بھائی حسنین!
آپ نے کئی بار غزلوں کا مطالبہ کیا اور میں ہربار شرمندہ ہوا کہ کیا بھیجوں؟ ایسا نہیں ہے کہ پرانے شعری مجموعے کے بعد میں نے کوئی غزل نہیں لکھی۔ ضرور لکھی ہے، مگر غزل کے تعلق سے میرا نظریہ اور یاروں نے اسے جتناسرچڑھا رکھا ہے،اس حوالے سے میری رائے تھوڑی سی اس عرصے میں بدلی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے، میں نے ایک مضمون غزل کے تعلق سے لکھا تھا، جو اردو اور ہندی دونوں جگہ شائع ہوا اور مجھے دونوں جگہ غزل کے عاشقوں سے صلواتیں بھی سننی پڑیں۔ خیر، یہ تو کوئی بڑی بات نہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ غزل اور اس کی تہذیب پر میں جب نظر دوڑاتا ہوں تو مجھے اردو دنیا کے لوگوں کی کم ہمتی اور محنت سے بھاگنے کی اصل وجوہات میں غزل بھی ایک مضبوط ستون کی طرح دکھائی دیتی ہے۔ میں نہیں کہتا اور نہ چاہتا ہوں کہ اردو شاعر غزل گوئی سے مایوس ہوکر اسی شعریات کے ساتھ کسی دوسری صنف کا رخ کرے۔ میں جو چاہتا تھا وہ یہ تھا کہ غزل میں تجربے ہوں اور اس میں کوئی نئی راہ پیدا کی جائے۔ مگر میرے خیال سے یاروں کا کہنا ٹھیک ہی ہے کہ غزل کا مزاج تبدیل نہیں ہوسکتا۔ اس کی وجہ بھی بتاتا ہوں، پہلے دو ایک باتیں لکھ لوں۔ غزل عیش پسندوں کی یا یہ کہہ لیجیے کہ ایلیٹ کلاس میں پروان چڑھنے والی ایک صنف ہے۔ اس کا عام سماج سے، عام لوگوں سے، ان کے عام مسائل سے ، ہماری دنیاؤں میں موجود طبقاتی کشمکش سے دور تک کا واسطہ نہیں ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اگر آپ ڈھونڈنے چلیں تو آپ کو ان موضوعات پر اشعار نہیں ملیں گے، ضرور مل جائیں گے مگر جب کسی ادبی صنف کے مجموعی مزاج کے حوالے سے بات ہورہی ہو تو اس میں تخلیق ہونے والے بیشتر حصے کو سامنے رکھ کر بات کی جاتی ہے۔ پہلے میں مشاعرے سے چڑتا تھا، مجھے لگتا تھا کہ مشاعرہ باز کوئی بہت اوچھا کام کررہے ہیں، مگر یقین جانیے جب میں نے اردو کے بہترین ’غزل گو‘ حضرات کے دقیانوسی پن اور خود کو دوہرانے کے عمل کو سمجھ لیا تو مجھے مشاعرے سے بھی کوئی خاص شکایت نہیں رہی۔ مشاعرہ بہرحال ایک عوامی چیز ہے۔ کہنے دیجیے کہ سادہ الفاظ میں سطحی مضامین کو ارذل قرار دینا اور اعلیٰ یا اشرافیہ طبقے کی زبان میں انہی سطحی مضامین کو کوئی اعلیٰ قسم کا ادب سمجھنا میرے نزدیک ایک قسم کا برہمن واد ہے۔ یہ وہی رویہ ہے جس نے ہمارے یہاں نظیر اکبر آبادی کو ایک عرصے تک زبان دانوں کی دنیا میں مطعون و ملعون رکھا اور کچھ آگے بڑھ کر کہوں تو رحیم،تلسی داس، کبیر، جائسی ، میرابائی ،بلہے شاہ، عبدالطیف بھٹائی، لالیشوری، حبا خاتون وغیرہ کو کبھی اردو شاعری کی روایت کا حصہ نہیں مانا۔صرف یہ ہی نہیں ، امیر خسرو کی شاعرانہ عظمت پر ان کی فارسی شاعری کے بل پر زور دیا گیا اور یہ کوشش کی گئی کہ جہاں تک ممکن ہو عوامی زبان میں ان کی شاعری سے یہ کہہ کر پلا جھاڑا جائے کہ یہ ان کا کلام ہے ہی نہیں۔ ہم روایتی ادب میں بھی اس قسم کے محلاتی ادب سے وابستہ رہے جس کا عوام سے واسطہ نہ ہو، ہمیں وہ شاعری بھاتی رہی جس نے لال قلعے یا اردوئے معلیٰ میں جنم لیا ہو اور ہم دھیرے دھیرے ان خزانوں کو دھبوں کی طرح اپنے دامن سے صاف کرتے چلے آئے جس میں دکنی، برج، اودھی، سندھی، پنجابی یاکشمیری بھاشائوں کے عناصر موجود تھے۔ اپنی بات کے ثبوت کے لیے قائم کا ایک پرانا شعر نقل کرتا ہوں۔
قائم میں غزل طور کیا ریختہ ورنہ
ایک بات لچر سی بہ زبان دکنی تھی
یہ جو لچر سی بات ہے، یہ کیا ہے۔ یہ مٹی سے جڑی بات ہے۔ریختہ کے جتنے مطلب لغت میں دیے گئے ہیں ، ان میں سے ایک مطلب گری پڑی شے بھی ہے۔ چنانچہ عوام سے دوری کا یہ سلسلہ ہمیں اردو کے ابتدائی نام اور ڈھنگ سے ہی پتہ چلتا ہے۔ ہم الزام دیتے ہیں انگریز کو کہ اس نے ہندو اور مسلمانوں کے بیچ پھوٹ ڈلوانے کے لیے اردو نام کی ایک زبان ایجاد کی اور اس کے ابتدائی ناموں میں سے ایک ہندی کو ہندؤں کے مختص کردیا۔ مگر ہم غور نہیں کرتے کہ انگریز ہمارے مزاج کی کمزوریوں سے فائدہ بھی اٹھارہا تھا۔ ہم پہلے سے ہی ہر اس زبان یا بھاشا کی مخالفت پر کمر بستہ تھے، جو عوام یا خاص طور پر نچلے طبقے سے وابستہ رہی ہو۔ اسی طرح دیکھیے تو انگریز نے نظم کی ’تحریک ‘بھی اسی اشرافیہ کے ذریعے شروع کروائی جو مضامین کو پاک بنانے یا اس کے بپتسمہ کے فرض کو انجام دے سکے۔ آب حیات میں اردو شعرا کے تعصب سے پر جو واقعات نظر آتے ہیں ان میں ایک کی طرف آپ کی توجہ دلانا چاہوں گا، میر نے لکھنو جاتے وقت زبان غیر سے اپنی زبان بگڑنے کے ڈر سے برابر بیٹھے مسافر سے بات تک نہ کی۔ یہی تصور آج اردو میں ایک ’بہتر غزل گو اور عام آدمی‘ کے بیچ حد فاصل قائم کرتا ہے۔
شاعری صرف ادبی مضامین یا بحور و قوافی کے گیان کو پڑھ کر نہیں سیکھی جاسکتی اور اس کا تعلق کسی مخصوص طبقے یا زبان سے بھی کیسے ہوسکتا ہے؟ شاعری کو تو بسیط ہونا چاہیے، اس میں سبھی طرح کے رنگ، سبھی طرح کے لفظ اور سبھی طرح کی دنیائیں آباد ہونی چاہیے۔ مگر نزدیک سے دیکھیے تو شاعری کا یہ حلیہ ایک یوٹوپیائی دنیا میں ہی ممکن ہے۔ ہم اس بات کو نظر انداز نہیں کرسکتے کہ جن لوگوں نے اردو شاعری میں زبان و بیان ، علامت و استعارے کی خوبیاں بیان کیں، اس کے قواعد بنائے اور اس کی شعریات کو ترتیب دیا۔ وہ سخت قسم کے متعصب لوگ تھے۔ زیادہ دور نہ جاکر شبلی نعمانی کی مثال دے سکتا ہوں جو بقول خورشیدالاسلام اپنے مدرسے میں نچلے طبقے کے بچوں کو پیچھے کی جانب اور زمین پر بٹھایا کرتے تھے۔ سرسید اور حالی کی متعصبانہ سوچ جاننی بھی اتنی مشکل نہیں کہ ان کے بارے میں بہت کچھ لکھا جاچکا ہے۔ یہاں تک کہ ہمارے شعری سرمایے کا سب سے بڑا گوہر غالب بھی ’وبائے عام ‘میں مرنے سے کیوں خائف تھا اور کتنا بڑا نسل پرست تھا، اس کے لیے کسی عمیق مطالعے کی ضرورت نہیں۔ نچلے طبقے کی شاعری سے ہمارے شعرا کا تعصب ویسا ہی تھا جیسا شیکسپئر اور گستاؤ فلوبیر کا یہودیوں کے تعلق سے تھا۔
غزل کے تعلق سے میں اس لیے بھی محتاط ہوگیا کہ اس نے ہمارا مزاج کئی طرح سے بدلا ہے۔ اول تو اس نے ہمیں چاہے کتنی ہی نکتہ آفرینی سکھائی ہو، کیسی ہی علامت نگاری، تشبیہ سازی کے فن سے نوازا ہو مگر غزل نے ہمیں ایک لطیفہ گو بنادیا ہے۔ ہم لوٹ گھوم کر انہی مضامین کو الٹتے پلٹتے رہتے ہیں اور خوش ہوتے رہتے ہیں کہ ہم کوئی بڑا کارنامہ انجام دے رہے ہیں۔ باہر کی دنیا بھی غزل کو پسند کرتی ہے اس میں کوئی شک نہیں، مگر جب آپ غور کریں گے تو غزل کے ’کھاتے پیتے‘ شائق آپ کو صاف دکھائی دے جائیں گے۔ ان میں زیادہ تعدادا علی ٰ اور متوسط طبقے کے ان افراد کی ہوگی ، جن کی زندگیاں ایک مستقل نوکری یا مستقل آمدنی یا باپ داد کی جائداد پر ٹکی ہوئی ہیں اور جنہیں عالم ہونے کے لیے صرف غزل کے شعروں کی پرکھ کا سہارا لینا کافی ہے۔ دوسری بات یہ کہ اس صنف نے ہمیں خوشامد پسند بنادیا ہے۔ غزل میں محبوبہ کی چاپلوسی کو اچھی نظر سے دیکھا جاتا رہا ہےبلکہ اسے غزل کا مزاج ہی بناکر رکھ دیا گیا ہے۔ اس لیے اس تہذیب میں پیدا ہونے والی آپسی تعریفیں بھی ایسی صفات سے بھری پڑی ہیں، جن میں کسی ادیب کی تعریف کرنی ہو تو اسے بغیر کانپے ، بنا ڈرے سب سے بڑا ادیب کہہ دیا جائے، دنیا کا عظیم عالم، اعلی ٰ ترین دانشور اور اس قسم کے خطابات کا آپس میں پھیر بدل کرکے اپنی انا کو تسکین دے لی جائے۔ اس سنسکرتی کا پربھاؤ اتنا گہرا ہے کہ جو آدمی غزل لکھ بھی نہیں رہا وہ بھی اسی سے جنم لینے والے خطابات و القاب اور اسی زمین سے پھوٹنے والی تعریف و توصیف پر اکتفا کرتا ہے۔ یعنی جب وہ خود کسی کی تعریف کرے گا تو بھرپور مبالغے سے کام لے گا اور اگر کوئی دوسرا اس کی تعریف کرے گا تب بھی وہ ’ادیب‘ یہی چاہے گا کہ اس کی تعریف بھی اسی چاپلوسانہ انداز میں کی جائے۔
بلکہ اردو میں کئی بار اس سے بھی بڑھ کر ہمارے ادیب (خواہ پرانے ہوں یا نئے) اپنی بھرپور تعریف کرنے سے بھی نہیں چوکتے۔ خودستائی ایک فن ہے۔ ایسا فن،جس کے لیے اعلیٰ درجے کی لاعلمی اور معصومیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ کسی ادیب کا اپنے یا کسی دوسرے شخص کے لیے یہ کہنا کہ وہ انتہائی درجے کا ادب تخلیق کرچکا ہے یا اس کے مقابلے کا کوئی اور تو دور کی بات ہے، اس کا پاسنگ بھی ڈھونڈے سے نہ ملے گا، تبھی ممکن ہے جب تعریف کرنے والے کی نظر کوتاہ ہو یا پھربرسوں سے اس کی زبان کو ایک خاص قسم کے درباری مزاج میں ڈھالا گیا ہو۔ اور اردو کے معاملے میں موخرالذکر بات مجھے زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے۔
میری غزل سے کوئی دشمنی نہیں ہے۔ میں اردو غزل کہنے والے ہم عصروں میں ادریس بابر ، ذوالفقار عادل وغیرہ کو بہت پسند کرتا ہوں۔ یہ دونوں ہی(خاص طور پر ادریس بابر)غزل کی زبان کو اس طرح پیمپر نہیں کرتے، جیسا کہ ہمارے ادیبوں کا وتیرہ رہا ہے۔ حال ہی میں، میں نے دیکھا کہ ادریس نے ایک غزل وائرل ہوجانے والی ایک ویڈیو کے حوالے سے لکھی، انہوں نے کورونا وائرس کو بھی موضوع بنایا۔ کہنے والا کہہ سکتا ہے کہ یہ تو موضوعاتی ادب ہوگیا اور موضوعاتی ادب زندہ نہیں رہتا۔ مگر یہ باتیں بھی اسی مزاج کی پروردہ ہیں جس نے غزل کو موضوع سے آزاد ، ہر شعر میں ایک علیحدہ بات، کبھی ہنسی ٹھٹھول تو کبھی پینٹ گیلی کردینے والے موضوعات تک سمیٹ کر رکھ دیا ہے۔ یہ کوئی مذاق نہیں ، ایک سچی بات ہے کہ غزل کے حوالے سے میری ایک دوست نے کہا کہ اس صنف کے شاعرکاموڈ جس تیزی سے سوئنگ ہوتا ہے، اتنا تو کبھی میرا پیریڈز کے دوران بھی نہیں ہوا۔ بہرحال ادریس کو پسند کرنے کی وجہ کلیشے مضامین سے ان کی بغاوت بلکہ ایک قسم کی نفرت ہے۔ زبان کو بھی اسی مٹی سے لے رہے ہیں جہاں وہ جیتے ہیں، ان کے یہاں تصنع اور ریاکاری نہیں ہے اور وہ استاد بننے کے زعم سے باہر آکر ایک ایسی کوشش کررہے ہیں، جس میں غزل کی باگیں موڑ کر اسے محل سے اتار کر سڑک پر لایا جاسکے۔ مگر مجھے لگتا ہے کہ ان کی شاعری پر زیادہ توجہ نہیں دی جاتی۔ بہت سے لوگ انہیں ایک بگڑیل اور ٹھٹھول گو قسم کا شاعر سمجھتے ہیں۔ خود ادریس کے یہاں عشرے کی جس صنف نے جنم لیا ہے، وہ غزل کے معاملے میں ان کی بے اطمینانی اور غیر سکون بخش طبیعت کا پتہ دیتی ہے۔ پھر بھی میرا ماننا ہے کہ اگلی پانچ دہائیوں میں اگر ادریس بابر جیسےتین چار شاعر بھی اردو غزل نے پیدا کردیے تو یہ تعجب کی بات ہوگی، سچ مانیے تو میرے نزدیک یہ ممکن ہی نہیں ہے۔ غزل نے اپنی راہ، عوامی لیگ سے الگ بنائی ہے اور وہ اسی ڈھرے پر آگے بھی چلتی رہے گی، اسی طرح مقبول رہے گی اور اسی طرح پڑھی سنی جائے گی۔
چنانچہ میں سمجھتا ہوں کہ ایسی صنف میں بڑی یا اچھی چھوڑ دیجیے، بہت حد تک شاعری ہی ممکن نہیں ہے۔ میں غزل لکھتا ہوں، ضرور لکھتا ہوں۔ مگر یہ بھی جانتا ہوں کہ صرف غزل ہی نہیں، غزل گو شاعر کی نظم بھی اردو والوں کے یہاں کوئی اہم کارنامہ نہیں ہوسکتی۔ میرے خیال میں ٹھیک ٹھاک نظمیں لکھنا اردو کے ان ہی شاعروں کے لیے ممکن ہوگا جو پہلے سے غزل نہ کہتے ہوں یا غزل کے مزاج کو سمجھ کر اسے بہت پہلے ہی چھوڑ چکے ہوں یا انہوں نے غزل لکھتے ہوئے بھی اس کے مقابلے اپنی نظم کو ہمیشہ زیادہ اہمیت دی ہو۔اسی لیے میں اردو شاعری سے تقریباً کنارہ کش ہوکر فکشن کی دنیا کی طرف توجہ کرتا ہوں کہ وہاں مجھے زیادہ روشنی اور امکانات نظر آتے ہیں۔ الٹا لٹک کر کرتب دکھانے والوں کی دنیا میں رہتے رہتے جس طرح ہم اپنے پیروں پر چلتے ہوئے کسی شخص کو دیکھ کر چونک پڑتے ہیں، اسی طرح فکشن کی دنیا نے مجھ پر حیرت کے کئی دروازے کھولے ہیں۔ اس لیے جہاں تک ممکن ہو میں خود کو غزل کے مطالعے سے بچاتا ہوں، مشاعروں یا نشستوں میں سال میں دو یا تین بار سے زیادہ شرکت نہیں کرتا۔میں چاہتا ہوں کہ دنیا کی دوسری زبانوں کا ادب بھی پڑھ سکوں، جان سکوں۔خاص طور پر ایسی زبانیں، جن کے یہاں ردیف و قافیے کی پابندی ، بحر کی قید کے مقابلے میں سیدھے سبھاؤ لکھا گیا ادب پڑھنے کو مل سکے۔ اب تو خیر اردو غزل کی شہرت ہندی، پنجابی، مراٹھی اور دوسری زبانوں تک بھی پہنچ گئی ہے اور ان کے یہاں باقاعدہ مشاعرے بھی ہوتے ہیں، شاعروں کے دواوین بھی چھپتے ہیں۔ اس کھیل میں دلچسپ یہ دیکھنا ہوگا کہ یہ زبانیں غزل کے مزاج کو تبدیل کرتی ہیں یا غزل ان کے تخلیقی ادب کے مزاج پر کوئی گہرا نقش چھوڑ جاتی ہے۔ مگر یہ بات اب سے قریب پچاس، ساٹھ سال بعد ہی بتائی جاسکے گی۔
اس لیے جب کوئی دوست مجھ سے غزلیں مانگتا ہے تو میں اکثر کنی کاٹتا ہوں۔ مگر دوست تو دوست ہیں! ان کی وجہ سے کبھی کبھار شعر بھی سنانے پڑجاتے ہیں اور غزل کا مجموعہ بھی انہی کی بدولت شائع ہوجاتا ہے، اور اس پر کچھ گفتگو بھی ہوجاتی ہے، مگر سچ پوچھیے تو اس میدان سے میری دلچسپی اب قریب قریب ختم ہی ہوچکی ہے۔ ہاں اردو میں لکھی ہوئی ایسی کوئی چیز مجھے ضرور اپنی طرف متوجہ کرتی ہے جو غزل کے اثر سے باہر ہو، پھر چاہے وہ فکشن ہو، نان فکشن ہو یا کوئی نظم۔