اور اِسی شور میں، میری کھوپڑی میں، وہ زہریلا سانپ موجود تھا جس نے ایک طرح سے، کچھ معاملوں میں میرے اوپر چودہ طبق روشن کر رکھے تھے۔ یہ سانپ سر میں کلبلاتا، دل میں گھبراہٹ ہوتی اور پیر کانپنے لگتے۔ میری بدقسمتی کے اس مرض نے یہاں بھی میرا پیچھا نہیں چھوڑا۔
میں دو دو قتل بھول گیا۔ میں بڑے ماموں کی موت بھول گیا، میں بہت جلد، نہ جانے کیا کیا بھول گیا مگر باورچی خانے سے آتی ہوئی، کسی خوشبو یا بدبو کے کیا معنی ہوسکتے ہیں؟ میں یہ نہیں بھولا۔
میں اپنی اس پرُاسرار صلاحیت سے ہاتھ دھو بیٹھنے میں کبھی کامیاب نہ ہو سکا۔
ہوسٹل میں جہاں میرا کمرہ تھا۔ وہاں راہداری ختم ہوجاتی تھی۔ یوں دیکھیں تو آخری کمرہ تھا جس کے بعد میس کی عمارت شروع ہو جاتی تھی۔ یعنی باورچی خانے کی حکومت۔
دن بھر میرے کمرے میں، طرح طرح کے کھانوں کی خوشبوئیں یا کبھی کبھی بدبوئیں بھی آتی رہتی تھیں اور میں اُنہیں ایک کتّے کی مانند سونگھنے پر مجبور تھا۔ کچھ دنوں سے طلبا، ہوسٹل کے کھانے سے مطمئن نہیں نظر آرہے تھے۔
میرے کمرے میں ترپاٹھی اور اِدریس بیٹھے ہوئے چائے پی رہے تھے۔
’’یار حفیظ۔۔۔ اب ایسے کام نہیں چلے گا۔‘‘ اِدریس نے سگریٹ سُلگایا۔
’’کیا ہوا؟‘‘
’’کل سالوں نے بریانی کے نام پر دھوبی پُلاؤ زہر مار کرا دیا۔
ترپاٹھی نے ایک زبردست قہقہہ لگایا اور پان مسالہ منھ میں ڈال کر بے ہنگم انداز میں چبانے لگا۔ مجھے معلوم تھا کہ وہ کھانے کے بارے میں، ویدوں یا اُپنشدوں سے کوئی نکتہ یا فقرہ نکال کر لائے گا ترپاٹھی کو قدیم ہندوستانی فلسفے پر پر خاصا عبور حاصل ہو گیا تھا۔ مگر ٹھیک اُسی وقت مجھے اپنی ناک میں ایک سڑاندھ کا احساس ہوا۔ میں نے نتھنے پھلائے تو علاؤ الدین ہنس کر بولا۔ ’گوبھی ہے، گوبھی۔‘‘
’’بڑی بدبو ہوتی ہے یار جب گوبھی پکتی ہے۔‘‘
’’یہ اصل میں گندھک کی وجہ سے ہے، گوبھی میں گندھک یعنی سلفر بہت پایا جاتا ہے۔‘‘ ترپاٹھی نے اپنی علمیت کا اظہار شروع کر دیا۔
’’پتہ ہے یار— ‘‘ علاؤ الدین نے جمائی لیتے ہوئے کہا۔ ’’اس کی کھیتی میں بطور کھاد تازہ تازہ انسانی فضلہ بھی استعمال کیا جاتا ہے۔‘‘
’’دیکھ بھائی علاؤالدین — تونے Food Cycle پڑھی ہے؟ ‘‘ ترپاٹھی نے پوچھا۔
علاؤ الدین نے نفی میں سر ہلایا۔
’’میرے پاس ہائی اسکول میں سائنس تھی، میں نے پڑھی ہے۔ سارا کھیل نائیٹروجن اور ایمونیا کا ہے۔ چیزیں وہیں سے شروع ہوتی ہیں جہاں پر ختم ہوتی ہیں۔ یہ آنتوں سے آنتوں تک کی یاترا ہے۔ انسان کی آنت میں گیا کھانا، رنگ روپ، بدل کر باہر آتا ہے، اور دوبارہ اُس کی آنتوں کے لیے خود کو مٹا کر سڑا کر نیا کھانا تیار کرتا ہے۔ اسی لیے یجروید میں اُس یگیہ کی بہت اہمیت ہے، جس میں صرف منتر کے ذریعے، آنتوں کی بھوک مٹ جائے اور کھانا محض علامتوں میں بدل جائے۔‘‘ ترپاٹھی آگے بھی کچھ کہہ رہا تھا مگر میں نے نہیں سنا۔
میرے ہاتھ پیر کانپنے سے لگے۔
وہ کالا جادو یہاں بھی چلا آیا تھا۔ میرے پیچھے پیچھے۔ اپنے گھر سے اس شہر تک۔ میں نے دو ندیاں پار کیں، مگر جادو نہیں کٹا۔ لیکن پھر مجھے ایک کمینی اور چھچھوری مسرّت کا احساس ہوا۔ یہ جادو میرا دشمن نہیں ہے۔ یہ تو میری طاقت ہے۔ ایک ایسی کالی طاقت جس کا علم کسی کو نہیں، میری چھٹی حس جو اپنی وسعت میں ایک دن اس نیلگوں آسمان کو بھی سمیٹ لے گی۔ مجھے اپنی جیومیٹری کی ساری اشکال، اُن کے زاویے اور آپسی محور یاد تھے۔ اس کمینی اور چھچھوری مسرّت کا احساس ہوتے ہی میرے ہاتھ پیر کانپنا بند ہو گئے۔
’’آج گوبھی کا پکنا اچھی بات نہیں ہے۔‘‘ میں نے مسکرا کر اپنے لفظوں کو تولتے ہوئے کہا۔
’’ارے یار گوبھی پکنا تو کسی بھی دن اچھی بات نہیں ہے۔‘‘ ترپاٹھی بیزاری سے بولا۔
میں فخریہ انداز میں چپ چاپ بیٹھا رہا۔
’’چلو، ڈائننگ ہال میں چلیں دو بج رہے ہیں۔ بھوک لگنے لگی۔‘‘علاؤ الدین اُٹھ کر کھڑا ہوگیا۔
’’تم لوگ جاؤ، میں کمرے میں ہی کھانا کھاؤں گا۔‘‘ میں نے کہا۔
’’ابے سالے پڑھاکو— تیرے جیسوں کا ہی بیڑہ غرق ہوتا ہے۔ مت بن کتابی کیڑا، مت بن۔‘‘ ترپاٹھی نے پھر اپنی تقریر شروع کی۔
میں نے اُسے دکھانے کے لیے، ایک جماہی لی اور چادر اوڑھ کر لیٹ گیا۔
علاؤ الدین اور ترپاٹھی کمرے سے چلے گئے تھے۔ نومبر کا مہینہ تھا جو کوئی مہینہ نہیں ہوتا۔ اس کی اپنی کوئی شناخت، کوئی پہچان نہیں ہوتی۔ اس لیے اسے اپنے وجود کا احساس دلانے کے لئے، اور اپنی تاریخیں یاد کرانے کے لیے بھیانک واقعات یاحادثات کی ضرورت پڑتی ہے۔ دوپہر تین بجے سے ہی اندھیرا سا پھیلنے لگا۔ کیونکہ دھوپ کا گزر نہیں تھا۔ ڈائننگ ہال سے شور کی آوازیں آ رہی تھیں۔ میں نے چادر سے منھ نکال کر غور سے سننے کی کوشش کی۔ یہ شور کھانے کے بارے میں یا کھاتے وقت کا عمومی شور تو نہ تھا۔ اب مجھے بھی کچھ بھوک لگ رہی تھی۔ بیرا نہ جانے کب کا میز پر کھانا رکھ کر چلا گیا تھا۔ مگر میں سوچ رہا تھا کہ پہلے کوئی برُی خبر سن لوں۔ پھر آرام سے کھانا کھاوں گا۔ کسی طالب علم کی خبر آتی ہے یا کسی پروفیسر کی یا پھر جلّاد پرنسپل کی—؟ اتنا تو مجھے یقین تھا کہ آج، اس وقت ہوسٹل کے میس میں گوبھی پکنا غلط تھا، اور بدشگونی کی علامت تھا۔
ڈائننگ ہال سے شور بڑھتا ہوا گیلری کی طرف آنے لگا۔ میں بستر سے اُٹھ کر کمرے کے دروازے پر آکر کھڑا ہوگیا۔ تیز تیز بھاگتا ہوا، ترپاٹھی مجھے دور سے ہی نظر آ گیا۔
’’حفیظ—حفیظ— غضب ہوگیا۔‘‘ وہ دور سے ہی چلّانے لگا۔
’’کیا ہوا؟‘‘ میں اندر ہی اندر اپنی صلاحیت کا معترف ہونے لگا۔
’’اِندرا گاندھی کو قتل کر دیا گیا۔‘‘
اب مجھے واقعی سکتہ سا طاری ہونے لگا۔ اس نوعیت کی خبر کی مجھے خواب تک میں توقع نہ تھی۔
طلبا اور پروفیسر افراتفری میں اِدھر اُدھر جاتے ہوئے نظر آئے۔ کئی لوگ کان پر ٹرانسسٹر لگائے ہوئے تھے۔ معلوم ہوا کہ کل تک کے لیے کلاسز ملتوی کر دلیے گئے ہیں۔
نہ جانے کب شام ہو گئی۔ اکتوبر کے آخر اور نومبر میں سورج اتنی تیزی سے ڈوب جاتا ہے کہ کسی کو خبر ہی نہیں ہوتی۔ ہر جانب ایک سنّاٹا تھا۔ سڑکیں سنسان اور دہشت زدہ سی نظر آرہی تھیں۔ لوگ یا توبھیڑ بناکر ایک جگہ اکٹھا ہوکر چہ میگوئیاں کر رہے تھے یا پھر بہت تیزی کے ساتھ اپنے گھروں کو واپس جارہے تھے۔ سرکاری دفاتر کے بند کرنے کا اعلان کردیا گیا تھا۔ میں کالج کے آس پاس کی سڑکوں اور کتابوںکی چند دوکانوں پر بھٹکتا رہا۔ مجھے اپنے قصبے میں کسی کی کہی ہوئی بات یاد آرہی تھی کہ جب ملک کا کوئی بڑا سیاسی رہنما یا قائد مرتا ہے تو سارا ملک سائیں سائیں کرتا ہے۔ ہر طرف ویرانی ہی ویرانی پھیل جاتی ہے۔ اور یقینا ایسا ہی تھا۔ وزیر اعظم اِندرا گاندھی کویہاں سے چار سو پچاس کلومیٹر دور — دہلی میں اپنے گھر کے قریب، اُن کے اپنے ہی باڈی گارڈوں یا محافظوں کے ذریعہ گولیوں سے چھلنی کیا گیاتھا۔ مگر ویرانی یہاں تک پھیلی ہوئی تھی۔ ممکن ہے کہ اُس میں نومبر کی بے رنگ شام کا بھی کچھ حصّہ مل گیا ہو۔
میں چلتے چلتے پرساد ٹاکیز کے سامنے جا کر کھڑا ہو گیا۔ یہاں امیتابھ بچن اور دھرمیندر کے بڑے بڑے پوسٹر لٹک رہے تھے۔ فلم شعلے چل رہی تھی۔ شعلے اس ٹاکیز میں گذشتہ آٹھ سال سے چل رہی تھی۔ اور آج جب میں یہ سطریں لکھ رہا ہوں تو یقین کیجیے پرساد ٹاکیز میں آج بھی شعلے دکھائی جا رہی ہے۔ آج جب میری عمر اڑسٹھ سال کی ہو چکی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ امیتابھ بچن اور دھرمیندر کی شکلیں بھی اب بوڑھی اور قابل رحم نظر آتی تھیں۔ مگر ٹاکیز خالی تھا۔ اُس پر تالہ لٹکا ہوا تھا۔ شہرکے سارے سنیما ہال بند کر دئیے گئے تھے۔ میں فلم دیکھنے نہیں گیا تھا۔ مگر سنیما ہال کو ویران دیکھ کر، اُس پر ایک منحوس تالہ لٹکا ہوا دیکھ کر، میرے دل کو سخت دھکا پہنچا۔
پوسٹر میں، میں نے سنجیو کمار کی انتقام میں جلتی سلگتی ہوئی آنکھیں دیکھیں اور سوچا کہ آج شام کے اور رات کے شو میں، سنجیو کمار کا انتقام فلم کی ایک خاموش اندھیری رِیل میں بند رہے گا۔ وہ باہرنہیں آئے گا۔ جس طرح ہر انتقام، بلکہ ہر جذبہ وقت کے فریم میں بہتا ہے اور کبھی — شاید رُک جاتا ہے بالکل اس طرح جیسے کسی کے دل کی رگوں میں بہتا ہوا خون جم جاتا ہے اور حرکتِ قلب بند ہو جاتی ہے۔
وہ انتقام کا زمانہ تھا۔ اینگری ینگ مینوں کا زمانہ۔ راجیش کھنہ کی قربانیوں، المیوں اور محبتّوں کا زمانہ ابھی بس حال ہی میں گزرا تھا۔ مگر اب اُس کے نشان بھی باقی نہ تھے۔ اب انتقام کا رُخ انفرادی تھا۔ اور اِس انفرادی انتقام کواجتماعی شعور نہ صرف پسند کرتا تھا بلکہ اس پر پھول برساتا تھا اور تالیاں بجاتا تھا۔
انتقام جس کی پیداوار یا جس کی جڑوں کا ایک کیڑا خود میں بھی تو تھا اور اِندرا گاندھی کا قتل—؟
سورن مندر پر گولیاں چلائے جانے کا بدلہ اورخالصتان کو سیاسی طور پر قبول نہ کرنے کی سزا۔
سنیما ہال کے سامنے کھڑے کھڑے پولیس کی گاڑیاں سائرن دیتے ہوئی نکل گئیں۔ دفعہ 144 لگا دی گئی تھی۔ ریڈیو پر خبر آئی کہ دہلی میں سکھّوں کا قتل عام ہورہا ہے۔ بازاروں کو آگ لگادی گئی ہے۔ سکھّوں کے گھر پھونک دئے گئے ہیں۔ اب اِندرا گاندھی کے قتل کا بدلہ لیا جارہا ہے۔
31؍ اکتوبر کی یہ شام اب جاڑوں کی رات میں بدلنے لگی۔ ویرانی کا احساس اور بڑھ گیا اور خوف و دہشت کا بھی۔
میں واپس ہوسٹل اپنے کمرے میں آیا۔
گیلری میں میرے احباب میرا انتظار کر رہے تھے۔ وہ سب میرے کمرے میں چلے آئے۔
کمرے میں، گوبھی کی بو بری طرح بھری ہوئی تھی۔
مجھے اپنی ناک پر ہاتھ رکھنا پڑا۔
اُس رات میرے کمرے میں دوستوں کا آنا جانا لگا رہا۔ ہیٹر پر چائے بنتی رہی اور سیاسی بحثیں ہوتی رہیں۔ حالانکہ ہم سب کی عمر اُن دنوں سیاسی یا سماجی شعور کے معاملے میں صرف بچکانہ رویّوں یا خیالات کے مناسب ہی ہو سکتی تھی۔ پھر بھی بہت بکواس ہوتی اور بکواس کے درمیان کہیں کہیں کوئی ایسا جملہ بھی چمک اُٹھتا تھا جس کی معنویت آج مجھے پہلے سے بھی زیادہ محسوس ہوتی ہے۔ جہاں تک میرا سوال ہے، مجھے نہ اُن دنوں کوئی سیاسی شعور تھا اور نہ اب ہے۔ میرے سامنے دوسرے سوال تھے اور یہ سوال خود میرے وجود کی آہٹیں مجھ سے ہی کرتی تھیں۔ میرے ساتھ ایک ماضی تھا جس سے خون کی بو آتی تھی۔ اگرچہ میں اس ماضی کو بڑی بے شرمی کے ساتھ بھول گیا تھا مگر دراصل ہم بھُولتے کچھ بھی نہیں ہیں۔ پیڑ سے گرا ایک پتّہ تمھارے جوتے کے تلے میں چپک جاتا ہے، تم چلتے چلتے کچھ دیر تک پتّے کی سڑک پر رگڑ کی آواز سنتے ہو، پھر دنیا کے شور اور اُس کی بے ہنگم آوازوں میں پتّے کی رگڑ دب کر معدوم ہوجاتی ہے۔
مگر ایک دن آتا ہے جب تم اپنے جوتے کی صفائی کرنے اور اس پر پالش کرنے بیٹھتے ہو۔
بس وہی دن ۔۔۔ دوبارہ تمھیں تمھارے گناہ یاد دلاتا ہے۔ وہ دن تمھیں یاددلاتا ہے کہ تم نے اپنے کتنے گندے کپڑے دھوبی کو دھلنے کے لیے دیے تھے، تم اپنی جیب سے وہ فہرست نکالتے ہو اور پڑھتے ہو اور پھر ملاتے ہو۔۔۔ کپڑے سے کپڑا۔۔۔ اور یہ بھی کہ کون سا کپڑا مسک کر، پھٹ کر، دھوبی کے یہاں سے واپس آیا ہے اور کون سا کپڑا گم ہو گیا، ہمیشہ کے لیے۔ تو بس اتنا ہی تھا اور یہاں شہر آکر، محض ایک گوبھی پکنے کی بُو نے مجھے ایک بار پھر اپنے اندر بیٹھے خوفناک بن مانس کا احساس دلا دیا۔ مجھے سب کُچھ بڑی شدّت کے ساتھ یاد آ گیا۔ اتنی شدّت کے ساتھ کہ کاغذ پر اس لفظ ’’یاد‘‘ کو لکھنے سے زیادہ مضحکہ خیز اس وقت اور کچھ نہیں ہو گا۔
میرے سوال سیاسی غلطیوں کے بارے میں نہیں تھے۔ میں اندرا گاندھی کی سیاسی غلطیوں کے بارے میں گفتگو کرنے کا اہل ہی نہ تھا۔ میں تو مگر، جرم، سزا اور انصاف کے بارے میں سوچ سوچ کر اپنے سر کے بائیں حصّے کو ہمیشہ کشمکش میں مبتلا کر تا رہتا تھا۔ اور وہ حصّہ پھوڑے کی طرح دُکھنے لگتا تھا۔
جرم کس سے سرزد ہوتا ہے؟
سزا کیسی ہوتی ہے؟ سزا کا چہرہ کیا قتل سے ملتا جلتا ہوتا ہے؟
پھانسی کے تختے کی طرف مجرم کو لے جاتے ہوئے جلّاد کون سا گیت گاتا ہے۔
اور انصاف—؟ انصاف کس عدالت میں ہوتا ہے؟ عدالت آخر ہے کہاں؟ سزا اور انصاف میں کیا فرق ہے؟ کیا سزا کے دانت اُتنے ہی بڑے بڑے اور نُکیلے ہیں جتنے کہ انصاف کے دانت۔ سزا اورانصاف کے چہرے آپس میں کتنے مشابہ ہیں۔
اور سب سے بڑھ کر وہ ہاتھ، جو انصاف کی خون جیسی لال روشنائی میں اپنی انگلیاں ڈبو کر، انسان کی پیٹھ پر سزا کے منحوس عدد لکھتا ہے، وہ ہاتھ کس کا ہے؟
وہ ہاتھ کس کا ہے؟
ریڈیونے بتایا کہ دلّی میں سکھّوں کے پورے کے پورے علاقے پھونک دیئے گئے اور گرودواروں میں آگ لگا دی گئی۔ سکھّوں کا قتل عام تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔ بہت بعد میں شاید، راجیو گاندھی نے کہا تھا کہ ’’جب ایک— بڑا اور گھنا پیڑ گرتا ہے۔۔۔۔ تو؟‘‘
پتہ نہیں آگے کچھ کہا تھا۔ مگر میرے لیے اُسے اِس وقت یاد کرنا اور وہ بھی ذہن پر زور دے کر محض ایک رائیگاں اور بے معنی سی تکلیف دہ حرکت ہے۔
اُس رات میں نے اپنا فیصلہ بدل لیا۔ اگلا سال میرے بی۔اے کا سال دوئم ہو گا اور میں جو ایم۔اے پالیٹیکل سائنس میں کرنے کے بعد ریسرچ کرنا چاہتا تھا اور کسی یونیورسٹی میں پروفیسر بننا چاہتا تھا۔۔۔ اچانک بدل گیا۔
میں نے حتمی فیصلہ کر لیا کہ میں قانون پڑھوں گا۔ اگلے سال میں ایل۔ایل۔بی۔ میں داخلہ لوں گا۔ مجھے یاد ہے کہ دل میں یہ فیصلہ کرتے ہی مجھے وقتی طور پر بہت سکون حاصل ہوا — رات گزر گئی تھی، پو پھٹ رہی تھی۔
میری ہی نہیں، ہم سب کی آنکھیں نیند سے بوجھل ہونے لگیں۔
نیند میں اونگھتے ہوئے،میرے کان میں ریڈیو پر آتی ہوئی خبر سنائی دی۔
’’راجیو گاندھی کو وزیر اعظم بنا دیاگیا۔‘‘
یہ خبر میرے لیے ایک لوری کی طرح تھی۔ اچانک مجھے بہت گہری نیند کا غلبہ محسوس ہوا۔ نومبر کی اِس بے ہنگم صبح کی ہوا میں ایک بدمزہ اور خشک سی خنکی تھی۔ میں نے چادر کو منھ تک اوڑھ لیا۔
(جاری ہے)