[blockquote style=”3″]
[/blockquote]
مصنف جتنا کہنہ مشق اور تجربہ کار ہوتا ہے اس کی پکڑ بھی اتنی ہی سخت ہوتی ہے اور اس کی تخلیق کو اتنا ہی سخت شکنجے میں کس کر ناپا تولا اور پرکھا جاتا ہے۔
متن اساس تنقید کو اس سے ویسے تو بالکل بھی سرو کار نہیں ہوتا کہ مصنف کون ہے اس نے کیا کیا تخلیق کر رکھا ہے اور اسکا نام کتنا اونچا ہے اسے متن سے سر و کار ہوتا ہے میری ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ میں کسی بھی تخلیق کو مصنف سے جدا رکھ کر دیکھوں اور پرکھوں۔
یہاں ویسے تو یہ چلن عام ہے کہ دوستوں کے کمزور افسانوں کو بھی بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے اور ان کی تعریف میں آسمان کے قلابے ملا دیے جاتے ہیں اور جواب میں دوست بھی پھر خوب دوستیاں نبھاتے دکھائی دیتے ہیں اور احسان اتارتے نظر آتے ہیں خیر یہ ایک ضمنی بات تھی جو بالعموم ادب میں اور باالخصوص فیس بک پر دکھنے والے رویے کے بارے تھی۔
اب زرا چلتے ہیں مذکورہ تخلیق کی جانب
میں اپنی پوری ایمان داری برتتے ہوئے متن اساس تنقید کی ہی کوشش کروں گا اور مصنفہ کی ذات کو تخلیق سے جدا رکھ کر اپنا تجزیہ پیش کروں گا لیکن اس سے پہلے کچھ مصنفہ کے بارے میں محترمہ فارحہ ارشد کم و بیش بیس پچیس یا اس سے کچھ کم یا اوپر سالوں سے پاکستان کے مختلف ڈائجسٹوں میں لکھ رہی ہیں اور ڈائجسٹی لکھاریوں میں ایک بڑا نام اور اہم مقام رکھتی ہیں پچھلے قریب تین سالوں سے وہ فیس بک کے بہت سے فورمز پر بھی لکھ رہی ہیں اور ان کے "زمین زادہ” اور "حویلی مہر داد کی ملکہ” جیسے شاہکار افسانے بھی ہم نے پڑھ رکھے ہیں ان کے ایک اور افسانے کو پڑھتے ہوئے ان کے اس ہی معیار کی توقع رکھنا بے شک ان کے قاری کا حق ہے میں ان کے اس افسانہ پر انہیں مبارک باد پیش کرتا ہوں۔
آئیں اب متن میں جھانکیں۔
میں ہمیشہ کہتا ہوں جب تک مصنف کا حسی تجربہ تخلیق کا حسی تجربہ بن کر نہیں ابھرتا تخلیق تحریر تو رہتی ہے فن پارہ نہیں بنتی ایسا ہی کچھ مذکورہ تحریر کا معاملہ بھی ہے۔
تھر جیسے پسماندہ علاقے میں بسنے والی چودہ پندرہ سال کی ایک لڑکی کی کہانی جو اول اول اپنے باپ کی زبانی ایک ڈاکٹر کا ذکر سن کر اسے اپنے من کا راجہ بنا بیٹھتی ہے اور پھر ایک مغالطے کی پاداش میں کاری کر دی جاتی ہے۔
میں اگر ایک جملے میں تخلیق کے مرکزی خیال کا احاطہ کروں تو وہ یہ ہو گا
"معاشرہ اتنا پسمادہ نا خواندہ اور شدت پسند ہے کہ کسی کے تصور اور تخیل کو بھی بنیاد بنا کر اس کی جان لے لینے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتا”
بالکل درست ایسا ہی ہے لیکن اس بات کو فنی مہارت کے ساتھ تخلیق کا حصہ بنانا ہی ایک مشاق لکھاری کی مشاقی ہوتا ہے یہ تخلیق اپنی ابتداء سے ہی ایک مصنوعی تاثر لے کر ابھرتی ہے اور آخر تک وہ تاثر تخلیق کے ساتھ ساتھ چلتا ہے۔
"جانے کب اسے یہ لگنے لگا کہ کوئی اٹھتے، بیٹھتے، سوتے، جاگتے اس کے ساتھ سائے کی طرح جڑا رہتا ہے۔
پانی بھرنے کے لئے مٹکا سر پہ رکھے وہ سہج سہج کر یوں زمیں پہ پاؤں دھرتی گویا انڈوں پہ چل رہی ہو
من کے بھیتر کیا چل رہا تھا وہ تو خود بھی بڑی بے خبر تھی۔
کنویں میں جھانکتی تو اپنا من اسے اس کنویں سے بھی کہیں گہرا لگنے لگتا۔
دانتوں پہ دانت جمائے سانس تک روک لیتی کہ من کی آواز سنے۔ جبڑے دُکھنے لگتے، سانس بند ہونے لگتی مگر کوئی آواز سنائی نہ دیتی۔
سکھیاں سہیلیاں کیا کہہ رہی ہیں کس بات پہ دبے دبے قہقہے تھر کی کُھلی فضا میں گونجتے ہیں وہ بس گُم صم سی ان کی شکلیں دیکھنے لگتی۔
چُنری کا گھونگھٹ اور گہرا کرتی۔ مٹکا بھر کے سر پہ رکھتی اور ریت میں قدم دھنسا کر آہستہ آہستہ چلنے لگتی۔”
اس ابتدائی پیرا گراف کا مطالعہ کریں تو ہمیں لگتا ہے یہ کسی وڈیرے کی پچیس سال کی خوبرو الہڑ بیٹی کا ذکر ہے جس کے ناز و انداز سے دوشیزگی اور دلبری ٹپک ٹپک پڑتی ہے لیکن کہانی کے درمیان میں جا کر کھلتا ہے کہ یہ کوئی پچیس سال کی بانکی ناری نہیں چودہ سال کی کم سن بچی کا ذکر ہے جس کا تعلق تھر جیسے پسماندہ علاقے کے ایک غریب گھرانے سے ہے۔
تھر جس کی زندگی پر میری نگاہ ایک تو اس لیے بہت گہری رہی کہ مجھے صحرا سے عشق ہے اور میں نے کچھ وقت وہاں گزارا ہے دوسرا تھر کے ایک بزرگ سے تعلق داری ہے جن کے توسط سے بھی تھر کو بہت قریب سے دیکھنے کا اتفاق ہوا تھر میں شاید ہی ایسا کوئی غریب گھرانہ ہو جہاں تین وقت کی روٹی میسر ہو تھر کی عورتیں سخت جان اور کرخت مزاج ہوتی ہیں انہیں مردوں کے ساتھ برابر بلکہ شاید ان سے بھی زیادہ کام کرنا پڑتا ہے اس لیے جس نازک ناری کا ذکر کہانی کی ابتداء میں کیا گیا ہے وہ کردار کسی تصوراتی تھر میں تو شاید بستا ہو حقیقت میں اس کے وجود کا تصور بھی محال ہے مرکزی کردار کا بنا گیا شخصی خاکہ کہانی کے پلاٹ سے میل نہیں کھاتا۔
"یہ کوئی بہت پرانا واقعہ نہیں تھا۔
کچھ روز پہلے ابا نے ساتھ کے گاؤں کا واقعہ سناتے ہوئے بتایا کہ اردگرد کے گاؤں میں بچوں کی اموات کا ایک سلسلہ شروع ہو چکا ہے اور آہستہ آہستہ سارے تھر میں پھیل رہا ہے۔ ایک تنظیم کسی بڑے شہر سے آئی ہے اور انہوں نے ساتھ والے گاؤں کے قریب ایک کیمپ لگایا ہے۔ وہ لوگ بچوں کی دیکھ بھال کے لئے بہت محنت کر رہے ہیں ان میں ڈاکٹر سانول مراد بھی ہے جو بہت تسلی سے بچوں کو دیکھتا اور انہیں دوا دیتا ہے۔ آرام نہ آنے کی صورت میں بچوں کو علاج کے لئے وہ ڈاکٹر اور اس کی تنظیم بڑے شہر کے ہسپتال لے جاتی ہے۔
بھائی کا بیٹا بیمار ہوا تو اسے بھی ڈاکٹر سانول کے کیمپ میں لے جایا گیا۔ کچھ روز کے بعد جب وہ صحتیاب ہو کر گھر آیا تو اٹھتے بیٹھتے سب کی زبان پہ ایک ہی نام تھا ڈاکٹر سانول مراد۔
داکٹر سانول مراد ایسا خوبرو جوان ہے۔ ڈاکٹر سانول مراد ایسے محبت سے بچوں کو دیکھتا ہے۔
ڈاکٹر سانول مراد ایسے پہنتا ایسے باتیں کرتا ہے۔”
درج بالا پیرا پڑھتے ہوئے شدت سے احساس ابھرتا ہے کہ ڈاکٹر سانول کا ذکر شامل کرنے کے لیے کس مصنوعی انداز میں یہ حصہ لکھا گیا ہے جو حقیقت میں اس پوری تخلیق کی بنیاد ہے لیکن اس حصے کی شدید مصنوعی فضا نے پوری تخلیق کو گہن لگا دیا اور تحریر ایک ڈائجسٹی کہانی بن کر رہ گئی
اس کے بعد چودہ پندرہ سال کی تھر کی باسی اس کمسن لڑکی کے خوابوں خیالوں اور تصورات کا سلسلہ شروع ہوتا ہے جو اس کردار کی بنت کو مزید کمزور بنا دیتا ہے جس سے تحریر بے جا طوالت کا بھی شکار ہو گئی ہے اور روائتی سطحی بھی ایسے خوابوں خیالوں اور تصورات کی داستانوں سے ڈائجسٹوں کے پیٹ بھرے پڑے ہیں دکھانا مقصود ہے کہ اس نے خیالوں میں ایک سانول کا کردار گھڑا ہے لیکن اس کا بیان اتنا روائیتی ہے کہ قاری سوچے بنا نہیں رہ پاتا کہ ادب کس رخ بڑھ رہا ہے اسے ادب کی تنزلی پر منتج نہ کیا جائے تو کیا کیا جائے آخر؟؟
رہی سہی کسر اس ٹکڑے نے پوری کر دی
زرا دیکھیں کس غیر حقیقی اور مصنوعی انداز میں یہ حصہ تحریر کیا گیا ہے جس کے منطقی جواز کی کوئی صورت مجھے تحریر میں نہیں ملی
"چارہ سر پہ اٹھائے باہر سے آئی تو بھائی کو مرغ کو مکھن کھلاتے دیکھ کر اس پہ پل پڑی۔
یہ تُو کیا ہر وقت بے کار کی چیزوں میں پڑا رہتا ہے تیری بیوی، ماں اور بہن سارا دن کام میں جُتی رہتی ہیں اور تُو یہاں بیٹھ کر مرغ کو مکھن کھلا رہا ہے۔ بیوی تیری چوتھا بچہ جننے والی ہے اسے کھانے کو خشک روٹی مشکل سے ملتی ہے اور تُو یہاں میلے ملاکھڑے کے لیے مرغ کو مکھن کے نوالے کھلا کر تیار کر رہا ہے۔
وہ بھائی کے ساتھ بیٹھے جمن اور شناور کو بھی ماتھے پہ سو بل ڈال کر غصے سے دیکھنے لگی۔”
کیا ایک چودہ پندرہ سال کی کم سن لڑکی خود سے پانچ آٹھ سال بڑے بھائی پر یوں پل پڑنے کی جرات کر سکتی ہے وہ بھی جہاں ایک طرف یہ دکھانے کی کوشش کی گئی ہو کہ عورت کتنی جکڑی ہوئی اور مجبور و لاچار ہے اور اپنی تکلیف پر بھی اف نہیں کر سکتی تھر جیسے علاقے میں تو چچا زاد تایا زاد کےلڑکی کی تنہائی میں گھر میں آ جانے پر بھی لڑکی کو کاری کر دیا جاتا ہے وہاں جمن کا بھائی کے سامنے اسے دبوچ لینا کتنا حقیقی یا مصنوعی ہے اس کا فیصلہ قاری خود کر سکتا ہے
"چل ری۔۔۔ دو ہتڑ لگاؤں گا۔ میرے سامنے ایک لفظ نہ بولنا۔
اورہم مردوں کی یہ شان نہیں کہ گھر کے کام کریں تم عورتیں کس لیے ہو۔ اور بھرجائی تیری کو چوتھا بچہ جنوا رہا ہوں تو یہ بھی تو میری مردانگی ہے ”
"۔ وہ آخری جملہ آہستہ سے کہہ کر جُمن اور شناور کے ہاتھ پہ ہاتھ مار کر ہنس دیا تو سُکھاں کے تو مانو تلووں میں لگی اور سر پہ جا بجھی۔ ہاتھ میں پکڑا ڈنڈا لے کر اس کی طرف لپکی”
کون سا بے غیرت بھائی ہے جو چودہ سال کی بہن کو غیر مردوں کے سامنے اپنی مردانگی کا پاٹ پڑھا رہا ہے اور اس پر اوباش لفنگوں کی طرح کزن کے ہاتھ پر ہاتھ مار رہا ہے
” آ تیری مردانگی بتاؤں۔۔۔ ”
اور کون سی چودہ سال کی بہن ہے جو جواب میں ڈنڈا لے کر بھائی کو مردانگی بتانے دوڑ کھڑی ہوئی ہے یہ کردار کسی الٹرا موڈ شہری سوسائٹی کے کسی مغرب زدہ گھرانے کے تو ہو سکتے ہیں تھر کے کسی غریب گھر کے نہیں کم سے کم مجھے یہ ماننے میں عار ہے۔
"جمن نے اسے بھائی کی طرف بھاگتے دیکھ کر اسے پیچھے سے جا لیا۔ نرم نرم گداز بدن میں انگلیاں دھنس کر رہ گئیں
” تُو تو چھوڑ۔۔۔ ایک سے بڑھ کر ایک ناکارہ۔ ” وہ اس سے اپنا آپ پوری طاقت سے چھڑانے لگی مگر جمن کی بانہوں کا گھیرا بہت مضبوط تھا۔
” تم سب ایک سے ناکارہ۔ اور ایک وہ سانول ہے۔۔۔۔ ”
” اے ری کون سانول ؟۔۔۔۔ ” وہ اسے چھوڑ کر سینہ تان کر سامنے کھڑا ہوگیا
کیا کوئی کسی غیر حقیقی تصوراتی کردار کا موازنہ کسی حقیقی شخص کے ساتھ یوں کر سکتا ہے کردار کی تحلیل ِ نفسی کریں تو ہم سمجھ سکتے ہیں کہ ایک پسماندہ علاقے کی چودہ پندرہ سال کی کمسن لڑکی نارمل حالات میں ایسا نہیں کر سکتی کہ وہ کسی حقیقی شخص کے ساتھ یوں برملا کسی تصوراتی کردار کا موازنہ کرے اور اس کردار کا یوں بر ملا اظہار کرے وہ بھی ایک ایسے ماحول میں جہاں کاری کیے جانے کے واقعات عام ہوں اور کمسنی سے ہی لڑکیاں اپنی حدود و قیود جانتی ہوں۔
” جا جا تیرا کوئی کام نہیں۔ اور میرے منہ نہ لگنا اسی ڈنڈے سے تیرا پنجرچُورا بنا کے پھانک جاؤنگی ”
درج بالا جملہ دیکھیں کیا تو تڑاخ ہے کیا اعتماد ہے واہ وہ بھی سندھ کے ایک دیہی علاقے کی ایک کم سن لڑکی کا
مجھے ایسی نڈر لڑکی سے تو ملنے کا اشتیاق ہو چلا اب ساری لڑکیاں اتنی نڈر اور بے باک ہو جائیں یہ میری دعا ہے
لیکن یہ کیا آگے چل کر بکری کی طرح سب مان گئی یہ لڑکی اور اف تک نہیں کی یہ کیا تضاد ہے ایسی اعتماد والی لڑکی کو تو شادی سے ہی انکار کر دینا چاہیے تھا اور خوابوں کے سانول کے ساتھ بیاہی جانے کی ضد کرنی چاہیے تھی لیکن ایسا تو کچھ نہیں ہوا وہ باغی نڈر لڑکی شوہر کے ہاتھوں دھنکی جاتی رہی لیکن اس کے آگے بغاوت نہ کی۔ کاری ہو گئی لیکن جرگے کے سامنے آواز نہ اٹھائی اور دوسری طرف وہ ڈنڈا اٹھا کر بڑے بھائی پر پل پڑی اور ڈنڈے سے جمن کا پنجر چورا بنا کر پھانک جانے کی باتیں؟؟؟
اپنا تجزیہ آگے بڑھانے سے پہلے زرا عنوان کی طرف چلتے ہیں
جیسا کہ تحریر کے آخر میں عنوان جو کے سندھی زبان میں ہے اور اس کا ترجمہ بھی درج ہے
اگر اس ترجمہ کو درست مان لیا جائے تو پھر اصل عنوان کے الفاظ یہ ہونے چاہیں
امان ھو مون کی کاری کری ماری چھڈیندا
یا
امان اُنھن مون کی کاری کری ماری چھڈیندو
اور اگر عنوان کے الفاظ کو درست لیا جائے تو ترجمہ بنے گا
اماں وہ مجھے کاری کر کے مارتا ہے
میرے خیال میں اتنے تردد میں پڑنے کے بجائے اگر تحریر کا عنوان ترجمہ کو ہی کر لیا جاتا
یعنی
"اماں وہ مجھے کاری کر کے مار دیں گے”
تو بہترین ہوتا
اور زبان کا بگاڑ بھی نہ در آتا
ہر مبصر اور ناقد کا مشاہدہ بھی رائے دیتے ہوئے اتنا ہی گہرا ہونا چاہیے جتنا کہ تخلیق کار کا تخلیق کرتے ہوئے۔
یہ کہانی صرف پسماندہ علاقے کی نہیں۔ تھر کی ہے جسی کی اپنی ثقافت ہے جس کی اپنی اقدار ہیں جس کی اپنی حدود ہیں تھر جہاں بیویاں شادی کے بعد تیس سال گزار دیتی ہیں لیکن اپنے خاوند کی موجودگی میں آنکھ اونچی نہیں کرتیں بیٹیاں جوان ہو جائیں تو چچا تایا تو کجا باپ کے سامنے آنے سے بھی گریز برتنے لگتی ہیں اور بہنیں چھوٹے بھائیوں کے سامنے بھی اونچی آواز میں بات نہیں کرتیں بڑا بھائی تو دور کی بات۔
تھر میں کیوں کہ بے حد خشک سالی رہتی ہے اور تھر واسی خانہ بدوشوں جیسی زندگی بسر کرتے ہیں اس لیے ان کے رہن سہن اور بودو باش عام دیہی زندگی سے بہت مختلف ہوتی ہے۔
ایسے میں بھائی کا جوان بہن کو مردانگی کا پاٹ پڑھانا اور بہن کا ڈنڈا لے کر اس پر پل پڑنا کسی صورت ایڈجسٹ ایبل نہیں وہ بھی غیر مردوں کی موجودگی میں
ایسا تو شہری غریب یا مڈل کلاس گھرانوں میں بھی ہونا بعید از قیاس ہے۔
اور اس کا کوئی منطقی جواز نہیں
ریئر کیسز میں شاید ایسا ہو لیکن افسانہ اجتماعی معاشرتی رویوں کا عکاس ہوتا ہے۔
قصے کی ابتدا میں ڈاکٹر سانول کا ذکر جس طرح کیا گیا ہے اور اس کا نام زبان زدِ عام و عوام دکھایا گیا ہے تو اتنے مشہور ڈاکٹر کے تصور سے لڑکی عشق کر بیٹھتی ہے لیکن جب وہ بھائی کے اور جمن کے سامنے سانول کا ذکر کرتی ہے تو حیرانگی کی بات ہے کہ ان کا دھیان گاؤں کی مہان اور مشہور ہستی ڈاکٹر سانول کی طرف نہیں جاتا جب کہ اتنی مشہور اور ایسی ہستی کا نام تو استعارہ بن کر گردش کرنے لگتا ہے چھوٹے قصبوں اور دیہاتوں میں یہ بات بھی بڑی غیر منطقی لگی۔
اس کے بعد کا باقی سارا پلاٹ بھی مصنوعی اور فطری بہاؤ سے خالی سوچ سوچ کر لکھا ہوا ہے
میری رائے میں یہ تحریر بارِ دگر لکھی جانے کی متقاضی ہے
ہم نے مصنفہ کے اچھے افسانے بھی پڑھ رکھے ہیں اور امید ہے کہ وہ اس افسانے کو بھی وقت کے ساتھ پکا کر کچھ بہتر بنا لیں گی
اس دعا کے ساتھ کہ مصنفہ کا قلم جاری و ساری رہے رد و قبول تسلیم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جانے کب اسے یہ لگنے لگا کہ کوئی اٹھتے، بیٹھتے، سوتے، جاگتے اس کے ساتھ سائے کی طرح جڑا رہتا ہے۔
پانی بھرنے کے لئے مٹکا سر پہ رکھے وہ سہج سہج کر یوں زمیں پہ پاؤں دھرتی گویا انڈوں پہ چل رہی ہو
من کے بھیتر کیا چل رہا تھا وہ تو خود بھی بڑی بے خبر تھی۔
کنویں میں جھانکتی تو اپنا من اسے اس کنویں سے بھی کہیں گہرا لگنے لگتا۔
دانتوں پہ دانت جمائے سانس تک روک لیتی کہ من کی آواز سنے۔ جبڑے دُکھنے لگتے، سانس بند ہونے لگتی مگر کوئی آواز سنائی نہ دیتی۔
سکھیاں سہیلیاں کیا کہہ رہی ہیں کس بات پہ دبے دبے قہقہے تھر کی کُھلی فضا میں گونجتے ہیں وہ بس گُم صم سی ان کی شکلیں دیکھنے لگتی۔
چُنری کا گھونگھٹ اور گہرا کرتی۔ مٹکا بھر کے سر پہ رکھتی اور ریت میں قدم دھنسا کر آہستہ آہستہ چلنے لگتی۔
یہ کوئی بہت پرانا واقعہ نہیں تھا۔
کچھ روز پہلے ابا نے ساتھ کے گاؤں کا واقعہ سناتے ہوئے بتایا کہ اردگرد کے گاؤں میں بچوں کی اموات کا ایک سلسلہ شروع ہو چکا ہے اور آہستہ آہستہ سارے تھر میں پھیل رہا ہے۔ ایک تنظیم کسی بڑے شہر سے آئی ہے اور انہوں نے ساتھ والے گاؤں کے قریب ایک کیمپ لگایا ہے۔ وہ لوگ بچوں کی دیکھ بھال کے لئے بہت محنت کر رہے ہیں ان میں ڈاکٹر سانول مراد بھی ہے جو بہت تسلی سے بچوں کو دیکھتا اور انہیں دوا دیتا ہے۔ آرام نہ آنے کی صورت میں بچوں کو علاج کے لئے وہ ڈاکٹر اور اس کی تنظیم بڑے شہر کے ہسپتال لے جاتی ہے۔
بھائی کا بیٹا بیمار ہوا تو اسے بھی ڈاکٹر سانول کے کیمپ میں لے جایا گیا۔ کچھ روز کے بعد جب وہ صحتیاب ہو کر گھر آیا تو اٹھتے بیٹھتے سب کی زبان پہ ایک ہی نام تھا ڈاکٹر سانول مراد۔
داکٹر سانول مراد ایسا خوبرو جوان ہے۔ ڈاکٹر سانول مراد ایسے محبت سے بچوں کو دیکھتا ہے۔
ڈاکٹر سانول مراد ایسے پہنتا ایسے باتیں کرتا ہے۔۔۔۔
سُکھاں چپ چاپ سر نہوڑائے ڈاکٹر سانول مراد کا سراپا من ہی من میں مجسم کرتی رہتی۔
کنویں پہ لڑکیاں ایک دوسرے کو ڈاکٹر سانول مراد کا نام لے لے کر چھیڑنے لگیں تو جانے اسے کیوں حسد سا محسوس ہونے لگا۔
اسے لگتا ڈاکٹر سانول مراد صرف اسی کے خوابوں کا جوان ہے۔
ڈاکٹر سانول مراد سے اس کے خوابوں کے جوان، سانول تک پہنچانے میں جہاں اس کے اردگردکی عورتوں اور لڑکیوں کا قصور تھا اس سے کہیں زیادہ اس کی اپنی چڑھتی ندی جیسی عمر بھی خطاکار تھی۔
کب چال میں ٹھمریاں جاگیں اور کلائیوں میں مرداروں کی ہڈیوں سے بنی سفید چوڑیاں بجنے لگیں وہ سمجھ نہ پاتی اورخود بھی سب کے ساتھ حیران اور بولائی پھرتی۔
اماں کے ساتھ مویشیوں کو ہانکتے، لکڑیاں چُنتے، گج میں شیشے ٹانکتے جانے کب وہ ان ہاتھ سے بنائے گج کے شیشوں میں اپنا عکس دیکھ کر مسکرانے لگی۔
ابھی اس کی عمر ہی کیا تھی کہ وہ سمجھ پاتی۔
اب تو وہ اسے سنائی بھی دینے لگا تھا اور دکھائی بھی۔
جانے کس شہر کا باسی تھااور کہاں سے آیا تھا وہ مارے حیا کے، کسی سے پوچھ تک نہ پاتی۔
آٹا گوندھتے روٹیاں پکاتے وہ مسلسل مسکراتی رہتی اور گھونگھٹ کو اور لمبا کھینچ لیتی۔
وہ ادھر ہی اس کے پاس پیڑھی کھینچ کے بیٹھ جاتا اور اس سے میٹھی میٹھی سرگوشیاں کرتا۔
پانی بھرتے ہوئے وہ اس کے قریب آتا اور سرگوشیوں میں ایسا کچھ کہہ دیتا کہ وہ سارا وقت لجاتی اور سمٹتی رہتی۔
جڑی بوٹیاں توڑنے جاتی تو وہ وہاں بھی پہنچ جاتا۔ اس کی خوشبو ان جنگلی بوٹیوں کی مہک کے باوجود پہچان لیتی۔
میٹھی اورمن اندر مدھ جگانے والی ایسی خوشبو جس نے اسے چودہ سال کی کم سنی میں ایک دم جوان عورت کا روپ دے دیا تھا۔
قحط بھرے وقت میں جب سب کا روپ اور حُسن کُملا گیا تھا اور لڑکیوں کے منحنی وجود سُکڑنا شروع ہوگئے تھے ایسے میں وہ بھر پور انگڑائی لے کر پُر زور شباب کو چولی کے اندر قابو نہ کر پا رہی تھی۔
چولی کیا تنگ ہوئی کہ چُنری کا گھونگھٹ بھی اسے چھپانے میں ناکام نظر آنے لگا۔
ماں نے اسے مسکراتے، لجاتے اور خود سے باتیں کرتے دیکھا تو جھٹ دو چار صلواتیں سنا ڈالیں اور گھر کے مردوں کے سامنے بیر بہوٹی بننے کے سارے ازبر گُر اسے چوٹی سے پکڑ
کے سکھانے لگی۔
بھابھی تو جیسے بے ہوش ہوتے ہوتے بچی کہ وہ اتنی دیر سے گج میں شیشے ٹانکتے ہوئے کس سے باتیں کر رہی ہے اور کس کی باتوں پہ زور زور سے کھلکھلا کے ہنس رہی ہے۔ اردگرد دور تک گہری مشکوک نگاہ سے تاڑنے کے بوجود جب کوئی نظر نہ آیا تو گھبرا کر ساتھ والے گھر اپنی سہیلی کے پاس جا کر داستان کو مرچ مصالحہ لگا کر سنانے لگی۔
وہ تو خود کسی اور جہان میں تھی ماں کے غیض وغضب بھرے چہرے پہ اسے بس لب ہلتے نظر آتے
بھابھی کی مشکوک نگاہوں پہ تو اسے ہنسی آنے لگتی۔
سب گونگے بہرے لگنے لگے کیونکہ ایک منٹھار سی سرگوشی اس کے من اور تن کا احاطہ کئے رکھتی۔ وہ کسی وقت ذرا سا دور ہوتا تو بھٹائی کی وائی اور سچل سر مست کے اشعار سنائی دینے لگتے۔
صبح طلوع فجر سے پہلے اٹھ کر چکی پیسنے اور جانوروں کو چارہ ڈال کر ان کا دودھ دوہنے تک وہ اس کے آگے پیچھے ہنستا، باتیں کرتا رہتا۔
ویرو کی شادی پہ اس نے یوں لہک لہک کر گیت گائے کہ سب حیرت زدہ سے اسے دیکھتے رہ گئے۔
اور جھک کر گول گول دائرے میں رقص کرتے وہ اس کی بلائیں لیتا رہا اور وہ یوں گھومی جیسے سارے تھر کو انگلیوں کی پوروں پہ گھما نے کا عزم کئے بیٹھی ہو۔
سہیلیاں اسے ٹہوکے دے کر چھیڑتیں تو وہ گلنار سی ہنس ہنس کر دوہری ہونے لگتی۔
ماں اور بھابھی کی طرح گھر میں مردوں کے حصے کے بھی کام کرتی اور بھائی کو مُرغ اور بکرے لڑانے کے لیے تیاریاں کرتے دیکھتی تو آگ بگولہ ہو جاتی۔
” میرا سانول تو ایسا نہیں ہے۔ میرے ہر کام میں میرے ساتھ ہاتھ بٹاتا ہے۔ وہ جُمن، سارنگ، رامن سب سے زیادہ مختلف ہے اور سوہنا جوان بھی۔”
وہ اتراتی ہوئی انہیں گھور کر یوں دیکھنے لگتی جیسے وہ سب کیڑے مکوڑے ہوں۔
چارہ سر پہ اٹھائے باہر سے آئی تو بھائی کو مرغ کو مکھن کھلاتے دیکھ کر اس پہ پل پڑی۔
” یہ تُو کیا ہر وقت بے کار کی چیزوں میں پڑا رہتا ہے تیری بیوی، ماں اور بہن سارا دن کام میں جُتی رہتی ہیں اور تُو یہاں بیٹھ کر مرغ کو مکھن کھلا رہا ہے۔ بیوی تیری چوتھا بچہ جننے والی ہے اسے کھانے کو خشک روٹی مشکل سے ملتی ہے اور تُو یہاں میلے ملاکھڑے کے لیے مرغ کو مکھن کے نوالے کھلا کر تیار کر رہا ہے۔ ”
وہ بھائی کے ساتھ بیٹھے جمن اور شناور کو بھی ماتھے پہ سو بل ڈال کر غصے سے دیکھنے لگی۔
” چل ری۔۔۔ دو ہتڑ لگاؤں گا۔ میرے سامنے ایک لفظ نہ بولنا۔
اورہم مردوں کی یہ شان نہیں کہ گھر کے کام کریں تم عورتیں کس لیے ہو۔ اور بھرجائی تیری کو چوتھا بچہ جنوا رہا ہوں تو یہ بھی تو میری مردانگی ہے
"۔ وہ آخری جملہ آہستہ سے کہہ کر جُمن اور شناور کے ہاتھ پہ ہاتھ مار کر ہنس دیا تو سُکھاں کے تو مانو تلووں میں لگی اور سر پہ جا بجھی۔ ہاتھ میں پکڑا ڈنڈا لے کر اس کی طرف لپکی
” آ تیری مردانگی بتاؤں۔۔۔ ”
جمن نے اسے بھائی کی طرف بھاگتے دیکھ کر اسے پیچھے سے جا لیا۔ نرم نرم گداز بدن میں انگلیاں دھنس کر رہ گئیں
” تُو تو چھوڑ۔۔۔ ایک سے بڑھ کر ایک ناکارہ۔ ” وہ اس سے اپنا آپ پوری طاقت سے چھڑانے لگی مگر جمن کی بانہوں کا گھیرا بہت مضبوط تھا۔
” تم سب ایک سے ناکارہ۔ اور ایک وہ سانول ہے۔۔۔۔ ”
” اے ری کون سانول ؟۔۔۔۔ ” وہ اسے چھوڑ کر سینہ تان کر سامنے کھڑا ہوگیا
” جا جا تیرا کوئی کام نہیں۔ اور میرے منہ نہ لگنا اسی ڈنڈے سے تیرا پنجرچُورا بنا کے پھانک جاؤنگی ”
وہ اس وحشی عورت کی طاقت سے ایسا دم بخود ہوا کہ اسے گرا کر اپنی طاقت آزمانے کے خواب دیکھنے لگا۔
” بڑا آیا پوچھنے کہ سانول کون ہے۔ ”
وہ گدرے جسم پہ چبھے اس کے ناخنوں سے خون بھری خراشیں دیکھ کر نتھنے پھلائے سو سو بل کھاتی رہی۔
” تُو ہے سہی اس کا مقابلہ کرنے والا۔ اور تُو کیا پورے تھر کی زمین پہ
اس جیسا چھورا کوئی نہیں۔ ”
۔۔۔۔ وہ خود سے جانے کتنی دیر ہمکلام رہی۔ سانول اس کی خون بھری خراشوں کو بوسے دیتا رہا اور بند دروازے سے کھلکھلانے کی آواز باہر آتی رہی۔ بچے کو کھانا کھلاتی بھابھی کے ہاتھ خوف سے کانپتے رہے اور ماں ایک سوچ بھری نگاہ سے دروازے کو گھورتی رہی۔
اکیلی جھومتی، گاتی اور اکیلی ہی باتیں کرنے لگی تو تھر کی عورتیں انگلیاں دانتوں تلے چبانے لگیں۔
ماں نے ابا سے مشورہ کر کے اپنے بھائی کے بیٹے جمن سے اس کی پدھری (بات پکی) کر دی۔
ماموں نے بیٹے کے لئے سنگ ہی نہیں مانگا بیاہ کی تاریخ بھی رکھ دی۔
وہ جمن کی ساری چالیں سمجھتی تھی۔ مگر کیا کرسکتی تھی۔
اس روز اسے لگا جیسے سانول روٹھ گیا ہو وصال کی وائیں لبوں کے اندر دم توڑنے لگیں۔ اور ہجر کے آنسوؤں سے بھری آواز ریت کے ٹیلوں میں یوں سرسرانے لگتی جیسے اس کی آواز نہیں ریت میں سرسراتی بلائیں ہوں۔
جُمن کی دولہن کے روپ میں سانول کی طلب نے اور بھی بیقرار کر ڈالا۔
عشق کی اڑان تو تلور طیور سے بھی تیز نکلی۔
جسم نے عشق کا بوجھ اٹھانے سے بے بسی ظاہر کی تو روح تھر کے ریگستانوں میں، صحراؤں میں ببول کے درختوں کی ٹہنیوں پہ ننگے پاؤں بھاگتی لہولہان ہونے لگی۔
کلائی میں بندھے دھاگے کو کلائی کے چوگرد پھیرتی صرف ایک ہی جملہ دہراتی رہی۔ ‘ تمہاری ہوں سانول’
عشق کی طلب، بھٹکتے ہوئے پنکھوؤں کی طرح اس کے من منڈیر پہ منڈلانے لگی۔
ایک خوشبو کا جھونکا آیا اور وصل کی سرگوشیاں کرتا اس کی بلائیں لینے لگا۔
وہ سہاگ کی پہلی رات تھی اور وہ بندِ قبا کھولے اسانول کے سامنے تھی۔ وہ اس کی قبا کے اندر وجود میں اتر کرپنکھ بن کر اڑنے لگا۔ وصل کی بارش نے پر بھگوئے تو وہ بھاری بھیگے پروں سمیت وہیں کہیں اس کے اندرہی بیٹھ گیا اور اڑنا بھول گیا۔
سرگوشیوں میں جمن نے اپنے نام کی بجائے سانول کا نام سنا تو ایک دم الگ ہو کر دور جا کھڑا ہوا۔
"کون ہے ری یہ سانول۔۔۔۔” وہ غصے سے پوچھتا رہا اور وہ انجان بنی آنکھوں پہ بازو دھرے نیم خوابیدہ سی خاموش لیٹی رہی۔
رات کے کسی پہر اس کے بدن کی حدت جمن کوایسی تپش دینے لگی کہ اس نے خود کو بہتیرا روکا مگر اسے لگتا اس کا غصہ اس کے سوا نکل نہیں سکتا۔
ہر رات ہی وہ پہلے سے بڑھ کر اس کا جسم روئی کی طرح دھنکنے لگا۔
کاہل مرد تھا۔ چھپڑ ہوٹلوں پہ فحش فلمیں دیکھتا اور ہر بار نت نئے طریقوں سے اس کا جسم جھنجھوڑ کے رکھ دیتا۔ اسے اذیت دیتا۔
ہمرچو اور ملہار گاتے طالب و مطلوب کے درمیان ہجر آن کھڑا ہوا۔ تھر باسیوں نے دیکھا کہ کارونجھر کے پہاڑاسے پکارتے تھے اور وہ عشق کی آتش سے راکھ ہوتی اُدھر دوڑنے لگتی۔
نہ سمجھ تھی نہ خبر۔۔۔۔۔۔۔ راز رکھنا یا راز ہونا کیا ہوتا ہے وہ بے خبر ان باریکیوں کو جانتی ہوتی تو یوں من موہنی رانی بنی، سات سنگھار کر کے کہیں دور چھوٹے ٹیلے کے پار جاتی بھلا؟۔۔۔۔۔
سونے جیسی ریت پہ بھاری اور تھکے قدموں سے واپس آتی تو چونرے (ہٹ نما گھر) کی دیوار سے کان لگائے تھر کی عورتیں غضبناک نگاہوں سے اسے دیکھ کر منہ پھیر لیتیں۔
مگر اسے کب کسی کی پرواہ تھی۔ انجانی راہیں اور اس پہ عمر کا پندرہواں سال۔ اس پہ عشق کی آتش ایسی کہ بڑوں بڑوں کو منہ کے بل گرا کر جلا دے، راکھ کر ڈالے اور پھر راکھ کو بھی ہواؤں میں اڑا دے، فنا کر ڈالے۔
جمن کمرے میں آتا تو اس کی دبی دبی سرگوشیاں سن کر مونچھیں مروڑتا۔ اس کو ساری رات روئی جیسا دھنکتا، وہ جتنی طاقت خود کو چھڑانے میں لگاتی اس سےزیادہ اس کی مردانگی کو ہاتھ پڑتا اور اسے تھر کی ریت جیسا پیس ڈالنے کے سارے ہنر آزما ڈالتا۔
وہ سارا دن اس کے گھر والوں اور مویشیوں کی چُپ چاپ دیکھ بھال میں لگی رہتی۔
اور وہ مرغ بغل میں دبائے میلوں ملاکھڑوں میں اپنا مرغ لڑانے کے لئے گاؤں کے دوسرے جوانوں کی طرح سارا سارا دن مارا مارا پھرتا۔
من مٹی کے تھیلے میں قید بلکتا، کراہتا۔ وہ ٹیلے کی طرف لپکتی۔ ریت پاؤں کے تلوے چاٹتی اور جُمن ٹیلے کے سارے رستے بند کئے اس پہ کسی کتے کی طرح غرانے لگتا۔
ماں بننے کی خبر سن کر اماں اس کے لیے بھوگاڑو بنا لائی۔ بسری پکائی تل کے لڈو بانٹے اور دبا دبا غصہ نکالتی بار بار ایک ہی جملہ دوہراتی رہی
‘ لوئی لج کی پرواہ کر۔۔۔۔۔ ری’۔۔۔۔
لوئی لج کی پرواہ کسے یاد تھی وہ تو صحراؤں کی ریت کا بگولہ بنی کبھی یہاں ہوتی تو کبھی وہاں۔
جمن کی جب تک جسم تک رسائی رہی خاموش رہا اور جی بھر کے اس کے جسم کو روئی کی مانند دُھنکا مگر کب تک ؟۔۔۔۔
جب وہ تن کر کھڑی ہوئی کہ اب اسے تکلیف ہوتی ہےتو بالوں سے پکڑ گھسیٹتا ہوا اس کے باپ اور بھائی کے قدموں میں جا پھینکا
” بہت برداشت کر لیا۔ اس سے زیادہ بے غیرت نہیں ہو سکتا۔ تیری بیٹی کسی کے ساتھ
چھوٹے ٹیلے پہ منہ کالا کرتی ہے”۔۔۔۔
اماں سر پکڑ کے بیٹھ گئی، باپ اور بھائی کی نگاہیں برچھیاں بن کراس کے وجود کے آر پار ہوئیں، بھرجائی نے طعنوں کی زد میں آ لیا۔
جسم اپنے اندر پلتے نئے وجود کے بوجھ سے گریزاں۔ ناتوانی اور آٹھ ماہ کا تشدد الگ۔
اور اس پہ ہجر کا طوفان۔
مصیبتوں اور آزمائشوں کا سورج سوانیزے پہ آکے دہکنے لگا۔
پہرے سخت ہوئے اورٹیلے پہ جا کر دن رات سب کسی کو ڈھونڈتے رہے۔ مگر نہ ملنے والا کسی کو نہ ملا۔
جُمن اور اس کے سسرال والے بات جرگے تک لے گئے۔
جمن کسی اور نئی نویلی کلی کو مسلنے کا شوق پورا کرنا چاہتا تھا اور سسرال والے اس کے کردار پہ گاؤں والوں کی اٹھی انگلیوں کے نیچے دب گئے۔
جب اسے مجرموں کی طرح جرگے کے میدان میں لے جایا جا رہا تھا توپھولے ہوئے پیٹ کے ساتھ اس کا چلنا دوبھر ہو رہا تھا۔
اس کا دل تو محبت کا استعارہ تھا اور وہاں بھٹائی کی وائی اور سچل سر مست کے نغمے پھوٹتے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ کب جانتی تھی کہ اس راہ میں کڑی آزمائشیں ہیں۔ اور جو جانتی بھی تو کیا خود کو روک پاتی؟۔۔۔۔
عورتیں اس کا تماشا دیکھنے میدان کی طرف بھاگیں۔ بھاگ بھری، بھیلنی اور ویرو سب کی گواہیاں ہوئیں کہ کب کب انہوں نے اسے سانول سے ملنے جاتے دیکھا
وہ خاموش رہی۔
اسے تو خود یہ سفر روز اول سے اب تک حیران کرنے والا لگا تھا۔
جانے سانول کون تھا کہاں سے آیا تھا۔۔۔
تھا بھی کہ نہیں۔۔۔ تو کیا من مندر کی مورت ہی تھا سانول۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ زور زور سے رونے لگی
سانول۔۔۔ سانول
وہ پوری قوت سے بند لبوں سے سانول کو پکار رہی تھی اس یقین کے ساتھ کہ ابھی ٹیلے کے پیچھے سے سانول آجائے گا۔ مگر سب کے ساتھ اس کی نگاہیں بھی مایوس لوٹ آئیں
وہ تو بس ایک ہیولہ تھا۔۔۔۔ محض ایک خوابیدہ تصور۔۔۔۔۔۔
وہ نڈھال ہو کر درد سے تڑپنے لگی
جانے دل کا درد تھا یا جسم کا۔ وہ سراپا درد بنی کراہ رہی تھی۔
حقیقت جان لیوا تھی۔ اسے یوں لگنے لگا جیسے سب نے مل کر اس کا سانول مار ڈالا ہو۔
باگڑی، بھیل، کولہی مردوں سے میدان بھرا تھا چہ میگوئیاں عروج پہ تھیں۔
سب یوں اکٹھے تھے جیسے میلے ملاکھڑے میں مرغ لڑتے دیکھنے آئے ہوں۔
وہ تو ابھی پوری طرح سانول کو بھی رو نہ پائی تھی جب اس نے سنا۔
جرگے کا سردار دوسرے پنچائتیوں کا اور اپنا متفقہ فیصلہ سنا رہا تھا
"ایسی بد چلن لڑکی کو کاری کرنے کا حکم دیا جاتا ہے "۔۔۔۔۔۔ !!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭اماں ھُو مونکھے کاری کرے ماریندا
(اماں وہ مجھے کاری کر کے مار دیں گے)
Leave a Reply