خون آلود پنڈال اور تاریک آسمان (حسین عابد)
خون آلود کیچڑ میں اکڑوں بیٹھے ہم تماشے پر نگاہ جمائے رکھتے ہیں
شاعر اور موسیقار حسین عابد، لاہور میں پیدا ہوئے اور اس وقت جرمنی میں مقیم ہیں۔ ان کی شاعری کا مجموعہ، "اتری کونجیں"، "دھندلائے دن کی حدت" اور "بہتے عکس کا بلاوا" عام قارئین اور ناقدین سے یکساں پذیرائی حاصل کر چکی ہیں۔ حسین عابد نے "کاغذ پہ بنی دھوپ" اور "قہقہہ انسان نے ایجاد کیا" کی پیشکش میں مسعود قمر سے اشتراک کیا۔ عابد کا موسیقی کا گروپ "سارنگا" پہلا انسیمبل ہے جو اردو اور جرمن دونوں زبانوں میں فن کا مظاہرہ کرتا ہے۔
خون آلود کیچڑ میں اکڑوں بیٹھے ہم تماشے پر نگاہ جمائے رکھتے ہیں
میں اس پگڈنڈی سے نہیں گزرتا جہاں میں نے تمہارے نام کی سرگوشی کی
بے لفظی کا خوف لفظ مجھ سے روٹھ گئے ہیں یا وہ معنی کی تلاش میں چلے گئے ہیں روٹھا…
سات زمینوں سات آسمانوں کے پار خدا کی انگلیوں پر جو ہمارے گناہ ثواب اپنی پوروں پر گن رہا ہے
زندگی اور موت میں ایک سانس کا فرق ہے ایک سوچ کا سانس اکھڑ سکتی ہے انکاری دل کی دہلیز…
کسی اجنبی، نیم وا دریچے سے کھنکتی ہنسی پر ٹھٹھکتے محبوب آنکھوں میں جھانکتے پکی خوشبو اور معصوم آوازوں کے…
بارش بہت ہے وہ ٹین کی چھت کو چھیدتی دماغ کے گودے میں اور دل کے پردوں میں چھید کرتی…
حسین عابد: خون کی ہولی کھیلتے اس کی چمکتی بتیسی میں مردہ آدمی کے دانت کچکتے رہتے ہیں
حسین عابد: امن قبرستان میں قید کردیا گیا اور باہر فاختہ اڑا دی گئی
حسین عابد: خدا اوپر رہتا ہے دوپائے، چرند پرند نیچے آنا جانا لگا رہتا ہے
حسین عابد: سمندر یہ زہر نہیں دھو سکتا جو میری آنکھوں، رگوں روئیں روئیں میں ٹھاٹھیں مارتا ہے
حسین عابد: میں اس مجنون نوحہ گر کے ساتھ اب نہیں جی سکتا میں دل کے اس چھوٹے سے ٹکڑے…
حسین عابد: تین قدم کے بلیک ہول سے رنگ نہیں رِستے خون نہیں رِستا کورے کینوس اڑتے ہیں خواب گاہ…