[blockquote style=”3″]
[/blockquote]
صاحب تم نے پوچھا تھا نا
میں ہی کیوں!!!
پہلے مجھ کو یہ بتلائیں
سخت علالت میں
جب کوئی یخ بستہ ہاتھ،
لمحہ بھر کو
بیمار کی ہتھیلیوں کو چھو جائے
تو کیوں کواڑ بند دریچوں کے مقفل بھی کھلنے لگتے ہیں
وہ ایک لمحہ، پورے جسم کو
کیوں زندگی کی نوا سناتا ہے
آگہی کیوں جنم لیتی ہے
وائیبز پہ بھروسہ کیوں بھڑھتا ہے
جاڑے کی اس شام میں
کمرے کی بند کھڑکی سے
گرتی بارش کی آواز
دل کو بے چین کرنے کے علاوہ
خیال کے پردے کو ایک لمحے میں
تمام ماہ و سال کے مشاہداتی عمل سے گزارتی ہے
تذکرہِ شب یہ رہے گا
کہ تھکن کی چھاپ رہ ہی جاتی ہے بلآخر
جوتے چٹکھاتی عورت کے چہرے پر۔۔
تیاگ کی کھڑاویں پہنے
صحرا کے اس لا معنی مقام پہ
جہاں منزل کچھ قدموں پہ
مجھ کو دیکھے ہَس رہی ہے
اَس منزل کو ہاتھ لگا کے
چھلنی پیروں کو سہلا کے
مجھ کو واپس لوٹنا ہے
اک صدا کی دوری والے
اس لامعنی مقام پہ
میرے دل میں اٹھتی ٹیسیں
مجھ سے ہی یہ کہہ رہی ہیں
Outdated Map کے ساتھ منزل کا تعین کر کے
صدیوں کی مسافت کو یوں اکیلے طے کر لینا
خود کے لیے تجویز کردہ سزا تو ہو سکتی ہے
تمہاری منزل نہیں
تمہاری منزل وہی مسافت ہے
جو چاہے واپس جا سکتی ہو
یا پھر چھوئے بغیر ایک بھرپور نگاہ ڈال کے
اس سے آگے بڑھ سکتی ہو
سماج کی چھاپ سے
کئی رنگ سموئے ہوئے
ہم مضبوط، قابل اور
خوبصورت عورتیں
بیک وقت subject & object
کی لا یعنیت سے خود کو آزاد کر کے
سمندر کے پانیوں پہ چلتی
چاند سے محوِ گفتگو ہیں۔۔
سماج کی مکروہ نگاہوں سے
جو خود کو دیکھیں
تو ہم بے حیا، بد کردار اور
گنہگار عورتوں کا جرم
“اپنی حیثیت کی آگہی” کے سوا
کچھ بھی نہیں
آج اک کمسن کی آنکھوں میں
جو پختہ گہرے رنگ دیکھے
میں چونک گئی
بہت بھلی سی لگی تھی مجھ کو
مجھ سے زیادہ خاموش اور سمجھدار
جی چاہا میں اس سے پوچھوں
مجھ کو بھی یہ راز بتاؤ
کیسے امن میں رہ سکتی ہوں؟ جیسے تم ہو
اس کی آنکھیں خاموشی سے چیخ چیخ کے کہہ رہی تھیں
سمجھدار ہی دکھتا ہے جو بن ماں باپ کے رہتا ہے
مجھ کو خود سے دور کرنے کی قیمت وہ وصولتے ہیں
اس کے عوض میں نے فقط
اپنا بچپن گروی رکھ چھوڑا ہے
Image: Henn Kim