اجسام پلاسٹک کی بوتلوں کی مانند سڑک پر لڑھکتے جاتے ہیں
بوتلیں جن میں سماج کا پیشاب بھرا پڑا ہے
ہر آنکھ میں مردہ خوابوں کی لاشیں تیرتی رہتی ہیں
جو فاتحہ کی امید پہ اکثر آنکھوں سے ٹکراتی رہتی ہیں
انہیں ہر دن رشتوں کے گدھوں کی خوراک بننا ہے
لڑکیاں جو شادیوں کی بھینٹ چڑھیں گی
موٹر سائیکلوں کی چیختی ہڈیوں کی آواز پہ جوانوں کے قہقہے میرا مذاق اڑاتے ہیں
آج میں سڑک کے تارکول سے لپٹ کر خوب رویا
اور میری آنکھوں کی سیاہی سڑک میں اپنا تیزاب پلاتی گئی
شہر کی ہر دکان میرا منہ چڑاتی ہے
لوگ اپنے خوابوں کا قتل کر کے نئے کرتے خریدتے ہیں
اور اس پہ اپنے ارمانوں کے کفن پہنتے ہیں
ہماری اناوں کے کتوں کو لڑتے دیکھ کر ہمارے وعدے سہمے بیٹھے ہیں
میں نے بھی تمہارے لیے اک دکان سے لباس چرانے کا سوچا ہے
مگر دکاندار کو مالک کی پڑھنے والی گالیوں کا تصور میرے ارادوں کا گلہ گھونٹتا ہے
گو عید پہ تمہارے جسم میری انگلیوں سے مس کیے لیے لباس کی راہ تکے گا
تکنے دو
مجھ سے جڑی ہر چیز کے حصے میں انتظار ہی لکھا ہے