دو نظمیں (قاسم یعقوب)

میں کبھی ایسا دیکھوں میں خوابوں کا بارود بنوں اور بارود مرا چہرہ، مری آنکھیں اوڑھ کے ریزہ ریزہ ملبہ بنتی دل کی آبادی بن جائے میں ایک شجر کو خود پر پہنوں اور مرا سایہ تیرے جسم پر میرے ہونٹوں کے لمس ...

مرکزہ اپنی اکائی توڑتا ہے

قاسم یعقوب: عجب عشوہ گری ایام نے سیکھی ہے موسم کے تغیر سے زمیں پاؤں کی ٹھوکرپرپڑی ہے آسماں مرضی کا منظر چاہتا ہے رتجگے کی شب کروموسوم کی ہجرت پہ پہرہ دے رہا ہے

بھوک کی کئی قسمیں ہیں

قاسم یعقوب: میں آج بہت بھوکا ہوں میرے دل، ذہن اور جسم کے سارے خالی رستوں پر بے سمت چلنے والے قافلوں کی دھول اڑ رہی ہے

جنگِ ستمبر اورغلام جیلانی اصغر کے مشاہدات

قاسم یعقوب: سترہ روز جاری رہنے والی اس جنگ نے بہت سے سوالات دونوں ملکوں کے عوام کے لیے چھوڑے۔ چونکہ پاکستان کے لیے یہ دفاعی حکمتِ عملی کا امتحان تھا ہماری فوج نے پوری قوت سے اپنے دفاعی مقاصد کو عملی جامہ پہنایا۔

روزنامچہ

قاسم یعقوب: مکتبوں ،دانش کدوں سے زندگی کے فلسفے پرمشتمل جھوٹی کتابیں پڑھ کے آنا موت کو آسان کرنے کے جتن کرنا

شاعری میری ضرورت ہے

قاسم یعقوب: شاعری میری پہچان بننے سے زیادہ میری ضرورت کو پورا کرتی ہے میرا شاعری سے وہی تعلق ہے جوکسی بھیڑ کا اپنی اون سے ہوتا ہے

بیل ذبح ہو گیا

پھر بازار کے بیچ میں صبح سویرے بیل کی رسی کھلتی سب لوگوں نے دیکھی دیکھتے دیکھتے کھال کی کترن کٹ کے دھڑیوں میں گوشت کو چانپ چانپ بکھیر گئی اور دیکھتے دیکھتے خلقِ خدا سب ران گوڑ کو چتون چتون چاٹ گئی