دکھ اور دیگر نظمیں (غنی پہوال)
تم جو ایک بادبانی گیت ہو تمہارے لہراتے سُروں کی سبز شاخوں پر میرا بسیرا ہے
تم جو ایک بادبانی گیت ہو تمہارے لہراتے سُروں کی سبز شاخوں پر میرا بسیرا ہے
شاید میرے خیال کا قد، میرے وجود سے بڑھ گیا ہے ، اور میرا بالشتیا ہونا بہت ڈراؤنی بات ہے…
اگر مجھے تم سے محبت ہو گئی تو تم عام سی لڑکی نہیں رہو گی میری سطریں سمندروں میں کود…
تمہیں کیسے بتاؤں کہ میں ایک بھولی ہوئی وادی کے گمنام شہر کا بچہ تھا
لیپ ٹاپ ساری رات ٹہلتا اور بڑبڑاتا رہتا ہے اسے اب راتوں کو نیند نہیں آتی!
جب شہر سو رہا تھا دُور، ایک کوہ کے دامن میں دریا نے مچل کر دھرتی کے گُداز سینے میں…
مجھے نکال کر لے جانے دو میری ماں کی قبر جسے میں تمہارے گھوڑوں تمہارے کتوں کے لیے نہیں چھوڑ…