Laaltain

ہمارے لیے لکھیں۔

طالبان سے مذاکرات: ماضی سے سبق سیکھئے

test-ghori

test-ghori

19 نومبر, 2013
فاروق احمد

taliban-peace-talks-featured
اب ہمارے پاس کہنے کو کیا رہ گیا ہے؟ اب ہم کس منہ سے بات کر سکتے ہیں؟ کون سے الفاظ کا چناؤ ہمیں زیب دیتا ہے۔ حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کیا ہوئی، ہمارے نجات دہندہ، سیاسی حکمران اور میڈیا، جس نے آج ریاست کے چوتھے بڑے ستون کی شکل اختیار کر لی ہے، حکیم اللہ محسود کو شہید اور اس کی موت کو قومی المیہ قرار دے رہے ہیں۔ جماعت اسلامی کے امیر منور حسن، حکیم اللہ محسود کو شہید کا درجہ عطا کر چکے ہیں اور عمران خان جو ہمارے ہاں دانائی کے پیکر گردانے جاتے ہیں،اس واقعے کو “امن مذاکرات پر حملہ” قرار دے رہے ہیں۔ رہی سہی کسر مولانا فضل الرحمان نے پوری کر دی۔ انہوں نے ایک ایسا بیان داغا کہ بڑے بڑوں کے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے،مولانا نے پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ، “امریکہ جس کسی کو بھی قتل کرے گا،اگر وہ کتا بھی ہو گا تو میں اسے شہید کہوں گا”۔ آج بھی طالبان کی محبت میں گرفتار موجودہ حکومت انہیں “قبائلی علاقوں میں ہمارے لوگ” کہہ کر پکار رہی ہے۔ آج ہم جن کے ساتھ مفاہمت کا رونا رو رہے ہیں، جنہوں نے پاکستان میں پچاس ہزار سے زیادہ لوگوں کا قتل عام کیا ہے جن میں عورتیں، بوڑھے اور معصوم بچے بھی شامل ہیں، معیشت کا جنازہ نکال دیا ہے وہ ہمارے لوگ کیسے ہو سکتے ہیں۔ ایجوکیشن سیکٹر، جو پہلے ہی قیام پاکستان سے لے کر آج تک سیاسی و فوجی حکمرانوں اور بیوروکریسی کی وجہ سے آخری سانسیں لے رہا ہے، انہی اپنے لوگوں کے ہاتھوں خیبر پختونخواہ اور قبائلی علاقوں میں بچیوں کے اسکولز تباہ کر دیے گئے۔ آج بھی پاکستان میں ڈھائی کروڑ بچے تعلیم جیسے بنیادی حق سے محروم ہیں، یہ المیہ نہیں تو اور کیا ہے۔ وزیر اعظم میاں نواز شریف کے وردِ زباں صرف ایک ہی معاملہ ہے، اور وہ ہے ڈرون حملے۔ شاید وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ یہی ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ اور تو اورتبدیلی کے علم بردار عمران خان سے اس موضوع پر نہ ختم ہونے والی تکرار سنیں تو لگتا ہے کہ جیسے ہی ڈرون حملے رکیں گے، پاکستان میں امن و آشتی کے پھول مہک اٹھیں گے، اور سلگتے ہوئے آتشیں بگولے گلزار بن جائیں گے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ پشاور میں 22 ستمبر سے اب تک 3 بڑے بم دھماکوں میں 200 سے زیادہ لوگ لقمۂ اجل بن چکے ہیں۔ پشاور چرچ پر حملہ کیا گیا، قصہ خوانی بازار میں خون کی ہولی کھیلی گئی، دیر بالا میں میجر جنرل ثناء اللہ نیازی سمیت ایک کرنل اور ایک لانس نائیک کو شہید کیا گیا۔ اسی دوران تین صوبائی اسمبلی ارکان کو بھی نشانہ بنایا گیا، جن کا تعلق پاکستان تحریک انصاف سے تھا، جن میں صوبائی وزیر قانون اسرار الحق گنڈاپور بھی شامل ہیں ،آج انہی کی پارٹی طالبان کے ساتھ مذاکرات پر تلی ہوئی ہے، جنہوں نے خیبر پختونخواہ میں قیامت برپا کی ہوئی ہے۔ طالبان نے سر عام بنوں اور ڈی آئی خان جیلوں پر دھاوا بولا اور انتہائی خطرناک قیدی چھڑوا کر لے گئے۔
اگر یہی واقعات کسی اور ملک میں ہوتے تو ایک طوفان برپا ہو چکا ہوتا۔ عوامی اور سیاسی حلقے ایک ہی مطالبہ کرتے، کہ بس بہت ہو چکی مفاہمت، اب فیصلہ کن جنگ کی تیاری کریں۔ لیکن یہاں پاکستان میں کنویں کے بیل آج بھی مفاہمت کی بے سمت اور بے مقصد مشقت کو قومی ذمہ داری سمجھ رہے ہیں۔ چلیں مان لیتے ہیں، یقینا دہشت گردی کے خلاف جنگ کوئی سنڈے پکنک نہیں ہے۔ زیادہ دور نہ جائیں، سری لنکا میں حکومت نے تامل ٹائیگرز کے خلاف کیسی ہولناک جنگ لڑی، جس میں پاکستانی انٹیلی جنس اور حکومت نے بھی اہم کردار ادا کیا تھا۔ سری لنکا کو اس وقت فتح نصیب ہوئی جب انہوں نے مفاہمت کے دروازے بند کر دیے تھےکیونکہ اگر انتہا پسندوں کے ساتھ مذاکرات کیے جائیں تو ان کے لیے مذاکرات ایک سنہری موقع ہوتے ہیں جس کے بعد یہ اپنے آپ کو دوبارہ “ری گروپ” اور مضبوط کرتے ہیں۔ ہاں، جب ان تحریکوں کے خلاف فوجی بالادستی حاصل ہو گئی تو پھر لہجہ نرم کیا گیا، اس سے پہلے نہیں۔اسی طرح ہندوستان میں علیحدگی پسندوں کے خلاف کی جانے والی تمام فوجی کاروائیاں شدت پسندوں اور دہشت گردوں کے ہتھیار ڈالنے تک جاری رہی ہیں۔ امریکی خانہ جنگی غلاموں کی آزادی کے لیے نہیں تھی ، یہ صرف یونین کو اکٹھا رکھنے کے لیے تھی، اور اس جنگ میں قیادت کرنے والا کوئی جنگ جو جرنیل یا سردار نہیں بلکہ عوامی ووٹوں سے برسر اقتدار آنے والا سیاست دان اور مدبر ابراہم لنکن تھا۔ وہ ایک نہایت خونی جنگ تھی، لیکن انہوں نے فیڈریشن کے تحفظ کے لیے ہر حد تک جانے کا عہد کر رکھا تھا اور ایسا کر کے دکھایا۔ جنگی فتوحات کے بعد ہی قیام امن ہوا۔ زندہ قوموں کی تاریخ انہی خطوط پر رقم ہے۔ قومی سلامتی کے امور پر عوام، سیاسی حکومت اور تمام ریاستی اداروں کا اتفاق رائے اسی بات پر رہا ہے کہ ریاست کی سلامتی اور خودمختاری کودہشت گردوں کی طرف سے درپیش تمام خطرات کو انسانی حقوق کی پاسداری کرتے ہوئے فوجی طاقت کے استعمال سے دور کیا جائے گا تا وقتیکہ دہشت گرد عناصر ہتھیار ڈال کر ریاست کی آئینی حدود میں تصفیہ پر راضی نہ ہو جائیں۔
دوسری طرف پاکستان کے موجودہ حکمران چاہے وہ سیاسی ہوں یا فوجی، شاید ایک نئی قسم کی تاریخ لکھنا چاہتے ہیں۔ اس لیے وہ جنگ کی بجائے مفاہمت کے مورچے فتح کرتے ہوئے ریاست کا تحفظ چاہتے ہیں۔ اگر وہ اس کاوش میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو یہ ایک فقید المثال واقعہ ہو گا۔ کیونکہ اس سے پہلے تو قوموں کی زندگی میں ایسا شاندار واقعہ دیکھنے میں نہیں آیا، کہ کسی ریاست نے اپنے وجود کے تحفظ کی خاطر دشمنوں کے ساتھ مفاہمت کا راستہ اختیار کیا ہو۔ پاکستانی حکمرانوں کو سوات امن معاہدوں اور وزیرستان مذاکرات کی ناکامی کو سامنے رکھتے ہوئے ماضی کی غلطیوں کو دہرانے سے گریز کرنا چاہئے ۔


Farooq-ahmed-khudiمضمون نگار پنجاب یونیورسٹی میں سیاسیات کے طالب علم اور سیاسی و سماجی کارکن ہیں۔