جب شہر سو رہا تھا
دُور، ایک کوہ کے دامن میں
دریا نے مچل کر
دھرتی کے گُداز سینے میں انگڑائی لی
زمین جاگ اُٹھی
آسمان، مسکراتے ہوئے
اپنے بالائی ایوانوں سے اُتر آیا
بادلوں نے جُھک کر
چھتنار پیڑوں کا بوسہ لیا اور بے اختیار برس پڑے
شہر بے خبر تھا
آسمان و زمین کے
سب دیرینہ فاصلے،
قربتوں کی برکھا میں تحلیل ہو گئے
پیڑ گنگنا رہے تھے
چراگاہیں شبنَما گئیں
ہوا تھمنے لگی
فضا میں چارسُو روشنیاں کِھل اُٹھیں
تبھی ایک شور اُٹھا
زمیں سرشاری میں نہا گئی تھی
زِندگی،
نمو پا گئی تھی