"یہ ریڈیو پاکستا ن ہے۔ اب آپ شکیل احمد سے خبریں سنیے۔۔۔ مشرقی محاذ پر ہمارے بہادر جوان دشمن کو مولی گاجر کی طرح کاٹ رہے ہیں۔۔۔” اپنےوجود میں دوڑنے والی سنسناہٹ پر میرا بس نہیں چل رہا تھا، جی چاہتا تھا کہ اڑتے ہوئے محاذِ جنگ پر پہنج جاؤں، لیکن مجھے تو ہم سایوں کے گھر جاتے ہوئے بھی امی سے اجازت لینا پڑتی تھی۔
دو دن بعد یحییٰ خان نے نشے میں لڑکھڑاتی آواز میں قوم سے خطاب کیا، "ہم شہروں میں لڑیں گے۔۔۔ ہم دیہاتوں میں لڑیں گے۔۔۔ ہم آبادیوں میں لڑیں گے۔۔۔ ہم کھلیانوں میں لڑیں گے۔” اور میرا جی بھی لڑنے مرنے کے لیے مچل رہا تھا، مگر اماں جان کو جانے کیا ہو گیا تھا، وہ سر جھکائے سسک رہی تھیں۔ ان کے آنسو تھمنے کا نام ہی نہیں لیتے تھے۔ گھر کے کام میں مصروف ہوتیں تو بھی ان کے آنسو بہہ رہے ہوتے۔ ان دنوں پھوپھو ہمارے ہاں آئی ہوئی تھیں، اماں کو حوصلہ دینے کی کوشش میں بارہا وہ خود بھی رونے لگتیں۔ تھوڑی دیر آنسو بہانے کے بعد ٹھنڈی آہ بھر کر کہتیں، "یا اللہ! خیر۔ سب جوان خیریت سے ہوں اور جلد واپس آ کر اپنی ماؤں کی آنکھیں ٹھنڈی کریں۔” ان دنوں ہمارے کھانے میں اماں کے آنسوؤں کا ذائقہ بھی شامل ہوتا۔
اماں کے برعکس ابا کے معمولات میں کوئی فرق نہیں آیا۔ وہ باقاعدگی سے صبح سویرے تیار ہو کر دفتر چلے جاتے۔ میں نے انھیں کبھی روتے یا شکوہ کرتے نہیں دیکھا۔ کوئی بھائی کا ذکر کرتا تو صرف اتنا کہتے۔ "دعا کریں۔ اللہ فضل کرے گا۔”
پھر گھر میں باقاعدگی سے آل انڈیا ریڈیو سنا جانے لگا۔ جس وقت جنگی قیدی اپنا نام، اپنے گاؤں کا نام اور یونٹ کا نمبر بتا رہے ہوتے۔ اماں کے ہونٹ پھڑپھڑا رہے ہوتے ۔ شاید اللہ کی منت کر رہی ہوتیں کہ اگلی آواز ان کے بیٹے کی ہو۔ ہر آواز پر ان کا وجود ساکن ہوتا، چہرے پر مایوسی کے آثار نمودار ہوتے، لیکن فوراً ہی اللہ کی منت سماجت شروع ہو جاتی۔ نصف گھنٹے کا پروگرام ختم ہوتا تو ان کے چہرے کی زردی کچھ مزید بڑھ چکی ہوتی اور کافی دیر تک نڈھال پڑی رہتیں۔
ہمارے گھر سے تیسرا گھر چچا پیر بخش کا گھر تھا۔ چچا پیر بخش کثیر العیال تھے، خالہ شریفاں گھر میں کریانے کا کچھ سامان اور بچوں کی ٹکیاں ٹافیاںفروخت کیا کرتی تھیں۔ اس دن دوپہر کا کھانا تیار کرنے سے پہلے پھپھو نے مجھے خالہ شریفاں کی دکان سے ماچس لانے کا کہا۔ میں گھر سے نکلی توگلی کے موڑ پر ابا تیز تیز پیڈل مارتے نمودار ہوئے۔ انھیں بے وقت آتا دیکھ پر میں حیرت سے وہیں رک گئی۔ دروازے پر پہنچ کر خلاف معمول انھوں نے سائیکل کو سٹینڈ پر کھڑا کرنے کی بجائے دیوار کے سہارے کھڑا کیا اور تیزی سے دہلیز عبور کرتے ہوئےبھرائی ہوئی آواز میں بولے، "سیکنہ! تمھارا بیٹا سلامت ہے۔ کمشنر آفس سے فون آیا تھا۔ میں نے خود فون سنا ہے۔” اس وقت میں نے پہلی مرتبہ اپنے ابا کے چہرے پر آنسو بہتے دیکھے۔
بجلی کی طرح خبر پورے محلے میں پھیل گئی۔ مرد تو روزگار کے دھندوں سے دفاتر اور بازار گئے ہوئے تھے۔ عورتیں اپنے گھروں کے کام ادھورے چھوڑ چادریں سنبھالتی ہمارے گھر کی جانب دوڑیں۔ چند منٹ میں گھر کا صحن عورتوں اور بچوں سے بھر گیا۔ خالہ شریفاں اور خالہ چراغ کے حکم پر ان کے بیٹوں نے نے اپنے گھروں کی ساری چارپائیاں لا کر ہمارے صحن میں بچھا دیں۔ شام تک گھر میں میلہ لگا رہا۔
اگلے روز سے ابا کے دفتر سے اور بھائی کے دوستوں اور اساتذہ کے علاوہ دوسرے ملنے والوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ آنے والے بھائی کے سلامتی پر مبارک باد دیتے۔ کچھ اندیشوں کا اظہار کرتے ہوئے اماں کو تشویش میں مبتلا کر کے رخصت ہو جاتے۔ پھر اقوامِ متحدہ کی معرفت بھائی کے خط آنے لگے۔ جنھیں پڑھ کے اماں کی اداسی مزید بڑھ جاتی۔
آنے والے مہمانوں میں بعض جنگی قیدیوں نے روا رکھے جانے والے سلوک کی روایات سنا کر ان اداسی کو اذیت میں بھی بدل دیتے۔ ایک دن ابا جان کے ایک ملنے والے ملک صاحب تشریف لائے۔ ان کے دریافت کرنے پر ابا نے بتایا کہ بھائی الہ آباد کے کیمپ میں ہیں۔ اس پر انھوں نے سوال کیا کہ یہ سرکاری اطلاع ہے یا کسی جاننے والے نے بتائی ہے؟ ابا بولے، "جی نہیں، خود اس کا خط بھی آیا ہے۔ اب تو اقوام متحدہ کی معرفت جنگی قیدیوں کے خط بھی آنے لگے ہیں۔” اس پر انھوں نے بڑی مسرت کا اظہار فرماتے ہوئے کہا، "ہندوستان میں بہت نفیس ململ ملتی ہے۔ اسے لکھیے کہ میری پگڑی کے لیے کچھ ململ بھجوا دے۔ ان کی فرمائش پر ابا تو کچھ نہیں بولے مگر اماں نے، جو دوسرے کمرے میں مہمان خواتین کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھیں، آؤ دیکھا نہ تاؤ، بستر پر پڑی چادر گھسیٹتی ہوئی بیٹھک میں جا پہنچیں اور باقی مہمانوں کا لحاظ کیے بغیر ملک صاحب سے مخاطب ہوئیں۔ "ملک صاحب! آپ کو شرم نہیں آتی۔ میرا بیٹا دشمن کی قید میں ہے۔ خدا جانے واپس آتا بھی ہے یا نہیں۔اور آپ اپنے لیے پگڑی کی فرمائش کر رہے ہیں۔”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب تک جنگ جاری رہی، ہم بزدلی، بہادری، بے بسی، غصے، احتیاط اور لاپرواہی کی کیفیات سے گزرتے رہے۔ کبھی کبھی تو ہم پر متضاد کیفیات بھی طاری ہوتی تھیں لیکن ہتھیار ڈالنے کا حکم سنتے ہی ہر نوع کے جذبات، احساسات اور خواہشات نے ہمارا ساتھ چھوڑ دیا۔ ہم نہ تو کچھ محسوس کر رہے تھے اور نہ ہی ہمیں کچھ سمجھ آ رہا تھا۔ ہماری کیفیت اس بھیڑ کی مانند تھی، جسے کوئی بھی کان سے پکڑ کر کہیں بھی لے جا سکتا ہے۔ اس وقت ہماری یاداشت کا خانہ بھی بالکل خالی تھا۔ میں کون ہوں؟ کیا کر رہا ہوں؟ میرا کوئی ہے یا نہیں؟ کچھ یاد نہیں تھا۔ بس اتنا احساس تھا کہ ہم ایک فوجی ٹرک میں ٹھنسے ہوئےتھے، جو ہم گالیاں دیتے بنگالیوں کے ہجوم سے گزر رہا تھا۔ یہ بنگالی ہمیں گالیاں کیوں دے رہے ہیں؟ جوتیاں کیوں دکھا رہے ہیں؟ اپنی دھوتیاں کھول کر فحش اشارے کیوں کر رہے ہیں؟ کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیمپ میں پہنچتے ہی ہر قیدی کا مختصر انٹرویو ریکارڈ کیا گیا۔ جس میں وہ اپنا نام،عہدہ، یونٹ کے علاوہ گھر کا پتا بتاتا۔ ہمیں بتایا گیا کہ یہ انٹرویو آل انڈیا ریڈیو سے نشر کیے جائیں گے۔ کیمپ میں لاؤڈسپیکر چوبیس گھنٹے آن رہتے۔ ہر وقت دو قومی نظریے کے خلاف اور اکھنڈ بھارت کے حق میں پروپگنڈا ہوتا رہتا۔ آہستہ آہستہ ہم کیمپ نمبر ننانوے کے عادی ہو گئے۔
ابتدا میں ہمارا اپنے گھر والوں سے کوئی رابطہ نہیں تھا۔ مگر بعد میں اقوامِ متحدہ کے زیرِ اہتمام کڑے سنسر کی چھلنی سے گزرنے کے بعد خطوط کے ذریعے پاکستان میں اپنے عزیزوں سے رابطہ ہو گیا۔ عجیب بات یہ ہوئی کہ ان خطوط میں اشارتاً بھی کوئی نظریاتی یا سیاسی بات نہ ہونے کے باوجود لاؤڈ سپیکروں پر چوبیس گھنٹے جاری رہنے والے پروپگنڈے کے اثرات خودبخود تحلیل ہو گئے۔ جس کے نتیجے میں جنگی قیدیوں نے آزادی کے خواب دیکھنے شروع کر دیے۔ چند پرجوش جوانوں نے اس خواب کو حقیقت کا روپ دینے کے لیےسرنگ کھودنا بھی شروع کر دی۔ قسمت کی بات یہ منصوبہ ناکام ہو گیا، لیکن منصوبہ ناکام ہونے کے باوجود اکھنڈ بھارت کی نفی کرنے میں کامیاب رہا۔
عربی صرف و نحو اور قرآن کریم کا ترجمہ میں نے اسکول میں نہیں بلکہ اپنی والدہ سے پڑھا تھا۔ انھوں نے صرف مجھے نہیں پڑھایا بلکہ محلے بھر کے بچے دن چڑھے ہمارے گھر اکٹھے ہو جاتے۔ زیادہ تر بچے ناظرہ پڑھنے پر اکتفا کرتے۔ تاہم ہمیشہ ایک یا دو بچے یا بچیاں ترجمہ پڑھنے والے بھی ہوا کرتے۔ میرے کولیگز میں سے اکثر کو میری عربی میں شد بد اور قرآن کریم کا ترجمہ جاننے کا علم تھا۔ کیمپ کے لاؤڈ سپیکروں کے پروپگنڈے کے ردِ عمل میں ان میں سے کچھ میں قرآن کریم کا علم حاصل کرنے کی خواہش پیدا ہوئی۔ اس سلسلے میں انھوں نے مجھ سے رجوع کیا۔ اس طرح ایک مصروفیت شروع ہو گئی اور وقت گزارنا آسان ہو گیا۔
پھر خبر آئی کہ بین الاقوامی دباؤ پر اندرا گاندھی اور ذوالفقار علی بھٹو کے درمیان شملہ میں ایک معاہدہ ہو گیا ہے اور جلد ہی ہماری رہائی عمل میں آ جائے گی۔ اس خبر کے ساتھ ہی سب قیدیوں کی آنکھوں میں امید کے دیے روشن ہو گئے۔ سوچوں کی رفتار تیز لیکن وقت کی رفتار سست ہو گئی۔ ایک ایک دن گزارنا مشکل ہو گیا۔
آخر وہ وقت آ ہی گیا، جب میں ایک نہ دکھائی دینے والے والی لکیر عبور کرنے والی قطار میں کھڑا آزاد فضا میں سانس لینے کا منتظر تھا۔ ایک وہ وقت تھاجب ذہن کے مفلوج ہونے کے نتیجے میں جذبات سے محروم ہو گیا تھا لیکن اب جذبات کے ہجوم نے ذہن کو مفلوج کر دیا تھا۔ مجھے معلوم نہ ہوا کہ کب سرحد عبور کی۔ البتہ حواس بحال ہوئے تھے تو چہرہ آنسوؤں سے تر تھا۔ ضابطے کی کارووائیوں سے فارغ ہو کر جس روز گھر پہنچا، اس دن گھر میں تین لڑکیوں کی آمین کی تقریب تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رقیہ کو تو ٹال دیا لیکن عدنان کی ضد کے سامنے ہتھیار ڈالنے پڑے۔ ویسے حقیقت یہی ہے کہ میں بھی پاکستان جانا چاہتی تھی، جس کے محرکات میں بچوں سے ملاقات کے علاوہ آموں کی لذت اور قربانی سے وابستہ بچپن کی یادیں تھیں۔ اگرچہ انور رٹول برطانیہ کے سٹورز میں بھی مل جاتا ہے لیکن پاکستان میں دسہری اور سندھڑی آم کھانے کا مزہ ہی کچھ اور ہے۔ پھر قربانی کا بکرا خریدنے، اسے سجانے، گھر کے صحن میں ذبح کرنے، کھال اتارنے اور گوشت بنانے کا جو لطف پاکستان میں میسر ہے، یورپ میں رہنے والے مسلمان اس کی لذت سے محروم ہیں۔ چنانچہ طے یہی ہوا کہ امسال گرمیاں پاکستان میں گزاروں گی۔
ٹیلی وژن پر مفتی منیب الرحمٰن سے ذوالحج کا چاند نظر آنے کا اعلان سنتےتے ہی عدنان نے مبارک سے سوال کیا، "ابو! بکرا لینے کب چلیں گے؟” تین چار دن کے بعد مبارک اپنے بیٹے کے ساتھ جا کر ایک خوب صورت بیتل بکرا خرید لایا۔ بس پھر کیا تھا، بکرے کی خدمتیں شروع ہو گئیں۔ صبح اٹھتے ہی عدنان بکرے کے پاس جا پہنچتا، اپنے ہاتھ سے پکڑ کر اسے چارہ کھلاتا، ٹونٹی سے پانی بھر کر پانی پلاتا، دن میں دو مرتبہ رسی پکڑ اسے ٹہلانے جاتا۔ قربانی کے بکرے کو گھر آئے تیسرے دن پچھلے پہر عدنان اپنے دوستوں کے ہمراہ بکرے کو ٹہلانے گیا ہوا تھا۔ رقیہ میرے پاس بیٹھی ہوئی تھی، ہم عدنان کی بکرے سے محبت کے بارے میں باتیں کر رہے تھے، مبارک حسبِ معمول کوئی کتاب ہاتھ میں لیے مطالعے میں مصروف تھا ۔ اچانک ہم سایوں کا بیٹا نصیر جو عدنان کا ہم عمر تھا، گھبرایا ہوا اندر داخل ہوا اور پھولی ہوئی سانس سے کہنے لگا، ” انکل پولیس” مبارک نے چونک کر اسے دیکھا اور سوال کیا، "کیوں بیٹا، کیا ہوا؟” نصیر کچھ بتا نہ سکا، صرف پولیس، پولیس کرتا رہا۔ مبارک اٹھ کر دروازے کے طرف بڑھتے ہوئے کہنے لگا، نصیر کچھ زیادہ ہی ڈر گیا ہے، دیکھتا ہوں کیا بات ہے۔ رقیہ کہنے لگی، "اس علاقے میں تو سبھی بھلے مانس رہتے ہیں، یہاں تو کبھی پولیس نہیں آئی، خدا خیر کرے ، کوئی حادثہ نہ ہوا ہو” اتنے میں دروازےپر کسی کے زور زور سے بولنے کی آواز آئی۔ الہیٰ خیر! کہتے ہوئے ہم دونوں دروازے کی جانب لپکے، اوٹ سے دیکھا، آٹھ دس آدمی گھر کے باہر کھڑے تھے۔ عدنان اپنے باپ کے پہلو میں سہما ہوا کھڑا تھا، بکرے کی رسی ایک پولیس والے کے ہاتھ میں تھی اور ایک مولوی صاحب کَہ رہے تھے، "تم لوگ کیسے قربانی کر سکتے ہو؟ سب جانتے ہیں تم اسلام اور پاکستان کے دشمن ہو۔ تم قربانی کر کے ہمیں دھوکا دینا چاہتے ہو ۔” مبارک نے جواب دیا، "آپ لوگ بکرا لے جانا چاہتے ہیں، لے جائیں۔” مجھے کچھ سمجھ نہ آیا کہ کیا ہو رہا ہے۔ البتہ مولوی صاحب کی آواز شناسا محسوس ہوئی، ذہن میں چچا پیر بخش اور خالہ شریفاں کی شباہت ابھرتی ہوئی محسوس ہوئی۔ تصدیق کے لیے پوچھا، ” کرشن نگر کے مستری پیر بخش کے تم کیا لگتے ہو؟” مولوی صاحب چونک کر کہنے لگے، "کیوں؟ کیا بات ہے؟” میں نے کہا، ” تمھاری آواز ان سے بہت ملتی ہے۔” "میرے نانا تھے؟” مولوی صاحب کے جواب پر میں بولی، "اچھا تم رشیدہ کے بیٹے ہو، کیا حال ہے ان کا؟” مولوی صاحب نے جواب دیا، "نہیں وہ میری خالہ ہیں۔ میری امی کا نام رضیہ ہے۔ مجھے سب یاد آ گیا”تمھاری والدہ نے میری دالدہ سے قرآن پڑھا تھا۔ جس دن میرا بھائی بھارت سے رہا ہو کر آیا تھا، اس دن ہمارے گھر میں ان کی آمین ہوئی تھی۔” مولوی صاحب نے سر کو زور سے جھٹکا اور پولیس والے سے مخاطب ہو کر کہنے لگے، ” بڑھیا جھوٹ بولتی ہے، چلیں! بکرا وین میں ڈالیں۔” میں پریشان ہو کر بولی، ” یہ سب کیا ہے؟” مبارک، عدنان کے انگلی پکڑے گھر میں داخل ہوتے ہوئے کہنے لگا، "کچھ نہیں، پھپھو! پاکستان میں رہنا ہے تو مولوی کی ہر بات سہنا ہے۔
Leave a Reply