میرے افسانے پڑھنے کا تجربہ انفرادی نوعیت کا رہا ہے۔ اس لیے میں نے اپنے اکثر افسانوں میں خود کو مظلوم اور مترحم پایا ہے۔ وحشی اور عاشق کی شکل میں دیکھا ہے، انسان اور جانور کی طرح پایا ہے۔ انفرادی قرات کی یہ آزادی ہے کہ آپ کو جو کردار ٹھیک لگا، جو جذبہ بہتر پایا اسی کو اپنا بنا لیا۔ انسانی ذہن زیادہ تر اپنے لیے آسانی، نمائندگی اور گدازی تلاش کرتا ہے۔ اس کے علاوہ جو طبائع ایسےہوتے ہیں جن کو اس سے متضاد کیفیت میں لطف آتا ہے وہ اس قالب میں خود کو ڈھال لیتے ہیں۔

افسانہ کیوں وجود میں آیا ہے اس پر ہمارا دھیان بہت کم جاتا ہے۔ مشرقی ذہن کا عام میلان یہ بھی ہے کہ وہ نصیحت کی باتوں کے پیچھے خوب دوڑتا ہے۔ کہانی میں اول صورت میں جہاں کوئی ایسی بات نظر آئی جس سے معاشرے یا تہذیب کے لیے کوئی مثالی واقعہ مل جائے اسے ذہن کے گوشے میں محفوظ کر لیتا ہے تاکہ وقت ضرورت کام آئے۔ جنسیت سے ذرا گھبرانے کے باوجود اس کے تذکرے سےقاری کے اندر فرحت و انبساط کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ وہ لاکھ چھپائے مگر افسانے کے اس حصے کو بھوکے شخص کی طرح بڑے بڑے نوالوں میں غٹک جاتا ہے۔

کہانی کے تسلسل کو شاعرانہ نگاہ سے دیکھنے کا وصف بھی ہمارے اندر کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ یوں عام اور غیر تخلیقی نثر میں بھی ہم شاعری زیادہ تلاش کرتے ہیں اور اس کے بنا نثر کے حسن کو ادھورا سمجھتے ہیں۔ مگر تخلیق میں اس کی ضرورت اور اہمیت کو ناگزیر تصور کرنے لگتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شاعری ہمارے لاشعور سے عرصہ دراز سے چپکی ہوئی ہے۔ افسانے کی ترتیب سے بھی ہمارا ایک ازلی رشتہ ہے ہم کہانی کو ایک کرم میں دیکھنے کے عادی رہے ہیں۔ اس لیے انفرادی نوعیت کی قرات میں زیادہ تر ان واقع سے زیادہ لطف اندروز ہوتے ہیں جن میں تسلسل مربوط ہو یا یوں کہا جائے کہ ہماری منشا کے مطابق ہو۔ کہانی خواہ کہیں سے شروع ہو کر کہیں ختم ہو مگر واقعات کی ڈور سلیقے سے بنی گئی ہو اور ایک سرے سے دوسرے سرے تک پہنچنے کے لیے زیادہ محنت نہ کرنا پڑے یہ اکثر ہماری خواہش ہوتی ہے۔

میں اپنے افسانے کے سفر سے کچھ زیادہ خوش نہیں ہوں کیوں کہ میں جب افسانے کی قرات کی طرف مائل ہوا تو اس وقت میری عمر کچھ سولہ، سترہ برس تھی اور آج تقریباً اپنی قرات کے سولہ برس بعد میں اس بات پر کف افسوس مل رہا ہوں کہ افسانے کے پڑھنے کا جو نظام میں نے خود بنایا تھا وہ کتنا ناقص تھا، اس نقص کا احساس مجھے اس لیے نہیں کہ میں نے کہانیوں کا انتخاب کرنے میں کسی نوع کی کوتاہی کی ہے یا افسانے کو وقت گزاری کے لیے پڑھا ہے۔ بلکہ افسانے سے اپنا ایک با قاعدہ رشتہ بنانے میں کبھی دلچسپی نہیں لی۔ میں نے بتدریج مطالعے کو یکسر غیر اہم سمجھا اس لیے کبھی مغربی افسانہ نگاروں کے افسانے طبیعت کو بھائے تو کبھی مشرقی۔ اردو، عربی، فارسی، ہندی، انگریزی اور نہ جانے کتنی زبانوں کے افسانے جن سے بس ایک سلسلے کے تحت ہم آہنگ ہوتا گیا۔ کوئی کہانی دیکھی، اسے اٹھا کر پڑھنے لگا اور تقابل کی سطح پر کبھی ایک کو دوسرے سے بہتر گردانہ اور کبھی دوسرے کو تیسرے سے۔ اب میں اسے کئی وجوہات کی بنا پر حماقت کا عمل تصور کرتا ہوں۔ مثلاًجس زمانے میں مجھے روسی ادب کاشوق سوار تھا تو میں ٹالسٹائی کے افسانوں کے تراجم تلاش کر کے پڑھا کرتا تھا۔ اسے پڑھ کر اپنے نفس کو یہ تسکین پہنچاتا کہ میں نے روسی افسانے بھی پڑھے ہیں، جن کا اثبات میں مجمع عام میں کر سکتا ہوں، کوئی امتحاناً دریافت کرے تو ٹالسٹائی کی کہانیوں کے نام بتا سکتا ہوں، ان کے کردار اور کہانیوں کا خلاصہ بھی بیان کر سکتا ہوں۔ اسی کو میں اپنے افسانوی سفر کا حاصل سمجھ رہا تھا اور دو چار برس تک نہیں بلکہ پورے پندرہ برس تک۔ کبھی اس بات پر غور نہیں کیا کہ جسے میں روسی ادب کا مطالعہ کہتا ہوں آخر وہ بلائے جاں ہے کیا چیز۔

کسی بھی غیر زبان کا ادب پڑھنا کیا ہوتا ہے وہ بھی بالخصوص افسانہ جس کی تہہ اور واقعاتی لہر ہمیں کسی بھی معاشرت کی کتنی گہری تفہیم عطا کر سکتی ہے۔ اس معاشرت کے ان باریک نکات سے آگاہ کر سکتی ہے جس کی بنا پر ہم انسانی نفسیات میں ہم آہنگی پیدا کرنے کے اہل ہو جاتے ہیں۔ میں نے کبھی ٹالسٹائی کے افسانوں کو اس نظر سے نہیں پڑھا کہ وہ دنیا کی ایک عظیم معاشرت کی ترسیل کا تکملہ ہیں۔ صرف اس نظر سے کہ کہانی میں کیا ہے۔ کس طرح اسے جانا جا سکتا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ایک عرصے تک ٹالسٹائی کی بعض کہانیاں مجھے اپنے معاشرے میں موجود ان کہانی نگاروں سے بھی کہیں زیادہ کمزور لگیں جو ہمارے یہاں بہت زیادہ اہمیت کی نگاہ سے نہیں دیکھے جاتے۔

کوئی بھی بڑا ادیب افسانے کی زمین پر کیا شاہ کار تعمیر کر رہا ہے اس کا ادراک اسی وقت ہو سکتا ہے جب ہم اس کی معاشرت کے کماحقہ ادراک سے لبریز ہوں۔ کسی قوم کی تاریخ۔ اس کے وجود میں آنے، مہذب ہونے، ثقافتی سطح پہ تنوع اختیار کرنے اور زندگی کے ہر شعبے میں بڑھتے چلے جانے کے رازوں سے آگاہ ہوں۔ مثلاً جب میں یہ کہتا ہوں کہ میں روسی افسانہ پڑ ھ رہا ہوں تو مجھے یقین ہونا چاہیے کہ میں ایک ایسی زبان میں لکھی جانے والی کہانی کا متن پڑھ رہا ہوں جس کی تاریخ اور جغرافیہ سے میں واقف ہوں۔ جس کی سیاسی تاریخ کا مجھے علم ہے۔ جس کے تہذیبی اور اعتقادی اعمال سے آشنائی حاصل ہے۔ جہاں کے انفرادی نوعیت کے معاملات میں دخیل ہونا میرا منشا بن گیا ہے۔ اس کے بعد جب میں ادب کی زمین پر کھڑا ہوا کر افسانے کے حوالے سے کسی عظیم تخلیق کار کا متن پڑھتا ہوں تو اس معاشرت کی ترسیل کے تکملے تک رسائی حاصل کرتاہوں۔ وہاں کی زبان کےنظام کو جانتا ہوں، وہاں کے معاملات زندگی میں استعمال ہونے والے محاورات سے آگاہ ہو تا ہوں۔ جس سے نہ صرف یہ کہ میں سمجھ پا رہا ہوں کہ منشائے مصنف کیا ہے بلکہ مجھے اس کا بھی علم ہے کہ کس جملے کی تطبیق کس پر ہو گئی اور معنی کے اخذ کرنے کا نظام کیا ہوگا۔

میرا افسانوی تجربہ مجھے ہر لحاظ سے بعض بہت ہی بنیادی باتوں کے متعلق غور کرنے کی دعوت دیتارہتاہے۔ جس میں افسانے کی ترسیل کا مسئلہ سب سے اہم ہے کہ میں نے افسانے کو کس طرح اس کی مختلف شکلوں میں پایا اور وہ کن کن صورتوں میں مجھ سے دو چار ہوا یا مجھ تک پہنچا۔ یہ پہنچنے کی حالت بعینہ مجھ تک پہنچنے کی نہیں بلکہ میرے احساس تک پہنچنے کی ہے۔ اسی طرح ایک دوسرا اہم معاملہ افسانے کی مجھ میں تحلیل کا ہے کہ افسانہ میرے شعور میں گھل کر کس طرح مرے اعمال و افکار میں شامل ہو گیا۔ آخر میں اس کی تاثیر کا مسئلہ کہ وہ ماحصل کس نوعیت کا ہے جو گذشتہ دونوں اعمال کے اختلاط سے ظاہر ہو رہا ہے۔ ایک بنیادی بات کی طرف مزید اشارہ کرتے ہوئے میں اپنے اصل موضوع کی طرف بڑھوں گا کہ میرا یہ تجربہ رہا ہے کہ جب میں نے اپنی زبان میں لکھی ہوئی کوئی افسانوی تحریر پڑھی ہے تو اس سے رشتہ قائم کرنے،اس کی تہہ میں موجود افکار کی نفسیاتی وجوہات معلوم کرنے اور اس کی تخلیق کے اسباب جاننے میں مجھے کچھ زیادہ ہی مسائل کا سامنہ کرنا پڑا جس کی بہ نسبت دوسری زبان میں لکھے ہوئے افسانے کے متن سے میں جلد ہی گھل مل گیا۔ بہت کم ایسا ہوا ہے کہ کچھ غیر زبان کے افسانوں نے مجھے پریشان کیا ہو، اس کی وجہ مجھے یہ معلوم ہوتی ہے کہ میں اپنی ہر ممکن کوشش کے باوجود غیر تہذیبی اور لسانی متن کی ان باریکوں تک رسائی حاصل نہیں کر پایا ہوں جو میری اپنی تہذیب کی علامتوں کے ادراک کی صورت میں میرے اندر سوالات کا ایک ڈھیر لگا دیتی ہیں۔ یقیناً میں غیر تہذیبی و لسانی متن کو ایک نوع کی آسانی کے ساتھ ہی قبول کرتا ہوں، جب تک کہ اس میں کوئی بہت گہری علامت واضح طور پر رقم نہ کی گئی ہو یا وہ ابہام کی شکل میں تخلیق نہ کیا گیا ہو۔ اس سے مجھے یوں بھی محسوس ہوتا ہے کہ دوسری زبانوں کو پڑھتے وقت ہم بہت سے نکات میں مجبور ہو جاتے ہیں۔ اس کی بہترین مثال یہ ہے یہ کہ اپنی زبان کے افسانہ نگار سے میرے مطالبے زیادہ ہوتے ہیں۔ چوں کہ وہ ایک ایسے ماحول میں تحریر لکھ رہا ہے جو میرا جا نا پہچانا ہے، جس کی جزیات پر میں اپنی نظریں جمائے رہتا ہوں، لہذا تخلیقی وفور کے باوجود میرے اپنے ادیب سے جہاں کہی جزوی بیانیہ میں بھی غلطی ہوتی ہے تو میرے لیے وہ متن غیر دلچسپ یا غیر اہم سا ہو جا تا ہے۔ یہ مایوسی اس بات کی دلیل ہے کہ میں ان لوگوں کی نگاہوں کا مداح ہوں جو اپنے اطراف کو غور سے دیکھتے ہیں، ان میں پوشیدہ بہت ہی معمولی اجزا کو بھی اتنا بڑا بنا کر پیش کرتے ہیں کہ مجھے ان کی تفہیم میں مزید آسانی پیدا ہو جاتی ہے، یہاں تخلیق کی سطح سے زیادہ اطراف کی اٹکھیلیوں پر دھیان لگا رہتا ہے۔ کوئی ایک بے ترتیب بات، کوئی غچہ کھانے والا جملہ، کوئی غلط تشبیہ، ایک ہلکی سی بے معنویت تخلیق کار کے کیے کرائے پر پانی پھیر دیتی ہے۔ اگر میں ایسے متن کو جس میں خواہ معمولی سے معمولی باتوں میں اعتقاد اور رسومات کی سطح پر بھی سقم نظر آتا ہے کلیتاً غیر اہم نہ بھی گردانوں تو بھی اس کی وہ اہمیت نہیں رہتی جو ایک کامل متن کی ہو نا میرے نزدیک شرط ہے۔ اسے آپ مجھ جیسے قاری کی کسوٹی بھی کہہ سکتے ہیں اور زیادتی بھی۔ لیکن اس میں تخلیق کار کو بھی اتنا تو دخل ہے کہ وہ اپنی بصیرت کی آنکھ کو کہیں نہ کہیں بند کیے ہوئے ہے یا کسی اتفاقی صورت حال میں وہ چوک گیا ہے جس کے باعث متن میں ایسے اجزا شامل ہو گئے ہیں جنہیں میں معیوب تصور کرتا ہوں۔ لا محالہ یہ میرا اپنا پیمانہ ہے، ہر قاری کا ہوتا ہے، یہ ہی وجہ ہے کہ عیوب کے معیارات جدا ہیں اور حسن بھی، لہذا ہر قاری کے نزدیک متن کی کچھ شکل بہتر یا بد تر ہو جاتی ہے۔ ایک افسانوی متن سے یہ تضاضہ بالکل انفرادی سطح پر کیا جاتا ہے، مگر اس کے بالمقابل اجتماعی نوعیت کی قرات میں بھی عیوب اور حسن کی تحلیل انفرادی طور پر ہی منقسم ہوتی ہے۔ غیر ملکی متن کو یہ آزادی حاصل ہوتی ہے کہ اس کی جزیات اس کے کل میں ضم ہو جاتی ہیں۔ لہذا نہ رہے گا بانس اور نہ بجے گی بانسری والا معاملہ ہے کہ اگر مجھے علم ہی نہیں کہ فرانس میں فلاں روایت کو کس طرح سے عوام دیکھتی ہے قبول کرتی ہے یا رد کرتی ہے تو میں اسکا اپنا ایک مقامی ترازو بنا لیتا ہوں، جس میں روایت کا بری طرح قلع قما ہو جاتا ہے اور حاصل نہ عیب آتا ہے اور نہ ہنر۔

افسانے کی ترسیل کا عمل کیا ہے ہوتا ہے، یہ سمجھنا کچھ مشکل نہیں، لیکن ترسیل کے کئی ایک معنی ہونے کے باعث میں یہ واضح کر دینا بہتر سمجھتا ہوں کہ میری مراد اس لفظ سے یہاں میرے احساس تک افسانے کی رسائی سے ہے۔ جسے آپ ابلاغ تصور بھی کہہ سکتے ہیں۔ افسانے کی ترسیل خواہ ظاہری طور پر چھوٹی چیز معلوم ہو مگر جب کہانی کے تنوعات کے ساتھ اس پر غور کیا جائے تو لا محالہ یہ بہت بڑی اور اہم شئے ہو جاتی ہے۔ کوئی اگر یہ سمجھے کہ اس کے یہاں افسانے کی درجہ بندی کسی مرحلے پر نہیں ہوتی تو یہ ایک منفی (غلط)خیال ہوگا۔افسانہ اتنی چھلاوے والی شئے ہے کہ اس کو معلوم ہے کہ کس طرح کن کن مرحلوں سے گزرتے ہوئے قاری کے احساس تک پہنچنا ہے۔ اگر آپ ایک باشعور قاری ہیں توافسانے کے اس چھلاوے کو جلد ہی گرفت میں لے لیں گے۔ کیوں کہ افسانہ جب جب اپنے اسالیب کے مختلف ناگ آپ کی چھاتی پر رنگنے کے لیے چھوڑ دے گا تب تب آپ مچل مچل کر اس کی الگ الگ پھنکاروں سے واقف ہونے لگیں گے۔ افسانے کا اسلوب اس کی ترسیل کے دامن سے پیوست ہوتا ہے۔ ہر افسانہ کئی کئی صورتوں میں ظاہر ہوتا ہے اور کئی کئی شکلوں میں اپنی پسند اور نا پسند کے معیارات قائم کرنے کی سعی کرتا ہے۔ یہ افسانے کا چھلاوا ہی ہے کہ اگر آپ کسی افسانوی متن کو اس کی بعض غیر مانوس یا علامتی نوعیتوں سے گھبرا کر اپنے احساس میں ضم نہیں کر پائیں گے تو بھی وہ یک گنا آپ کو محظوظ کر ے گا۔ کہانی یا تو آپ کے حسیاتی پہلووں کو مس کرے گی یا آپ کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرتی ہوئی نکل جائے گی۔

Leave a Reply