Laaltain

Vibes اور دیگر نظمیں (ماریہ حبیب)

13 جون، 2019

[blockquote style=”3″]

یوتھ یلزایک رنگا رنگ سلسلہ ہے، جس میں نوجوان قلمکار بلا جھجک اپنے ھر طرح کے خیالات کا دوٹوک اظہار کر سکتے ہیں۔۔ آپ کا اسلوب سنجیدہ ہے یا چٹخارے دار۔۔ آپ سماج پر تنقید کا جذبہ لیے ہوئے ہیں یا خود پر ہنسنے کا حوصلہ۔۔۔۔ “لالٹین” آپ کی ہر تحریر کو خوشآمدید کہتا ہے۔

[/blockquote]

Vibes

صاحب تم نے پوچھا تھا نا
میں ہی کیوں!!!
پہلے مجھ کو یہ بتلائیں
سخت علالت میں
جب کوئی یخ بستہ ہاتھ،
لمحہ بھر کو
بیمار کی ہتھیلیوں کو چھو جائے
تو کیوں کواڑ بند دریچوں کے مقفل بھی کھلنے لگتے ہیں
وہ ایک لمحہ، پورے جسم کو
کیوں زندگی کی نوا سناتا ہے
آگہی کیوں جنم لیتی ہے
وائیبز پہ بھروسہ کیوں بھڑھتا ہے

In a Nutshell

جاڑے کی اس شام میں
کمرے کی بند کھڑکی سے
گرتی بارش کی آواز
دل کو بے چین کرنے کے علاوہ
خیال کے پردے کو ایک لمحے میں
تمام ماہ و سال کے مشاہداتی عمل سے گزارتی ہے
تذکرہِ شب یہ رہے گا
کہ تھکن کی چھاپ رہ ہی جاتی ہے بلآخر
جوتے چٹکھاتی عورت کے چہرے پر۔۔

Outdated Map

تیاگ کی کھڑاویں پہنے
صحرا کے اس لا معنی مقام پہ
جہاں منزل کچھ قدموں پہ
مجھ کو دیکھے ہَس رہی ہے
اَس منزل کو ہاتھ لگا کے
چھلنی پیروں کو سہلا کے
مجھ کو واپس لوٹنا ہے
اک صدا کی دوری والے
اس لامعنی مقام پہ
میرے دل میں اٹھتی ٹیسیں
مجھ سے ہی یہ کہہ رہی ہیں
Outdated Map کے ساتھ منزل کا تعین کر کے
صدیوں کی مسافت کو یوں اکیلے طے کر لینا
خود کے لیے تجویز کردہ سزا تو ہو سکتی ہے
تمہاری منزل نہیں
تمہاری منزل وہی مسافت ہے
جو چاہے واپس جا سکتی ہو
یا پھر چھوئے بغیر ایک بھرپور نگاہ ڈال کے
اس سے آگے بڑھ سکتی ہو

گنہگار عورتوں کا جرم

سماج کی چھاپ سے
کئی رنگ سموئے ہوئے
ہم مضبوط، قابل اور
خوبصورت عورتیں
بیک وقت subject & object
کی لا یعنیت سے خود کو آزاد کر کے
سمندر کے پانیوں پہ چلتی
چاند سے محوِ گفتگو ہیں۔۔

سماج کی مکروہ نگاہوں سے
جو خود کو دیکھیں
تو ہم بے حیا، بد کردار اور
گنہگار عورتوں کا جرم
“اپنی حیثیت کی آگہی” کے سوا
کچھ بھی نہیں

گروی بچپن

آج اک کمسن کی آنکھوں میں
جو پختہ گہرے رنگ دیکھے
میں چونک گئی
بہت بھلی سی لگی تھی مجھ کو
مجھ سے زیادہ خاموش اور سمجھدار
جی چاہا میں اس سے پوچھوں
مجھ کو بھی یہ راز بتاؤ
کیسے امن میں رہ سکتی ہوں؟ جیسے تم ہو
اس کی آنکھیں خاموشی سے چیخ چیخ کے کہہ رہی تھیں
سمجھدار ہی دکھتا ہے جو بن ماں باپ کے رہتا ہے
مجھ کو خود سے دور کرنے کی قیمت وہ وصولتے ہیں
اس کے عوض میں نے فقط
اپنا بچپن گروی رکھ چھوڑا ہے
Image: Henn Kim

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *