[blockquote style=”3″]
گلزار کی یہ نظم معروف ادبی جریدے ‘تسطیر’ میں شائع ہو چکی ہے، لالٹین قارئین کے لیے اسے مدیر تسطیر نصیر احمد ناصر کی اجازت سے شائع کیا جا رہا ہے۔
[/blockquote]
تسطیر میں شائع ہونے والی مزید تخلیقات پڑھنے کے لیے کلک کیجیے۔
وہ ایک چوکی جڑی ہوئی ہے جو بارڈر پر
اُسی کی دیوار میں جڑا اک سپاہی رائفل لیے کھڑا ہے
جمائیاں لے رہا ہے کب سے
اُسے بھی اب نیند آ رہی ہے
وہ تھک گیا ہے
لکیر اپنی جگہ سے ہٹتی نہیں، نہ ہٹتا ہے وہ سپاہی
چَھپے ہوئے لفظ کی طرح سے پڑے ہیں دونوں
نہ جانے کل رات کیا ہوا تھا
گلے پہ بندوق رکھ کے اس نے
چلا دی گولی
وہ لفظ لیکن مَرا نہیں ہے
وہیں پہ رائفل لیے ہوئے
دوسرا سپاہی جڑا ہوا ہے