تیسرا سبق: کائنات کی ساخت
کارلو رویلی
ترجمہ: زاہد امروز، فصی ملک

اسی سلسلے کے مزید اسباق پڑھنے کے لیے کلک کیجیے۔

بیسویں صدی کی ابتدائی دہائیوں میں آئن سٹائن نے اپنی تحقیق کے ذریعے واضح کیا کہ زمان و مکاں کیسے کام کرتے ہیں جب کہ نیل بوہر(Neil Bohr) اوراس کے شاگردوں نے مادہ کی کوانٹمی (ذرّاتی) ماہیت کو ریاضی کی مساواتوں کی شکل میں بیان کیا۔ ان کے بعد بیسویں صدی کی آخری دہائیوں میں آنے والے طبیعات دانوں نے ان دو بنیادی نظریات کی روشنی میں فطرت کی مزید تشریح کرنےکی کوشش کی۔ سائنسی محققوں نے ان نظریات کو کائنات کی دو مختلف سطحوں یعنی بڑے اجسام (ستاروں اور سیاروں) پرمحیط کائنات اورچھوٹے اجسام (بنیادی ایٹمی ذرات) کی نظر نہ آنے والی کائنات پرلاگو کیا۔ اس سبق میں ہم بڑے اجسام پرمحیط کائنات کے بارے میں بات کریں گےاوراگلے سبق میں چھوٹے اجسام کی کائنات پر۔

اس سبق کا زیادہ تر حصہ سادہ تصاویر پر مشتمل ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تجربات، پیمائش، ریاضیاتی مساواتوں اوراستخراجیہ سے بالاتر سائنس کا تعلق دراصل بصارت سے ہے یعنی آپ کسی مظہر کا مشاہدہ کیسے کرتے ہیں اوراسے سمجھنے کے لئے آپ کے ذہن میں کیا تشبیہ بنتی ہے۔ سائنس بصارت سے شروع ہوتی ہے۔ سائنسی تخیل کواس بات سے تقویت ملتی ہے کہ چیزوں کو پچھلی بار کی نسبت ایک نئے زاویے سے دیکھا اور سمجھا جائے۔ اس لئے میں کچھ تصاویر کی مدد سے آپ کوان سائنسی تصورات کی بصری تشریح پیش کرنا چاہتا ہوں تاکہ آپ کے ذہن میں یہ تصورات اس طرح واضح ہوجائیں جیسے سائنس انہیں دیکھتی ہے ۔

کائنات کا قدیم تصویر

مندرجہ بالا تصویر بتاتی ہے کہ کیسے ہزاروں سالوں تک کائنات کی ساخت کے بارے میں یہ گمان کیا جاتا رہا کہ یہ دو حصوں میں اس طرح منقسم ہے کہ زمین ہمارے نیچے جب کہ ہمارے آسمان اوپر ہے۔ پہلا سائنسی انقلاب آج سے چھبیس سو سال پہلے تب رونما ہوا جب ایک یونانی فلسفی اناکسی میندر(Anaximander) نے یہ سمجھنے کی کوشش کی کہ کیسے ممکن ہے کہ سورج، چاند اور ستارے ہماری زمین کے گرد گھومتے ہوں۔ اس نے کائنات کی درج بالا تصویر کو اس تصویر سے بدل دیا۔

ایناکسی میندر کے نقطہ نظر میں کائنات سادہ ہے

اس تصویرمیں کائنات کی ساخت کا مختصر تصور ہے۔ اب آسمان صرف ہمارے اوپرموجود ہونے کی بجائے ہر طرف موجود ہے۔ اس تصور کے مطابق زمین سپیس(Space) میں تیرتی ہے جس کے ہر طرف آسمان ہے۔ اس تصور کے پیش کیے جانے کے کچھ عرصہ بعد ہی ایک اور یونانی فلسفی، پیرمینڈیس یا شاید فیثا غورث(Parmenides or Pythagoras) نے محسوس کیا کہ سپیس میں مسلسل تیرتی ہوئی زمین کے اس توازن کو سمجھنے کے لئے کُرّہ یا مدار کا تصورزیادہ مناسب لگتا ہے کیوں کہ مدارمیں گھومتا ہوا ایک جسم اپنے اردگرد ہرسمت میں مساوی فاصلے پر رہتا ہے۔ارسطو(Aristotle) نے زمین اور اس کےگرد گھومتے ہوئے دوسرے آسمانی اجسام کی حرکت کے کُروی ہونے کے بارے میں تسلی بخش سائنسی دلائل واضح کیے۔ اس کے نتیجے میں حاصل ہونے والی کائنات کی تصویر مندرجہ ذیل ہے۔

یہ کائنات کی وہ تصویر ہے جسے ارسطو نے اپنی کتاب” آسمانوں پر” میں پیش کیا

یہ کائنات کی وہ تصویر ہے جسے ارسطو نے اپنی کتاب” آسمانوں پر” میں پیش کیا۔ کائنات کا یہی تصوّر بحیرہ روم کی تہذیبوں میں قرونِ وسطیٰ کے اختتام تک قایم رہا ۔ یہ جاننا کس قدر دلچسپ ہے کہ کائنات کا یہ تصوّردانتے اور شیکسپیئرجیسے لوگوں نے اپنے سکول میں پڑھا۔

اس کے بعد کائنات کو سمجھنے میں بڑی جست کوپرنیکس (Copernicus) نے لگائی جس سے اس دور کا آغاز ہوا جس کو اب عظیم سائنسی انقلاب کہا جاتا ہے۔ کوپرنیکس کی دنیا ارسطو کی دنیا سے زیادہ مختلف نہیں ہے لیکن درحقیقت ان دونوں میں ایک بہت اہم فرق ہے۔

کوپر نیکس کے خیال میں کائنات کا مرکز زمین نہیں سورج ہے

زمانہ قدیم کا تصورکائنات جس میں زمین مرکز ہے، کوپرنیکس کے نزدیک درست نہیں تھا۔ اس نے یہ تصور پیش کیا کہ سیاروں کے اس کائناتی رقص میں ہماری زمین اس کا مرکز نہیں ہے بلکہ اس کے مرکز میں سورج ہے۔ اس لحاظ سے ہمارا سیارہ زمین بہت سارے دوسرے سیاروں کے ہمراہ بہت تیز رفتاری سے اپنے محور کے ساتھ ساتھ سورج کے گرد بھی ایک مدارمیں گھوم رہا ہے۔

وقت کے ساتھ ساتھ انسانی علم بڑھتا رہا اور بہتر پیمائشی آلات کے زریعے جلد ہی یہ دریافت کر لیا گیا کہ ہمارا پورا نظامِ شمسی بذات خود کائنات کا مرکز نہیں ہے۔ بلکہ یہ لاتعداد دوسرے شمسی نظاموں میں سے محض ایک ادنیٰ سا نظامِ شمسی ہے اورہمارا سورج بھی بہت سے دوسرے ستاروں کی طرح ایک ستارہ ہے۔ ایک سوارب ستاروں کے اس بادل نما وسیع جھمگٹے (کہکشاں) میں محض ایک معمولی ذرہ۔

ہماری کائنات اربوں کائناتوں میں سے ایک ہے

تاہم 1930ع میں فلکیات دانوں نے ستاروں کے درمیان پھیلے سفیدی مائل بادلوں (Nebulae) کی تفصیلی اور تصحیح شدہ پیمائشوں سے یہ معلوم کیا کہ ہماری کہکشاں دوسری لاتعداد کہکشاؤں کے اس بادل میں محض ایک ذرہ ہے۔ اب تک بنائی گئی سب سے طاقت وردوربینوں کی مدد سے ہمیں یہ معلوم ہوسکا ہے کہ کہکشاؤں کے ان کائناتی بادلوں کا یہ سلسلہ تا حدِ نگاہ پھیلا ہوا ہے۔ ہمارے اب تک کے تصور کے مطابق دنیا ایک یکساں اورلامحدود وسعت بن چکی ہے۔

ذیل میں دی گئی تصویر ہاتھ سے بنایا ہوا کوئی خاکہ نہیں بلکہ زمین کے گرد خلا میں اپنے مدارمیں گھومتی ہوئی ہبل دوربین (Hubble Telescope)سے لی گئی آسمان کی ایک فوٹو ہے۔ ماضی میں دوسری طاقت وردوربینوں سے لی گئی آسمان کی تصویروں کی نسبت یہ تصویرزمین سے بہت دور خلا کی زیادہ گہرائی میں موجود اجسام دکھاتی ہے۔ جہاں یہ تصویر لی گئی ہے، آسمان کے اس حصّے کو انسانی آنکھ سے دیکھا جائے تو یہ سیاہ آسمان کا ایک چھوٹا سا خالی ٹکڑا نظرآئےگا ۔ ہبل دوربین سے لی گئی اس تصویر کودوبارہ دیکھیں، یہ خلا میں دُوردُور بے ترتیب پھیلے ہوئے نقطوں کی ایک گرد دکھائی دیتی ہے۔ حقیقت میں ہرسیاہ نقطہ ایک کہکشاں کی شبیہہ ہے اور ہر نقطے میں ہمارے سورج کی طرح کے سینکڑوں ارب ستارے موجود ہیں۔ گزشتہ چند سالوں میں یہ مشاہدہ کیا گیا ہے کہ ہمارے نظام شمسی کی طرح ان ستاروں میں سے بیشتر کے گرد بھی سیارے گھومتے ہیں۔ لہٰذا کائنات میں زمین کی طرح کے اربوں کے اربوں کے اربوں کے اربوں ستارے موجود ہیں۔ ہم آسمان پرجس سمت بھی دیکھیں یہی منظرنظرآتا ہے جیسا اس تصویر میں موجود ہے۔

لیکن یہ ہمہ جہت یکسانیت حقیقت میں ایسی نہیں ہے جیسی بظاہر مندرجہ بلا تصویر میں نظرآتی ہے۔ جیسا کہ میں نے پہلے سبق میں وضاحت کی تھی کہ سپیس کاغذ کی طرح مستوی نہیں بلکہ منحنی یعنی خم دار ہے۔ ہمیں کائنات کی ساخت کویوں تصورکرنا چاہیے کہ یہ ستارے اور کہکشائیں ایک خم دارسطح پرچھینٹوں کی طرح ہیں۔ یہ کہکشائیں سمندری موجوں کی مانند لہروں میں حرکت کرتی ہیں جوبسا اوقات اتنی زیادہ شدید ہوتی ہیں کہ کائنات کی اس خم دارسطح میں گڑھے پڑجاتے ہیں جن کو ہم بلیک ہول کہتے ہیں۔ اس معلومات کے بعد ہم ہبل دوربین سے لی گئی تصویرمیں اضافہ کریں تو ان لہروں کی وجہ سے خم دارکائنات کی تصویر کچھ اس طرح نظر آتی ہے۔

اب ہم جانتے ہیں کہ کہکشاؤں سے مزین یہ وسیع لچکیلی کائنات جسے بننے میں پندرہ ارب سال لگ گئے، ایک بہت ہی گرم اورانتہائی کثیف بادل نما چھوٹے نقطے میں نمودارہوئی۔ اس نقطے کو بیان کرنے کے لیے ہمیں صرف کائنات کی موجودہ ساخت ہی نہیں بلکہ اس ساخت کی تشکیل کی پوری تاریخ وضع کرنے کی ضرورت ہے۔ اس ارتقائی کائنات کی شکل کچھ یوں ہے:

کائنات ایک چھوٹی گیند نما شکل سے شروع ہوئی اور پھر اپنی موجودہ کونیاتی وسعت تک پھیل گئی۔ بڑے سے بڑے پیمانے پر جو ہم اب تک جانتے ہیں، یہ ہماری کائنات کی موجودہ تصویر ہے۔

کیا اس قابل پیمائش کائنات کے علاوہ بھی کوئی چیزموجود ہے؟ کیا اس سے پہلے کچھ تھا؟ شایدایسا ممکن ہو۔ میں اس بارے میں کچھ اسباق کے بعد بات کروں گا۔ کیا ہماری اس کائنات جیسی یا اس سے مختلف اور کائناتیں وجود رکھتی ہیں؟ ہم نہیں جانتے۔

Leave a Reply