میں کبھی ایسا دیکھوں

میں خوابوں کا بارود بنوں
اور بارود مرا چہرہ، مری آنکھیں اوڑھ کے
ریزہ ریزہ ملبہ بنتی
دل کی آبادی بن جائے

میں ایک شجر کو خود پر پہنوں
اور مرا سایہ
تیرے جسم پر میرے ہونٹوں کے لمس کو
تپتی ریت اور وحشی دھوپ سے محفوظ رکھے

میں ایک کتاب بنوں
اور کتاب مجھے پڑھتے پڑھتے سینے پر رکھ کر سو جائے

میں بازار بنوں
اور بازار مری رونق سے
نفرت کی آلائش
اور سود و زیاں کا تعفن چن کر
اپنے آپ سے شرمندہ ہو جائے

میں شام کا دریا بن جاوں
اور دریا کا پانی
ساحل پر میری موجوں کی آواز سنے

میں ایک پرندے کا پَر بن جائوں
اور پرندہ مجھ سے
بارش میں اُڑنے کا فن سیکھے

میں کہساروں کی برف بنوں
اور سردیوں کا سورج
میری برفیلی چادر کو گلے لگائے

میں ایک غریب کی روزی کا سامان بنوں
اور اُس کے بچوں کی گالوں کو
اپنے لمس کی حدّت دوں

میں کبھی بارش کی چھتری پہن لوں
گھنے جنگل میں اُتروں
اورپھولوں کے پیالوں میں چھپ کے
فطرت کا چلّہ کاٹوں

میں ایک پہاڑ کی تاریکی پہنوں
اور پہاڑ مرے سینے سے لگ کر
پھوٹ پھوٹ کے روئے

میں کسی شہرکی رونق بن جاوں
اور شہر مری گلیوں میں شام کے سایوں کو
بالشتوں سے ماپے
اور اپنی ازلی تنہائی کا دُکھ کاٹے

میں اک لڑکی کا جسم پہن لوں
اوروہ میرے بدن سے اپنے جسم کا خواب تراشے
اپنی آنکھوں سے
میرے خواب کے آنسو روئے

ایک نظم فائق کی وساطت سے

فائق مجھ سے چونتیس سال بڑا ہے
جس طرح میری پیدائش پر میرا باپ مجھ سے تینتالیس سال چھوٹا تھا
ماں کہتی ہے
میں جب پیدا ہُوا تھا
اُس وقت میرا باپ کتاب پڑھ رہا تھا
فائق پیدا ہُوا ہے تو میں ایک کتاب پڑھ کے ابھی ابھی فارغ ہُوا ہوں

شہر میں زندگی سڑکوں پر پہلے جاگتی ہے
پھر عمارتوں کے ستونوں میں روشنی دوڑنے لگتی ہے
مگر یہ وقت تو ابھی سوئے لمحوں کو سمیٹنے کا ہے
سورج تاریکی کے غار سے اپنا منہ نکالنے کی کوشش میں ہے
ٍمگر دہانے پر مکڑی کا جالا، اُسے بازووں میں جکڑے ہوئے ہے
مسجد کے میناروں سے اذانیں
پہاڑوں سے نکلتے چشمے کی طرح پھوٹ رہی ہیں
فائق کے بستر پر زندگی کی رنگ برنگی کرنوں کا ہالہ ہے
وہ کبھی میری طرف اور کبھی میز پہ رکھی کتاب کو دیکھتا ہے
میں فائق کو نہیں بتا سکتا
میری پیدائش پر میرا باپ جو کتاب پڑھ رہا تھا
اُس میں کیا تھا
اور میں جو کتاب ابھی ابھی پڑھ کے فارغ ہُوا ہوں
اُس میں کس دانش کا رَس ہے
مگر شاید وہ جانتا ہے
کہ ہر معنی کی صداقت لفظ کے ساتھ جمی ہوئی نہیں ہوتی
وہ پاوں کے پھٹے ناخنوں کا درد
بستر سے اُتر کے محسوس کرنا چاہتا ہے

میری بیوی ابھی تک سخت تکلیف میں ہے
اس کے کپڑوں پر خون کے دھبے ہیں
رات بھر جاگنے سے ہم سب کو سخت بھوک لگی ہے
میری ماں تنور پہ روٹی سینک رہی ہے
میں چھت کے اکھڑے رنگ و روغن کو دیکھ رہا ہوں
مجھے ڈر ہے فائق بستر سے اُتر نہ جائے

Leave a Reply