ناز نے اپنا بستہ درست کیا اس پہ لگی دھول جھاڑی اورلوئر برتھ کے نیچے سے نکال اسے سائیڈ اپر برتھ کی خالی کناری میں گھسیڑ دیا۔ آج بھی اس روٹ(Route) پر آنا اسے کچھ خاص پسند نہ تھا۔ مگر مجبوری یہ تھی کہ اس کے بوڑھے ماں، باپ اپنےگاوں کو خیر باد کہنے پر راضی نہ ہوئے تھےاور شہر کی زندگی جس میں ناز کو لطف کی جھلکیاں نظر آتی تھیں، اس کے ماں، باپ کو وحشت ہوتی تھی،یہی وجہ ہے کہ ناز سال،چھ مہینے میں اپنے والدین سے اس وقت اپنے چھوٹے بھائی کی نیم شہری علاقے میں واقع رہائش گاہ پر جاکر مل لیا کرتا تھا جب وہ اپنے منجھلے بیٹے کی محبت میں گاوں سے وہاں تک کھنچے چلے جاتے تھے۔ اس کااپنے آبائی مکان تک جانے کا اتفاق کم ہوتا تھا۔ اس مرتبہ بابا کی طبیعت خراب تھی اور ناز کے بھائی،بہن بھی ان سے ملنے گاوں پہنچے ہوئے تھے۔ باعث مجبوری اسے بھی گاوں کا سفر کرنا پڑا۔
ناز اپنے شہر سے گاوں جانے کے لیے سوائے ٹرین کسی اور ذریعے کا استعمال نہیں کر سکتا تھا، کیوں کہ ا س کا آبائی مکان جس گاوں میں تھا وہاں تک پہنچنے کے لیے "چھوٹی لائن "پہ چلنے والی ٹرین سے سفر کرنا ہوتا تھا۔ راستے کچے تھے اور گاڑی سے اس گاوں میں اکا دکا لوگ ہی آیا کرتے تھے۔ جگہ جگہ سے ادھڑی ہوئی زمین کا سینہ گاڑی کے پہیوں کو اتنا اچھالتا کہ اندر بیٹھے لوگوں کا کلیجہ منہ کو آجاتا۔ یوں بھی شہر سےآنے والے ان لوگوں کو جو ٹرین کے بجائے گاڑی کو ترجیح دیتے،گاوں کے لوگ اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتے تھے، اول تو گاوں والے اس کے عادی نہیں تھے، دوسرے انہیں اس طرح کے مہمانوں سے خوف آتا تھا۔ ناز گاوں والوں کی ان نفسیاتی الجھنوں سے واقف تھا کیوں کہ وہ بھی ایک عرصے تک انہیں کے درمیان رہا تھا۔
جس ٹرین سے ناز سفر کر رہا تھا اس میں پریشانی یہ تھی کہ ریزرویشن کی سہولت برائے نام تھی، ہر ڈبہ،فرسٹ کلاس ہو یا سکینڈ کلاس ایک طرح کے لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ کس کے پاس ٹکٹ ہے اور کس کے پاس نہیں اس کا تصور کر پانا مشکل تھا، جب گاڑی چمن گنج سے ہوتی ہوئی بھدریہ آتی تو گاڑی میں سفید جلیبی نما پگڑی باندھے، مٹ میلے کرتے اور دھوتی میں ملبوس لوگوں کا اتنا اضافہ ہو جاتا کہ تل دھرنے کی جگہ نہ رہتی۔ ناز کا گاوں بھدریہ سے چھ گھنٹے کی دوری پہ تھا۔ وہ شہر سے فرسٹ کلاس،رزرویشن کروا کر چلا تھا مگر اس کا ڈبہ تھرڈ ڈویژن بن چکا تھا۔ اسےہر طرف سر ہی سر دکھائی دے رہے تھے، جس نے اسے الجھن میں ڈال دیا تھا۔وہ جلد گھبرا جانے والا کمزور ارادہ شخص تھا۔ مجبوری نہ ہوتی تو وہ اس طرح سفر نہ کرتا۔ باربار اسےخیال آتا کہ اپنے ارد گرد جمع بھیڑ کو ڈانٹ کر دور بھگا دے اور ریزر وسیٹ پہ لیٹ جائے۔ وہ جانتا تھا کہ جس طرح اس نے اپنے سفر کے چھے گھنٹے حبس زدہ ماحول میں گزارے ہیں مزید چھے گھنٹے اسی ماحول میں گزارنا ہیں۔ کسی کسی لمحے میں یہ خیال اسے چڑ چڑا بنا دیتا۔ وہ اپنی سیٹ پر آنکھیں بند کئے بیٹھا تھا اور ایک ہاتھ سے اپنے ماتھے پر ابھرنے والی لکیروں کو ہلکے ہلکے دبا رہا تھا۔ ایک ٹانگ ٹرین کے فرش پر تھی اور دوسری تنگ دستی کے باعث پہلی پر موڑ کر رکھنا پڑی تھی۔ ٹرین جب جب ذرا دھیمی ہوتی تو وہ آنکھیں کھول کر اپنے اطراف کا جائزہ لیتا۔ کچھ میلی کچیلی گردنیں، جن کے گرد سفید کالر کا سیاہی مائل حلقہ اپنی بے چارگی کا اظہار کر رہا ہوتا۔ ابھرے ہوئے پیٹ کی بٹیاں نکالی ہوئی پرانی رنگ برنگی ساڑیوں میں ملبوس عورتیں جن کے چہروں سے مصیبت اور پریشانی کا اندازہ لگا یا جا سکتا تھا۔ جگہ جگہ دو،دو، تین تین برس کے بچے جن میں سے کچھ بھیڑ کی حرکتوں کو حیرانی سے تکتے ہوئے اور کچھ چیخ مار کر روتے ہوئے۔ وہ اپنے اطراف سے بری طرح اکتایا ہوا تھا کہ اچانک اسے محسوس ہوا کہ گاڑی کی رفتار کم ہو رہی ہے، اس نے بھیڑ کے درمیانی خلا سے ٹرین کی کھڑکی کے باہر نظر ڈالی، چاروں طرف کھیت ہی کھیت تھے، دور کہیں چھوٹی چھوٹی دو ایک پہاڑیاں نظر آ رہی تھیں، دھوپ بہت تیز تھی جس کی شدت کھڑکی کے قریب بیٹھے دو چار بوڑھے محسوس کر رہے تھے۔ گاڑی دھیمی ہوتے ہوتے رک گئی۔ ناز تھوڑی دیر تک اسی حالت میں بیٹھا گاڑی کے چلنے کا انتظار کرتا رہا، مگر جب اسے اس حبس زدہ ماحول میں سانس لینا بھی مشکل معلوم ہونے لگا تو اس نے اپنا بستہ اوپر والی سیٹ کی جھری سے کھینچا اسے اپنی نشست پہ رکھا اور اپنے برابر میں بیٹھے ہوئے شخص سے یہ کہتا ہوا کہ وہ ابھی واپس آ رہا ہے وہاں سے دروازے کی طرف چلا گیا۔ دروازے تک پہنچنے میں اسے خاصی مشکلوں کا سامنا کرنا پڑا تھا، جگہ جگہ لوگوں سے ٹکراتا ہوا کسی کو دھکا دیتا اور کسی سے معذرت کر کے جگہ طلب کرتا ہوا جب دروازے تک پہنچا تو ہوا کا ایک جھکڑ اس کے چہرے سےٹکرایا۔اس بے وقت کی تازہ ہوا نے اس کے پورے بدن میں ایک خوشگوار لہر دوڑا دی۔ناز نے دو ایک لوگوں کے درمیان تھوڑی سی جگہ بنا کر وہیں کھڑے رہنے کا ارادہ کر لیا۔ کچھ دیر میں گاڑی دھیمی رفتار سے چلنے لگی اور دھوپ کی شدت میں قدر ےکمی محسوس ہونے لگی۔ عین ممکن ہے دھوپ کی شدت کو گاڑی کی بڑھتی رفتار نے کم کر دیا ہو۔ دھوپ کی تمازت کو کم کرنے میں بادلوں کے وہ دو چار ٹکڑے بھی اپنا کردار ادا کر رہے تھے جو آسمان کی تھالی میں کہیں کہیں روئی کے بکھرے ہوئے گچھوں کی مانند پڑے تھے۔ گاڑی کی رفتار دھیرے دھیرے بڑھتی چلی گئی۔ نا ز ٹرین کے دروازے پراس طرح کھڑا تھا کہ اس کے ایک پاوں کی صرف ایڑی ٹرین کے باہری دروازے کی پائیری پر رکھی ہوئی تھی اورپنجہ ہوا میں تھا۔ وہ کبھی باہر کی بھاگتے ہوئے مناظر کو دیکھتا اور کبھی آسمان میں بکھرے بادل کے گچھوں کو۔ اس کی نظروں کے سامنے سے گزرتے ہوئے کھیت کھلیان اسےدھوپ کے باعث بیزار کن معلوم ہورہےتھے جب کہیں کوئی گائے، بکری یا کتوں کا جھنڈ نظر آتا تو وہ اسے للچائی ہوئی نگاہوں سے دیکھتا۔وہ سامنے آتے اور آن واحد میں تیزی سے پیچھے کی طرف چلے جاتے، ناز اپنی گردن گھما کر اس وقت تک ان کا تعاقب کرتا جب تک وہ نظروں سے اوجھل نہ ہو جاتے۔ منظروں کی قلت اسے جانداروں کے دیدار میں سکون بخش رہی تھی۔اچانک اسے ایسا محسوس ہوا کہ گاڑی ایک زور دار جھٹکے سے تھرا اٹھی ہے۔ ایک لہر جو اس کے اریب قریب کے لوگوں نے بھی محسوس کی تھی، سب کے منہ سے بیک وقت ہلکی سی چیخ نکل گئی تھی۔ اب سب ایک دوسرے کا منہ تک رہے تھے۔ تھوڑی دیر میں چہ مگویاں شروع ہو گئیں۔ ناز بھی حیران تھا۔ اگر اس نے ٹرین کے ہتھے کو مضبوطی سے نہ تھاما ہوتا تو شائد وہ باہر لڑھک جاتا۔ اس نے اپنے برابر والے شخص کو دیکھا جو حیرانی سے اس کا منہ تک رہا تھا۔ "یہ کیا تھا؟”ناز نے استفسار کیا۔”شائد کوئی جانور ٹکرا گیا ہے۔ ایسا اس لائن پہ اکثر ہوتا ہے۔” ناز نے سو چا کہ اگر کوئی جانورٹکراتا تو بھی کیا اتنی زور کا جھٹکا محسوس ہوتا۔ اس نے فوراً اپنی دوسری ٹانگ اندر لے لی اور دروازے کی طرف پیٹھ کر کے اپنے سرہانے موجود آہنی ڈنڈے کو مضبوطی سے تھام کر کھڑا ہو گیا۔ "مجھے نہیں لگتا، شائد زمین ہلی ہے۔” اس نے اپنے مخاطب سے کہا۔ "نہیں بھائی، یہ کوئی بڑا جانور ہی تھا۔”قریب کھڑے لوگوں نے بھی اس کی بات کی تائید کرنا شروع کر دی۔ ناز نے جلد ہی محسوس کر لیا کہ ہوا میں کسی چیز کے جلنے کی چراند شامل ہو گئی ہے۔ اس نے اپنے نتھنے اپنی جیب میں پڑے رومال کو نکال کر اس سے ڈھک لیے۔ اس کا جی متلا رہا تھا۔ "یہ اسی جانور کے خون کی مہک ہے بابو "اس کے برابر میں کھڑے ایک بوڑھے آدمی نے بتیسی نکالتے ہوئے کہا۔ "ایسا یہاں ہوتا رہتا ہے۔ڈرائیور صاحب بھی کیا کریں گے۔ گاڑی تیز ہوتی ہے اور یہ سسری گائے بھینس بیچ ٹریک پر آ کر کھڑی ہو جاتی ہیں۔ لاکھ ہارن دو نہیں سنتی اور گاڑی کی اسپیڈ ان کی وجہ سے بار بار کم کرتے رہے تو ایک دن کا سفر چار دن میں پورا ہوگا۔ "ناز اس بوڑھے شخص کی باتوں کو غور سے سن رہا تھا۔ اس نے سوچا کہ گاوں میں انسان اور جانور دونوں کے متعلق اسی طرح سوچا جاتا ہے۔ اگر کوئی گاوں والا بھی اس ٹریک کے درمیان اپنی دھوتی پٹری میں اٹک جانے کی وجہ سے کھڑا ہوتا تو بھی ڈرائور صاحب گاڑی نہیں روکتے۔ اس نے گاوں کو ہمیشہ سے ایسا ہی پایا تھا، جہاں جان کی قیمت شہر کے مقابلے میں خاصی کم تھی۔ اسے یاد آیا کہ جب کبھی وہ بچپن میں اپنے آٹھ،دس دوستوں کے ساتھ املی یا آم کے پیڑ پر چڑھا کرتا اور پیر پھسلنے کی وجہ سے گر جاتا تھا تو اس کے تمام دوست صرف اس پر ہنستے تھے کوئی اسے اٹھانے یا اس کی مدد کرنے آگے نہیں آتا تھا۔ ایک دفع تو” بدھ پورہ” کا ایک لڑکا اسی کے سامنے پیڑ سے گر کر مر بھی کیا تھا اور تمام دوست صرف ہنستے ہی رہے تھے۔ جب انہیں احساس ہوا کہ وہ مر چکا ہے تو اسے چھوڑ کروہاں سے بھاگ گئے۔بعد میں باغبان نے اس کی موت کی خبر گاوں والوں اور اس کے گھر والوں تک پہنچائی تھی۔
ناز یہ تمام باتیں سوچ ہی رہا تھا کہ ٹرین کی ایک زور دار سیٹی نے اس کے تخیل کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ گاڑی کی رفتار ایک مرتبہ پھر سے کم ہو رہی تھی۔ اس نے ٹرین کے باہر جھانک کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ کوئی اسٹیشن آنے والا ہے۔ جگہ جگہ لوہے کی پچاس پچاس فٹ لمبی پٹریاں بے ترتیبی سے پڑی تھیں۔ کہیں کچھ اینٹوں کا ڈھیر نظر آ رہا تھا اور کہیں کہیں بالوں، مٹی اور بجری کے تودے دکھائی دے رہے تھے۔بجلی کے کھمبے اب دروازے سے کچھ قریب آگئے تھے۔ اس کے پیچھے سے کچھ لوگوں نے اپنا سامان اٹھا کر دروازے کی طرف آنا شروع کر دیا تھا۔ ناز اور اس کے برابر میں کھڑے شخص نے اندر سے دروازے کی طرف آتے ہوئے لوگوں کی بھیڑ دیکھی تو کچھ کھسکنے کی کوشش کی۔ ناز کو لگا کہ اس وقت اس ریلے کو پار کر کے اپنی جگہ تک پہنچنا آسان نہیں ہوگا اس لیے وہ اپنی جگہ کھڑا رہا اس کے برابر والا شخص مشقت کرتا ہوا ریلے کے درمیان کہیں گم ہو گیا تھا۔ ناز نے سوچا میں اگلے اسٹیشن پہ اتر کے اس ریلے کو باہر نکال دوں گا اور دوبارہ سوار ہو جاوں گا۔ اس خیال نے اسے مطمئن کر دیا تھا۔ بھیڑ دروازے تک آچکی تھی۔ دو ایک لوگوں نے اس سے دریافت کیا کہ کیا وہ اترے گا تو اس نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ گاڑی کی رفتار اب خاصی کم ہو چکی تھی۔ ناز اپنا چہرہ باہر نکال کر آتے ہوئے اسٹیشن کو دور سے دیکھ سکتا تھا۔ اسے محسوس ہوا کہ اسٹیشن پر خاصی بھیڑ ہے۔ یہ اندازہ کر پانا مشکل تھا کہ کتنے لوگ گاڑی میں موجود لوگوں کے استقبال کے لیے کھڑے ہیں اور کتنے اسی گاڑی میں چڑھنے کے لیے۔ اس نے سوچا کہ اس چھوٹے سے گاوں میں بھی کتنے زیادہ لوگ رہتے ہیں کہ ایک ٹرین کے آنے پر اتنی تعداد اس کا استقبال کرنے کے لیے کھڑی ہے۔ناز کو جلد ہی اندازہ ہو گیا کہ اسٹیشن پہ موجود لوگ ٹرین میں سوار ہونے ہی آئے ہیں اور اس نے وقت پر پیچھے نہ جا کر غلطی کی ہے، مگر اب کیا ہو سکتا تھا۔ کیوں کہ اس کے پیچھے بھی اب خاصی تعداد اترنے والوں کی تھی اور وہ اس بات کا اعتراف بھی کر چکا تھا کہ اسے بھی آنے والے اسٹیشن پہ اترنا ہے۔ گاڑی اسٹیشن پہ پہنچی تو اترنے اور چڑھنے والوں میں ایک ہنگامی لہر دوڑ گئی۔ سب اتنی تیز رفتاری کا مظاہرہ کرنے لگے کہ ناز کے اوسان خطا ہو گئے۔ اس کے پیچھے والے اسے دھکیل کر آگے آنے کی کوشش کر نے لگے۔ دو ایک ہلکی چلتی ہوئی ٹرین سے ہی کود گئے۔ کچھ چلتی ہوئی ٹرین کے آہنی ڈنڈوں سے بھاگ بھاگ کر لٹکنے لگے۔ ابھی گاڑی رکی بھی نہ تھی کہ ایک جم غفیر دونوں طرف سے ٹوٹ پڑا۔ چڑھنے اور اترنے والے دونوں ایک دوسرے میں گندھ گئے۔ناز ان دونوں کے درمیان بری طرح پھنس گیا تھا۔ جب گاڑی پوری طرح رکی۔ ایک ایک دو دو لوگ طاقت لگا کر اترنے لگے۔ ناز نے بھی اسی میں عافیت جانی کہ کسی طرح اتر جائے۔ اس نے اپنے آس پاس والوں کو اپنی پوری طاقت سے دھکیلا۔ کسی پر چلایا، کسی کے کوہنی گڑائی اور نہایت محنت و مشقت کا سامنا کرتے ہوئے اس بھیڑ سے خود کو باہر نکالا۔
دو منٹ تو اس بھیڑ سے الگ ہٹ کر ایک کونے میں گیا اور اپنی سانس درست کی۔ اور اگلے ہی لمحے میں دروازے کی طرف نگاہ کی تو اس کی روح کانپ گئی۔ دروازے پر لٹکے ہوئے لوگ اس طرح باہر کی طرف گرتے ہوئے معلوم ہو رہے تھے جیسے کسی نے زبر دستی انہیں ٹرین کے ڈبوں میں ٹھونس دیا ہو۔ دروازوں پر، چھتوں پر، کھڑکیوں پر ہر طرف صرف آدمی ہی آدمی نظر آرہا تھا۔ ناز کو فوراً اپنی حماقت کا احسا س ہوا کہ اس نے اپنی نشست سے اٹھ کر دروازے پہ آ کے کتنی بڑی غلطی کی تھی۔ وہ حیران اور پریشان تھا کہ اب کس طرح دوبارہ اپنے ڈبے میں سوار ہو۔ پھر فوراً اسے اپنے بستے کا خیال آیا کہ یقیناً اس جگہ پہ بھی اب تک کوئی نہ کوئی بیٹھ چکا ہوگا اور اللہ جانے اس کے بیگ کا کیا بنا ہوگا۔
ناز کچھ دیر اسی حالت میں کھڑا رہا، پھر اس نے کچھ سوچ کر یہ فیصلہ کر لیا کہ خواہ کچھ ہو جائے وہ اس ڈبے میں سوار ہو کر رہے گا۔ اس کا گھر پہنچنا ضروری تھا اور وہ اس طرح اپنے سامان کا بستہ ٹرین میں چھوڑ کر کسی انجان جگہ تو نہیں رک سکتا تھا اور اگر رک بھی جاتا تو یہاں سے نکلنے کا یہ ہی ایک طریقہ تھا کہ اگلی ٹرین آئے اور اس میں سوار ہو کر اپنے گاوں جائے اور یقیناً اگلی ٹرین کا بھی یہ ہی عالم ہو گا۔ اول تو اس اسٹیشن پہ ٹرنیں ہی بہت دیر دیر میں آیا کرتی تھیں، پھر بہت کم ٹرینیں تھیں جو یہاں رکتی بھی تھیں۔وہ انہیں سب باتوں پہ غور کرتا ہوا اپنی جگہ سے آگے بڑا اور مشقت کرنے لگا کہ کہیں کسی تھوڑی سی جگہ پہ صرف پیر ٹکانے بھر کا آسرا ہو جائے تو وہ اپنے گاوں تک کاسفر اسی طرح طے کر لےگا۔ لیکن اس کی ہزار کوششوں کے باوجود اسے رائی برابر جگہ نہ ملی۔ ناز نے اپنے ڈبے کے اگلے اور پچھلے ڈبوں میں کونے کھدرے تلاش کرنے کی کوشش کی تو وہاں بھی ناکامی ہاتھ آئی۔ وہ چھت پہ چڑھنے میں بھی ناکام رہا تھا کیوں کہ چھت کے ہر اس مقام پر جہاں لوگ سوار ہو سکتے تھے سوار تھے، حتی کہ ڈبوں کے درمیان موجود آہنی ستونوں پر بھی دس دس، پندرہ پندرہ لوگ جمے ہوئے تھے۔ ناز کی کئی مرتبہ کی کوششوں کے باوجود بھی جب اسے کامیابی نہ ملی تو وہ ایک اور بار نا امید نظر آنے لگا۔ اسی دوران ٹرین نے روانگی کی صدا بلند کی اور ناز کے دل کی دھڑ کن بڑھنے لگی۔ اس کے ذہن میں برے برے خیالات آنے لگے۔ اب میرا کیا ہوگا؟ میں گھر کیسے پہنچوں گا؟ یہاں کہاں رکوں گا؟ کب تک رکنا ہوگا؟ یہ ٹرین چھٹ گئی تو اگلی ٹرین جانے کب تک آئے گی؟ اسے کئی طرح کے سوالات کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ ٹرین نے جوں ہی دوسری سیٹی بجائی کہ اسی کے ساتھ اس میں حرکت بھی پیدا ہو گئی۔ اب ٹرین دھیمی رفتار سے پلیٹ فارم سے آگے کی طرف بڑھ رہی تھی۔ ناز کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں وہ کچھ دیر تو اپنے ڈبے کے ساتھ چلا پھر، کچھ سوچ کر اپنے ڈبے کی اس کھڑکی کے پاس دوڑا جہاں سے اس نے باہر جھانک کر بھاگتے کھیتوں اور پہاڑیوں کا منظر دیکھا تھا۔ اس نے سوچا کہ اگر میں سوار نہیں ہو سکتا تو کسی سے کہہ کر اپنا بستہ کھڑکی سے باہر پھنکوا لوں۔ اس افرا تفری میں وہ یہ بھی بھول گیا تھا کہ لوہے کی سلاخوں سے بستہ کسی صورت باہر نہیں آ سکتا۔ مگر جوں ہی وہ کھڑکی کے قریب پہنچا اسے یہ راہ بھی تاریک دکھائی دینے لگی۔ کیوں کہ کھڑکی سے ڈبے کے اندر کا منظر نہایت وحشت ناک تھا۔ صرف کچھ عورتوں اور مردوں کی کمر کے گرد کا علاقہ کھڑکی سے نظر آ رہا تھا۔ کچھ دیر قبل جو دو چار بوڑھے اس کی کھڑکی سے لگے بیٹھے تھے اب وہ بھی ندارت تھے اور ان کی جگہ سات، آٹھ لوگ بہت مشکل سے کھڑکی کے قریب والی سیٹ پر ٹھنسے ہوئے دکھائی دے رہے تھے۔ ٹرین کی رفتارمیں اب مزید اضافہ ہو گیا تھا، ناز کچھ دور تک اپنے ڈبے کے تعاقب میں دوڑتا رہا پھر اس سے پیچھے ہو گیا۔ پھر مزید پیچھے اور دیکھتے ہی دیکھتے بالکل آخری ڈبے کے قریب آ گیا۔ ٹرین اب اس رفتار سے چلنے لگی تھی کہ ناز پوری طرح مایوس ہو گیا تھا کہ اچانک اسے آخری ڈبے کے پاس اپنے لیے پاوں ٹکانے کی ایک جگہ نظر آ گئی۔ جوں ہی اس کی نگاہ اس پائدان پر پڑی اس کے بدن میں برق سی دوڑ گئی۔ اس نے نا قابل بیان تیزی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دوڑ لگا دی اور آخری ڈبے سے ملحق آہنی ڈنڈے کو تھام کر اس پائدان پر اپنا ایک پیر ٹکا دیا۔ ناز کا پیر ٹکتے ہی ٹرین اپنی مکمل رفتار پر آ گئی۔ اگر اسے ذرا بھی دیر ہوتی تو وہ کسی طرح اس پائدان تک نہیں پہنچ پاتا۔ ناز اب اس آہنی ڈنڈے کو پکڑ کے ایک پیر ٹرین کے پائدان پہ ٹکائے ہوا میں جھول رہا تھا۔ دوڑنے کی وجہ سے اس کا سارا بدن پسینے سے شرابور ہو گیا تھا۔ اس کی سانس تیزی سے چل رہی تھی اور ان کے چہرے پر تھکن کی لہر صاف دیکھی جا سکتی تھی۔ اس کے باوجود وہ اندر ہی اندر بہت خوش تھا۔ اسے یوں محسوس ہو رہا تھا کہ اس نے کوئی بڑا معرکہ سر کر لیا ہے۔ اس کی خوشی کا اظہار اس مسکراہٹ سے بھی ہورہا تھا جو اس کے تھکے ہوئے چہرے پر رہ رہ کر چھا رہی تھی۔ اس بھاگم دوڑی میں کچھ دیر کے لیے ناز سب کچھ بھول گیا تھا کہ وہ کیوں دوڑ رہا ہے، کتنا دوڑ رہا ہے اور اس دوڑنے کا حاصل کیا ہے۔ وہ تو بس دوڑ کر اس پائدان پر اپنا پاوں جمانا چاہتا تھا، جس میں اسے کامیابی نصیب ہوئی تھی اور اس کی پھولتی سانسیں پسینے میں بھیگاہوا سے تروتازہ ہوتا بدن اس بات کا جشن منا رہے تھے کہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو گیا ہے۔ تقریباً پندہ سے بیس منٹ ناز کی یہی کیفیت رہی کہ وہ رہ رہ کر خوش ہوتا رہتا۔ مگر جیسے جیسے وہ اس کیفیت سے باہر آ رہا تھا اسے ایک نئی مصیبت کا احساس ہو رہا تھا۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ اب گاڑی اگلے چھ گھنٹوں تک چلتی رہے گی یا کہیں رکے گی بھی اسے اس عالم میں ایک ہاتھ سے آہنی ڈنڈا تھامے ایک پاوں ہوامیں لٹکائے کب تک جھولتے رہنا تھا۔ اس خیال نے اسے اندر تک لرزا دیا۔ اس کے آس پاس اور بھی کئی لوگ تھے جو اسی طرح جھول رہے تھے مگر ناز کے مقابلے میں وہ تجربے کار معلوم ہوتے تھے۔ ناز نے ایک بار بغور اپنے اطراف کا جائزہ لیا اس کے آگے فوجی کپڑوں میں ملبوس ایک نوجوان لڑکا تھا جس کی عمر تقریباً بیس یا اکیس برس کی تھی۔ وہ اپنے چند ساتھیوں کےساتھ زور زور سے کچھ گا رہا تھا۔ ان میں وقتاً فوقتاً کوئی مذاق ہوتا اور سب ایک ساتھ ٹھھٹے مار کر ہنستے۔ ناز نے کافی دیر تک اسی کشمکش میں رہنے کے بعد اس نوجوان سے تقریباً چیخ کر پوچھا کہ گاڑی اب کہاں رکے گی۔ فوجی نے اس کی طرف دیکھے بغیر کہا۔” بھیم پورہ” یہ سنتے ہی ناز کے پیروں تلے زمین نکل گئی۔ کیوں کہ یہ خود اس کے اپنے گاوں کا نام تھا۔ اس نے دوبارہ ہمت جٹا کر پوچھا ” کیا اس سے پہلے کہیں نہیں رکتی۔” لڑکے نے اپنے علاقائی لہجے میں کہا”کہ اگر رکنا چاہے گی تو رک جائے گی، البتہ اگلا اسٹوپ تو و ہی ہے۔ ”
یہ سننا تھا کہ ناز کی الجھن انتہا تک پہنچ گئی۔ وہ اب اپنی ٹرین پکڑنے کی خوشی کو نفرت کی نگاہ سے دیکھ رہا تھا۔ اس کے دانت مضبوطی سے بھنچے ہوئے تھے اور اس کا بدن ایک انجان غصے میں کانپ رہا تھا۔ اس نے خود پر لاکھ لعنت، ملامت کی، اس سفر کو ہزاروں صلواتیں سنائیں اور گاوں کی ولدیت پہلے وضع کی پھر اس میں کئی مرتبہ ترمیم کی۔ اسے خو د پر بھی بہت غصہ آ رہا تھا۔ آخر ایسا کیا تھا کہ وہ ٹرین چھوڑ نہیں سکتا تھا، وہ اپنے گذشتہ فیصلے کو مشکوک نگاہوں سے دیکھنے لگا۔ خود کی حماقتوں کو دل ہی دل میں گالیاں دینے لگا۔ اسے شدت سے محسوس ہوا کہ اپنی نشت سے اٹھ کر اس نے بہت بڑی غلطی کی تھی، مگر اب ان تمام باتوں سے کیا ہو سکتا تھا، اس کو اسی طرح لٹکا رہنا تھا، اسی طرح جھولتے ہوئے چھ گھنٹوں کی مسافت طے کرنا تھی، اس کا یہ ارادہ کہ اب کوئی قریبی سے قریبی رشتہ دار یا خاندان والا خواہ مر بھی کیوں نہ جائے وہ اس گاوں کا سفر کبھی نہیں کرے گا۔ لیکن اس سے بھی اس کی تکلیف میں کمی پیدا نہیں ہو سکتی تھی۔ وہ اپنے مزاج سے واقف تھا کہ اسے کتنی دیر تک اپنی حماقتوں پر غصہ آتا رہے گا۔ ساتھ ہی بدن کو مشقت میں ڈالنا بھی اسے کچھ خاص پسند نہ تھا۔ چھ گھنٹے تک آدھے بدن کے ساتھ ہوا میں جھولتے رہنےکا خیال ہی اسے پریشان کر دینے کے لیے کافی تھا۔ ناز اسی عالم میں گھبراہٹ کا شکار ہو رہا تھا۔ جوں جوں ٹرین کسی موڑ پر جھٹکا کھاتی یا پٹری بدل کر ہلکا سا لڑ کھڑاتی تو اسے محسوس ہوتا کہ اس کی جان پورے بدن سے کھنچ کر گلے میں آ گئی ہے۔ وہ ایک طرح کی سرد لہر ایسے موقعوں پر اپنے بدن میں دوڑتی ہوئی محسوس کرتا۔ پھر جب ٹرین دوبارہ اعتدال سے چلنے لگتی تو اسے اپنی غلطیوں کا احساس ستانے لگتا۔ سورج کی تپن اب کچھ کم ہونے لگی تھی اور اس کی جگہ سایہ لے رہا تھا۔ اس نے آسمان کی طرف دیکھا تو یوں لگا جیسے آسمان اس کی حماقتوں پر قہقہے لگا رہا ہے۔ ناز کے باطنی حالات اس دورانیے میں خاصی پیچیدہ کیفیات سے دو چار ہو رہے تھے۔ جس میں نفرت کا جذبہ واضح طور پر اس کے دل پر چھا رہا تھا۔ وہ جب غور کرتا کہ اس نے اپنے والدین سے کئی مرتبہ کہا کہ وہ گاوں کو ہمیشہ کے لیے الوداع کہہ دیں اور اس کے ساتھ شہر میں رہیں، جہاں ان کے لیے ہر طرح کی سہولیات مہیا تھیں،مگر اس معاملے میں انہوں نے اس کی ایک نہ سنی،تو اس کا غصہ مزید بڑھ جاتا،وہ ماں، باپ کو جاہل اور دیہاتی تصور کرنے لگتا، جو ایک ایسے کھونٹے سے بندھے رہنے کو سب کچھ سمجھتے تھے جہاں زندگی کی معمولی سے معمولی سہولتیں بھی میسر نہیں تھیں۔ اسے اپنے بھائی، بہن پر بھی غصہ آ رہا تھا جنہوں نے اجتماعی طور پر اسے گاوں آنے کی دعوت دی تھی۔ جب جب ناز کو ایسا لگتا کہ اس کا پاوں ہوا کے تیز جھونکے سے پائدان پر سے کھسک جائے گا تو اس کے تمام احساسات ہوا ہو جاتے اور اس کے چہرے کا رنگ زرد پڑ جاتا۔ اس درمیان میں اس نے اپنے سے آگے لٹکے ہوئے لوگوں سے کئی بار منتیں مانگ مانگ کر گڑگڑاہٹ کے ساتھ کچھ اندر کھسک جانے کی التجائیں بھی کی تھیں، مگر کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی تھی۔ دو ایک مرتبہ جب اس نے رو دینے والے انداز میں اس فوجی لباس میں ملبوس نوجوان سے استدعاکی تھی تو اس نے پلٹ کے ہنستے ہوئے کھرا سا جواب دے دیا تھا کہ” لٹکا رہنا ہے تو رہ نہیں تو کود جا۔” پھر اپنی علاقائی زبان میں اپنے تمام دوستوں سے کچھ کہا جس پر سب ایک ساتھ روز سے ہنسے۔
ناز کو تھوڑی تھوڑی دیر میں گھبراہٹ کے باعث اپنی انگلیوں میں پسینے کی بوندوں کے ابھرنے کا خدشہ بھی محسوس ہوتا تھا۔ وہ خود پر قابو پانے کے لیے اپنے ہوا میں جھولتے ہوئے ہاتھ کو با ر بار اپنے چہرے پر پھیرتا، بدن کو اکڑا کر ہاتھ کی گرفت میں مضبوطی پیدا کرنے کی سعی کرتا اورپاوں گا اگلا حصہ جو پائدان پر ٹکا ہوا تھااس کو ہلکی ہلکی جنبش سے آگے بڑھانے کی کوشش کرتا رہتا۔ وہ اس وقت جس حال میں تھا اسے اپنے بدن کی گردش اور قوت کی سلامتی پر بھر پور توجہ صرف کرنی پڑ رہی تھی۔ اسے معلوم تھا کہ اس کی ذرا سی غفلت اسے موت کے اندھے غار میں کہیں گم کردے گی۔ انہیں حرکتوں کے درمیان جب اسے لمحے بھر کا سکون ملتا یا ڈر کی کیفیت پر ذہن جوں ہی قابو پاتا تووہ اپنی زندگی سے متعلق لوگوں کے بارے میں سوچنے لگتا کہ اگر اس کی ہمت جواب دے گئی، اگر اس کا ہاتھ چھٹ گیا تو اس کے خاندان اور گھر بار کے تمام لوگ کیسا محسوس کریں گے۔ کیا اس کی موت سے اس کے والدین اور بھائی بہن کو صدمہ پہنچے گا؟ کیا اسے اجتماعی طور پر گاوں بلوانے کی تجویز پر سب کف افسوس ملیں گے؟ کیا وہ شدت غم سے خود اسی کی طرح موت کے اندھیروں میں کہیں کھو جائیں گے؟پھر جوں ہی خیالات کے بھنور پر ہوا کا ایک تیز چھپکا پڑتا تو سارے تصورات رخصت ہو جاتے وہ پھر ہاتھ کی گرفت اور پاوں کو آگے کھسکانے کے متعلق غور کرنے لگتا۔ ناز اس دورنیے میں اپنا بدن آخری حد اکڑائے ہوئے تھا جس کی وجہ سے اس کی پسلیوں میں ہلکا سا درد سرایت کرنے لگا تھا۔ پٹھے آہستہ آہستہ اکڑ رہے تھے، جب اس کا ذہن بدن میں درد کے گھروندے تعمیر کرتی ہوئی لہر پر جاتا تو وہ زور سے چیختا جس پر اس آگے لٹکے ہوئے نوجوان بھی یک زبان ہو کر اس کی صدا کا ساتھ دیتے پھر اجتماعی طور پر ہنستے اور ناز بیچارگی کے عالم میں ان کی ہنسی کی صدا پر دل ہی دل میں روہانسا ہو کر خاموش ہو جاتا۔ اس چیخنے کے عمل سے اسے نہ جانے کیسے ایک انجانی طاقت حاصل ہو تی، وہ چیخنے سے پہلے اور اس کے بعد کی توانائی میں خاصافرق محسوس کرتا۔ اسے لگتا جیسے چیخ کر اس نے اپنے بدن پر رینگتے ہوئے کمزوری کے کیڑوں کو اس طرح جھاڑ دیا ہے جیسے کوئی بھیڑ،بکری یا کتا اپنے بدن سے لپٹی گندگی کو خود سے دور کر دیتا ہے۔
وہ اسی عالم میں اپنی نفسیاتی الجھنوں سے جوجھتے ہوئے اور اپنی گرفت کو مضبوطی سے برقرار رکھے ہوئے تقریباً ایک گھنٹے تک لٹکا رہا۔ اس دوران ٹرین مستقل ہوا سے باتیں کرتی رہی، کبھی ندی، تالاب اور جھیل کے اوپر سے گزرتی، کبھی دور تک پھیلے ہوئے کھیتوں میں ترچھی،بانکی ہو کر دوڑتی رہتی، کبھی کسی نیم آباد گاوں کی جھوپڑیوں اور پھوس کے چھپروں سے مزین گھروں کے درمیان سے نکلتی اور کبھی چھوٹی چھوٹی پہاڑیوں کے بیچ ناگن کی طرح لہراتی ہوئی آگے کی طرف بڑھتی۔ ناز اب اس لمحے کے بارے میں رہ رہ کر سوچ رہا تھا جب وہ اپنی سیٹ پر بیٹھا بھیڑ کی آوازوں سے اکتا رہا تھا۔اسے محسوس ہو رہا تھا کہ ان لمحوں میں کیسا سکون تھا، کتنی بے پروائی اور کیسی اندورنی خاموشی جس میں مشقت کا شائبہ بھی موجود نہ تھا۔ ان لمحوں میں اس کے لیے زندگی کی قیمت دو کوڑی کی تھی۔ وہ اپنے ہونے کو بھی کچھ خاص اہمیت نہیں دے رہا تھا اور اب جبکہ اس کے بازو تکلیف سے بوجھل ہو رہے ہیں۔ بدن تھکن کے باعث ڈھیلا پڑتا چلا جا رہا ہے، سانسیں تیز ہوا سے الجھ کر اپنی حقیقت سے نا آشنا ہو رہی ہیں، زندگی اس کے لیے ایک قیمتی شے بن گئی ہے۔ اسے معلوم تھا کہ وہ تھک چکا ہے، مگر اپنی گرفت کو ڈھیلا نہیں کرسکتا، وہ جانتا تھا کہ اس کی پیٹھ،گردن اور رانوں کے پٹھے تن گئے ہیں مگر انہیں خاطر میں نہیں لا سکتا تھا، جبکہ اندر بیٹھے ہوئے لوگوں کی آوازیں اور ان کی قربت اسے اتنی گراں گزر رہی تھی کہ وہ حبس دم میں مبتلا ہوتا چلا گیا تھا۔ ناز کو احساس ہو رہا تھا کہ وہ اپنے اطراف سے کتنی جلد اکتا گیا تھا جبکہ وہ اطراف اس کے لیے کسی مصیبت کی وجہ نہ بنا تھا۔
ٹرین کی رفتار دھیمی ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی، سورج اب مغرب کی طرف اتنا جھک گیا تھا کہ آسمان کی کناری پہ شام کی لالی ابھر آئی تھی۔ ٹرین کی رفتار سے ہوا میں جو ارتعاش پیدا ہورہا تھا اس کی لہر آس پاس کے منظرکو متحرک بنا رہی تھی۔پرندوں کی غور ہوا میں تیرتے ہوئے جب ٹرین کے قریب سے گزرتے تو ان کے پروں میں تھرتھرا ہٹ پیدا ہو جاتی۔ ابھی سایہ اتنا دراز نہیں ہوا تھا کہ پہاڑیوں کی کھوہ میں لٹکے ہوئے چمگاڈر اپنے پنچے ڈھیلے کر دیں۔ مگر اتنا تو ہو چلا تھا کہ مغرب میں دور کا منظر جلتا ہوا دکھائی دے جائے۔ سورج جیسے جیسے اپنے پر سمیٹ رہا تھا، ویسے ویسے ناز کی تکلیف شدت کو عادت کی طرح قبول کرتی چلی جا رہی تھی۔ لوہے کاوہ آہنی ڈنڈا ب جو ناز کی گرفت میں تھا اس کی گنگناہٹ، ٹھنڈک میں تبدیل ہونے لگی تھی، پاوں کا وہ حصہ جو اگلے مسافر کی کولوں سے مس تھا اس کی گرماہٹ میں اعتدال پید ا ہو گیا تھا اور ناز کے پٹھے اتنے تن گئے تھے کہ اب ان میں مزید تناو پیدا ہونے کی گنجائش نہیں بچی تھی۔ ناز کو تقریباً اسی عالم میں بیس، پچیس منٹ مزید لٹکے رہنے کے بعدکچھ عجیب سا محسوس ہوا کہ جیسے ہوا اس کے سفر کو آسان بنا رہی ہے۔ یہ خیال خود اسے چونکا دینے کے لیے کافی تھا کہ ہوارہ رہ کر گیلے موگھرے کے مٹھی بھر پھولوں کی طرح اس کے چہرے سے ٹکرارہی ہے۔ اس کے کپڑوں میں داخل ہو کر اس کے بدن پہ پھیلنے والے پسینے کو سکھانے کی جلد بازی میں اسے ایک انجانا سکون بخشتی رہی ہے، ہوا کی رفتار سے اس کا پھولا ہوا لباس اس کی رگوں میں شادمانیاں گھول رہا ہے۔ اس کا ذہن آہستہ آہستہ ان دھڑکوں سے خالی ہو رہا ہے جو اسے زندگی کی چاہت میں لرزہ بر اندام کر رہے تھے۔ یہ خیالات اس کے لیے ایک انجان سی مسرت بھی لے کر آئے تھے، دو ایک مرتبہ جب اسی عالم میں اس نے اپنے آگے لٹکے ہوئے نوجوانوں کو ہنتے کھلکھلاتے سنا تو یکبارگی اس کے ہونٹوں پر بھی مسکراہٹ چھا گئی۔ اب اسے ان کی آواز میں زہر کے بجائے نغمگی محسوس ہو رہی تھی۔ اب جتنی دیر وہ خاموش رہتے اسے تنہائی کا احساس ہوتا،وہ اپنے نوجوان ساتھیوں کے قہقہوں کا منتظر تھا کہ وہ کب ہنسیں اور کب اسے دوبارہ اسی لذت کا سرور حاصل ہو۔ اس نے دو ایک بار انہیں ہنسانے کی مصنوعی کوشش بھی کی تھی جس پر وہ ہنسے تھے اور اسے اپنے لٹکے رہنے کے احساس کو بھلا دینے والی خوشی نصیب ہوئی تھی۔ ناز جب کچھ دیر تک یوں ہی ان کی صداوں میں گم ہوتا رہا تو اسے لگا کہ اب اس کا ڈر بالکل ختم ہو چکا ہے۔ اس کا بدن اس سے بغاوت نہیں کر رہا ہے، اس کا جھولتا ہوا آدھا جسم اسے ہوا میں تیرتا ہوا محسوس ہونے لگا، اس نے اپنا وہ ہاتھ جو ہوا میں لٹکا ہوا تھا اسے ہلکے ہلکے دراز کرنا شروع کیا، جب ہاتھ پوری طرح کھل گیا توہوا میں جھولتی ہوئی ٹانگ کو بھی ہلانے لگا۔ دو ایک مرتبہ اسی طرح کرنے پر اس کاخوف بالکل کافور ہوگیا اور وہ زور زور سے ہنسنے لگا۔اس کی ہنسی کی آواز اب اتنی تیز تھی کہ اس کے نوجوان دوست اس پر پہلے تو زور سے ہنسے پھر اسے تنہا ہنستا ہوا چھوڑ کر خاموشی کے دریامیں غرق ہو گئے۔ ناز کو اب ان کی خاموشی سے کچھ لینا دینا نہیں تھا، اب تو اسے اپنی خوشی سے سروکا ر تھا۔ اس کے لیے یہ ایک خوش گوار تصور تھا کہ اسے رائی برابر بھی ڈر نہیں لگ رہا ہے، اسے ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے اس کا ایک ہاتھ اور ایک ٹانگ کسی نے مضبوطی سے تھا م رکھی ہے اور اسے ہوا میں جھولنے کے لیے چھوڑ دیا ہے۔ اب ناز اپنے اطراف پر زیادہ غور کر سکتا تھا، وہ دیکھ سکتا تھا کہ سورج کے ڈوبتے ہوئے منظر میں چلتی ہوئی ٹرین نے وہ حسن پیدا کر دیا ہے جو اس نے کبھی اپنی عمارت کی چھت پہ نہیں دکھا تھا۔سورج اور ٹرین کے درمیان حائل ہوتے پہاڑ ان کے آگے پھیلی ہوئی سبز اور کھردری زمین، کہیں کہیں کھیتوں میں کھڑے مصنوعی انسان آسمان کی گود میں چھلانگ لگاتے پرندے اور دور تک لہراتی اور بل کھاتی ہوئی ٹرین اور اس پر لدے بے شمار انسان سب ایک نقلی منظر بنا رہے تھے، ایسا نقلی منظر جو اس نے کبھی خواب میں بھی نہیں دیکھا تھا۔ اسے لگا کہ شائد اگر میں اس وقت ٹرین میں دوڑ کر سوار نہ ہوتا توزندگی کے اتنے حسین پل سے ہمیشہ کے لیے محروم رہ جاتا۔ یہ سوچ کر اس نے ایک زور دار قہقہہ لگایا جس پر اس کے آگے والے شخص نے چیخ کر اسے ماں کی گالی دی۔ ناز کو اب یہ گالی بہت حقیر معلوم ہو رہی تھی، کیوں کہ وہ فطرت کی حسین پالکی میں سوار ہو کر خوش نما نظاروں کا لطف لے رہا تھا۔ اس نے سوچا کہ وہ کتنا احمق ہے کہ ایک ایسے منظر تک پہنچنے کے خطروں سے ڈر رہا تھا، وہ کتنا لا علم تھا کہ اس ظاہری خوف میں مبتلا ہو کر اس مقام تک آنے سے کترا رہا تھا۔ اسے اپنا ٹرین کو دوڑ کر پکڑنے والا فیصلہ اچانک انوکھا اور اچھوتا معلوم ہونے لگا۔ اس نے ایک بار دل ہی دل میں خود کو شاباشی دی۔ اپنے ماں اور باپ، بہن اور بھائیوں کو دعائیں دیں کہ انہوں نے اسے گاوں بلوایا۔ وہ اب اپنے والدین کے متعلق سو چ رہا تھا کہ اگر وہ گاوں میں نہ رہتے تو اسے ہر گز ان فطری مناظر کی جھلک نہ دیکھنے کو ملتی۔ اس نے اپنے تمام گذشتہ خیالات کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا اور خود کو اپنے اطراف کے حوالے کر دیا۔
گاڑی دیر تک اسی طرح چلتی رہی اور ناز اسی طرح ایک ہاتھ سے جھولتا رہا۔اب شام کا دھندلکا ہو چلا تھا آسمان پر ستاروں کا ظہور ہونے لگا تھا، آسمان کے تھال میں چاندی کا ایک بڑا سکہ اپنی ٹمٹماہٹ چاروں طرف مترشح کر رہا تھا۔ ناز کو لگا جیسے گاڑی کی رفتار اچانک کم ہو رہی ہےکیوں کہ اس کی پٹریوں سے اٹھتی ہوئی گڑ گڑاہٹ مدھم ہونے لگی تھی۔ ناز کی نظر یں آسمان کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھ رہی تھیں اس نے گاڑی کی دھیمی رفتار کو محسوس کرتے ہوئے بھی اپنی نظریں نیچی نہیں کیں، کچھ دیر بعد، لوہے کی موٹی سلاخوں کا ڈھیر آیا،پھر بالوں کے کچھ تودے پڑے، سمنٹ کی بوریوں کا جتھا دکھائی دیا مگر ناز اسی منظر میں کھویا رہا تھوڑی دیر بعد ٹرین کی رفتار خاصی کم ہو چکی تھی لوگوں کی طرح طرح کی آوازوں کا شور ناز کے کانوں سے ٹکرانے لگا تو اس کے خیالات کا تسلسل ٹوٹ گیا اس نے حیرانی سےنیم خوابیدہ حالت میں اس طرح اپنے اطراف پر نظر ڈالی جیسے ابھی کسی خواب سے جاگا ہو۔جوں ہی اس کی نظر سامنے موجود تختی پر پڑی اس پر ایک قسم کی مایوسی چھا گئی کیوں کہ تختی پر جلی حروف میں "بھیم پورہ” لکھا ہوا تھا۔
Leave a Reply