خدا معبدوں میں گم ہو گیا ہے (نصیر احمد ناصر)
خدا معبدوں کی راہداریوں میں گم ہو گیا ہے دلوں سے تو وہ پہلے ہی رخصت ہو چکا تھا خود…
نصیر احمد ناصر پاکستانی اردو شاعری کا نمایاں اور رحجان ساز نام ہے۔ آپ کی شاعری دنیا کی مختلف زبانوں میں ترجمہ وہ چکی ہے۔ آپ 'تسطیر' کے نام سے ایک ادبی جریدہ بھی نکالتے رہے ہیں۔
خدا معبدوں کی راہداریوں میں گم ہو گیا ہے دلوں سے تو وہ پہلے ہی رخصت ہو چکا تھا خود…
ابھی تو دن ہے اور ہم دیکھ سکتے ہیں ایک دوسرے کو دکھ میں اور خوشی میں اور مِل سکتے…
وقت کے نورانیے میں تہذیبیں زوال کی سیاہی اوڑھ لیتی ہیں لیکن اکاس گنگا کے اَن گنت اَن بُجھ ستارے…
نصیر احمد ناصر: درد کی لَے میں ہوا صدیوں پرانا گیت گاتی ہے
نصیر احمد ناصر: خفیہ خزانے کے پرانے آہنی صندوقچوں میں سرخ سِکوں کی جگہ ڈالر بھرے ہیں
نصیر احمد ناصر: میں تمہیں خواب کے دروازے پر اسی طرح جاگتا ہوا ملوں گا
نصیر احمد ناصر: ہمیں کس نگر میں تلاشو گے کن راستوں کی مسافت میں ڈھونڈو گے
نصیر احمد ناصر: اجنبیت ۔۔۔۔۔ قربتوں کے لمس میں سرشار گم گشتہ زمانے ڈھونڈتی ہے زندگی دکھ درد بھی قرنوں…
نصیر احمد ناصر: ماں نظم کو گود میں لیے بیٹھی رہتی نظم کے ہاتھ چومتی اور ایک الُوہی تیقن سے…
نصیر احمد ناصر: پھاگن چیتر کے آتے ہی بیلیں رنگ برنگے پھولوں سے بھر جاتی ہیں!!
نصیر احمد ناصر: سُنو، بلیک ہول جیسے آدمی! مجھے تم دُور لگتے ہو
نصیر احمد ناصر: وقت کی اپنی کوئی شکل بھی نہیں ہوتی ہم ہی اس کا چہرہ ہیں ہم ہی آنکھیں
نصیر احمد ناصر: ایک وقت آتا ہے جب آدمی سب کے ہوتے ہوئے بھی تنہا رہ جاتا ہے!