پرندے کی چہک لے کر
اسے سیٹی بنا لینا
ہوا کے ایک جھونکے کو
کبھی موسم بنا لینا
کبھی کھڑکی کے شیشوں پر
برستی بارشوں سے اک ذرا سی بوند لے لینا
اسے جگنو بنا لینا
کسی چھوٹی سی خواہش سے یہ دل آباد کر لینا
کبھی خوابوں کے پھولوں کو
سرہانے رکھ کے سو جانا
کبھی تنہائیوں کو اوڑھ کر چپکے سے رو لینا
اکیلے میں ستاروں کو
کبھی ہمراز کر لینا
کبھی آوارہ پھرتی رات کو مہمان کر لینا
کبھی پیڑوں کو ہمسایہ بنا لینا
کسی ساحل کے پتھر کو کبھی ہمراہ کر لینا
اسی سے کھیلتے پھر گھر کے دروازے پہ آ جانا
اسے کچھ سوچ کر اندر بھی لے آنا
پرانی یاد کے ٹکڑوں سے اک مفلر بنا لینا
ادھوری خواہشیں بے نام نظموں میں چھپا کر
کاغذی چڑیاں بنا لینا
انہیں پھر شہر کی گلیوں مکانوں میں اڑا دینا
یونہی بے کار سے ان مشغلوں سے
دل کو بہلاتے گزر جانا