کجلا چکے جذبوں سے آخری مصافحہ
محمد حمید شاہد: تمہاری انا زدگی نے مجھے گھسیٹ کر ڈوبتی امید کے اس چوبی زینے پر لاکھڑا کیا ہے
محمد حمید شاہد: تمہاری انا زدگی نے مجھے گھسیٹ کر ڈوبتی امید کے اس چوبی زینے پر لاکھڑا کیا ہے
آفتاب اقبال شمیم: اس نے چاہا بند کمرے کی سلاخیں توڑ کر باہر نکل جائے مگر شاخوں سے مرجھائے ہوئے…
گلزار: لکیر اپنی جگہ سے ہٹتی نہیں، نہ ہٹتا ہے وہ سپاہی چَھپے ہوئے لفظ کی طرح سے پڑے ہیں…
ابرار احمد: دریچے، آنکھیں بن جاتے ہیں ایک اجنبی باس الوہی سرشاری سے ہمارے مساموں میں اتر جانے کو بے…
جمیل الرحمٰن:نظم کی سانس اکھڑ رہی ہے زمین بگڑ رہی ہے لفظ چلّا رہے ہیں کیا تمہیں یہ علم نہیں…
نصیر احمد ناصر: ماضی کی ایک تنگ گلی میں کھڑے چم چم اور گلاب جامن کھاتے ہوئے تم لوگوں سے…
زاہد امروز: ڈرے ہوئے آدمی ڈرے ہوئے آدمی سے ڈر جاتے ہیں مرے ہوئے آدمی مرے ہوئے آدمی کو مار…
ادریس بابر: اپنےہاٹ فیورٹ، ایگ اینڈ بیکن ناشتے سے انصاف کرنے، نیپکن سے کلین شیو مکھڑا پونچھنے کے فورن بعد…