اسلام پورہ میں ایک بدروح افسردہ ہے (زاہد امروز)
عورت جو چھ سال پہلے مر چکی ہے اس کی لاش ابھی تک صحن میں پڑی ہے عورتیں میّت کے سرہانے بیٹھی ہیں کمرہ چغلیوں سے بھراہوا ہے اسلام پورہ کی گلیوں میں بد روحیں پھرتی ہیں اور میرے دل میں سستا نے آتی ہیں میں یاد کرتا ہوں وہ چھت پر سو رہی ہوتی […]
تم زمین سے زیادہ بڑی ہو اور دیگر نظمیں (زاہد امروز)
میں اُکتا کر اٹھتا ہوں
اور سنسان گلی میں خود کو ڈھونڈنے جاتا ہوں
ایک عوامی نظم (زاہد امروز)
ہم خالی پیٹ سرحد پر ہاتھوں کی امن زنجیر نہیں بنا سکتے بُھوک ہماری رانیں خشک کر دیتی ہے آنسو کبھی پیاس نہیں بجھاتے رجز قومی ترانہ بن جائے تو زرخیزی قحط اُگانے لگتی ہے بچے ماں کی چھاتیوں سے خون چوسنے لگتے ہیں کوئی چہروں پہ پرچم نہیں بناتا اور یومِ آزادی پر لوگ […]
آدمی زندہ ہے، آدمی زندہ ہے!، آدمی زندہ ہے؟ (زاہد امروز)
ریڈیو گا رہا ہے ‘‘ماٹی قدم کریندی یار’’ ماٹی قتل کریندی یار آدمی سو رہا ہے آدمی ٹھنڈی لاشوں کے درمیان سو رہا ہے آدمی جاگ رہاہے آدمی مردہ عورت سے ہم بستری کے لیے جاگ رہا ہے بچہ تصویر بناناکھیل رہا ہے بچہ آدمی کی تصویر بنا رہا ہے بچہ فیڈر پی رہا ہے […]
آدمی بیوپار ہے
آدمی ہو یا کتا
جو روٹی دیتا ہے
وہ مالک ہوتا ہے
کائنات کی ساخت (تحریر: کارلو رویلی، ترجمہ فصی ملک، زاہد امروز)
تیسرا سبق: کائنات کی ساخت کارلو رویلی ترجمہ: زاہد امروز، فصی ملک اسی سلسلے کے مزید اسباق پڑھنے کے لیے کلک کیجیے۔ بیسویں صدی کی ابتدائی دہائیوں میں آئن سٹائن نے اپنی تحقیق کے ذریعے واضح کیا کہ زمان و مکاں کیسے کام کرتے ہیں جب کہ نیل بوہر(Neil Bohr) اوراس کے شاگردوں نے مادہ […]
روشنی کے ذرّات (تحریر: کارلو رویلی، ترجمہ: فصی ملک، زاہد امروز)
دوسرا سبق: روشنی کے ذرّات (کوانٹا) کارلو رویلی ترجمہ: زاہد امروز، فصی ملک اسی سلسلے کے مزید اسباق پڑھنے کے لیے کلک کیجیے۔ بیسویں صدی کی فزکس کے دواہم ستون،آئن سٹائن کا نظریہ عمومی اضافیت (جس کے بارے میں میَں نے گزشتہ سبق میں بات کی) اورکوانٹم میکانیات (جس کے متعلق میَں اس سبق میں […]
نظم کے لیے غسل واجب نہیں
زاہد امروز: عمر علی!
لندن ہو یا لائل پور
دنیا ایک سی ہے
سوشل میڈیا پر لکھاری ہی مدیر اور ناشر ہے: زاہد امروز
زاہد امروز: بڑا ادب پیدا کرنے کے لیے گہرا تفکر اور بے فکری درکارہوتی ہے اور اس کے لیے سوشل میڈیا کے شور سے دور خاموشی کو محسوس کرنا ضروری ہے
نظم لکھنے سے پہلے ایک نظم
زاہد امروز:کون مرے اِس سچ کو سچا جانے
میرا سچ جو اِس اَن حد باغیچے کے اِک گوشے میں کھِلا ہوا معمولی پھول ہے
کچرے کی حکومت
زاہد امروز: جب اس ہنگامے کا شور
ہماری نیند آلودہ کرتا ہے
ہم کروٹ کروٹ کڑھتے ہیں
تم وہی رہو، جو ہو
زاہد امروز: اِسی طرح تم وہی رہو
عیاری اور منافقتوں سے پاکیزہ
جس کو پوجنا چاہتا ہے
دنیا کا مکّار خدا!
ﺩﻧﯿﺎ ﺗﻢ ﮐﻮ ﺟﯿﺴﮯ ﺑﮭﯽ ﺩﯾﮑﮭﮯ
زاہد امروز: ﺩﻧﯿﺎ ﺗﻢ ﮐﻮ ﺟﯿﺴﮯ ﺑﮭﯽ ﺩﯾﮑﮭﮯ
ﻣﯿﺮﮮ ﻟﯿﮯ ﺗﻢ
ﺳﺮﻣﺎ ﮐﯽ ﺷﺎﻡ ﮐﯽ ﭨﮭﻨﮉﮎ ﮨﻮ
آدمی کہتا ہے وہ جی سکتا ہے
زاہد امروز: ڈرے ہوئے آدمی ڈرے ہوئے آدمی سے ڈر جاتے ہیں
مرے ہوئے آدمی مرے ہوئے آدمی کو مار دیتے ہیں
نرم گھاس میں سرگوشیاں
سورج کی روشنی میں تیرتے رہتے ہیں
اور تیرتے ہوئے خوشی میں گانے لگتے ہیں