زاہد امروز کی نظمیں “لالٹین” پر مسلسل شایع ہوتی رہی ہی۔ ان کی نظمیں اپنے موضوعات، شعریت، علامتوں اور استعاروں کی وجہ سے اپنی انفرادیت رکھتی ہیں۔ گزشتہ چند سالوں میں ان کی نظموں میں واضح موضوعاتی اور ہیئتی تبدیلیاں آئی ہیں جو ان کے شعری سفر کا ارتقاء ہے. ان نظموں کا غیر روایتی انداز ہمیں اردو نظم کے ایک نئے رنگ سے متعارف کرواتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آدمی زندہ ہے
آدمی زندہ ہے!
آدمی زندہ ہے؟
ریڈیو گا رہا ہے
“ماٹی قدم کریندی یار”
ماٹی قتل کریندی یار
آدمی سو رہا ہے
آدمی ٹھنڈی لاشوں کے درمیان سو رہا ہے
آدمی جاگ رہا ہے
آدمی مردہ عورت سے ہم بستری کے لیے جاگ رہا ہے
بچہ آدمی کی تصویر بنا رہا ہے
بچہ فیڈر پی رہا ہے
اور سوچ رہا ہے
میں بڑا ہو کر قاتل بنوں گا
ریڈیو گا رہا ہے
“ماٹی قدم کریندی یار”
ماٹی قتل کریندی یار
آدمی نہا رہا ہے
نہاتے ہوئے آدمی قتل کے منصوبے بنا رہا ہے
نالی میں خون بہہ رہا ہے
آدمی مر رہا ہے
مرا ہوا آدمی سوچ رہا ہے
آدمی زندہ ہے
آدمی زندہ ہے!
آدمی زندہ ہے؟
آ!
دمی؟
زن!
دہ؟؟؟؟
آدمی
عورت کے پستان سے لٹکا رہتا ہے
بے مصرف دن کی گولائی
گول گھنے چکر میں گھومتی رہتی ہے
دنیا چلتی رہتی ہے
آدمیوں کے دل میں رات ٹھہر جاتی ہے
اس ٹھہری رات میں عورت بچے جنتی ہے
بچے روتے ہیں
بچے ہنستے ہیں
بچے دنیا کی دلال دِلی پر ہنستے ہیں
اااااااااابچے خالق اور مخلوق کی مکاری پر ہنستے ہیں
اااااااااااااااااااابچے عمروں کی عیاری پر ہنستے ہیں
ہنستے ہنستے
ہنسی کا ہتھیار بنا لیتے ہیں بچے
آدمی ڈر جاتا ہے
ڈرا ڈرا سا آدمی
عورت کے پستان سے لٹکا رہتا ہے
دن مردہ پانی میں تیرتا ہے
کبھی کبھی تو میرا ذہن برف کا ٹکڑا بن جاتا ہے
سینہ میلوں میل خشکی سے بھر جاتا ہے
اور آنتیں صحرا میں پگڈنڈیاں بن جاتی ہیں
بے کار باتوں سے بھرے بازار بے زاری کو اور سستا کر دیتے ہیں
ماں روٹی کی باتیں کرتی ہے
کون بہتر باورچی ہے؟
محلہ عورتوں کا چغل خانہ ہے
چار دیواری میں نرگسیت کی بارش برستی رہتی ہے
فیس بُک چوبیس گھنٹے کھلی رہتی ہے
انگلیاں چلتی رہتی ہیں
لاچاری کی دلدل میں بے چہرہ جسم بھٹکتے رہتے ہیں
میں اُکتا کر اٹھتا ہوں
اور سنسان گلی میں خود کو ڈھونڈنے جاتا ہوں
میرا دل ڈوبنے لگتا ہے
ڈوبتے ڈوبتے
دور سمندر میں ایک سبز جزیرے پر میں خود سے ملتا ہوں
دھوپ نکل آتی ہے
برف پگھل جاتی ہے
اینا ماریہ سان فرانسسکو سے مجھے دیکھ رہی ہے
بستر پر لیٹے ہوئے
میں تمہیں پورے جسم سے سوچتا ہوں
اور کھڑکی سے باہر کھڑے دیکھتا ہوں
میرے ہاتھ تمہارے جسم کا ہمالیہ چھوتے ہیں
اور تمہارے سمندر میں اُتر جاتے ہیں
لہریں سان فرانسسکو کی سمت بہتی ہیں
پلٹ کر نہیں آتیں
میں تمہیں نیند کی گود میں دیکھتا ہوں
اور بوسوں کی سیپیاں بھیجتا ہوں
سمندر پر ہوائیں چلتی ہیں
تمہاری گرم سانس کا گردباد میرے سینے سے اٹھتا ہے
بستر میں میرے بال اڑنے لگتے ہیں
تم میرا نمک چکھنے کب آؤ گی؟
تم بن جاتے ہوجو نہیں بننا چاہتے
صبح کی دہلیز پر روز ایک خواب دیکھتے ہو
ہر رات بستر پرایک خواب مر جاتا ہے
تم گھر سے غصے میں نکلو
یا مسکراتے ہوئے
شام کی بُکّل مارے افسردہ لوٹتے ہو
لوگ تمہارے دیہاتی دل سے کھیلتے ہیں
قطرہ قطرہ
غصے کا دریا خشک ندی بن جاتا ہے
آنکھوں کی لالی جلی ہوئی مٹی کی سرخی بن جاتی ہے
سدھائے کتے کی طرح
تم اپنے آقا کے تلوے چاٹنے لگتے ہو
قطرہ قطرہ
زندگی کا زہر تمہاری روح میں گھُل جاتا ہے
لمحہ لمحہ
تم داناہوجاتے ہو
اوربن جاتے ہو
جو نہیں بننا چاہتے
تم زمین سے زیادہ بڑی ہو
تم میرے گرد پیاز کی طرح لپٹی ہو
میں دیوانوں کی طرح
ایک ہی جملہ دُہرائے جاتا ہوں
اور پیاز چھیلے جاتا ہوں
آنسو دُکھ کے ہیں نہ پیاز کے
بے بسی اور حسرت کے ہیں
میں ایک ہی جملہ دوہرائے جاتا ہوں
اور تہہ در تہہ پیاز چھیلے جاتا ہوں
تم تہہ در تہہ لپٹی جاتی ہو
اور زمین سے زیادہ بڑی ہو جاتی ہو
میں اس پیاز کے مرکز میں
دہکتا ہوا دل ہوں
یا کچھ بھی نہیں؟