Laaltain

ساقی فاروقی کی نظم: وجودیت و آفاقیت کے مابین (پہلا حصہ) – تالیف حیدر

13 اپریل، 2020

نئی نظم کی سب سے بڑی پہچان اس کی زبان ہے، لفظ کا نپا تلا استعمال، ایسا جس میں نئے رنگ کی آمیزش ہو۔ یہ نیا پن کیا ہے؟ اس کا جواب ہمیں ساقی کی شاعری میں ملتا ہے۔ یوں تو ہم نظم کی کوئی واضح سرحد کبھی نہیں بنا سکتے کہ کس وقت اور کن حالات میں نظم نے پرانا لہجہ ترک کیا اور نئے لہجے کو خوش آمدید کہا، کیوں کہ الفاظ کی نشست و برخاست کا عمل شاعری میں مسلسل جاری رہا ہے۔ کوئی شاعر جب زندگی کے نئے تجربات سے گزرتا ہے تو اس کی شاعری میں خود بہ خود نئے الفاظ آہستگی سے جگہ بنانے لگتے ہیں، اردو نظم کی تاریخ کے تناظر میں اس امر کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں حالی اور آزاد سے اپنا سفر شروع کر کے راشد اور میراجی تک کئی مرحلوں پہ یہ محسوس ہوتا ہے کہ بے شمار الفاظ کبھی بالکل غائب ہو جاتے ہیں اور کبھی اتنے زیادہ نظر آنے لگتے ہیں کہ ہم ان کے استعمال اور عدم استعمال کے متعلق کوئی فیصلہ سنا ہی نہیں پاتے، لہذا ہمیں زبان کی سطح پہ نئے پن کو پرانے سے ممیز کرنے کے لیے ایک خاص وضع کو پیش نظر رکھنا ہوتا ہے جس میں شاعر کے تجربات لفظ کے تجدید معنی یا اثر کا کام کرتے ہیں۔ نظم کی تاریخ میں یہ کام بہت واضح انداز میں ساقی کے یہاں نظر آتا ہے۔ خاص کر ہم جس عہد کی نظم کی بات کر رہے ہیں، یعنی وہ نظم جس نے اسی (80ء) کی دہائی سے اپنے مختلف الجہت ہونے کا احساس دلایا۔ ساقی کا لہجہ بہت سے مرحلوں میں کمزور صحیح لیکن اس کی مجموعی حیثیت ایک اچھوتی شناخت قائم کرنے میں کامیاب نظر آتی ہے، جس کی وجہ اس کا لہجہ ہے جو زبان کے جز معنوی حصار سے باہر ہے۔ ساقی کی نظم کا حاصل مطالعہ اس بات کا ثبوت پیش کرتا ہے کہ اردو نظم کے نئے معیار قائم کرنے میں اس کا لہجہ معاونت کر رہا ہے، کیوں کہ اس میں فکر بھی ہے اور فنی لوازم بھی۔ ساقی کی نظم یا فلسفہ خیال کن باتوں سے مرتب ہوا ہے اسے بیان کرنے سے قبل میں یہ کہہ دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ وہ ایسا شاعر ہر گز نہیں جس کی نظموں کے انتخاب سے اس کے متعلق کوئی فیصلہ سنایا جا سکے۔

نظم کی سطح پہ ہم ساقی کے کلام کا جائزہ لیں تو محسوس ہوتا ہے جیسے وہ اپنی شاعری میں کئی مختلف رنگوں کی کائنات تراش رہا ہے، جس میں خاصی گیرائی پائی جاتی ہے۔ ہر اچھے یا بڑے شاعر کی طرح ساقی کے یہاں نظم کی ابتدا میں استعارہ اور استعارہ در استعارہ باتوں میں معنی کی گیرائی پیدا کرنے میں کوشاں معلوم ہوتا ہے۔ وہ استعارہ خلق کرنے کا ہنر جانتا ہے، ایسا جس میں دلکشی ہے، اس کی نظم میں سادے استعاروں میں بھی شاعرانہ رمز کی کمی نہیں ہے اس لیے اس کے استعارے ہمیں بوجھل معلوم نہیں ہوتے۔ حالاں کہ اس میں معنی کی سجی ہوئی کائنات کارفرما ہوتی ہے، جو ہمیں کچھ دیر اپنے چھلاوے میں الجھائے رہتی ہے، لیکن اس سے ہمارا شاعرانہ تعلق اولاً ہی قائم ہو جاتا ہے اس لیے اس کا الجھاو ہمیں اکھرتا نہیں ہے۔ ساتھ ہی اس میں استعارہ در استعارہ کی کیفیت ایک متضاد معنویت پیدا کر دیتی ہے، جس پہلو سے ساقی کے کلام کو دیکھنے کے لیے ہمیں اس کی نظموں کو ٹھہر کر پڑھنا پڑتا ہے۔ اس متضاد کیفیت کا اثر اس بات کی شعوری کوشش معلوم ہوتی ہے کہ جو کچھ امکان سے باہر ہے اسے اپنی سعی و جستجو سے امکان میں لایا جائے۔ خواہ اس سے بات کے بنتے ہی بگڑ جانے کا خدشہ ہی پیدا کیوں نہ ہو جائے، لیکن ساقی اس امر کو اپنی نظم میں جزو لاینفک کی طرح شامل رکھتا ہے۔

اس کی نظم کا بنیادی اور مرکزی نقطہ تنہائی ہے، ظاہر ہے کہ یہ ہمارے عہد کا ایک بڑا موضوع ہے جسے ہر شاعر نے اپنے طور پہ برتا ہے، لیکن ساقی کی تنہائی میں بے شمار رنگینیاں ہیں۔ وہ صرف ایک نوع کی تنہائی کا راگ نہیں الاپتا، بلکہ تنہائی کے مختلف پہلووں کی تلاش میں سر گرداں رہتا ہے، جس کے باعث اس کے یہاں تنہائی کے فکری ابعاد پیدا ہو گئے ہیں۔ وہ اس کی اداسی اور تھکن کو بھی بیان کر تا ہے جس میں زندگی کی یاسیت اور تھکاوٹ کو شامل کر دیتا ہے، لیکن ساتھ ہی اسی اداسی سے ایک نئی امنگ بھی وجود میں لاتا ہے جس سے تنہائی کا عذاب ایک نعمت میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ اس کی نظموں کی بعض نمایاں شناختوں میں امید بھی اسی لیے ایک اہم شناخت ہے، اس نے اپنی نظم میں اعتدالی کیفیت پیدا کرنے کی کوشش کی ہے جس سے کبھی امید کا چراغ روشن ہوتا ہے اور کبھی نو میدی کی تپش محسوس ہوتی ہے۔ حالاں کہ کل نظموں میں یہ اعتدال برقرار نہیں رہ پاتا ہے، بعض نظموں میں ساقی کشمکش کا شکار ہوتے ہوئے اتنا الجھا ہوا محسوس ہوتا ہے کہ معنی کی ترسیل ہی نہیں ہوپاتی اور کچھ نظمیں اسی وجہ سے بہت معمولی درجے کی بھی ہو گئی ہیں۔ ایسی معمولی نظموں میں “نایافت” کو شمار کیا جا سکتا ہے اور کشمکش کی کیفیت میں مبتلا رہنے والی نظم کی اچھی مثال “پری کا سایہ” ہے۔

ساقی کی نظموں میں خواب کی اہمیت بہت زیادہ ہے، خواہ وہ زندگی کا خواب ہو یا کسی ایسے سچ کا جس کو پانا امکان سے پرے ہو۔ چوں کہ اس کے یہاں ایک ایسےفکری نظام کا تسلسل ہے جس میں بدلاؤ بڑی حد تک پیدا ہوتا چلا جا رہا ہے اسی وجہ سے اس کے خوابوں کی شناخت بھی تبدیل ہوتی چلی جاتی ہے، ابتدائی کلام میں جو خواب صرف زمینی حقیقت سے وابستہ معلوم ہوتے ہیں وہ دھیرے دھیرے ایک غیر معروضی حقیقت میں ضم ہوتے چلے جاتے ہیں، ایسے خواب جن کی کشش ہمیں شاعر کے لہجے سے زیادہ اس کی فکری نہج کی طرف کھینچتی ہے۔ اس کے یہاں خواب کی اہمیت سحر آلود ہے اسی لیے وہ اپنے خوابوں کو نظم کی مختلف اجزا میں بکھیر دیتا ہے تاکہ ان میں سطحیت کا گزر نہ ہو پائے۔ ساقی اپنے مشاہدے سے بہت زیادہ کام لیتا ہے، اسی کی نظم کا مطالعہ ہمیں بتاتا ہے کہ وہ مستقل کسی نئے خیال کی تلاش میں سرگرداں ہے، خواہ وہ خیال خود اس کے وجود سے پھوٹے یا وراء الورا سے۔ حالاں کہ اس کے یہاں جسم ایک بڑی حقیقت کی مانند ابھرتا ہے جس کے تقاضوں کو بیان کرنے میں اس نے کمال فن کا مظاہرہ کیا ہے۔ وہ ہوس کو شاعرانہ تخاطب میں لا کر ایک ایسی پرکشش شئے میں تبدیل کر دیتا ہے جس سے انسانی کج فہمی جو ہوس کو سفلی تصور کرتی ہے وہ کلیتاً ہوا ہو جاتی ہے اور اسے انسانی جذبہ جنس کی اثر انگیزی کا احساس ہونے لگتا ہے۔ ساقی کے یہاں بدنی جذبات کے باریک نکات کا بیان ملتا ہے، جس میں انتشار کی کیفیت ہے، جو ایک ایسی کسک کو جنم دیتی ہے جو شاعر کی جنونیت کا احساس دلاتی ہے کہ وہ اپنے فکری عمل میں کس قدر غلطاں ہے۔ وہ اپنے وجود میں کھویا ہوا بھی نظر آتا ہے اور اس سے بالکل کٹا ہوا بھی، نئے خیال کی تلاش اسے کسی شئے کے کھو جانے کی کیفیت میں مبتلا رکھتی ہے، جس کے باعث وہ اپنے اطراف کو ٹٹولتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔

ساقی کے یہاں بعض الفاظ بہت زیادہ استعمال میں آئے ہیں مثلاً روح، بدن، پانی، رنگ اور صحرا وغیرہ وہ ان لفظوں سے ہر بار ایک نئی معنویت پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے، کبھی روح کا اثبات کرتا ہے اور کبھی انکار۔ کبھی اپنے بدن کی دیوار گرا کر روح کو اس میں ملا دیتا ہے تو کبھی روح کو اپنے وجود سے باہر کھینچ لاتا ہے۔ رنگ کے متعلق بھی اس نے اپنے ہی تجربے کیے ہیں، وہ کسی خاص رنگ کا نام استعمال نہیں کرتا، بلکہ لفظ رنگ کو استعمال کر کے اس سے معنی کا نیا نظام پیدا کرنے میں کوشاں نظر آتا ہے۔ کہیں کہیں وہ رنگ کے معنی اتنے مبہم بنا دیتا ہے کہ سادہ بیانی کے باجود اس کے اصل معنی تک ترسیل مشکل ہو جاتی ہے، مثلاً اس کی مشہور نظم “رنگ اور آگ” میں رنگ کن معنی میں استعمال ہو رہا ہے اس کے متعلق کوئی فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔

متذکرہ بالا الفاظ سے قطع نظر ساقی نے عام طور پر الفاظ کو اس طرح استعمال کرنے کا ہنر خود میں پیدا کر لیا تھا کہ اس کا بیان ذو معنی معلوم ہوتا تھا، مثلاً وہ جس طرح اپنے خیال کو نظم کرتا ہے اس سے واقعے کو الٹ کے دیکھنے کی بصیرت بھی پیدا ہوتی ہے۔ اس کی نظم کا فکری بہاو ہمیں کسی ایک چشمے پہ اکتفا نہیں کرنے دیتا۔ مثلاً وہ خوشی میں غم کا پہلو تلاش کرتا ہے اور اسے اس طرح نظم کرتا ہے کہ اسی غم میں دوبارہ خوشی تلاش کرنے کی گنجائش پیدا ہو جاتی ہے۔ حالاں کہ اس کی نظموں میں دکھ کا رونا بہت رویا گیا ہے ساتھ ہی عامیانہ جذبات بھی بہت ہیں، لیکن حزن و یاس کے مختلف پہلووں کو بیان کرنے میں اس نے اس قدر زاویے بنائے ہیں کہ ایک کا دوسرے میں ضم ہو جانا کوئی معیوب بات معلوم نہیں ہوتی۔ اس کے غم عام ہیں، ویسے ہی جیسے ہر انسان کے ہوتے ہیں، ساقی کا کمال یہ ہے کہ اس نے ان عام دکھوں کو خاص انداز میں بیان کر دیا ہے۔ انسانی دکھوں کا علاج تلاش کرنے کہ بجائے انہیں معصومانہ اور استفساریہ نگاہوں سے دیکھا ہے جس کے باعث ایک ایسی حیرانی نے جنم لیا ہے جس میں ایک نوع کی تکرار پیدا ہو گئی ہے۔ میں اسے ساقی کی کمزوری نہیں سمجھتا، بلکہ اسے انسانی دکھوں سے اس کے لگاو پہ محمول کرتا ہوں کہ اس نے اپنی بصیرت کو اس رخ پہ جمائے رکھا اور اسے ظاہر کرنے کی متاثر کن زبان ایجاد کی۔ انہیں دکھوں میں جنس کا دکھ بھی شامل ہے جو ایک توانا خواہش کی شکل میں نمودار ہوتا ہے۔ ساقی نے اس جنسی خواہش کا محور خود کی ذات کو بنا کر انسانی جنس کے المیے کو ظاہر کیا ہے کہ جنس انسان کے حواس پہ کس طرح غالب ہوتی ہے اور اسے کس طرح اپنے شکنجے میں لے لیتی ہے۔ اس کی نظموں میں جس محرومی کا تصور رہ رہ کہ بیدار ہوتا ہے اس میں جنسی تسکین کی محرومی بھی شامل ہے۔ اس کی نظموں کے یہ دونوں پہلو دیدنی ہیں کہ وہ کہیں تو جنس کو حسن و جمال کی تصویر بنا دیتا ہے اور اس میں کشش پھونک دیتا ہے اور کہیں اسے ایک اندرونی جبر کی طرح ابھار کے اس کی سوزش کو ظاہر کرتا ہے۔

اس کی نظموں میں حسین لمحوں کو مقید کرتے ہوئے اشعار بھی ہیں، جن میں مناظر کی تازہ کاریاں ہے، اپنے وجود کا بھر پور لہجے میں اثبات ہے، احساس کی ترنگ ہے اور ایسے کلاسیکی رنگ کے اشعار ہیں جن سے میر اور سودا کی تاد تازہ ہو جاتی ہے۔ لیکن جہاں ایک طرف یہ سب ہے، وہیں دوسری طرف ایسا بے باک لہجہ بھی ہے جس سے معاشرے کا توہم بے نقاب ہو کر سامنے آ جاتا ہے، انسانی منافقت کی جھلک دکھائی دینے لگتی ہے اور شاعر اپنے کلام میں اپنی ذات سے فرار کی کہانیاں سنانے لگتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ساقی کو خوف کو مسرت بنانے کا ہنر آتا ہے اور اس نے اپنی بعض نظموں میں ایسا کیا بھی ہے، لیکن جہاں اس کا لہجہ کرخت ہوتا ہے وہ انبساط کو کلیتاً فراموش کر دیتا ہے۔ ساقی اپنی نظموں میں اختر شیرانی کی طرح ادھوری جنسیت کو بیان کرتا ہے اور نہ فیض کی مانند منہ بسوری ہوئی مظلومیت کو۔ وہ حقیقت پسند بھی ہے اور اسے معنی آفرینی کا ہنر بھی آتا ہے اس لیے وہ کوئی بات کہنے کے لیے وہ لہجہ اختیا ر کرتا ہے جس میں لطف بھی ہوتا ہے اور فکر بھی۔ اس کی جمالیاتی حس بھی خاصی بیدار ہے، جس کے بے شمار نمونے ہمیں اس کی تشبیہات میں نظر آتے ہیں۔ ظاہراً اس کی تشبیہات اردو غزل سے مستعار لی ہوئی معلوم ہوتی ہیں، لیکن ایک نوع کی تازگی ان میں خود ساقی کے ہنر اور فکری نظام نے بھری ہے۔ ساقی اپنی نظموں میں وجودیت اور آفاقیت کے درمیان توازن قائم رکھتا ہے، اسی لیے نہ اس کے کلام میں مناظر فطرت کی بھرمار ہے اور نہ ہی عشق و محبت کی۔ اس کی نگاہ اگر سب سے زیادہ کہیں مرکوز نظر آتی ہے تو اپنے اطراف پہ جس میں خود اس کا وجود بھی شامل ہے۔ لہذا جب وہ اپنے اطراف کی معمولی سے معمولی شئے کو اپنی نظم کا موضوع بناتا ہے تو ہم ششدر رہ جاتے ہیں کہ کسی عام سے خیال کو یوں بھی پیش کیا جا سکتا ہے؟ یہ ہنر اس کے کلام میں تہہ داری کے باعث پیدا ہوا ہے، حالاں کہ بعض مقامات پہ وہ کسی واقعے کو بیان کرنے میں اتنا سہل ہو جاتا ہے کہ اس کا رویہ سطحی معلوم ہونے لگتا ہے، بعض اوقات وہ شعوری طور پہ کسی نظم میں گیرائی پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہوا نظر آتا ہے، اس کے باوجود اس کے کلام کا بڑا حصہ اسی نوع کی تہہ داری سے مزین ہے جس کا تذکرہ اوپر کیا گیا ہے۔

ساقی کا ایک بڑا کمال یہ بھی ہے کہ اسے معمولی واقعات میں تاریخ انسانی کی جھلکیاں دیکھنے کا ہنر آتا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اس کی نظموں میں بیان کی گئی کہانیوں میں طاقتور امیجری قائم ہو گئی ہے۔ اس نے روایتی قصوں کو اپنی زبان میں بیان کیا ہے، جس کامختلف بیانیہ اردو شاعری کو ایک نیا طرز دیتا ہے۔ ساقی کی نظموں میں موت کا خوف بھی رہ رہ کر ابھرتا ہے، لیکن موت کا بیان وہ اس طرح کرتا ہے کہ واقعات کی کڑیاں ایک دوسرے میں الجھ کر حسین بن جاتی ہیں، وہ منظر نگاری کرتا ہے تو اس کے درمیان زندگی کی حقیقت تلاش کرتا نظر آتا ہے، اس کے اکیلے پن کا احساس ایسے ابہام سے مزین ہوتا ہے کہ اس میں منافرت کا جذبہ ہونے کہ باوجود وہ بھلا معلوم ہوتا ہے۔ اس نے عشقیہ جذبات سے بھی دامن نہیں بچایا ہے، بعض نظموں میں یہ جذبہ عشق بہت ستھرے ہوئے لہجے کے ساتھ سامنے آتا ہے، جس میں ڈرامائیت بھی ہوتی ہے، ہذیانی تصنع بھی، داخلی رنج بھی اور زمانی خلفشار بھی۔ وہ اچھوتی تراکیب استعمال کرتا ہے جو زیادہ تر فارسی زدہ ہوتی ہیں اور جن میں نئے دور کا المیہ اور نئی زندگی کے عذاب کی عکاسی ہوتی ہے۔ وہ اپنی نظموں میں زیادہ تر عام زندگی کے تجربات مثلاً وصل، عقدہ کشائی کی خواہش، آگہی، دیوانگی اور نجی مسائل کے ادراک کو اپنا موضوع بناتا ہے۔ جن میں کچھ جذبے ناتراشیدہ اور نشہ آمیز ہوتے ہیں جو کبھی کبھی بے ربط بھی معلوم ہوتے ہیں۔ اس کے باوجود ساقی کا بیانیہ بڑی حد تک پختہ اور پر اسرار ہے۔ ساقی کی ایک بڑی خاصیت یہ بھی ہے کہ اس نے اپنی نظموں میں مشرقی زندگی کے ایسے تجربات کو بیان کیا ہے جو مغربیت میں ضم ہو گئے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *