Laaltain

قہقیوں کے گھونٹ اور دیگر نظمیں – عظمیٰ طور

عظمیٰ طور: میں نے طویل چیخ کے بعد چیخ کے خلا کو پر کرنے کے واسطے قہقہوں کے کئی بڑے بڑے گھونٹ نگلے ہیں
غنی پہوال: اُداسیوں کی بانجھ آنکھیں روشنی کو حاملہ کر کے دیمک کی چال سے اندر بھیج رہی تھیں
سات زمینوں سات آسمانوں کے پار خدا کی انگلیوں پر جو ہمارے گناہ ثواب اپنی پوروں پر گن رہا ہے
ایچ-بی-بلوچ: جب تک ہم زندہ رہیں گے خواہش موت کی أنکھوں میں مکڑی کے جال بنتی اور سنگینوں کی نوک کو گدگداتی رہے گی

جیون ایک دھمال اُوسائیں جیون ایک دھمال تن کا چولا لہر لہو کی آنکھیں مِثل مَشال جیون ایک دھمال سانولے مکھ کی شام میں چمکے دو ہونٹوں کے لعل جیون ایک دھمال وصل کی برکھا باندھ کے نکلی ست رنگا رومال جیون ایک دھمال کس کے دھیان کی رُت میں ڈولے من کی کچی ڈال […]

اجسام پلاسٹک کی بوتلوں کی مانند سڑک پر لڑھکتے جاتے ہیں بوتلیں جن میں سماج کا پیشاب بھرا پڑا ہے ہر آنکھ میں مردہ خوابوں کی لاشیں تیرتی رہتی ہیں جو فاتحہ کی امید پہ اکثر آنکھوں سے ٹکراتی رہتی ہیں انہیں ہر دن رشتوں کے گدھوں کی خوراک بننا ہے لڑکیاں جو شادیوں کی […]

بچھڑنے سے پہلے کی آخری سیلفی میں سارا درد اور کرب چہرے سے چھلکتا ہے، وصل اور ہجر کی درمیانی کیفیت کو شاید نزع کہتے ہیں، تم نے اقرار کرنے میں اعترافِ جرم جیسی دیر کر دی، گویا پیلے بلب کے سامنے بیٹھا، ناکردہ گناہوں کا مجرم، آنکھوں کو تھکا دینے والی روشنی کی تاب […]

تمہاری وجہ سے میں ایک خلا نورد نہیں بن سکا میرے مجسمے کسی چوک پر نصب نہیں ہوئے میرے نام سے کوئی سڑک منسوب نہیں کی گئی میرے کارناموں پر کہیں کوئی مقالہ نہیں لکھا جا سکا اور کوئی قومی دن میرے لیے مختص نہیں کیا گیا تمہاری وجہ سے میں ان عمارتوں کا افتتاح […]

وہ زندگی کو ڈراتے ہیں موت کو رشوت دیتے ہیں اور اس کی آنکھ پر پٹی باندھ دیتے ہیں وہ ہمیں تحفے میں خنجر بھیجتے ہیں اور امید رکھتے ہیں ہم خود کو ہلاک کر لیں گے وہ چڑیا گھر میں شیر کے پنجرے کی جالی کو کمزور رکھتے ہیں اور جب ہم وہاں سیر […]

اگر مجھے بیس منٹ میں کچھ لکھنے کو کہا جائے تو میں کاغذ پر ۷ تک پہاڑوں کے سوا کچھ بھی نہیں لکھ سکوں گا ___یا شاید___ متعدد بار اپنا نام اور پتہ اس رسم الخط میں/ جو میں نے خود ہی ایجاد کیا تھا میں ان بیس منٹوں میں اپنے دن بھر کے معمولات […]