ہجوم بن جائے جب بے ہئیت جانور
بے بصارت، بے سمت
اک سیال دیوانگی سے گھروں
دفتروں، کارخانوں، عبادت گاہوں کو ڈبوتا
کوئی ہونا چاہیے
جسے یاد ہو بچے کی پہلی کھلکھلاہٹ
اور آن پہنچیں جب ہم
تاریک سرنگ کے آخر پر
وقت کے ایک نئے قطعے پر
چندھیائے ہوئے، ہکا بکا
کوئی ہونا چاہیے جو پکار اٹھے
“یہ روشنی ہے”

لاٹھی کی آواز

ہم وہ پیڑ خون سے سیراب کرتے ہیں
جس کی شاخیں کاٹ کاٹ کر وہ لاٹھیاں بناتے ہیں
خون کی کمی سے ہماری سانس پھولی رہتی ہے
کچھ بھی سوچنے پر چکر آتے ہیں
لیکن اپنی پیٹھ ننگی کرنے میں
ہم کوتاہی نہیں کرتے
تاکہ ان لاٹھیوں کی مضبوطی آزمائی جاسکے
جو وہ ہماری حفاظت کے لیے تانے رکھتے ہیں
برستی لاٹھیوں کی شائیں شائیں
خون کی حرارت پر ہمارا ایمان مضبوط رکھتی ہے
بس ہماری کٹی رگوں سے بہتا خون
کچھ دیر کے لیے حیرت سے جم جاتا ہے
جب وہ کسی خدا کا ذکر کرتے ہیں
جو ان سے بھی بڑا ہے
اور جس کی لاٹھی بے آواز ہے

نئے کیلنڈر کی پیشانی

میں کیلنڈر سے خوفزدہ ہوں
اس کے خانے دانتوں کی طرح
میری زندگی میں پیوست ہیں
لیکن سال کا بدلنا ایک مبارک واقعہ ہے
پرانے کیلنڈر کو ردی کی ٹوکری میں پھینکتے
اور نیا دیوار پر آویزاں کرتے
میں پڑھتا ہوں اس کی پیشانی
اور دیکھتا ہوں
وقت کی سرد سِل میں پیوست
اپنے دانتوں میں ایک اور کا اضافہ
اور خوشی سے چِر جاتی ہیں میری باچھیں
نئے سال کا جام بلند کرتے ہوئے

یک رنگی کا خواب

میں چاہتا تھا
تمہیں زرد لباس میں دیکھوں
میرے پاس ایک ہی پھول تھا
زرد
تم نے اتنے رنگ بدلے
پھول مرجھا گیا
اب میں اسے نگل چکا ہوں
اس کے زرد ذرات
میرے خون میں تیرتے ہیں

ہمارے لیے لکھیں۔