عورت جو چھ سال پہلے مر چکی ہے
اس کی لاش ابھی تک صحن میں پڑی ہے
عورتیں میّت کے سرہانے بیٹھی ہیں
کمرہ چغلیوں سے بھراہوا ہے
اسلام پورہ کی گلیوں میں بد روحیں پھرتی ہیں
اور میرے دل میں سستا نے آتی ہیں
میں یاد کرتا ہوں
وہ چھت پر سو رہی ہوتی
ایک جِن میرا ہاتھ اُس کی رانوں پر پھیرتارہتا
میں بریزیئر میں بنیان اُڑس کر پستان بناتا
اورمشت بھر لطف کے بیج گراتا
جب میں اسے آخری بار ملا
چیونٹیاں اُس کی ایک ٹانگ کُتر چکیں تھی
اس کے تن کا تنا سوکھ چکا تھا
رفتہ رفتہ وقت کی بکری بدن کا پھل بھی چر گئی
قسمت لادین تھی
تعویز بے اثر گئے
اور ڈاکٹر کی دوائی عامل کے کرائے سے مہنگی تھی
عصر کی اذان کے بعد اُسے دفنانے لے جائیں گے
میں اسے تب بھی دیکھتا تھا اورآج بھی دیکھتا ہوں
کل ہمارے درمیان اُس کا شوہر تھا
کل ہمارے درمیان حاملہ عورت کے پیٹ جیسی قبر ہوگی
بنیان جو اَب میں نہیں پہنتا
بریزیئر جو اَب وہ نہیں پہنے گی
غسل خانے میں لٹک رہے ہیں
Leave a Reply