(1)

رات کے سوا بارہ بج رہے تھے، باہر تیز برسات ہورہی تھی۔بجلیوں کی دھاڑ پاڑ کے ساتھ ہی گھر میں لکڑیوں کی الماریاں اور کانچ بج رہے تھے۔بعض دفعہ تو ایسی زبردست آواز آتی گویا بجلی بالکل ان کی عمارت سے باہر کے جنگلے پر ہی گری ہو۔ایسے موسم میں وہ دونوں عورتیں باہر کی آوازوں سے بے پروا اپنی باتوں میں مگن تھیں، اکثر وہ بجلی کی تیز چمک سے چونک کر باہر کالے آسمان کو گھورتیں اور پھر واپس اپنی باتوں میں ڈوب جاتیں۔دراصل وہ بھوت پریتوں، آسیبوں اور ماورائی قصوں کو یاد کررہی تھیں، ان میں کچھ ان کی زندگی سے متعلق تھے اور کچھ کتابی۔انہی کتابی قصوں میں ہوتے ہوتے روسی کہانی کار پوشکن کی مشہور کہانی ‘حکم کی رانی’ کا ذکر آیا۔اور اس کہانی میں آننا فیدوتوونا کے کردار، اس کی شخصیت، قتل اور بھوت بن کر واپس آنے کی چرچا شروع ہوئی۔

‘مجھے اس عورت کا کردار بہت پسند ہے، وجہ یہ ہے کہ مزاج میں وہ کچھ کچھ میری دادی سے ملتی جلتی ہے۔’ شاردا نے کہا۔وہ ایک سانولی عورت تھی، قریب چالیس بیالیس برس کا سن تھا، مگر بدن کسا ہوا، ہونٹ ترشے ہوئے، گھنے کالے بال، چست سینہ اور لمبی گردن۔وہ اس وقت ایک ہرے رنگ کا ٹی شرٹ پہنے تھی، جو شانوں پر سے دو دائروں کی شکل میں کٹا ہوا تھا، جہاں سے اس کے چمکتے ہوئے گول گول کندھوں کی ہڈیاں اور ان پر تنی ہوئی چکنی سانولی جلد نمایاں ہورہی تھی۔اس کی باتوں کا انداز خاصا تحکمانہ تھا، وجہ اس کی شاید یہ تھی کہ وہ شہر کے بڑے رئیسوں میں شمار ہوتی تھی، سب کچھ اب تک اس نے اپنے بل بوتے پر کیا تھا، مگر ایک بات جو دوسروں کی نظروں سے پوشیدہ تھی وہ یہ کہ اس کے جسمانی تعلقات کسی مرد کے بجائے ایک عورت کے ساتھ تھے، اور یہ دوسری عورت مریم تھی۔مریم کی کہانی بھی دلچسپ تھی، اسے ایک پچاس سالہ عیسائی سکول ٹیچر سے بالکل اوائل جوانی میں محبت ہوئی تھی، مگر اس محبت میں وہ کچھ خاموش خاموش اور جھجھکی ہوئی سی رہتی۔عیسائی آدمی اس سے بہت محبت جتاتا تھا، لہذا اس محبت کا نتیجہ یوں نکلا کہ اچانک ایک روز گھر والوں کی نظر مریم کے بڑھتے ہوئے پیٹ پر پڑی، اس وقت مریم کی عمر یہی کوئی سولہ، سترہ سال کی رہی ہوگی۔

گھر والوں نے اسے بہت مارا پیٹا، باپ سخت گیر مسلمان تھا اس لیے، یہ پتہ لگنے پر کہ مریم کو کسی عیسائی آدمی سے عشق ہے، اس نے اپنی بیٹی کو گھر سے باہر پھینک دیا۔مریم دردر کی ٹھوکریں کھاتی رہی، سکول ٹیچر اس جرم کے ڈر کی وجہ سے پہلے ہی کہیں روپوش ہوچکا تھا، مگر اتفاق سے اسے ایک عیسائی عورت نے، جو کہ نن تھی اور ایک مشنری میں کام کرتی تھی، سہارا دیا، پانچ مہینوں بعد مریم نے ایک مردہ بچے کو جنم دیا، مگر اسے اس بات کا زیادہ دکھ نہیں ہوا، عیسائی عورت نے مریم کی ادھوری پڑھائی مکمل کروائی اور بعد میں اس کا مذہب تبدیل کرواکر قریب چوبیس برس کی عمر میں جوزف نام کے ایک ادھیڑ عمر شخص سے اس کی شادی کروادی۔جوزف ویسے تو شریف آدمی تھا، مگر وہ جنسی عمل کے دوران مریم کو بہت ایذائیں دیتا تھا، رات رات بھر جگاتا، اس کی حالت پتلی کردیتا، اسے مارتا پیٹتا اور صبح رو رو کر معافی مانگتا۔یہ سلسلہ کئی دنوں تک چلتا رہا، مگر جب بات حد سے نکل گئی تو سال بھر کے اندر ہی اندر مریم بھاگ کر ایک دوسرے شہر چلی گئی۔یہاں وہ اپنی سہیلی کی مدد سے پہنچی تھی، اس شہر میں سب سے انجان تھی، اس لیے جس عورت کے یہاں رکی، اسی نے اسے دنیا کے سرد و گر م سے واقف کرایا، شہر بھی گھمایا اور کام بھی دلوایا۔نام وام اس کا کچھ پتہ نہیں، مگر شاید وہی عورت مریم کی زندگی میں اس کی پہلی باضابطہ محبت بن گئی تھی۔دو سال تک وہ دونوں ساتھ رہے، مگر پھر اچانک کسی دن معلوم ہوا کہ اس عورت کو کوئی عجیب و غریب بیماری ہے، جس کے چلتے چند ہی دنوں میں اس کا انتقال بھی ہوگیا۔اب مریم کی عمر قریب ستائیس برس تھی۔اس نے اپنی مرحوم محبت کو زندہ رکھنے کے لیے تین سال تک اسی شہر میں رہ کر کام کیا، مگر ایک رات د ل پر ایسی اداسی کا غلبہ ہوا کہ وہ اگلے ہی دن اس شہر چھوڑ کر ایک پہاڑی مقام پر چلی گئی۔وہاں اس نے اپنے جمع شدہ پیسوں سے اپنا چھوٹا سا کاروبار شروع کیا۔یہ ایک چھوٹا سا ریستوراں تھا، جو چائے ناشتے کے لیے مخصوص رکھا گیا، اس لیے دن بھر کہر آلود پہاڑی فضاوں میں آتے جاتے سیاح اس ریستوراں پر جمع ہوتے رہتے۔نتیجہ یہ ہوا کہ دو سال میں کاروبار اچھا خاصا چل پڑا۔مریم نے بہت سوچ بچار کرکے نزدیک کے ایک پرانے ہوٹل کو قسطوں پر خرید لیا۔اس کی ترقی اور موجودہ مالی حیثیت کے اعتبار سے اس کے پروجیکٹ پر ایک نیم سرکاری بینک نے اسے اچھا خاصا لون دے دیا اور اس طرح وہ کھنڈر نما ہوٹل سیاحوں کے ٹھہرنے لائق بنادیا گیا۔ اس ہوٹل میں قریب بیس بائیس کمرے تھے۔نئے شادی شدہ جوڑے سے لے کر غیر ملکی سیاح سبھی یہاں ٹھہرنے لگے اور کبھی کبھی تو سکولوں کالجوں کے طالب علموں کا کوئی گروپ جب ادھر کا چکر لگاتا تو اس کے وارے نیارے ہوجاتے۔دیکھتے دیکھتے ایسی کچھ تنظیموں سے اس کا رابطہ ہوگیا جو مختلف شہروں سے سیاح بٹور کر لاتے اور اس کے ہوٹل میں ان کے قیام کا انتظام کرواتے۔مزید تین برسوں میں نہ صرف اس کا سارا قرض ادا ہوگیا بلکہ اب وہ ایک او ر ہوٹل خریدنے کا ارادہ کررہی تھی، قریب تیس چالیس افراد کا عملہ ہوٹل اور ریستوراں کو ملا کر کل وقتی یا جز وقتی طور پر اس کے یہاں ملازم تھا۔

اتنے برسوں میں کبھی بھی مریم نے اپنے گھروالوں سے دوبارہ بات نہیں کی تھی، بہت سے لوگوں کواس کا مذہب بھی پتہ نہیں تھا، وہ ایسی خاص مذہبی تھی بھی نہیں،نہ اس کے ریستوران اور ہوٹل میں کوئی ایسی مورتی یا تصویر تھی، جس سے اس کے مذہب کا کوئی اندازہ لگایا جاسکتا۔البتہ وہ پڑھنے کی بہت شوقین تھی۔گورا چٹا رنگ تھا، بدن چھریرا، بال ہلکے سنہری مائل، ہونٹ گہرے گلابی اور پچھلے کئی برسوں سے پہاڑی مقام پر ایک یوگا کلاس میں مستقل جانے کے سبب اس کے چہرے اور بدن کی جلد بالکل تنی اور چمکدار تھی۔اب سوال یہ ہے کہ دو مصروف ترین عورتیں اس وقت اس عمارت کے اکیلے کمرے میں کیسے اکٹھا ہوگئی تھیں۔بات یہ تھی کہ پہلی دفعہ شاردا سے مریم کی ملاقات ایک معمولی سے جھگڑے کے سبب ہوئی تھی۔شاردا کسی بات سے خفا ہوکر ہوٹل کے مینجر کو بلانے پر رات کے ڈھائی بجے اڑ گئی تھی، جب مریم، جو کہ اپنے ہوٹل کی مینجر بھی تھی، تڑکے چھ بجے وہاں پہنچی تو اسے پتہ لگا کہ کمرہ نمبر گیارہ میں جو خاتون ٹھہری تھیں وہ کمرے کی حالت سے خوش نہیں تھیں، چنانچہ فی الوقت ان کا روم بدلوادیا گیا ہے، مگر وہ آپ سے ملاقات کرنا چاہتی ہیں۔ دھڑکتے ہوئے دل کے ساتھ مریم اس عورت سے ملی، کیونکہ ایسا اور اتنا ناخوشگوار واقعہ پہلے کبھی پیش نہیں آیا تھا، اس لیے اس کے دل میں خوف اور ایک نئے تجربے کا احساس شور مچارہا تھا۔لیکن جب تک وہ شاردا سے ملی، شاردا کا غصہ ٹھنڈا ہوچکا تھا۔

پہلی نظر کی محبت پر یقین کم ہی ہوتا ہے، مگر ایسا نہیں کہ یہ چیز دنیا میں ناپید ہے،بہت سے ایسے لوگ ہیں، جنہیں پہلی بار دیکھنے پر دل اتنی زور سے دھڑک اٹھتا ہے جیسے اچھل کر حلق میں آبیٹھا ہو۔بعض دفعہ ایسی محبتوں کی عمر بس اسی لمحے تک محدود رہ جاتی ہے، مگر ایسا بھی ہوتا ہے کہ یہ پہلا خوف میں ڈوبا ہوا خوشی سے بھرپور لمحہ زندگی کے آخری چھور تک ساتھ ساتھ چلا آئے، خاص طور پر تب، جب ایک ہی وقت میں دو دل اچھل کر حلق میں آبیٹھے ہوں۔ اس سے پہلے کہ شاردا کچھ کہتی، مریم نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا، برابر میں بٹھایا اور آنکھوں میں آنسو بھر کر اپنی زندگی کی ساری روداد اسے ایک ہی سانس میں سنادی۔ اس بات نے ان دونوں کا رشتہ اور گہرا کردیا۔وہ دونوں ہی عورتیں اپنا اپنا کاروبار چلا رہی تھیں، حالانکہ کسی کام کے سلسلے میں شاردا کو اس ہوٹل میں ٹھہرنا پڑا تھا، جسے وہ اپنی شان سے بہت کم آنک رہی تھی اور بظاہر کمرے کی ہر چیز ٹھیک ہونے پر بھی اسے کسی قسم کی کمی کا احساس ہورہا تھا۔وہ دل ہی دل میں اس کلائنٹ کو کوس رہی تھی، جس کی وجہ سے اسے سردی کے اس موسم میں یہاں کی کہر آلود فضا میں اترنا پڑا تھا اور سیاحوں کی زیادتی اور پہلے سے کوئی بکنگ نہ ہو پانے کی وجہ سے اس کھٹارا ہوٹل میں ٹھہرنا پڑا تھا۔ شاردا اپنے رتبے کے اعتبار سے زیادہ تر خاموش ہی رہا کرتی تھی، وہ ان عورتوں میں سے تھی، جن کی خود اعتمادی ایسی بلا کی ہوتی ہے کہ بڑے سے بڑا مرد ان سے بات کرتے ہوئے خوف کھاتا ہے۔یہی وجہ تھی کہ زندگی کی پینتیس سے زائد بہاریں دیکھنے کے باوجود کسی مرد کی اتنی ہمت نہیں ہوتی تھی کہ آگے بڑھ کر اس سے اظہار محبت کرسکے۔

وہ پیدائشی رئیس تھی، اس لیے اس کی آن بان میں، چال ڈھال میں ہر طرح سے ایک قسم کی امارت ٹپکتی تھی۔ چہرے پر ایسا سرمئی تیج تھا اور آنکھیں اتنی گھنی کالی کہ بعض دفعہ اس کے دیکھ لینے بھر سے ہی اس کے قریبی سٹاف کی جان سوکھ جاتی تھی۔یہی وجہ تھی کہ اس نے خود بھی کسی کو اپنے برابر آنکا ہی نہیں،اور اس کی اس بارعب زندگی میں محبت کے چھینٹے اب تک پڑے ہی نہیں تھے۔مگر مریم سے اس کی محبت کا احساس اتنا یقینی اور گہرا تھا کہ وہ اسے چاہ کر بھی جھٹلا نہیں سکی۔دیکھتے ہی دیکھتے ان دونوں کے درمیان نہ صرف جسمانی بلکہ گہرا جذباتی تعلق قائم ہوگیا۔مگر جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ کچھ لوگ محبت میں اپنی تحکمانہ روش کو ترک نہیں کرسکتے،شاردا بھی اسی قسم کی عورت تھی۔وہ خود بھی جانتی تھی کہ مریم تیزی سے ترقی کرنے کے باوجود اس کی بھنووں کی جنبش تک سے اندر تک ہل جاتی تھی، کسی بات پر شاردا کے ماتھے پر بل نہ پڑجائیں، کوئی شکن تک نہ آجائے، اس لیے وہ ہر بات میں اتنی احتیاط برتتی کہ بعض دفعہ اپنے دل میں اپنی ہی غلامانہ روش پر شرمندہ ہوجاتی مگر اگلے ہی لمحے شاردا کا سنجیدہ چہرہ، اس کی کالی آنکھیں اور گھنے بال مریم کے خیال کے میدان میں اتر کر اس احساس شرمندگی کا ایسا صفایا کرتے، گویا اس نے کبھی وہاں جنم ہی نہ لیا ہو۔

مریم نے چیخوف کی کہانی ‘محبت کے بارے میں’ کئی بار پڑھی تھی۔ اور وہ اس بات سے اتفاق رکھتی تھی کہ محبت میں خود سپردگی کا جذبہ اتنا شدید ہوتا ہے کہ بعض دفعہ ایک پڑھی لکھی، مہذب اور خوبصورت خاتون کسی ان پڑھ باورچی کی مارپیٹ سہنے تک پر خود کو راضی کرلیتی ہے۔شاردا تو خیر ایک بہت اعلی ٰ درجے کی خاتون تھی، کبھی کبھی مریم یہ بات سوچ کر فخر سے بھر جاتی کہ اخباروں میں جب ملک کے اعلیٰ ترین معماروں کے نام چھپتے ہیں تو ان میں ایک نام اس کی معشوقہ کا بھی ہوتا ہے۔مانا کہ وہ شادی شدہ ہے، اس کی ایک مصروف زندگی ہے، مگر ہر تین مہینے میں ایک دفعہ وہ یہاں آتی ہے، کبھی ایک تو کبھی دو روز کے لیے، اور آپ شاید یقین نہ کریں مگر ان دو دنوں کی اطلاع ملتے ہی ہوٹل میں ان دنوں کی کوئی بکنگ نہیں کی جاتی۔پورا ہوٹل صرف ایک عورت کے لیے بک ہوتا تھا،سٹاف ان کی دیکھ ریکھ کرتا، چہ میگوئیاں بھی۔مگر وہ پہاڑی درمیانہ درجے کے لڑکے لڑکیاں چاہے کچھ بھی بکیں، ان کی اوقات ان دو صاحب حیثیت عورتوں کے سامنے کیڑے مکوڑوں جیسی بھی نہیں تھی۔چنانچہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی ان کی نگاہیں نیچی رہتیں۔ اس بات کو اخلاقی طور پر برا سمجھتے ہوئے بھی وہ اس لیے اس موقع کا انتظار کرتے تھے کیونکہ مریم انہیں ان دنوں کے لیے خصوصی طور پر بونس دیا کرتی تھی۔شاردا کی پسندیدہ مخصوص ڈشیں یا تو بنوائی جاتیں یا کسی ہوٹل سے انہیں بنوا کر یہاں لایا جاتا۔ہر کام وقت پر ہوتا، ذرا چون و چرا نہ ہوتی۔ اس بھید بھری محبت میں بھی اک جرم کی لذت کا سا احساس شامل تھا، جو ان دونوں عورتو ں کو اندر سے شرابور کردیتا۔ان کے اعتماد کو بڑھاتا اور ان کی تشنہ کامی کو اگلے تین مہینوں کے لیے جڑ سے اکھاڑ پھینکتا۔اس ایک یا دو دنوں کے موقعے میں ہونے والی ان کی محبت اتنی شدید اور ایسی والہانہ ہوتی کہ مریم کو کئی دفعہ شاردا کی ایذادہی کی وجہ سے جوزف کا خوفناک چہرہ یاد آجاتا، مگر یہ بڑا نفسیاتی بھید تھا کہ جس ایذارسانی کے خوف سے بھاگ کر، اتنا لمبا سفر کرکے وہ شاردا کی بانہوں تک پہنچی تھی، وہاں یہی ایذادہی اس کو لذت پہنچاتی تھی۔بہرحال بھید کچھ بھی ہو، مگر ان کا رشتہ چلتا جارہا تھا، بالکل کسی آبشار کی طرح رواں دواں۔

قریب پانچ سال کے عرصے میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ شاردا نے تین مہینوں میں ایک دفعہ ادھر کا چکر نہ لگایا ہو۔جب رات کو ایک بھرپور وصل کے بعد وہ دونوں ایک دوسرے سے لپٹی ہوئی یا علیحدہ لیٹتیں تو دنیا بھر کے ادب اور لیکھکوں کا ذکر نکل آتا۔کبھی شاردا کہتی۔

‘مریم! میں سمجھ نہیں پاتی کہ تمہاری آنکھوں میں موجود ہروقت کی یہ اداسی کیسی ہے؟’
مریم جواب میں پوچھتی’کیسی اداسی شاردا’
‘تکمیلیت کی اداسی، ایسی اداسی جو یاسوناری کاواباتا کے کرداروں کے یہاں ہوتی ہے، جو اس کی کہانیوں کی خاصیت ہے۔’
‘شاید سرد علاقے میں رہنے کا اثر ہے۔’مریم جواب دیتی۔

اور اسی طرح جب وہ بچھڑتے تو ضرور کوئی نہ کوئی کتاب مریم شاردا کو تھمادیتی۔اور اتفاق یہ تھا کہ وہ ایسی ہی کوئی کتاب ہوتی جو شاردا نے کبھی اس سے پہلے پڑھی نہ ہوتی۔یہ کتاب ہمیشہ ملفوف ہوتی تھی، شاردا ہمیشہ کتاب ملتے ہی کھولنے لگتی تو جواب میں مریم کہتی۔’تم اس معاملے میں اتنی بے صبر کیوں ہو؟ میں چاہتی ہوں یہ کتاب تم پلین میں بورڈ ہونے کے بعد دیکھو۔اور اتنی آہستگی سے اسے کھولو، جیسے یہ کتاب نہیں، ریمنڈ چینڈلر کے کسی ناول کی گتھی ہے۔’

اور جواب میں شاردا مسکرادیتی۔

(2)

اس بار شاردا کے آنے سے پہلے ہی ایک وبائی مرض پورے ملک کو دھیرے دھیرے اپنی لپیٹ میں لے رہا تھا۔جولائی کا موسم آتے آتے ایک طرف زوروں کی برساتیں شروع ہونے والی تھیں، دوسری طرف ایسی سن گن تھی کہ پورے ملک میں لاک ڈاون لگنے والا ہے۔اور ہوا بھی یونہی، جس دن شاردا آنے والی تھی، ہوٹل اس سے ایک روز پہلے ہی سنسان ہوگیا تھا۔قریب دو ایک کمروں میں لوگ ٹھہرے ہوئے تھے، مگر سرکاری ہدایتوں کے مطابق ان سے بھی اگلے روز تک ہوٹل خالی کرنے کی درخواست کی گئی، اور پورے ہوٹل کو جراثیم کش کیمیکل کی مدد سے صاف کرنے کا کا م ہوا۔شاردا کی آمد والے دن صبح سے ہی ہلکی ہلکی برسات ہورہی تھی، طے یہ ہوا تھا کہ شاردا اس بار تین روز رکے گی، اور مریم کے اصرار پر یہ بات گزشتہ ملاقات پر ہی طے ہوگئی تھی۔چنانچہ جب شاردا پہنچی تو اس روز یونہی ہوٹل خالی ہوچکا تھا۔باہر ‘نو روم’ کا بورڈ تو لگا ہی دیا گیا تھا، ساتھ ہی ساتھ سٹاف کے بھی اب چند لوگوں کو چھوڑ کر باقی کو چھٹی دے دی گئی تھی۔

لاک ڈاون لگنے سے دو دن پہلے وزیر اعظم نے جنتا کرفیو کا اعلان کیا تھا، یہ ایک ایسا کرفیو تھا، جس میں سرکاری طور پر کسی قسم کا دباو نہیں تھا، مگر لوگوں سے یہ اپیل کی گئی تھی کہ وہ ملک بھر میں اپنی ذمہ داری نبھاتے ہوئے خود ہی صبح سے رات گئے تک گھر سے نہ نکلیں، اس بات سے بھی مریم کو اندازہ ہوگیا تھا کہ دو چار روز میں مکمل لاک ڈاون لگنے ہی والا ہے۔ ویسے تو ہوٹل کے آخری فلور پر، جو چھوٹا سا گودام تھا، اس میں اگلے چھ مہینے کے راشن کی تقریبا تمام چیزیں جمع تھیں، پھر بھی ایک نظر دیکھ کر جن چیزوں کی کمی محسوس ہوئی، انہیں اگلے دو یا تین مہینوں کے حساب سے منگواکر جمع کرلیا گیا۔ان مصروفیات سے نمٹنے کے ساتھ ساتھ مریم کے دل میں یہ خوشی کہیں اندر ہلچل مچارہی تھی کہ شاید جیسا کہ خبروں میں دکھایا جارہا ہے، اگلے اکیس دن تک اگر لاک ڈاون نافذ کردیا گیا تو اس کو شاردا کے ساتھ اس بار کتنے لمبے عرصے کے لیے رہنے کا موقع ملے گا۔اس بات کا خیال آتے ہی اس کے گالوں میں سرخی دوڑ جاتی اور کنپٹیاں تک محبت کے اس عظیم عرصے کی تیاری میں جوش سے سرخ ہواٹھتیں۔

بہرحال ہوا بھی ٹھیک مریم کی توقعات کے مطابق، شاردا کے آنے کے اگلے دن ہی ملک میں اکیس دنوں کا لاک ڈاون نافذ کردیا گیا۔وبا نہ پھیلے، اس لیے لاک ڈاون میں ٹرینوں اور پلینوں کی کہیں بھی آوا جاہی پر سختی سے پابندی لگادی گئی۔مال گاڑیوں اور کارگو پلینز کے علاوہ کسی کو کہیں بھی جانے کی اجازت نہیں تھی، ساری ریاستوں کے بارڈر سیل کردیے گئے۔ سرکاری سطح پر ایک ایک بات کا دھیان رکھا جارہا تھا، انٹرنیشنل فلائٹس تو ایک ہفتے پہلے ہی بند ہوچکی تھیں، مگر ان کے ذریعے بھی جو لوگ آئے ان کی ایئرپورٹ پر سکریننگ کی گئی اور انہیں ہدایت کی گئی کہ اپنے گھروں میں کم از کم چودہ دن کے لیے خود کو کوارنٹین کرلیں۔وائرس چونکہ نیا نیا تھا، اس لیے سوشل میڈیا کے ذریعے بہت سی افواہیں بھی گرم ہورہی تھیں۔ادھر شاردا کو بھی معاملے کی مکمل جانکاری تھی، اتنا سب کچھ ہونے پر بھی اس نے مریم سے ملنے کا ارادہ ترک نہیں کیا تھا، وہ بھی اس بات کی وجہ سے دل ہی دل میں کہیں مسکرارہی تھی کہ ان دونوں کو پہلی بار ایک دوسرے کے ساتھ لمبے وقت تک رہنے کا موقع میسر آئے گا۔اس کے شوہر نے بھی اس بار، جس کے ساتھ اس کے رشتے کی ناچاقی بہت پرانی تھی، اسے ایسے وقت میں جانے سے روکنا چاہا، مگر وہ نہیں رکی۔حالانکہ وہ اور اس کا شوہر اب علیحدہ رہتے تھے، مگر پھر بھی جتنا زور وہ فون پر ڈال سکتا تھا،اسے جتنا سمجھا سکتا تھا، اس نے کوشش کرکے دیکھ لی، مگر شاردا نے اس کی ایک نہ سنی۔وہ کبھی جھگڑا نہیں کرتی تھی، تمام باتیں سن کر بس کہہ دیتی’آئی ول تھنک اباوئٹ اٹ!’

اور یہ جملہ کچھ اس انداز میں کہا جاتا کہ سننے والے کو سمجھ میں آجاتا کہ شاردا کا جواب کیا ہے۔کیونکہ عام طور پر اس کے آس پاس موجود لوگ جانتے تھے کہ وہ جھٹ پٹ فیصلے کرنے والی ایک خود مختار عورت ہے۔اپنی صحت کا بھی بھرپور خیال رکھتی ہے، مگر اس بار اس کے شوہر کو حیرت ہورہی تھی کہ اچانک اسے اپنی زندگی سےایسی کیا بیزاری ہوگئی کہ وہ اتنے خراب وقت میں بھی گھر پر رکنے کو تیار نہیں۔شاردا کے شوہر کو آخری وقت تک یہی لگتا رہا کہ شاید وہ اسے تکلیف پہنچانے کی غرض سے ایسا کررہی ہے، اور عین وقت پر کہیں نہیں جائے گی، مگر جب اس کے جانے کی اطلاع ملی تو اس نے سوچا،عورت کا ارادہ پختہ ہوتا ہے، وہ مرد کی طرح ڈانواڈول نہیں ہوتا، عورت اپنی روحانی اور ذہنی ساخت میں اتنی مضبوط ہے کہ چاہے کسی کے قتل کا ارادہ کرلے یا خودکشی کا، جب تک وہ اس عمل کو انجام نہیں دے لے گی، تب تک اسے اطمینان نہیں ہوگا، بعض لوگ کہتے ہیں کہ وہ عقل سے کام لیتی ہے، بعض کہتے ہیں کہ جذبات سے۔لیکن عورت ایک ایسی واحد ہستی ہے، جو شدید سے شدید جذباتی لمحوں میں بھی عقل کا بھرپور استعمال کرتی ہے۔

شاردا نے ایئرپورٹ سے مریم کے ہوٹل کے لیے ٹیکسی لی۔ویسے بھی پہاڑی راستوں پر شہروں کی کشادہ سڑکوں جیسا ہنگامہ اور شور کم دیکھنے کو ملتا ہے۔مگر دھیمی رفتار سے چلتا ہوا ٹریفک اونچائیوں پر اکثر نظر آجاتا ہے۔مگر اس بار واقعی راستے کافی صاف تھے، پانی ہلکا ہلکا برسے جارہا تھا، اس نے پچھلی کھڑکی کو تھوڑا سا کھول کر باہر کی پھوار میں آنکھوں کو بھگونا شروع کردیا۔تیز ہوا کے سرد جھونکے، اس کے چہرے کو اپنی ان دیکھی بانہوں میں سمیٹ لیتے، بال حالانکہ بندھے ہوئے تھے، پھر بھی جو لٹیں ادھر ادھر سے ملیں، انہیں ان جنگلی ہواوں نے بکھیرنا شروع کردیا۔کئی بار ماتھے اور آنکھوں پر بال آجاتے، جنہیں اسے چارانگلیوں کی مدد سے ایک طرف کرنا پڑتا۔دائیں بائیں انسانی مشقت کے بل پر تراشی ہوئی پہاڑیوں کے منظر اس کی ناف میں ہمیشہ ہی گدگدی پیدا کردیتے تھے،کہیں کہیں برابر بہتے ہوئے دریا کا بدن بالکل کسی سانپ کی طرح لچکیلا اور گہرا کاہی ہوجاتا۔پانی میں سے جھانکتے ہوئے پتھر اور ان کی گول چکنائیوں کو دیکھ کر اسے مریم کے پستانوں کا خیال آجاتا۔کہیں راستے میں کوئی لکڑی کا چھوٹا سا پل مین سڑک کو کسی پہاڑی کے چھور پر بنے چھوٹے سے سکول سے جوڑتا تھا، لکڑی کا یہ چرمراتا ہوا پل، دیکھنے میں بالکل کسی مصنوعی بیل کی طرح لگتا، جس کے نیچے کل کل بہتی ہوئی لہریں پہاڑوں کے مضبوط دامن میں اس چھوٹی سی انسانی کوشش پر کلکاریاں مارتی، لطیفے گڑھتی، سرگوشیوں میں پل کی کمزوری پر رائے زنی کرتی اور اونچی آواز میں ہواوں کی ہمت کو للکارتی ہوئی گزرتی معلوم ہوتی تھیں۔

شاردا اور مریم کی ملاقات کی اس رات زیادہ باتیں نہیں ہوسکیں۔مریم ہوٹل کے کچھ ضروری کاموں میں مصروف تھی اور شاردا کو بھی ایک کمرے میں اپنا چھوٹا سا سیٹ اپ تیار کرنا تھا تاکہ اگلے دن سے، وہ یہیں سے آن لائن ویڈیو کالنگ کی مدد سے سارا کام کاج دیکھ سکے۔جب ملازمین کی مدد سے سارے کام طے پائے گئے تو رات کو ان دونوں کی ملاقات ہوئی، مگر تھوڑی بہت جنسی مشقت کے بعد وہ دونوں تھک کر چور ہوگئیں اور ایسی پڑ کر سوئیں کہ اگلی دوپہر بارہ ساڑھے بارہ بجے کے قریب ان کی آنکھ کھلی۔ اتنی دیر ہونے کی وجہ سے شاردا فوراً برابر کے کمرے میں، جو کہ اب اس کا عارضی دفتر تھا، چلی گئی۔اس کا ناشتہ بھی وہیں بھجوادیا گیا۔مریم نے باہر کا منظر دیکھا، کل رات سے برسات ایک ہی دھج سے ہوئی جارہی تھی، اس کی رفتار اب نہ بہت زیادہ تھی، نہ بہت کم۔مگر اتنا ضرور تھا کہ سڑک پر چلتے ہوئے اکا دکا لوگوں کی چھتریاں ہوا سے الٹی ہوئی جارہی تھیں اور معلوم ہوتا تھا کہ کھڑکی سے برسات جتنی خوبصورت اور معصوم نظر آرہی ہے، سڑک پر اتنی ہی منہ زور اور بے لگا م ہوچلی ہے۔بہرحال فریش ہوکر جب وہ کچھ دیر کے لیے اپنے دفتر جارہی تھی، تو اس نے دو لمحے کان لگا کر شاردا کے کمرے سے آتی ہوئی اس کی دھیمی مگر تحکمانہ آواز سنی، وہ کسی کو ہدایتیں دے رہی تھی، ‘اف یہ آواز!’ مریم نے ایک آہ بھری اور وہ نیچے کے کمرے کی طرف لپک گئی۔

(3)

اسی رات ٹیلی ویژن پر وزیر اعظم نے خود آکر ملک بھر میں اگلے دن سے اکیس روز کے سخت گیر لاک ڈاون کا اعلان کردیا۔یہ خبر ان دونوں نے ساتھ ہی میں دیکھی۔حالانکہ شاردا نے لاکھ چھپانا چاہا، مگر اس کے چہرے کی سرخی مریم کی آنکھوں سے چھپ نہ سکی۔ شام سے برسات کا زور بھی بڑھ گیا تھا۔اور اس وقت وہ دونوں قریب بارہ بجے، ڈائننگ روم میں بیٹھے، پہاڑ وں کے دامن میں لکڑی اور پتھر کے بنی ہوئی اس ہوٹل کی عمارت میں اپنی رومانی خلوت کا لطف لے رہے تھے۔ شاردا نے ایک نظر باہر دیکھتے ہوئے کہا، ‘آج موسم بڑا خوفناک ہے۔’اور اسی بات سے خوفناک قصوں، ہیبت ناک یادوں اور بھوتوں، پریتوں کی باتوں کا سلسلہ چل نکلا۔ایڈگر ایلن پو، بورخیس، کافکا، پارلاگر کوئست سے لے کر سٹیفن کنگ تک کا ذکر آیا۔روسی کہانی کاروں کی بات چل پڑی تو بہت دیر تک گوگول کی مشہور کہانی اوورکوٹ کا ذکرہوا۔میخائل بلگاکوف کے ناول ماسٹر اینڈ ماگریٹا کے مافوق العقل قصوں کی داستان چھڑی، دوستوئفسکی کے ناول برادرز کراموزوف میں موجود مذہبی ماورائی قصوں کی بات بھی ہوئی اور اس طرح ہوتے ہوتے روسی فکشن اور شاعری کے سب سے بڑے استاد پوشکن کی کہانی ‘حکم کی رانی’ کا ذکر نکل آیا۔

مریم نے ہلکی نائٹی پہن رکھی تھی، اور گہری اودی رنگ کی ا س نائٹی میں سے چھلکتے ہوئے اس کے گورے پستانوں کو دیکھ کر شاردا کو پہاڑی ندی سے جھانکتے گول پتھروں کی ایک بار پھر یاد آگئی۔وہ جب کسی بات پر ہنستی تو اس کے دانتوں سے داڑھوں تک کی سفید قطار اور منہ میں سے جھانکتا ہوا گلابی غار، گہری عنابی زبان اوراس پر چمکتی ہوئی لعاب کی تھیلی شاردا کو اندر تک سرشار کردیتی۔انسانی بدن کے اس راز اور اس سے ہونے والے نفسیاتی اثر کی جنگلی خواہشیں شاردا پر جیسے نشہ طاری کررہی تھیں۔لیکن اسی وقت مریم کی کھنکھتی ہوئی آواز اس کے کانوں میں پڑی۔

‘تم نے کئی بار اپنی دادی کا ذکر چھیڑا اور بتایا کہ وہ بڑی پراسرار اور دلچسپ شخصیت تھیں، مگر کبھی ان کے بارے میں بتایا نہیں، آج موقع ہے، کیا تم مجھے ان کے بارے میں تفصیل سے بتاسکتی ہو؟’

‘کیا تمہیں میں نے بتایا ہے کہ میرا نام انہی کے نام پر رکھا گیا ہے؟ یہ بات بہت کم لوگوں کو پتہ ہے، شاید میں نے اس کا ذکر پہلے کیا ہو۔’
‘ہاں! تم نے ایک دو دفعہ ذکر کیا ہے۔اسی وجہ سے میری جستجو کو مزید پر لگ گئے ہیں۔’
شاردا کچھ دیر تک مریم کو بالکل مبہوت ہوکر دیکھتی رہی۔جیسے سوچ رہی ہو کہ وہ بات کہاں سے شروع کرے۔پھر اس نے پاس رکھی پانی کی بوتل کھول کر ایک بڑا سا گھونٹ بھرا اور بات شروع کی۔
‘حالانکہ میں کوئی اچھی قصہ گو نہیں ہوں، لیکن میں تمہیں اپنی دادی کی روداد انہی کی زبان میں سنانا چاہوں گی، مگر اس سے پہلے یہ جان لو کہ یہ بات کسی کو پتہ نہیں، ہمارے درمیان بھی آج اس کا پہلی اور آخری بار ذکر ہورہا ہے۔چونکہ یہ بھید تین انسانی زندگیوں سے متعلق ہے،او ر وہ تینوں اپنے زمانے کی باعزت شخصیات تھیں، اس لیے میں چاہتی ہوں کہ تم اس کہانی کو سن کر اپنے سینے میں ایسے دفن کرلو، جیسے میرے من کی مٹھی میں تمہاری محبت ہے۔’
مریم نے آنکھوں ہی آنکھوں میں ہامی بھری۔شاردا نے مزید کہا۔

‘میری عمر قریب اٹھارہ برس ہوگی، میں ان دنوں بی ایف اے کے سکینڈ ائیر میں تھی۔ہاسٹل میں رہ رہی تھی کہ ایک روز پاپا لینے آن پہنچے، پتہ چلا کہ دادی کی طبیعت کافی خراب ہے اور انہوں نے گھر کے ہر فرد کو ملنے کے لیے بلایا ہے، چنانچہ دور و نزدیک کے سبھی رشتے دار جمع ہوئے۔اس رات ہم سب چھوٹے بڑے دائرے بناکر دادی کے بڑے سے بستر کے آس پاس کرسیوں پر بیٹھے تھے، جنہیں کرسیوں پر جگہ نہیں ملی تھی، وہ بلا جھجھک زمین پر بچھے قالین پر بیٹھ گئے۔دادی کے پاس بے انتہا دولت تھی، تم سمجھ ہی سکتی ہو کہ ایک کھانستی ہوئی بڑھیا کے ارد گرد اتنے دنیادار، مصروف ترین لوگ آخر کیا سوچ کر جمع ہوئے تھے، یقینا وہ سوچ رہے تھے کہ دادی اپنی وصیت سنائیں گی، مگر انہوں نے وصیت سے پہلے ایک طویل اور صبرآزما کہانی سننے کا حکم نامہ بھی جاری کردیا تھا۔ایسا لگ رہا تھا جیسے کوئی بوڑھی عورت کسی برگد کے نیچے بنے گول چبوترے پر بیٹھی کہانی سنانے جارہی ہو اور اس کے آس پاس کہانی کے شوقین اور مشتاق بچوں کا جمگھٹا لگ گیا ہو۔موسم سردی کا تھا، رات کا قریب یہی دس سوا دس بجا ہوگا، مگر ایسا لگتا تھا جیسے صبح کے تین بج رہے ہوں۔ دادی کا رعب اور رشتہ داروں کا اشتیاق ایسا لائق دید تھا اور اتنی خاموشی تھی کہ سوئی بھی گرے تو صاف آواز سنائی دے۔ادھر باہر سردی میں کوئی پنچھی چیختا ہوا گزرا اور ادھر دادی کے لب گویا ہوئے۔

(4)

تم سب لوگ جانتے ہو کہ میں نے اپنی زندگی نہایت کھرے اصولوں پر بتائی ہے۔روپے پیسے کی فراوانی ہونے کے باجود مجھے ان سے کبھی اتنی محبت نہیں رہی کہ میں انہیں کلیجے سے لگا کر رکھتی۔پیسا ویسے بھی انسانی زندگی کا آخری مقصد نہیں ہوسکتا، جیسا کہ میرے بابا کہتے تھے۔وہ صرف انسانی سہولتوں کو بڑھاتا ہے، اصل چیز ہے انسان کا خوش رہنا۔آدمی من سے ہی امیر یا غریب ہوتا ہے۔ اور میری نگاہ میں امارت کی سب سے بڑی مثال ایک بھرپور محبت ہے، جس کے لیے میں زندگی بھر ترستی رہی۔مجھے معلوم ہے کہ تم لوگ سوچو گے کہ تمہارے والد یا دادا مجھ سے بے انتہا محبت کرتے تھے۔لیکن میرے بچو! انسانی زندگی بہت انوکھی اور مخفی ہے۔تم سب نے جو دیکھا، میں نے اس سے بہت کچھ الگ، بہت کچھ ڈراونا دیکھا ہے۔اپنے شوہر کے چہرے سے جب ڈرتے ڈرتے میں نے نقاب اٹھایا یا کہوں نوچ پھینکا تو میرا کلیجہ چھلنی ہوگیا، روح زخمی ہوگئی اور اس بھیانک حقیقت کو برداشت کرنا میرے لیے ناممکن ہوگیا، جس کے سامنے آتے ہی دنیا میری نظروں میں کچھ دنوں کے لیے اندھیر ہوگئی۔اور پھر اسی اندھیرے میں میرے وحشی اور جنونی دل نے ایک فیصلہ کیا۔ایک نہایت خطرناک اور عقل کی تمام منطقوں سے ماورا ایک فیصلہ۔جس نے مجھے خود اپنے بارے میں بہت کچھ بتایا، اور اس راز کو من میں ڈھوتے ڈھوتے اپنے ہی خوف کی پرتیں اتارتے اتارتے آج میں اتنی تھک گئی ہوں کہ مجھے یقین ہوچلا ہے کہ میری جان لینے کے پیچھے میرا یہی غم اور میرا یہی احساس گناہ ہے۔مگر اس سب کے باوجود مجھے اپنے کیے پر کوئی پچھتاوا نہیں ہے، کوئی دکھ نہیں ہے۔میں نے جو کچھ کیا، اس کی قیمت ادا کرنے کے لیے میں تیار تھی اور سچ پوچھو تو میں نے اس کی قیمت چکائی بھی۔میرے بچو! تم جب اس بوڑھی عورت کو دیکھتے ہو، جسے دنیا شاردا دیوی کہہ کر بلاتی ہے، لوگ ہاتھ جوڑے، ہاتھ باندھے جس کے آگے پیچھے دوڑتے ہیں، جس کو دولت و زر کی نہ کوئی کمی ہے اور جس کے پاس ایک بھرے پرے خاندان کی سچی محبت بھی ہے۔تب تم نہیں جانتے کہ اس کی روح پر ایک گہرا گھاو ہے! ایک بوجھ ہے جو یہ بڑھیا اپنے ناتواں کندھوں پر لیے لیے پھررہی ہے اور اب تھک کر اس گٹھری کو آج اپنے سر سے اتاردینا چاہتی ہے۔شاید وہ بات جسے آدمی کا اندرون قبول نہ کرے، ایک ایسی ہی چیز ہے، جسے باہر نہ نکالا جائے تو وہ ٹیومر کی طرح اندر ہی اندر پھیلتی جاتی ہے۔حالانکہ، اب بہت دیر ہوچکی ہے،لیکن پھر بھی(تھوڑی دیر خاموش رہ کر انہوں نے پھر کہنا شروع کیا) میں چاہتی ہوں کہ تم سب میری اس بیماری کے بارے میں جان لو، شاید یہ بات تمہاری زندگیوں میں کبھی اور کہیں کام آسکے۔

یہ غالبا انیس سو اکیاون کے آس پاس کی بات ہے، میری عمر اس وقت یہی کوئی پینتیس برس کی رہی ہوگی۔ تب تک میری شادی نہیں ہوئی تھی۔میں ان دنوں کی ان بے حد غیر معمولی خواتین کی فہرست میں شمار کی جاسکتی تھی، جو نہ صرف بیرون ملک اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے آئی ہوں بلکہ اب اپنے والد کےساتھ مل کر ملک بھر میں پھیلا ہوا اپنا کاروبار سنبھال رہی ہوں۔اس وقت تک ہم نے کوئلے اور پتھروں کے کاروبار میں ہاتھ نہیں ڈالا تھا۔ہمارا کاروبار مختلف قسم کی لکڑیوں کی سپلائی پر منحصر تھا اور ساتھ ہی ساتھ بہت سے کپڑوں کے کارخانے اور کچھ حد تک نئی نئی پولٹری فارمنگ بھی ہم نے شروع کی تھی۔ایسا نہیں تھا کہ میرے لیے لڑکوں کے رشتے نہ آتے ہوں، مگر میں انہیں کسی نہ کسی بہانے سے نظر انداز کردیتی تھی، بابا نے کبھی کوئی زور زبردستی نہیں کی، باقی لوگوں نےبھی دباو نہیں ڈالا۔

میں اکثر لوگوں سے چھپ چھپا کر انگریزی، ہندی اور اردو کی رومانی کہانیاں پڑھا کرتی تھی۔کچھ پرانے ہندی، اردو ڈائجسٹ تو شاید اب بھی میری ذاتی لائبریری میں تمہیں مل جائیں گے، جنہیں بند ہوئے ایک مدت ہوگئی ہے۔انہی کہانیوں کا اثر تھا کہ میری زندگی میں محبت کی کمی کا احساس بہت بڑھ گیا۔میرے پاس سب کچھ تھا، وسائل بھی، لوگ بھی۔مگر کوئی ایسا شخص آس پاس نظر نہ آتا، جس سے میرے دل کی وابستگی ممکن ہو۔اور پھر ایک روز تمہارے دادا سے میری ملاقات ہوئی۔شاید تم سبھی لوگوں کو علم ہو کہ تمہارے دادا یا والد مجھ سے قریب دو یا تین سال چھوٹے تھے۔ انہیں ان کے والد کے ساتھ میرے دور کے ایک چچا لے کر آئے تھے۔معلوم ہوا کہ وہ لوگ شرنارتھی ہیں، دو سال پہلے لاہور سے لٹ پٹ کر، بھارت آئے ہیں اور اسی بیچ جو سرمایہ ان کے پاس تھا، اسے اپنے آبائی کام میں لگا کر اور دوسروں سے قرض لے لوا کر انہوں نے اپنے پرانے کام کے لیے جو پیسہ جمع کیا تھا، وہ ختم ہوچکا ہے اور اب ایک طرف قرضدار پیچھے پڑے تھے، تو دوسری طرف کھانے کے بھی لالے ہوگئے تھے۔ تمہارے پر دادا کی حالت بہت غیر تھی، میں نے جب انہیں پہلی بار دیکھا تو ان کی حالت واقعی نازک تھی، پتلے دبلے شریر کے مالک تھے، ایک پھٹا ہوا کرتا پہنے تھے، آنکھیں حالات کے بوجھ اور تقسیم کی بے وقت مار سے تھکن آلود اور ماتھا شکن زدہ تھا۔البتہ تمہارے دادا کی آنکھوں میں دکھ بھی تھا اور اس سے لڑنے کا عزم بھی لیکن جو خاص بات تھی وہ یہ کہ جوانی کی اس دربدری نے انہیں بے حد وجیہ بنادیا تھا۔ان کے گورے ماتھے پر ایک چھوٹی سی لٹ تیر رہی تھی، جسے وہ بار بار اپنی پیشانی سے ہٹاتے، مگر وہ ضدی لٹ دوبارہ وہیں آن پہنچتی۔کمرے میں اس وقت ان دولوگوں کے علاوہ میرے والد، وہی دور کے چچا اور میں موجود تھی۔میرے والد تمہارے پردادا کو سمجھارہے تھے کہ انہوں نے غلط وقت پر غلط کام کے لیے پیسا بازار سے اٹھا لیا ہے۔ان لوگوں کا کام دفتر کے فرش پر جمانے والے پتھروں کی خرید اور بکری کا تھا، اس کے علاوہ وہ ان پتھروں کو فکس بھی کرواتے تھے۔مگر ظاہر ہے کہ ملک نے ابھی ابھی بٹوارے جیسا عظیم نقصان سہا تھا۔چوٹ کھائے، زخمی اور لہولہان بزنس اپنی اپنی کمر سیدھی کررہے تھے، ایسے میں کس شخص کے پاس اتنا فالتو پیسا تھا کہ دفتروں کے فرش ٹھیک کرواتا پھرے۔ تم لوگوں کو شاید ہنسی آئے مگر اس زمانے میں جب کبھی میں دہلی کے اس رو ڈ پر، جسے آج منٹو روڈ کہتے ہیں، اور بومبے کے اس مقام پر جسے باندرہ کہا جاتا ہے، گزرتی تو دیکھتی کہ سڑک سے لپٹے یا سمندر کے کنارے کنارے بہت سے ٹیبل کرسی ڈالے ہوئے لوگ اپنی چھوٹی چھوٹی کاروباری تختیاں لگائے بیٹھے ہوتے تھے، بعضوں کے پاس تو کرسی بھی نہ ہوتی، آج ان میں سے کئی بڑی کمپنیاں بن چکی ہیں۔وہ ایک انقلابی وقت تھا، خون میں ڈوبا ہوا انقلابی وقت۔ایسا وقت جو تاریخ بناتا ہے، تاریخ لکھتا ہے۔

میرے والد ایک گھاگھ بزنس مین تھے، چنانچہ انہوں نے تمہارے دادا، پردادا کی کوئی بھی مدد کرنے سے ہاتھ اٹھالیا۔مگر ایک آخری مشورے کے لیے مجھےبھی بلوایا گیا تھا۔میں چپ چاپ بیٹھ کر اپنے والد کی باتیں سنتی رہی۔اس دوران کئی بار میں نے اس جوان کو دیکھا، جو سامنے کی کرسی پر بیٹھا ہمارے عالیشان دفتر کے کمرے کی ایک ایک چیز کو دیکھ رہا تھا، مگر اس کی آنکھوں میں کوئی رعب نہیں تھا، بلکہ ایک قسم کی ناسٹلجیک لہر تھی۔شاید ایسا ہی کمرہ، انہوں نے لاہور کی مار کاٹ میں گنوادیا تھا۔ اچانک مجھے لگا جیسے سامنے والی کرسی پر بیٹھا وہ جوان میری طرف دیکھ رہا ہے، ہماری نظریں ملیں اور ایک دم سے اپنی پڑھی ہوئی تمام رومانی کہانیوں کا فلیش بیک میری آنکھوں میں اوپر سے نیچے کسی ریل کی صورت بہنے لگا۔اور اس ایک پل میں میں نے فیصلہ کرلیا کہ یہی شخص میرا ہم سفر بن سکتا ہے۔چنانچہ جب مجھے مشورے کے لیے لب کشا ہونے کا موقع ملا تو میں نے ان لوگوں کے سامنے ایک تجویز رکھی۔ کیوں نہ جب تک حالات ٹھیک ہوں، وہ ہمارے کام میں ہماری مدد کریں، اور جب چیزیں بہتر ہونے لگیں تو ہم ان کے پتھروں کے کاروبار میں پیسہ لگادیں جسے بعد میں وہ اپنی سہولت سے لوٹاتے رہیں۔ مجھے یاد ہے جب میں یہ تجویز سنارہی تھی تو میرے والد زیر لب مسکرارہے تھے، وہ شاید میری آنکھوں کی چمک سے میرا ارادہ بھانپ گئے تھے۔اس تجویز کو مکمل سننے کے بعد جب تمہارے پر دادا کشورگپتا نے میرے والد کی طرف سوالیہ نظروں سےدیکھا تو انہوں نے ایک زوردار قہقہہ مارتے ہوئے کہا

‘بھئی! اس دفتر میں جو بھی فیصلہ ہوتا ہے، اس پر آخری مہر ہماری شاردا بٹیا ہی لگاتی ہے۔اگر آپ کو تجویز پسند ہے تو کل تک ضرور بتادیں۔’

ظاہر ہے ان لوگوں کے پاس ہماری تجویز قبول کرنے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا اور اس طرح تمہارے دادا اور میری قربت کا ایک مستقل وسیلہ بن گیا۔ہم کام کے سلسلے میں اکثر دوسرے شہروں میں بھی جاتے، وقت گزاری کرتے، مختلف جگہوں پر رکتے۔مجھے تمہارے دادا کی مسکراہٹ بہت پسند تھی، سو میں نے ہر ممکن کوشش کی کہ وہ مسکراہٹ قائم رہے۔مجھے اس اعتراف میں کوئی برائی محسوس نہیں ہوتی کہ اس مسکراہٹ کے لیے میں نے خود پر ظلم کیے، جبر کیے۔ایک ڈیڑھ سال میں ہی ہم نے تمہارے پر دادا کے اصرار پر ان کے پتھروں کے کام کے لیے انہیں نہ صرف پیسا دیا بلکہ اپنے کئی آشنا بزنس مین افراد سے ذاتی طور پر درخواست کی کہ وہ اپنے دفتر کا کام انہی کی کمپنی سے کروائیں۔نتیجے کے طور پر مزید ایک سال میں ان کاکام بھی چل پڑا۔تمہارے پردادا خود دار آدمی تھے، انہوں نے پہلی فرصت میں اپنا قرض اتارنا شروع کردیا۔اور جب وہ میرے بابا کے پاس قرض کی پہلی قسط لے کر آئے تو میرے بابا نے رقم لینے سے انکار کردیا اور ان کے سامنے میری اور تمہارے دادا کی شادی کی تجویز رکھی۔تمہارے پردادا کو میں پسند تھی، مگر میری اتنی آزادہ روی انہیں شاید قبول نہیں تھی، وہ لاہور کے پرانے بنیا خاندان سے تعلق رکھتے تھے، جہاں پردے کی روایت تقسیم کے وقت سے کچھ پہلے تک ایلیٹ طبقے کے یہاں بھی بدستور جاری تھی۔ان کے گھر کی عورتیں بھی زیادہ پڑھی ہوئی نہیں تھیں۔لیکن اس کے باوجود انہیں اس میں یہ فائدہ بھی نظر آیا کہ میں اپنے بابا کی اکلوتی اولاد تھی اور میرے ساتھ اپنے بیٹے کی شادی کرادینے کا مطلب یہ تھا کہ انہیں بیٹھے بٹھائے بہت ساری دولت ہاتھ آجاتی۔حالانکہ وہ بہت لالچی آدمی نہیں تھے، مگر موقع پسند ضرور تھے۔چنانچہ میری شادی اس طرح تمہارے دادا اشوِن گپتا سے ہوگئی۔شادی کے چند برسوں میں کئی بڑی تبدیلیاں ہوئیں۔اشوِن کی والدہ کا انتقال تو پہلے ہی ہوچکا تھا، ان کے والد بھی اب کافی بیمار ہوگئے تھے، انہیں دق کا مرض لاحق ہوگیا تھا اور وہ خون کی الٹیاں کرتے تھے۔میں اپنے دن رات بھول کر ان کی خدمت میں لگ گئی، لیکن میری محنتیں کارگر ثابت نہ ہوئیں اور قریب دو مہینوں کی شدید تکلیف سہنے کے بعد تمہارے پردادا کا انتقال ہوگیا، ابھی میں اس انتھک محنت سے چور ہوکر کمر بھی نہ ٹکانے پائی تھی کہ خبر آئی کہ میرے والد کی اچانک ایک پلین کریش میں موت ہوگئی ہے۔میرے لیے مشکل تھا کہ میں اپنے اس صدمے سے خود نڈھال ہوجائوں یا پھر اشوِن کو سنبھالوں، جس نے اپنے اس باپ کی شفقت کو ہمیشہ کے لیے کھودیا تھا، جس کے ساتھ کنکروں پتھروں پر چل کر اس نے لاہور سے دلی تک کا سفر کیا تھا، جس کے خاندان کی آخری نشانی صرف اس کے والد ہی تھے، اس کی دو بہنیں راستے میں ہی فسادیوں نے اغوا کرلی تھیں اور اب ان کے بارے میں کسی کو کوئی خبر نہ تھی کہ وہ کہاں ہیں۔اسی طرح میرے والد کا غم بھی کچھ کم نہ تھا، جنہوں نے اپنی آخری سانس تک میری خواہشوں کا ہمیشہ خیال رکھا، اس دور میں جب کسی عورت کی آزادی کی بات کرنا تک جرم تھا، انہوں نے سماج اور پریوار سے لڑ کر مجھے نہ صرف پڑھایا لکھایا بلکہ میری شادی تک میری مرضی سے کی۔اور سارا کاروبار، دھن، دولت، جائیداد میرے نام کرکے ایک طیارے کی لپٹوں میں ڈوب کر اپنی جان گنوادی۔میں نے ہر حال میں اپنے شوہر کی محبت کو ترجیح دی اور غم چھپاکر اس کی دل جوئی کرتی رہی۔

باپ کی موت کے بعد قریب دو برس تک اس کی یہ حالت تھی کہ وہ کسی کام کاج کے لائق نہ تھا، پہلے غم سے اس کی حالت بری رہی، پھر وہ شراب نوشی میں ڈوب گیا، اور اس کے بعد اس کی بغلوںمیں پھڑیاں نکل آئیں، ٹانگیں بھی جواب دے گئیں۔ مجھے دفتر اور گھر کا سارا کام کاج دیکھنا ہوتا تھا، میں صبح اٹھتی، اس کی خدمت پر مامور نرسوں کو ہدایتیں دیتی، اس کے لیے خود ناشتہ بناتی، اسے پیار سے کھلاتی، اس سے میٹھی میٹھی باتیں کرتی، برا وقت گزرنے کی تسلی دیتی، کاروبار کے ٹھیک چلنے کا یقین دلاتی، حساب کتاب سمجھاتی اور اکثر خود بغیر ناشتہ کیے ہی دفتر پہنچ جاتی۔وہاں پہنچ کر مختلف قسم کی میٹنگز اور موٹی موٹی فائلیں میرا انتظار کرتی تھیں، کبھی سائٹ وغیرہ پر جانا ہوتا، کوئی جھگڑا چکانا ہوتا تو ایسے میں کوئی دور و نزدیک ایسا نہیں تھا، جس پر میں کمپنی کے ان کاموں کی خاطر بھروسہ کرسکتی۔چنانچہ کبھی کبھی تو ایسا ہوتا کہ صبح کی چائے دوپہر کو نصیب ہوتی، دوپہر کا کھانا گل اور رات کو گھر آکر اتنی ہمت ہی نہ پڑتی کہ بھوک لگنے کے باوجود بھی دو لقمے تر کرسکوں۔مجھے یاد ہے، ایک دفعہ میں کس بری طرح چکر کھاکر دفتر کی سیڑھیوں پر گر پڑی تھی۔مگر میں نے اپنی طبیعت کی خرابی اور صحت کی بحالی کا دھیان نہ رکھتے ہوئے، بس اپنے شوہر اور دفتر کی ذمہ داریوں میں خود کو غرق کردیا۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ میرے شوہر کی عدم توجہی سے جو کاروبار نقصان اٹھارہا تھا، اب پھر وہ فائدے کے رخ پر آگیا۔دو سال اسی کشمکش میں گزرے، خدا خدا کرکے اشوِن کی حالت بہتر ہوئی اور اس نے بھی دفتر آنا شروع کیا۔ اس کے اندر کا حوصلہ یکدم اتنی دولت ہاتھ آجانے سے لگتا تھا سرد ہوگیا تھا۔وہ بہت آرام طلب اور کاہل ہوگیا تھا، ہر کام میں اسے میری مدد کی ضرورت ہوتی۔گھر سے لے کر باہر تک وہ میرے بغیر دو قدم بھی نہیں چل سکتا تھا۔یہاں تک کہ کسی چیک پر سائن پر کرنا ہوتا تو پہلے مجھ سے اس کے بارے میں استفسار کرتا۔رفتہ رفتہ میں نے اس کا اعتماد بحال کروایا۔شادی کے پانچ سال بعد ہمارے یہاں ایک خوبصورت لڑکی کا جنم ہوا، یعنی میری سب سے بڑی بیٹی سُنیتا، پھر ایک سال بعد کبیر اور مزید دو سال بعد سب سے چھوٹی بیٹی سونم۔تم لوگوں کو شاید اس بات پر یقین کرنے میں پریشانی ہو، مگر میں نے تمہارے دادا کا ساتھ میٹرنٹی روم میں ہونے کے باوجود دیا۔ایک بار وہ ڈلیوری سے چندگھنٹوں پہلے، جب میرا پانی چھوٹ چکا تھا، ایک بہت اہم مسئلے میں میری رائے لینے آئے اور میں نے اس حالت میں بھی انہیں مایوس نہیں لوٹایا۔

اور جانتے ہو(ہنستے اور کھانستے ہوئے)انہوں نے اس بات کا ایک دفعہ ایک محفل میں اپنے دوستوں سے ذکر بھی کیا تھا۔وہ ان مردوں میں سے تھے، جو اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ ان کی بیویوں نے انہیں کس طرح اور کن موقعوں پر سہارا دیا۔حالانکہ مجھے یاد ہے کہ میں نے اس بات کا کافی برا منایا تھا، دو دن تک بات بھی نہیں کی تھی۔خیر، اب میں نے خود کو بچوں کی تربیت میں ڈبو دیا۔اور دیکھتے ہی دیکھتے پتہ ہی نہ چلا کہ ہمارے باغ کے یہ پودے کب پھول اور پھل بن کر اتنے بڑے ہوگئے،ان کی بھی شادیاں ہوگئیں۔مجھے یاد ہے، کبیر کی شادی سب سے پہلے ہوئی تھی، یہ کمبخت سنیتا تو شادی کے لیے مانتی ہی نہیں تھی، بالکل ڈھیٹ تھی، مجھ پر ہی گئی تھی۔کبیر کے لیے جس پہلے گھر کا رشتہ آیا، وہ بہت مہذب لوگ تھے۔اس لیے میں نے ان سے دو ملاقاتوں میں ہی یہ فیصلہ کرلیا کہ کبیر کی شادی اسی گھر میں ہوگی،وِنیتا بڑی اچھی بہو بھی ثابت ہوئی۔وقت اور گزرا، اور دیکھتے دیکھتے کب سُنیتا اور سونم کی شادی ہوگئی، پتہ ہی نہ چلا۔ میری عمر اب بہتر، تہتر کے قریب پہنچ چکی تھی۔میرے بچو! اب تک کی اس پوری زندگی میں، میں نے تین نہیں چار بچوں کو پال پوس کر اپنے پیروں پر کھڑا کیا تھا، ہاں تمہارا دادا، نانا یا باپ بھی میرے بچے کی ہی طرح تھا۔ابتدا سے لے کر اب تک میں اس کی آنکھوں میں ایک خلا دیکھتی تھی، ان آنکھوں میں چمک تھی، حوصلہ تھا، رنگ تھے، مگر وہاں ایک محرومی اور اداسی کی ایسی جھلک بھی تھی، جس نے میرے دل سے ایک اننت اور اٹوٹ رشتہ بنالیا تھا۔ میں نے اپنے شوہر کی اس اداسی کو ہمیشہ ختم کرنے کے جتن کیے تھے، ہر بار جب میں ان اداس آنکھوں کو دیکھتی، تو وہ معصوم چہرہ ایک میٹھا سوال بن کر میرے من کو چھیدتا ہوا گزر جاتا۔میں اس سوال کو حل کرنے میں لگ جاتی، جب تک اس کا جواب ملتا، پتہ نہیں کون سی کائنات سے تمہارا دادا پھر ایک نیا سوال اپنی آنکھوں میں سمیٹ لاتا اور میری نئی جدوجہد شروع ہوجاتی۔

ہاں! میں نے اس کے ساتھ بہت اچھا وقت بتایا تھا، بہت سی خوشگوار راتیں کاٹی تھیں، ہماری تنہائی میں پرخلوص اور سچی محبت تھی۔محبت جو دنیا کا سب سے عظیم جذبہ ہے، محبت جس کی آستین پر سر رکھتے ہی سکون کی ایسی کومل دھاریاں نکل کر اپنی آغوش میں لے لیتی ہیں کہ ایسی خوشگوار نیند تو شاید دنیا کی کسی نشہ آور دوا سے بھی ملنا ممکن نہیں۔تمہارے دادا کی مسکراہٹ، اف ! وہ قاتل، جان لیوا اور دھیمی ہنسی جو میرے پرانوں کو نچوڑ کر رکھ دیتی تھی۔میرے اندر کہیں بہت اندر ایک لاوا ابلتا رہتا تھا، میرا جی چاہتا تھا کہ میں اس شخص کو اپنے من کے کہیں اتنے بھیتر چھپالوں کہ اس کا سراغ ملنا کسی خدا اور کسی خدائی کے بس کی بات نہ ہو۔تمہارے دادا نے ایک روز لاہور سے دلی پہنچنے پر یہاں موجود کسی ربڑی والے کا ذکر کیا، انہوں نے بتایا کہ جب وہ لوگ تھکے ہارے، زخمی پیروں اور بوجھل دلوں کے ساتھ دلی کی سرزمین پر پہنچے تو کئی دن کے بھوکے تھے، ایسے میں ایک ربڑی کا خوانچہ لے کر پھرنے والے شخص نے انہیں اور ان کے والد کو مفت میں پتوں کی کٹوریوں میں بھر کر ربڑی کھلائی،تمہارے دادا بتاتے تھے کہ آج بھی اس کی دور تک جاتی ہوئی آواز ان کے کانوں میں گونجتی تھی

ربڑی کھاو ٹیسو میں، ٹسووں کی کیا بات
جیون مرن سو کچھ نہیں، ڈھاک کے تین پات

انہیں بہت افسوس تھا کہ اس ربڑی والے سے دوبارہ ملاقات نہیں ہوسکی۔ میرے بچو! یقین جانو، ان کی سالگرہ سوا مہینے دور تھی اور ایسے میں ان سے چھپ چھپا کر، اپنے سارے وسائل استعمال کرکے، اخباروں میں اور پوسٹروں اور جاسوسوں تک کے ذریعے میں نے یہ تلاش شروع کروادی کہ ان الفاظ کو بولنے والا کوئی شخص، جو دس سال پہلے تک ربڑی بیچا کرتا ہو، کسی طرح مل جائے۔اور تم یقین نہیں کروگے، شاید میری سچی لگن تھی کہ ایک دن، یعنی تمہارے دادا کی سالگرہ سے ٹھیک چار روز پہلے مجھے اطلاع ملی کہ احمدآباد سے ایک شخص کا تار آیا ہے، جو خود کو مطلوبہ ربڑی والا بتاتا ہے۔میں نے اس دن سچے من سے بھگوان کا شکر ادا کیا اور فورا اس شخص کو دلی بلانے کے انتظامات کروائے۔اور سالگرہ کے روز جب میں نے تمہارے دادا سے اس کی ملاقات کروائی تو ان کی آنکھیں خوشی سے چھلک پڑیں۔مجھے یاد ہے، اس پوری رات وہ میرا سر اپنی گود میں رکھ کر بالوں میں انگلیاں سہلاتے ہوئے دنیا جہان کی باتیں کرتے رہے۔اف ! کیا رات تھی! ایسا لگتا تھا، زندگی ٹھہرگئی ہے۔میں جس محبت کی تلاش میں اتنے عرصے تک سرگرداں رہی تھی، لگتا تھا وہ مجھ پر مہربان ہوکر اس وقت ان کی انگلیوں میں اتر آئی ہے۔

الغرض مجھے اس بات کی بہت خوشی تھی کہ جس شخص کے ساتھ میں نے اتنی محبت کی، اسی کے ساتھ میری شادی ہوئی اور اب اس عمر میں پہنچ کر میں اور وہ ساتھ ہی ساتھ دادا دادی اور نانا نانی بن گئے تھے۔کتنے لوگ ہیں، جن کو دنیا میں ایسی خوش نصیبی ملتی ہے؟ میں جب بھی محبت، روٹی اور چھتوں کے لیے ترستے انسانوں کے بارے میں سنتی یا پڑھتی، بھگوان کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرتی۔مگر میرے بچو! زندگی، بہت عجیب ہے، اتنی زیادہ کہ جو باتیں ہمارے سان گمان میں نہیں ہوتیں، جو حیرتیں ہماری توجہ کبھی نہیں پاسکتیں وہ بھی گھات لگا کر ہم پر ایک روز حملہ کردیتی ہیں۔ ایک دن خبر ملی کہ وِنیتا کے والد کا دیہانت ہوگیا ہے، اس کی ماں اپنے پتی سے قریب بیس سال چھوٹی تھی، ان کی عمر یہی کوئی پچاس کے پیٹے میں اس وقت ہوگی، وہ کچھ روز ونیتا کے یہاں رہیں، مگر جب ایک روز میں اور تمہارے دادا کبیر سے ملنے گئے تو معلوم ہوا کہ وہ وہاں کچھ خوش نہیں ہیں، ظاہر ہے بھاگتی دوڑتی دنیا میں جہاں ساری سہولتیں موجود ہوں،وقت سب سے قیمتی اور نایاب چیزبن کر رہ جاتا ہے۔ وہ بظاہر ایک سیدھی سادی عورت تھیں، اور جب میں نے ان کے شانت سبھاو میں اتنا گہرا دکھ محسوس کیا تو کبیر اور ونیتا سے کہہ کر میں انہیں اپنے ساتھ، اپنے ہی بنگلے میں لے آئی۔

اب اس بڑے سے گھر میں ہم تین بوڑھے لوگ تھے، اکثر محفلیں جمتیں، طرح طرح کے لوگ آتے۔میں نے ونیتا کی دادی، شانی کو اپنی بہت سی سہیلیوں اوردوستوں سے ملوایا۔ہم اکثر شام کو آنگن میں بیٹھ کر شرابیں پیتے۔پرانے قصے، لطیفے دوہراتے اور خوب ہنستے۔ان کی دل لگی کے لیے میں نے غزلوں کے کئی پروگرام کروائے۔وجہ یہ تھی کہ انہیں غزلیں بہت زیادہ پسند تھیں۔ان کی وجہ سے مجھے اور اشوِن کو بھی اپنا پرانا وقت یاد کرنے اور اس بڑھاپے میں بھی محبت کے سمندر میں غوطے لگانے کا ایک نیا موقع ہاتھ آیا۔مجھے محسوس ہوتا جیسے میں اب بھی وہی پینتیس برس کی عورت ہوں، اور اشوِن تینتیس برس کے گبرو جوان۔میں غزلیں سنتے ہوئے ان کی آنکھوں میں جھانکتی، اکثر وہ اس عمر میں بھی شرما کر آنکھیں نیچی کرلیتے یا گھمالیتے۔

وقت بہت اچھی طرح گزر رہا تھا۔ایک رات میری آنکھ کھلی تو اشوِن بستر پر نہیں تھے۔میں یہ سوچ کر کروٹ لے کر سوگئی کہ شاید واش روم گئے ہوں گے۔مگر صبح بھی انہیں اپنی بغل میں نہ پاکر میں بے چین ہوگئی۔باہر آئی تو دیکھا کہ ڈرائنگ روم میں پڑے کاوچ پر لیٹے ہوئے سو رہے ہیں۔مجھے حیرت تو بہت ہوئی، مگر میں نے ان سے کوئی سوال نہیں کیا۔اس واقعے کے بعد بھی کئی روز تک یہ سلسلہ چلتا رہا کہ اکثر اشوِن رات کو غائب ہوجاتے۔مگر میں جب بھی باہر آتی، انہیں کاوچ پر سوتا ہوا ہی پاتی۔عجیب بات یہ تھی کہ میں اس معاملے میں ان سےکوئی استفسار بھی نہیں کرپارہی تھی۔ذہن ایک بے نام سی کیفیت اور کشمکش کا شکار تھا۔شانی سے میں نے پوچھنا چاہا، پھر سوچا کہ وہ بھی کیا سوچے گی کہ بڑھیا کتنی شکی ہے۔ہم لوگ اکثر تمہارے یہاں بھی آتے رہتے تھے، اور اتفاق دیکھو کہ اس دوران ہم دو یا تین بار تم بچوں کے یہاں گئے، اور ان راتوں میں اشوِن میرے برابر سے اٹھ کر کہیں نہ گئے۔مجھے اب شک ہوچلا تھا، اور میں اس بڑھاپے میں اپنی محبت کے تیج کو بالکل ماند نہیں کرسکتی تھی۔پتہ نہیں کہاں سے ان دنوں مجھ میں ایک نوجوان لڑکی کے رشک وحسد کے جذبے نے جنم لینا شروع کردیا۔چنانچہ میں نے ایک فیصلہ کیا۔ وہاں سے واپس آتے ہی میں نے کوئی بہانہ بنا کر شانی کو ایک علیحدہ فلیٹ ایک دور دراز علاقے میں لے کر دے دیا۔اس میں ساری ضروریات کی چیزیں بھی فراہم کروادیں، اور کبیراور ونیتا پر ہر ہفتے ان سے مل کر آنے کی ذمہ داری بھی عائد کردی۔

معاملات بظاہر پھر معمول پر آگئے تھے۔مگر اگلے تین مہینوں کے دوران میں دیکھ ر ہی تھی کہ کام کاج میں تمہارے دادا کی دلچسپی کافی بڑھ گئی تھی۔وہ دیر رات تک دفتر رہتے، مجھے گھریا باہر کے کسی ضروری کام میں الجھا کر مجھ سے فاصلہ بنائے رکھتے۔پہلے پہل مجھے لگا کہ یہ سب میرا وہم ہے، اتنی عمر گزرنے کے بعد ان کے دل میں مجھ سے بے وفائی کا خیال بھی نہیں آسکتا۔اور بے وفائی بھی کس کی خاطر، شانی کی؟ نہیں نہیں، اگر بفرض محال وہ ایسا کچھ سوچ بھی رہے ہیں تو مجھے شانی کے کردار کی مضبوطی اور اس کے سنجیدہ مزاج پر بھرپور بھروسہ تھا۔وہ اپنی لڑکی کا گھر اس طرح کی بے وقوفیوں سے تباہ نہیں کرسکتی۔مگر میرے بچو! میں نہیں جانتی تھی کہ بے وقوفی ایک نہایت ذاتی قسم کا خیال ہے، جو بات میرے لیے بے وقوفی ہے، کسی کے لیے زندہ رہنے کا سبب بھی ہوسکتی ہے۔بہرحال، جب پانی سر کے اوپر چڑھتا محسوس ہوا تو میں نے ایک لیڈی جاسوس کی خدمات لینے کا ارادہ کیا۔اس کی خدمات لینے کے پیچھے میرا مقصد بس یہ تھا کہ وہ مجھے یہ بتادے کہ اشوِن مجھ سے دور رہ کر کیا کرتے ہیں؟ کس سے ملتے ہیں؟ وغیرہ وغیرہ۔

قریب ہفتے بھر کے اندر ہی اس نے مجھے کچھ تصاویر لاکر دکھائیں۔ میں نے جب وہ تصویریں دیکھیں تو میری آنکھوں میں شعلے دہکنے لگے۔میرے بچو! اس کا میری عمر سے کوئی تعلق نہیں، مگر تمہارے دادا سے میری محبت کی شرم کا یہی تقاضہ ہے کہ میں یہ ذکر نہ کروں کہ ان تصویروں میں میں نے کیا دیکھا تھا۔بس اتنا سمجھ لو کہ انہیں دیکھ پانے کی تاب نہ لاکر، میں نے اسی وقت انہیں نذر آتش کردیا اور جاسوس کو پیسے دے کر رخصت کیا۔

میں سوچ رہی تھی۔کیا میری برسوں کی محنت، میری محبت کی تلاش، تمہارے دادا کی مجھ سے محبت۔سب کچھ بس ایک دھوکہ تھا؟ ایک فریب، ایک جھوٹ۔جس نے اب تک مجھ سے تمام طرح کی محنتیں کروائیں، میری زندگی جس تنکے کے سہارے اتنے بڑے دریا عبور کرآئی تھی، وہ تنکا بھی محض میری نگاہوں کا دھوکا تھا؟ اکثر لوگوں کو کسی کے مرنے پر یہ احساس ہوتا ہے کہ دنیا صرف مایا ہے، اس کو حاصل کرنے، اسے پانےاور ڈھونڈنے کی ہماری غلط فہمیاں ہم پر اس وقت ہنس رہی ہوتی ہیں، جب ہم اپنے کسی بہت قریبی کو دنیا سے گزرتا ہوا دیکھتے ہیں۔میرے سینے میں ٹھیک ایسا ہی احساس موجیں ماررہا تھا۔حالانکہ کوئی مرا نہیں تھا، مگر وہ زندہ حقیقت، جس سے میں اب تک بہرہ ور نہ ہوسکی تھی، کپڑے اتار کر آج میری آنکھوں کے آگے رقص کررہی تھی۔

اس رات میں گویا کانٹوں کے بستر پر پڑی تھی، میرا شریر جل رہا تھا۔دماغ بھنا رہا تھا، آنکھیں سرخ ہورہی تھیں اور ایسے ہی وقت میں اچانک میرے دل نے ایک تباہ کن فیصلہ کیا۔میں جانتی تھی کہ تمہارے دادا خوب سمجھتے ہیں کہ چونکہ وہ ایک عمردراز، شریف اور صاحب حیثیت آدمی ہیں، اس لیے مجھے ان پر اس بات کا کبھی شک نہیں ہوگا کہ وہ میری آنکھوں سے چھپ کر کسی عورت کے ساتھ ایسی کریہہ حرکت بھی کرسکتے ہیں۔اسی بڑھاپے، انہی جھریوں کا انہوں نے فائدہ اٹھایا تھا۔چنانچہ میں نے بھی عمر کے اس حصے کو اپنے حق میں استعمال کرنے کا فیصلہ کیا اور جب ایک بار یہ فیصلہ میرے ذہن میں پک کر تیار ہوگیا تو میں بہت گہری نیند سوگئی۔

اگلی شام کو تمہارے دادا جب گھر آئے تو میں نے ان سے بے حد محبت سے بات کی۔ان کے ساتھ رات کا بیشتر وقت جاگ کر گزارا۔تمام پچھلی زندگی کی یادوں کو ان پر روشن کیا۔میرے بچو! اس وقت ان کی آنکھیں گویا میری باتیں نہیں سن رہی تھیں، ان کی آنکھوں میں اب وہ اداسی کی جھلی دور دور تک نہیں تھی، جس نے زندگی بھر مجھ سے کولہو کے بیل کی طرح مشقت کروائی تھی۔اور اس بات نے مجھے اور زیادہ سرخ کردیا۔رات کے کسی وقت وہ گہری نیند میں ڈوب گئے، مگر میں نہیں سوئی۔صبح سویرے جب وہ پھر دفتر جانے کے لیے تیار ہونے لگے تو میں نے ضد باندھ لی کہ میں انہیں نہلاوں گی۔اس بات پر وہ زور سے ہنسنے لگے، مگر جب میری ضد سے انہیں میری سنجیدگی کا اندازہ ہوا تو چڑ کر کہنے لگے کہ اچھا جلدی کرو! بہت کام ہے مجھے!

میں نے ان کے انگ انگ کو اچھی طرح ملا، بدن پر سب جگہ صابن لگایا، ایک ایک جگہ کو ٹھیک سے صاف کیا، اپنی بوڑھی ہڈیوں کے زور سے ان کے جسم کا میل اتارتی رہی اور میری زبان پر بار بار بس ایک ہی سوال رینگ رہا تھا۔

‘آپ کو مجھ سے کچھ کہنا تو نہیں ہے، آپ مجھے کچھ بتانا بھول تو نہیں گئے؟’

میرے بچو! افسوس کہ انسان دوسرے انسان کے تن کا میل اتار سکتا ہے، لیکن من کا نہیں۔جواب میں وہ صرف ہنستے اور انکار کرتے رہے۔جب پورا بدن دھل کر اچھی طرح صاف ہوگیا تو میں نے ان کے بالوں میں ڈھیر سا شیمپو لگادیا۔اتنا کہ شیمپو نے ان کی آنکھوں تک کو اپنے نرغے میں لے لیا، انہوں نے آنکھیں کس کر بھینچ رکھی تھیں۔وہ میرے سامنے ایک بچے کی طرح بیٹھے تھے،اور امید کررہے تھے کہ میں ان پر پانی ڈال کر سارا شیمپو بہادوں گی۔مگر اسی وقت ایک کوندا سا ہوا، اور میں نے کونے میں رکھا ایک لکڑی کا دُھکا اٹھا کران کے سر کے اوپر عین بیچ میں مارا، ان کی ایک بھونڈی سی چیخ بلند ہوئی، انہوں نے ہاتھ ہلانا شروع کیے، مگر کچھ دیر میں وہ بے دم ہوگئے۔ خون شیمپو کے جھاگ کے ساتھ گھل کر نالی میں بہتا ہوا جارہا تھا۔اور میرے چہرے پر پڑی ہوئی چھینٹیں مجھے باتھ روم کی دیوار میں نصب آئنے میں صاف نظر آرہی تھیں۔ان چھینٹوں میں میری فتح تھی، ایک لال رنگ کا جشن تھا، تمہارے دادا کی تمام دھوکے بازیوں کی سزا تھی اور میری زندگی بھر کی محنت کا صلہ تھا۔

(5)

یہاں تک کہانی سناکر شارداخاموش ہوگئی۔مریم پھٹی پھٹی آنکھوں سے اسے گھور رہی تھی۔اس نے پوچھا۔
‘پھر تمہاری دادی کو کوئی سزا نہیں ہوئی؟’

‘نہیں! اول بات تو وہ ایک رئیس ترین عورت تھیں، پولیس اور وکیلوں کے ذریعےکسی قتل پر پردہ ڈلوانا ان کے لیے مشکل کام نہ تھا۔ دوسری بات یہ کہ پولیس فائل میں رپورٹ بھی یہی لکھی گئی تھی کہ دادا نہاتے وقت گرپڑے تھے اور باتھ روم کے فرش سے ٹکرانے کی وجہ سے ان کا سر پھٹ گیا تھا۔ کیا ایک بوڑھی عورت پر کوئی یہ شک کرسکتا تھا کہ اس نے اس عمر میں اپنے پتی کا قتل کیا ہو گا؟’

‘اور اس عورت کا کیا ہوا جس کے ساتھ دادا کا تعلق تھا، اور وہ عورت تھی کون؟’

شاردا نے پانی کا ایک گھونٹ بھر کر انگڑائی لیتے ہوئے کہا۔

‘کچھ روز بعد انہوں نے نیند آور دوائوں کے ذریعےخودکشی کرلی، اور وہ عورت وہی تھی، یعنی میری نانی۔۔۔شانی!’

مریم نے کھڑکی کو دیکھا، برسات پھر دھیمی ہوچکی تھی، مگر پہاڑوں کے کاہی اندھیرے پردوں پراور چیختی ہوائوں میں اسے شاردا دیوی کی خونی اور قہقہہ باز آنکھیں گھورتی ہوئی معلوم ہوئیں۔اس نے فورا گردن دوسری طرف موڑ لی۔
***

Leave a Reply