Laaltain

چاند رات (عادل یوسف)

14 جولائی، 2019
Picture of عادل یوسف

عادل یوسف

اجسام پلاسٹک کی بوتلوں کی مانند سڑک پر لڑھکتے جاتے ہیں
بوتلیں جن میں سماج کا پیشاب بھرا پڑا ہے

ہر آنکھ میں مردہ خوابوں کی لاشیں تیرتی رہتی ہیں
جو فاتحہ کی امید پہ اکثر آنکھوں سے ٹکراتی رہتی ہیں
انہیں ہر دن رشتوں کے گدھوں کی خوراک بننا ہے

لڑکیاں جو شادیوں کی بھینٹ چڑھیں گی
موٹر سائیکلوں کی چیختی ہڈیوں کی آواز پہ جوانوں کے قہقہے میرا مذاق اڑاتے ہیں

آج میں سڑک کے تارکول سے لپٹ کر خوب رویا
اور میری آنکھوں کی سیاہی سڑک میں اپنا تیزاب پلاتی گئی

شہر کی ہر دکان میرا منہ چڑاتی ہے

لوگ اپنے خوابوں کا قتل کر کے نئے کرتے خریدتے ہیں
اور اس پہ اپنے ارمانوں کے کفن پہنتے ہیں

ہماری اناوں کے کتوں کو لڑتے دیکھ کر ہمارے وعدے سہمے بیٹھے ہیں
میں نے بھی تمہارے لیے اک دکان سے لباس چرانے کا سوچا ہے
مگر دکاندار کو مالک کی پڑھنے والی گالیوں کا تصور میرے ارادوں کا گلہ گھونٹتا ہے
گو عید پہ تمہارے جسم میری انگلیوں سے مس کیے لیے لباس کی راہ تکے گا
تکنے دو
مجھ سے جڑی ہر چیز کے حصے میں انتظار ہی لکھا ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *