فرض کرو پانچ لوگ تمہاری جان کے در پے ہوں۔ جوتا گانٹھنے والا، ہوٹل کا بہرا، بندر کا تماشا دکھانے والا، گلی کا چوکیدار اور گھر میں کام کرنے والی ادھیڑ عمر کا شوہر۔ فرض کرو ان میں سے ایک کو قتل کرکے ہی تم اپنی جان بچا سکتے ہو تو کس کی گردن دبوچو گے؟
مشکل سوال ہے۔ اس نے کافی دیر سوچنے کے بعد اپنے دوست شہریار کو جواب دیا جو اسے کئی دنوں بعد ملنے آیا تھا—-مگر یہ غریب بے چارے میری جان کے دشمن کیوں بنیں گے؟ اس نے سوال سے جان چھڑاناچاہی۔
دشمن بننے میں دیر ہی کتنی لگتی ہے؟بس ذرا سی بات، ایک لفظ، ایک خیال اور ایک یاد۔شہر یار نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے کہا۔
ہونہہ—-وہ سوچنے لگا۔
چلو بتاو، ان پانچوں میں سے کسے قتل کرو گے۔ شہر یار نےاسے چائے پیش کرتے ہوئے اصرار کیا۔
فرض کیا اگر مجھے کسی کی جان لینی ہی پڑی تو وہ بندرکا تماشا دکھانے والا ہوگا۔اس نے ہنستے ہوئے کہا۔اب تم پوچھو گے کہ اسے ہی کیوں؟ تو جناب اس لیے کہ مجھے بندر پسند نہیں ہیں۔ اور یہ مجھے ابھی سوچتے ہوئے یاد آیاہے۔میں یہی کوئی چار سال کا ہوں گا،جب تماشا دکھانے والے کے ایک بندر نے مجھے اس وقت زخمی کیا تھا،جب میں نے اس کی طرف ادھ کھایا کیلا بڑھایا تھا۔
تو میر اخیال ٹھیک تھا۔ شہر یار نے گہری سنجیدگی سے کہا۔
کون سا خیال ؟
بعد میں بتاتا ہوں۔صرف بندروالے ہی کو قتل کروگےیا—شہر یار نے کریدا۔
نہیں۔میں گلی کے چوکیدار کو بھی قتل کرسکتا ہوں۔ کچھ عرصہ پہلے ہمارے گھر میں کام کرنے والی ماسی نے میری بیوی کو بتایا کہ وہ اپنی بیوی کو روز مارتا ہے۔ کہتا ہے،میں رات کو پہرہ دیتا ہوں،کون ہے جو تمہارے پاس آتا ہے؟ تب میں نے چوکیدار کے لیے دل میں نفرت محسوس کی تھی،اوراس عورت کے لیے،جسے کبھی نہیں دیکھا، ہمدردی موجزن محسوس کی تھی۔
تم جوتے گانٹھنے والے، ہوٹل کے بہرے اور گھر میں کام کرنے والی عورت کے شوہر کو بھی قتل کرسکتے ہو۔ شہریار نے کہا۔
نہیں، میں جوتے گانٹھنے والے کو نہیں جان سے مار سکتا۔
کیوں؟
میں نے کبھی جوتے مرمت نہیں کروائے۔ لیکن،نہیں۔ ٹھہریے۔ مجھے یاد آیا۔میرے چھوٹے بھائی نے ایک بارایک پٹھان سے جوتے مرمت کروائے تھے۔ اس نے پوچھے بغیر نئے اندرونی تلوے ڈال دیے تھے اور دونوں میں پیسوں پر تکرار ہوئی تھی۔ میں نے اسے دیکھے بغیر اسے موٹی سی گالی دی تھی۔اسے بھی میں قتل کرسکتاہوں۔ اور ہوٹل کے بہرے کو قتل کرنے کا جواز ہے میرے پاس۔ اس نے ایک بار مجھے نظر انداز کرکے دوسری ٹیبل پر بیٹھی ایک خوب رو لڑکی کی بات پہلے سنی تھی اور اس لڑکی نے فاتحانہ نظر سے مجھے دیکھاتھا جس میں حقارت بھی تھی۔
اور گھر میں کام کرنے والی کے شوہرکو؟ شہر یا رنے پوچھا۔
وہ چوکیدار کی طرح بیوی پر شک تو نہیں کرتا مگر کام والی ماسی میری بیوی کو بتاتی ہے کہ ان کے پاس ایک ہی کمرہ ہے جس میں ان کی تین جوان بیٹیاں اورایک بیٹا سوئے ہوتے ہیں۔ اس کا شوہر زبردستی اس کے بستر میں گھس جاتا ہے اور صبح اس کی بیٹیاں ا س کا مذاق اڑاتی ہیں۔ مجھے وہ نظر آجائے تو میں اس کا گلا دبادوں۔ اس نے واقعی سنجیدگی سے کہا۔
تو میرا خیال ٹھیک تھا۔
کیا؟
تم —اور میں —یا کوئی بھی کسی کو کبھی بھی قتل کرسکتا ہے۔شہر یار بولا۔
لیکن تم نے یہ نہیں پوچھا کہ کیا تمہیں میں قتل کرسکتا ہوں؟ اس نے شہر یا ر سے کہا۔
وہ پوچھنے کی ضرورت نہیں۔ تم یہ نیک کام ابھی کرسکتے ہو۔کچھ بھی یاد کرکے۔مثلاً مجھے سر نصیر نے فائنل ٹرم میں زیادہ نمبر دیے تھے اور تم ان سے شکایت کرنے پہنچ گئے تھے۔ شہر یار نے ہنستے ہوئے کہا۔
وہ بھی ہنس پڑا۔
فرض کرو تمہیں ان میں سے کسی ایک کی جان بچانی ہو تو کس کی بچاو گے؟ شہریا ر نے نیا سوال داغا۔
ابھی انہیں ٹھکانے لگانے سے فارغ نہیں ہو اور تم نئی بات کررہے ہو؟اس نے چائے ختم کرتے ہوئے کہا۔
بندر والے نے ابا سے معافی مانگی تھی۔ چوکیدار نے ابھی چند دن پہلے اپنی جان پر کھیل کر ڈاکٹر شفیع کے گھر ڈاکے کو ناکام بنایا۔ چھوٹے بھائی نے اس پٹھان کے کام کی تعریف کی تھی۔آخر ہوٹل کا بہرہ ایک نوجوان لڑکا تھا، وہ کیسے اس حسینہ کوا نکارکرتا۔کام والی ماسی کا گھر ہے ہی ایک کمرہ۔ پھر اس کا شوہر کسی اور عورت کے پاس بھی تو نہیں جاتا۔ میں ہر ایک کی جان بچا سکتا ہوں۔اس نے کہا۔
تو مان لو کہ تم اس دنیا کا سب سے بڑ اعجوبہ ہو۔ شہریار نے کسی گہری سچائی کے انکشاف کرنے کے انداز میں کہا۔
میں یا تم عجوبے نہیں، ہماری یادیں عجوبہ ہیں۔ وہ بولا۔
تو پھراس میں ایک اور بات کا اضافہ کرنے کی ضرورت ہے۔ شہر یار نے کہا۔جان لینا اور بچانا، یاد اور بھول کا کھیل ہے !
کوئی اس کھیل کو کھلانے والا بھی تو ہوگا۔ دونوں پہلے ہنسے اور پھر سنجیدہ اور ساتھ ہی کسی نامعلوم بات پر رنجیدہ ہوئے۔
Leave a Reply