Laaltain

ہمارے لیے لکھیں۔

دکھ اور دیگر نظمیں (غنی پہوال)

test-ghori

test-ghori

19 جون, 2020

دکھ

کاش دکھ کوئی خبر ہوتا
اسے میں اخبار کی شہ سرخیوں میں سجا کر
صبح سویرے
تمہاری میز پر رکھ جاتا
دکھ کوئی آوارہ جھونکا بھی تو نہیں
جو تمہارے پلّو سے لپٹ کر
تمہیں اپنی کسک کا احساس دلاتا
دکھ اگر بادلوں کے ساتھ سفر کر سکتا
تو میں اسے کہتا کہ
میری آنکھوں میں
کچھ تشنہ خواب خیمہ زن ہیں
اُن پر بصورتِ آبشار برسو
مگر دکھ۔۔۔۔۔۔؟

جب تیز دھار وقت کا
بے رحم خنجر
زندہ ارمانوں کے بے بس جسم میں
اُتارا جا رہا ہو
اور تمہاری بصارت محض دکھ بن کر رہ جائے
تو تُم دکھ کی تفہیم کس طرح کرو گے؟
افسوس دکھ کسی نصاب کا
حصہ بھی تو نہیں
جسے میں پڑھ کر سُنا سکتا
نہ ہی یہ کوئی آسمانی صحیفہ ہے
جسے ازبر کیا جا سکے
ہاں تم نے کیا کہا۔۔۔۔؟
میری نظمیں پڑھ کر
تم میرا دکھ محسوس کرسکتے ہو؟
نہیں
یہ ممکن نہیں۔۔۔۔۔
دکھ خیرات کے لڈو نہیں
جنہیں بانٹا جا سکے
کیوں کہ آواز کی لہریں
اپنی محدود فریکوئنسی میں
انہیں سمونے سے ہمیشہ معذور رہی ہیں
حتی کہ خود اسے جھیلنے والے بھی
اکثر اس کے اصل جوہر سے
نا آشنا ہی ہوتے ہیں

بادبانی گیت

تُم ایک میٹھی روشنی ہو
تم جو میری آنکھوں میں موجزن
ایک بادبانی گیت ہو
جس کے لہراتے سُروں کی
سبز شاخوں پر بیٹھ کر
میں دنیا کا نظارہ کرتا ہوں

میں جانتا ہوں
سمندری پرندوں کی اُس محبت سے
تمہاری کوئی شناسائی نہیں
جو اُنہیں ویراں جزیروں کا
راز سونپ دیتی ہے
میں یہ بھی جانتا ہوں کہ
زندگی اور موت کا رقص
بپھری ہوئی موجوں کے
امر آہنگ پر کیسے کیا جاتا ہے
تم ایک میٹھی روشنی ہو
اور میں تمہارے
ذائقے میں زندہ رہنا چاہتا ہوں
کیوں کہ اپنی مِٹی کے لمس سے
محرومی کا درد مجھ پر منکشف ہو گیا ہے
تمہیں معلوم ہے
سمندری ہوائیں
امبا(1) گاتے ہوئے ملاحوں کی طرح
جھومتے اور بل کھاتے
لہروں کے زیرو بم سے
کیا گفتگو کرتی ہیں
تم جو ایک بادبانی گیت ہو
تمہارے لہراتے سُروں کی
سبز شاخوں پر میرا بسیرا ہے
تم جو ایک میٹھی روشنی ہو
اور میں تمہارے ذائقے میں
زندہ ہوں
میری بصارت اور سماعت
تمہاری امانت میں ہیں

1۔ امبا : ملاحوں کا روایتی گیت۔

برگد

ایک نظارہ مجھ میں ہمیشہ زندہ ہے
میری بے حس و حرکت ماں
چارپائی پر پڑی ہے
کچھ ہمسائیاں بین کرتی ہوئی
اُسے سفید چادر اوڑھا رہی ہیں
ماں کی رحلت کا یہ منظر
میرے اندر پینٹ ہو جاتا ہے
مدتیں گزریں
میں جب بھی اس منظر سے بھاگ کر
اپنی ماں کی آغوش میں جانا چاہتا
تو ایک برگد کے تنے سے لپٹ کر رونے لگتا
اور وہ مجھے اپنی آغوش میں لے لیتا
میں رفتہ رفتہ برگد سے قریب تر ہوتا گیا
اور دھیرے دھیرے مجھ پر انکشاف ہوا
کہ برگد بالکل میری ماں کی طرح سانس لیتا ہے
اس کی دھڑکنیں ماں کے دل کی طرح ہیں
پھر مجھے اس کی پناہ میں سکون آنے لگا
جیسے میں اپنی کھوئی ہوئی ماں کی ممتا دریافت کر چکا تھا
آج ساٹھ سالوں کے بعد
اسی ممتا کی چھاوں میں بیٹھے
سوچ رہا ہوں
کہ لوگ یتیم خانوں میں
برگد کے پیڑ کیوں نہیں لگاتے

بجوکا (1)

اپنے دل کے ہنگاموں سے بچنے کے لئے
میں اکیلے نہر کے کنارے بیٹھا تھا
اور میری نگاہیں
خود سے دور اس رستے پر لگی تھیں
جو شنو کے گاؤں جاتا ہے
شنو جس کو میں برادری کے خوف سے
پچھلے تین سال سے نہیں دیکھ پایا
مجھے دنیا سوگ میں ڈوبا
اک بے جان پُتلا محسوس ہونے لگی
اور میری آنکھیں تیرگی کی
تپش سے جلنے لگیں
کہ یکایک ایک پیاری تتلی
آکر میری ہتھیلی پر بیٹھ گئی
میں نے حسرت بھری نگاہ سے اُس کی طرف دیکھا اور کہا
کیا میں بھی تتلی بن سکتا ہوں۔۔۔؟
تتلی اُڑ کر سامنے کھیت میں لگے
بجوکے پر بیٹھ کر اپنے
خوبصورت پروں کو لہرانے لگی
شاید وہ مجھ سے یہ کہہ رہی تھی
کہ تم زندگی کے کھیت میں گڑے بجوکا ہو
اور بجوکا زندگی کا دھوکہ بن سکتا ہے
اس کے رنگوں کا ہمسفر نہیں بن سکتا
تتلی بننے کے لئے
زندگی سے رنگ
اور رنگوں سے زندگی کشید کرنی پڑتی ہے

1: بجوکا: scarecrow

میری پیاری سرو

تمہاری چھاؤں میرے دل کا آنگن ہے
میری پیاری سرو
وادیِ محبت میں
اپنی نو خیز خواہشوں کی ہمجولیوں سے
کھیلتی ہوئی
تمہاری نازک گُڑیا کو
جب کوئی آسمانی مخلوق چھین کر لے جاتی ہے
تو تمہاری شاداب روح کے
بسیط خلاؤں میں
وجدانِ حیرت کا پُر اسرار جزیرہ
یوں رونے لگتا ہے
جیسے کوئی معصوم بچّی
کسی پرائے شہر کے گنجان بازاروں میں
اپنے اکیلے پن پر روتی ہے
میری پیاری سرو
اسی لمحے
کسی دُمدار ستارے کے پگھلتے مادے جیسے
تمہارے آنسو
جوہرِ ہستی کے تمام کیمیائی رازوں کو
اپنے اندر سموئے
مشتری کے چندا گینیمیڈ کی برفیلی تِہ میں مستور
ٹھاٹھیں مارتے سمندر کی طرح
کتنے ان دیکھے رنگ
اور ان کہی کہانیاں
زندگی کی فضاؤں میں یوں پھیلا دیتے ہیں
جیسے اَرورا روشنیاں پھیلتی ہیں