تفہیمات میں بصری ادراک (Visual Perception) کی بہت اہمیت ہے۔ یعنی ہم اشیا کو سمجھتے کیسے ہیں؟ ان کا تصور ہمارے دماغ میں کس طرح قائم ہوتا ہے؟
۱۔ کیا ہم اشیا کو کُلی تصورمیں سمجھتے ہیں ؟
۲۔ یا اشیا پہلے ٹکڑوں میں اپناجزوی تصور دیتی ہیں اور بعد میں ان کا کُلی امیج ہمارے دماغ میں ایک تصور کی شکل بناتا ہے۔
مثلاً ہم کسی گلی سے روز گزرتے ہیں اور اُس میں موجود ہر شے کو خوب پہچانتے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ کیا گلی کی ہر شے مل کر ’’گلی‘‘ کا کُلّی تصور دے رہی ہے یا ہمارا ذہن انفرادی طور پر بھی اشیا کو پہچاننے کی صلاحیت رکھتا ہے؟ اب ذرا غور کریں اورگلی کی مختلف اشیا کو انفرادی طور پر جاننے کی کوشش کریں۔ ایک پیڑ کو دیکھیے، اس پیڑ کی مختلف شاخوں اور پھر ایک شاخ کے ایک پتے تک کو دیکھیے۔ (اس سے بھی آگے تقسیم کیا جا سکتا ہے) میرے خیال میں ہم پہچاننے اور کسی مجموعی تصور سے محروم ہوتے جائیں گے۔ جونہی پتے مل کر شاخ، پھر شاخیں مل کر پیڑ اور گلی کے اندر دوسری اشیا کے ساتھ پیڑ کا تصور بنے گا ہم مجموعی تصور بنانے کے قابل ہوتے جائیں گے۔ یوں ہم کہ سکتے ہیں کہ کوئی بھی چیز اپنی انفرادی شکل میں ادھوری یا ناقابلِ فہم ہوتی ہے۔ علمِ لسان ہمیں بتاتا ہے کہ ایک لفظ اپنی انفرادی تقسیم میں محض آوازوں کے علاوہ کچھ نہیں۔ آوازیں مل کر ایک مخصوص صوتی امیج کو قائم کرتی ہیں جس سے انفرادی صوتی تصور یا بصری ادراک (Visual Perception) پیدا ہوتا ہے۔
اشیا کے اس اجتماعی تصور کے نظریے کو گسٹالٹ بھی کہا جاتا ہے۔ گسٹالٹ نظریہ بنیادی طور پر اشیا کے ادراک کو کلیت میں جانچنے اور سمجھنے کا نظریہ ہے جو انفرادی تصورات کی نفی کرتا ہے۔ جرمنوں نے اسے نفسیاتی ادراک کے حوالے سے بصارت کے تناظر میں پرکھنے کی کوشش کی۔ مگر سوال یہ ہے کہ کُلی تصور پیدا کیسے ہوتا ہے یعنی کیا ہم گلی سے گزرتے ہوئے ہر شے کے انفرادی تصور کی پہچان رکھتے ہیں؟ اگر کُلی تصور بصری ادراک دیتا ہے تو لازماً ہمارے ذہن میں کُل کے ہر جزو کی انفرادی پہچان بھی موجود ہوگی۔ یہ الگ مسئلہ ہے کہ ہم کُل کی شکل میں ان کی پہچان کر پاتے ہیں۔ گسٹالٹ اصولوں میں اسے جاری رکھنے کے اصولوں میں زیادہ واضح سمجھا جا سکتا ہے یعنی اشیا جزو کا تصور دیتی ہیں مگر ہمارا دماغ انہیں کُل کے تصور کی طرف جاری رکھتا ہے جس کی وجہ سے انفرادی شناخت پیدا نہیں ہو پاتی۔ یہی وجہ ہے کہ ہم کسی گیپ یا خلا کو پُر لیتے ہیں اور آگے بڑھ جاتے ہیں۔ ہماری کوشش ہوتی ہےکہ ہم کوئی کُل (The Whole) بنا کے سمجھیں کہ یہ کیا تھا۔
ادبی متون کی طرف آئیں تو ہمیں متون کی کُلی تفہیم کا مسئلہ درپیش ہوتا ہے۔ ایک نظریہ یہ کہتا ہے کہ اشیا کی کُلی تفہیم کی جائے ، انھیں ٹکڑوں میں بانٹ کے سمجھنے سے ہم کُلی مفہوم سے محروم ہو جاتے ہیں۔ کُلی مفہوم بالکل ہی کچھ اور ہوتا ہے اور جزوی فہم بالکل ہی کچھ اور۔متن کی جزوی تقسیم اُسے نقصان پہنچاتی ہے۔ متن کسی کُل کی تفہیم کر رہا ہوتا ہے۔ انفرادی معنیاتی نظام کچھ نہیں ہوتا۔کیا ہم متون (Texts) کا کُلی فہم رکھتے ہیں اور اجزا میں اشیا کو نہیں سمجھ سکتے؟متون کی کُلی تفہیم کا نظریہ کہتا ہے کہ:
۱۔ ہم لفظ کی متنی حالت (Textual Condition) میں اُسے ادب کہتے ہیں ورنہ وہ ایک صوتی اکائی کے علاوہ کچھ نہیں۔یعنی استعارے ، علامتیں یا امیجز اپنے کل کے ساتھ ہیں انفرادی طور پر ناکارہ۔ اسی طرح متن کامجموعی ادبی تصور کچھ اور ہے ،جب کہ ٹکڑوں میں بٹے ادبی تصورات بالکل کچھ اور۔
۲۔ ایک ادبی تصور جزوی سطح پر ادھورا یا ناقابلِ فہم تصور ہے، اُسے کُل ہی میں سمجھا جا سکتا ہے، لہٰذا متن کی تفہیم کے لیے طویل نظموں یا ناولوں کے جزوی Patches ادھورے اور گمراہ کُن ہو سکتے ہیں۔
۳۔ دماغ چوں کہ اشیا کو تصورات کے جاری اصولوں میں سمجھتے ہیں لہٰذا وہ خود بخود اُن کو دوسری ان دیکھی یا غائب اشیا کے ساتھ ملا کر دیکھنے لگتا ہے جس سے غلط تعبیرات پیدا ہونے کا اندیشہ پیدا ہوتا ہے۔ جزو کو خالی جگہوں کی مدد سے کُل بنانے لگتا ہے لہٰذا کُل ہر حالت میں بننے لگتا ہے۔ اُسے از خود کُل کی طرف جانے سے روکنا ضروری ہے اور متن میں موجود ’’کُل‘‘ کی طرف جانا چاہیے۔
اب مسئلہ یہ ہے کہ کیا متون کو انفرادی یا جزوی سمجھنا غلط ہے؟ کیا ہم متون کی گسٹالٹ حالت کے علاوہ کوئی بصری ادراک (visual perception) قائم نہیں کر سکتے؟
——–
ٹی ایس ایلیٹ کا مشہور قول ہے کہ Poetry Communicates Before It Is Understood۔ یعنی شاعری میں تاثرکا مرحلہ پہلے آتا ہے اور تفہیم کا بعد میں۔ اس کا یہ بھی مطلب ہےکہ متن سے دوچار ہوتے ہی تاثر اور تفہیم دو مختلف رویے پیدا ہوتے ہیں۔ ادبی متون کو سمجھنے کے لیے متون کی تفہیم (Understanding) اور اُن کے ادراک یا تاثر (Perception) میں فرق کرنے کی ضرورت ہے۔ جب کوئی شعر، نظم ، افسانہ یا ناول پڑھتے ہیں تو ہمارے ذہن میں اس کا تاثر قائم ہوتا ہے یا پہلےحسی سطح پر ہم اُسے محسوس کرتے ہیں مگر اُس متن کا معنی یا فہم کیا ہے، وہ ہم فوری نہیں جانتے، بعض اوقات تگ و دو کے بعد بھی ہم سمجھنے سے قاصر ہی رہتے ہیں۔
کسی بھی متن کا کُل محض تاثر دیتا ہے مگر اُسے سمجھنے کے لیے ہمیں متن کے جزوی سطح پر اترنا ہوتا ہے۔ پچھلی بحث کی طرف آئیں تو کُل ہمیشہ جزویات پر مشتمل ایک ساختے (Structure) کا نام ہے، یعنی کسی بھی کُل کے اندر لاتعداد جزو ہو سکتے ہیں۔ ایسا کوئی کُل نہیں جسے جزویات میں تقسیم نہ کیا جا سکتا ہو، ہر جزو کی اپنی الگ شناخت ہوتی ہے مگر جب جزو ملتے ہیں تو کُل کی ایک الگ شناخت بنتی ہےجو جزو کی انفرادی شناختوں سے مختلف ہو تی ہے۔ کسی بھی ادبی متن کا تاثر تو یقیناً ہر قاری کے ہاں محسوس کیا جا سکتا ہے مگر فہم بالکل اور چیز ہے۔ فہم ( یعنی معنی کی سمجھ) تاثر نہیں ہوتا۔ تاثر حسوں کو انگیخت کرنے کا نام ہے جو کسی معنی (ذہنی تحرک) کے بغیر بھی پیدا ہو سکتا ہے مگر فہم کے لیے محض تاثر یا ادراک سے کام نہیں چلایا جا سکتا۔ یہیں سےقاری اور نقاد کا فرق پیدا ہوتا ہے۔ قاری یا قرات (Reading) متن کے تاثر کے ساتھ جڑا رویہ ہے جب کہ فہم (Understanding) کُل کی جزویاتی حالتوں سے کُل کے معنی کی تشکیل تک کے مختلف مراحل کو سمجھنے کا نام ہے۔ قاری کے لیے یہ جانناضروری نہیں کہ متن کا تاثر کن متنی حالتوں کا نتیجہ ہے؟ تاثرکی اصل کیا ہے؟ کیوں اثر انگیز ہے؟ مگر نقاد اثر اور معنی دونوں کا جائزہ لیتا ہے اور جاننے کی کوشش کرتا ہے کہ متن کا تاثر کیا ہے اور کیوں اثر انگیز ہے؟ معنی یا مفہوم کیا ہے؟معنی کی کیا کیا تعبیریں ہو سکتی ہیں؟
یاد رہے کہ تاثر کا اصول فطری ہوتا ہے جو ہر فرد کے ہاں اچھا، بُرا، گہرا، سطحی ہو سکتا ہے۔ فطری اصول یہ ہے کہ انسان پیچیدہ اشیا کو بھی سادہ اور آسان سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ایسی صورتِ حال جس میں دماغ کو فکری کاوش کم کرنے پڑے، اُسے جلدی قبول کیا جاتا ہے۔ انسانی نفسیات گنجلک، مبہم اور مشکل متون کو رواں اور قابلِ فہم بنانے میں مصروف رہتی ہے۔ اسی لیے گسٹالٹ نفسیات میں جزو کو نامکمل خیال کیا جاتا ہے اور کُل کی طرف جانے کو ترجیح دی جاتی ہے۔ کُل کو سمجھنا نسبتاً آسان ہے جس میں جزو کی بہت سی شکلیں فہم کے لیے آسانی مہیا کرتی ہیں۔ کُل ویسے بھی جزو کی نسبت بڑا اور تاثر کے لحاظ سے زیادہ امکانات رکھتا ہے۔ زیادہ اشیا پڑی ہوں تو ان میں سے معنی یا تاثر دریافت کر نا زیادہ آسان عمل ہے۔ ٹیڑھی میڑھی یا تعداد کے لحاظ سے کم اشیا میں سے کوئی خیال دریافت کرنا مشکل کام ہے۔انسانی دماغ قرابت یا ایک جیسی اشیا کو جلدی سمجھ لیتا ہے یا اُن کا تاثر قائم کر لیتا ہے۔ قریب کے تجربات با ربار دہرانے سے قابلِ فہم اور تاثر میں مضبوط ہوتے ہیں۔ اسی لیے ایسے متون جو کُلی سطح پر جلدی سمجھ آ جاتے (یعنی تاثر دینے) میں کامیاب ہو جاتے ہوں، وہ کُلی سطح پر قرابت (Proximity) کے اصولوں کے قریب ہوتے ہیں۔
اس کو ہم اس طرح بھی سمجھ سکتے ہیں کہ محبت یا نفرت کا وہ تجربہ جو ثقافتی سطح پر ہمارے معاشرے میں رائج ہو ہم اسے پڑھتے ہوئے یا کہیں دیکھتے ہوئے فوراً اپنے محسوسات کے قریب پائیں گے اور اُس کے تاثر کو جلدی جذب کر لیں گے۔ اسی طرح موسیقی یا گیت کا تعلق بھی قرابت یعنی Proximity کی وجہ سے فوراً تاثر پیدا کرتا ہے کیوں کہ ہم مخصوص یا مانوس موسیقی کو سن کر اس سے Proximity کا رشتہ پیدا کرلیتے ہیں۔
تاثر پیدا کرنے میں اشیا کے درمیان مشابہت (Similarity) اور قرابت یعنی Proximity کے اصولوں کا بہت عمل دخل ہوتا ہے مگر تفہیم یا Understanding محض تاثر نہیں ہوتی۔ اردو میں اسے بہت غلط انداز سے سمجھا گیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ نقاد متن کے تاثر کی وضاحت کرے اور بتائے کہ فن پارہ کیسا ہے۔ ہمارے ہاں تنقیدی بصیرت کو اثر نداز ہونے والی کیفیت سمجھا جاتا ہے۔ بہت سی تنقیدی تحریریں متن سے پیدا ہونے والے تاثر کو بیان کر رہی ہوتی ہیں۔ لفظوں کی دروبست، جمال آفرینی، موسیقی، حظ اندوزی وغیرہ کا بیان تنقید نہیں ہوتا۔ نقاد تاثر کو بیان نہیں کرتا، بلکہ یہ بتاتا ہے کہ متن کے تاثر اور اثر انگیزی کا فہم عطا کرتا ہے۔ ظاہری بات ہے جسے باقاعدہ تجزیہ کیے بغیر نہیں سمجھا جا سکتا۔ کسی بھی فہم کے لیے اُس کے جزو کو سمجھنا ضروری ہوتا ہے۔ جزو کو سمجھے بغیر کُل کو سمجھنا ممکن نہیں۔ کیونکہ کُل صرف تاثر(Perception) دے سکتا ہے فہم نہیں۔ تاثر کئی طرح کے ہو سکتے ہیں اور ہر قاری کی ہر قرات میں مختلف سطحوں میں منقسم کر سکتے ہیں مگر فہم معنی پر مبنی ہوتا ہے اور بتاتا ہے کہ وہ ایسا کیوں ہے؟
فہم محض ’جمال آفرینی‘ (یا انشائی اظہارِ جذبات ) نہیں بلکہ معنی کی تفہیم کو عمل میں لانے کا نام ہے۔ اس کے لیے جزوی سطح پر جانے کا نام ہے۔ تنقید بنیادی طور پر چیر پھاڑ (Dissection) کرنے کا عمل ہے۔ متن کو لفظ بہ لفظ، جملہ بہ جملہ اور خیال در خیال سمجھنے کا نام ہے۔ دھاگہ دھاگہ کھول کے جانچنے کا عمل ہے۔
تفہیمیات میں تفہیماتی دائرہ (Hermeneutic Circle) کی بڑی اہمیت ہے۔ ہرمینیاتی دائرے کا نظریہ کہتا ہے کہ متن کے کُل کو سمجھنے کے لیے جزو کی طرف پلٹنا پڑتا ہے۔ یہ دائرہ بتاتا ہے کہ جزو سے کل اور کُل سے جزو کی طرف ایک دائرے میں حرکت جاری رہتی ہے۔کُل کبھی بھی خود بخود تفہیم نہیں فراہم کرتا بلکہ جزو کی طرف پلٹ کے آنا پڑتا ہے۔ جزو بھی اپنی سطح پر کچھ نہیں وہ کُل کے ساتھ وابستہ ہے۔ یوں جزو سے کُل کی طرف مراجعت ضروری ہے۔ یوں جزو اور کُل یعنی Whole and Part میں تقسیم جاری رہتی ہے۔
تفہیمیات کے ہرمینیاتی دائرے کا نظریہ مذہبی متون خصوصاً الہامی متون کو سمجھنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ جس میں متن کے کُل کی اُس کے مختلف حصوں کے ساتھ تفہیم کو لازمی سمجھا جاتا ہے۔ ادبی متون میں بھی کُل کو سمجھنے کے لیے اُس کی جزویاتی تفہیم ضروری سمجھی جاتی ہے۔
تنقید بنیادی طور پرجزو سے کُل کو سمجھنے (Understanding) کا نام ہے۔ یہ متن کی قرات میں محض تاثر (Perception) تک محدود ردعمل نہیں۔