تالیف حیدر: گاڑی دیر تک اسی طرح چلتی رہی اور ناز اسی طرح ایک ہاتھ سے جھولتا رہا۔اب شام کا دھندلکا ہو چلا تھا آسمان پر ستاروں کا ظہور ہونے لگا تھا، آسمان کے تھال میں چاندی کا ایک بڑا سکہ اپنی ٹمٹماہٹ چاروں طرف مترشح کر رہا تھا۔
ہندسوں میں بٹی زندگی
’’ وارڈ نمبر چار کے بیڈ نمبر سات کی مریضہ کے ساتھ کون ہے ؟‘‘
’’ جی میں ہوں"
’’مبارک ہو ، آپ کا بیٹا ہوا ہے‘‘
اُس لڑکے کو کمیٹی...
پچھلے دو سال سے سرکاری پاگل خانے میں رہتے رہتے میں نے اپنی زندگی کے تقریباً ہر واقعہ کو یاد کر کے اس پر ہنس اور رو لیا ہے۔
ویسے میں پاگل نہیں ہوں۔۔۔۔
...
راجکمار کیسوانی تقسیم ہند کے بعد سندھ سے ہجرت کر کے بھوپال میں سکونت اختیار کرنے والے ایک خاندان میں 26 نومبر 1950 کو پیدا ہوے۔ ان کی بنیادی پہچان ص...
مزید مائیکرو فکشن پڑھنے کے لیے کلک کیجیے۔
’’یوپی، ناگن چورنگی، حیدری، ناظم آباد، بندر روڈ۔۔۔۔۔۔۔۔ کرن۔۔"
کنڈیکٹر کی تکرار سن کر اچانک وہ اپنے خیالا...
گاؤں بنام ڈگھڑی انگریزوں کی کھدائی شدہ نہرکے کنارے کنارے اس جگہ بسایا گیا تھا جہاں نہر اور گاؤں کو ریل کی پٹڑی کا پہاڑ نما ٹریک روک لیتا تھا۔ اسی ریلو...
خالد جاوید: سے یاد آنے لگا کہ کسی دن کوئی کہہ رہا تھا کہ ڈاکیے کی وردی اب بجائے خاکی کے نیلی ہوا کرے گی۔ مگر اسے یہ منظور نہیں، کیوں کہ ڈاکیہ نیلے آسمان سے پَر لگائے زمین پر اترتا ہوا کوئی پیغام رساں نہ تھا۔ وہ خلا سے نہیں آ رہا تھا۔ ڈاکیہ تو زمین کا بیٹا تھا۔ وہ زمین سے زمین پر ہی چلتا تھا۔ اس لیے اس کو تو مٹی اوڑھے ہوئے ہی گھومتے رہنا چاہیے جو کہ زمین کا رنگ ہے۔
محمد عباس: وہ بلک بلک کے رونے لگا اور میں اس کی آنکھوں سے امڈتی ہوئی پدرانہ شفقت کو حیرانی سے دیکھتارہا۔اس کے ہاتھ قبر کے کتبے پہ یوں سرک رہے تھے جیسے بیٹے کے سر پہ ہاتھ پھیر کر اسے دلاسہ دینے کے بہانے خود اپنے آپ کوتسلی دے رہا ہو۔
علی اکبر ناطق: ولیم کو لاہور میں ایک سال تین ماہ گزر چکے تھے۔ اِن پندرہ مہینوں میں سوائے جم خانہ جانے کے،اِدھر اُدھر کی گھٹیا اور بے کار فائلوں پر دستخط جمانے اور کلرکوں کے بیہودہ چہروں کے دیکھنے کے علاوہ کوئی کام نہ تھا۔
علی اکبر ناطق: جھنڈووالا میں سردار سودھا سنگھ سمیت ایک دم دس لاشیں پہنچیں تو اندھا کر دینے والا حبس چھا گیا۔ لاشیں دو گَڈوں پر لادی ہوئی تھیں۔ گولیوں سے چھلنی اور خون سے لت پت گو یا مَسلی جا چکی تھیں۔