Laaltain

روشنی کے ذرّات (تحریر: کارلو رویلی، ترجمہ: فصی ملک، زاہد امروز)

18 جون, 2018
Picture of لالٹین

لالٹین

دوسرا سبق: روشنی کے ذرّات (کوانٹا)
کارلو رویلی
ترجمہ: زاہد امروز، فصی ملک

اسی سلسلے کے مزید اسباق پڑھنے کے لیے کلک کیجیے۔

بیسویں صدی کی فزکس کے دواہم ستون،آئن سٹائن کا نظریہ عمومی اضافیت (جس کے بارے میں میَں نے گزشتہ سبق میں بات کی) اورکوانٹم میکانیات (جس کے متعلق میَں اس سبق میں بات کروں گا)، اپنے بنیادی تصوّرات میں اس قدر الگ تھے کہ ایک دوسرے سے مزید مختلف نہیں ہو سکتے تھے۔ البتہ دونوں نظریات ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ فطرت کی ساخت ایسی نہیں ہے جیسی بظاہر نظرآتی ہے۔ یہ اس سے کہیں زیادہ لطیف ہے. عمومی اضافیت ایک ایسا جامع علمی گوہر ہے جس کو ایک تنہا دماغ نے جنم دیا۔ یہ نظریہ کششِ ثقل،زمان و مکاں(Space and Time) کا ایک مربوط تصورہے۔ جب کہ دوسری جانب کوانٹم میکانیات یا کوانٹم فزکس نے بھی اتنی ہی تجرباتی کامیابی حاصل کی ہے اور ایسے سائنسی اور تکنیکی اطلاقات دیے ہیں جس نے ہماری روزمرہ زندگی کو بدل کر رکھ دیا ہے. مثال کے طور پر یہ کمپیوٹر جس پر میں یہ تجریرلکھ رہا ہوں۔ تاہم اپنے جنم سے ایک سو برس بعد بھی یہ ناقابلِ فہم پیچیدگی اورتجسس سے بھری ہوئی ہے۔

کہا جاتا ہے کہ کوانٹم میکانیات کا آغازعین 1900ع میں ہوا اوراس سے ایک گہرےتفکّرکی صدی نے جنم لیا۔ جرمنی کے سائنس دان میکس پلانک نےایک فرضی سیاہ جسم میں موجود برقی میدان کی ریاضیاتی پیمائش کی جب وہ جسم حالت توازن میں ہو۔ ایسا کرنے کے لیے اس نے ہوشیاری سے کام لیا اورایک ترکیب سوچی۔ اس نے فرض کیا کہ اس میدان کی توانائی قدریوں (building blocks) یا کوانٹا(Quanta) میں منقسم ہے۔ یوں سمجھیں کہ توانائی کوئی بہتی ہوئی شے نہیں، بلکہ یہ چھوٹے چھوٹے ذرات (Quanta)یا پیکٹوں کی صورت میں اپنا وجود رکھتی ہے۔ اس تصور کی رو سے ریاضیاتی پیمائش نے بالکل وہی نتائج دیے جو تجرباتی طورپرحاصل کیے گئے تھے (اور لازماً صحیح تھے)۔ لیکن یہ نتائج مروجّہ سائنسی تصورات کے بالکل منافی تھے۔

توانائی کو ایسی چیز گمان کیا جاتا تھا جو ایک تسلسل سے تبدیل ہوتی ہے۔ ایسا سوچنے کی کوئی وجہ نہیں تھی کہ یہ چھوٹے چھوٹے قدریوں یا ذرات سے مل کر بنی ہو سکتی ہے۔ توانائی کو چھوٹے چھوٹے ذرات گمان کرنا پلانک کے لیے بھی محض ایک حسابی کلیہ تھا اوروہ خود بھی مکمل طور پر اس کی اہمیت کو نہیں سمجھا تھا۔ ایک مرتبہ پھر، یہ آئن سٹائن ہی تھا جس نے پانچ سال بعد ایک سادہ سے تجربے کے ذریعے یہ دیکھا کہ توانائی کے یہ چھوٹے چھوٹے ذرےدراصل حقیقی ہیں۔

آئن سٹائن نے ثابت کیا کہ روشنی محض مسلسل لہر نہیں بلکہ ذرات یا پیکٹوں سے مل کر بنی ہے۔انہیں ہم آج ضیائیہ یا فوٹان (Photon) کہتے ہیں۔ آئن سٹائن نے اپنے مضمون کے تعارف میں لکھا کہ:
“مجھے یوں لگتا ہے کہ سیاہ جسمی شعاعیں (Blackbody Radiation)، روشنی کی دمک (Fluorescence)، بالائے بنفشی شعاؤں (Ultraviolet Rays)کے ذریعےمنفی شعاعوں (Cathode Rays)کی پیداواراورروشنی کے اخراج یا تبدیلیِ ہیت کے ساتھ منسلک دوسرے عوامل کوزیادہ آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے اگر ہم یہ فرض کرلیں کہ روشنی کی توانائی مکاں میں غیرمسلسل انداز میں منقسم ہے۔ اس مفروضے کی مطابق ایک نقطے سے خارج ہونے والی روشنی کی شعاع مکاں میں مسلسل بڑھتے تناسب کےساتھ مساوی طورپرمنقسم نہیں بلکہ محدود مقداری روشنی کے ذرات یعنی ‘کوانٹا’ پر مشتمل ہے جوعام ذرات کی طرح خلا میں ایک خاص مقام پر موجود ہوتے ہیں اور انہیں مزید تقسیم نہیں کیا جا سکتا بلکہ یہ مکمل اکائی کی شکل میں خارج یا جذب کیے جا سکتے ہیں”۔

یہ سادہ اور واضح سطور کوانٹم میکانیات کا پیدائشی سرٹیفیکیٹ ہیں۔ حیران کن بات ہے کہ آئن سٹائن کےاس ابتدائی جملے پرغور کریں “مجھے یوں لگتا ہے۔۔۔۔”، جوکہ چارلس ڈارون کے ابتدائی جملے “میں سوچتا ہوں۔۔۔” کی یاد دہانی کراتا ہے جب اس نے اپنی تحقیقی ڈائریوں میں انواع کے ارتقا کا تصورپیش کیا تھا۔ یا فیراڈے کی وہ “ہچکچاہت” جو اس نے مقناطیسی میدان کا انقلابی تصور متعارف کراتے ہوئے ظاہر کی تھی۔ یقیناً نابغے ہچکچاتے ہیں۔
ابتدا میں آئن سٹائن کے سائنسی کام کو اس کے ہم عصروں کی طرف سے ایک بہت ہی ذہین نوجوان کا “لایعنی بچپنہ”سمجھا گیا۔ لیکن بعد میں اسے اسی کام پر نوبل انعام دیا گیا۔ اگرمیکس پلانک اس نظریے کا باپ ہے تو آئن سٹائن ان والدین میں سے ہے جس نے اس کی پرورش کی۔

اپنےاعتراضات کی وجہ سےآئن سٹائن نےاس نظریے کا مکمّل اعتراف نہیں کیا۔ لیکن تمام بچوں کی طرح یہ نظریہ بھی اپنے رستے پر چل پڑا۔ البتہ بیسویں صدی کی دوسری اورتیسری دہائی میں نیل بوہر نے اس نظریےکو مزید مستحکم کیا۔ نیل بوہرنے یہ آگہی حاصل کی کہ جوہروں(Atoms) کےاندربرقیوں یا الیکٹرانوں (Electrons) کی توانائی بھی روشنی کی توانائی کی طرح مخصوص قیمت ہی حاصل کر سکتی ہے۔ سب سے اہم نقطہ یہ کہ الیکٹران ایک مدار سے دوسرے مدار میں ایک خاص توانائی سے ہی چھلانگ لگا سکتے ہیں اورجب وہ ایسا کرتے ہیں تو دو مداروں میں توانائی کے فرق کےبرابرایک فوٹان خارج یا جذب کرتے ہیں۔ یہ مشہورکوانٹمی جستیں (Quantum Leaps) ہیں۔ ڈنمارک کے شہرکوپن ہیگن میں واقع یہ نیل بوہرکا انسٹی ٹیوٹ ہی تھا جہاں بیسویں صدی کے ذہین ترین دماغ اس نئی جوہری دنیا کی حیران کن خوبیوں پر ہونے والی تحقیق میں ایک نظم (Order) لانے کے لیے اکٹھے ہوئے اوراس سے ایک جامع ((Coherent نظریے نے جنم لیا۔ بالآخر1925ع میں اس نظریے کی ریاضیاتی مساواتیں ظہورپذیر ہوئیں جنہوں نے نیوٹن کی میکانیات کومکمل طور پر تبدیل کردیا۔

ایک کامیابی کا تصور کرنا کافی مشکل ہے۔ ایک ہی دھچکے میں ہر چیز قابلِ فہم بن جاتی ہے اور آپ ہر چیز کا حساب لگا سکتے ہیں۔ ایک مثال لیتے ہیں: آپ کو مینڈلیف کا بنایا ہوا دوری جدول یاد ہے؟ جس میں ہائیڈروجن سے لے کر یورینیم تک وہ تمام عناصردرج ہیں جن سے مل کر ہماری کائنات بنی ہے اور جوہمارے اسکولوں اور کالجوں کے بہت سارے کمروں کی دیواروں پرلٹکا ہوتا ہے؟ دوری جدول میں جو عناصر موجود ہیں وہ خاص طور پراسی جگہ پر کیوں ہیں جہاں وہ ہیں اور دوری جدول کی خاص طور پر یہی ساخت کیوں ہے جس میں پیریڈ ہیں اوران کیمیائی عناصر کی مخصوص خصوصیات ہیں؟ جواب یہ ہے کہ ہرعنصرکوانٹم میکانیات کی بنیادی مساوات کے ایک خاص حل سےمطابقت رکھتا ہے۔ تمام کی تمام کیمسٹری ایک ہی مساوات سے نکلتی ہے۔
اس نئے نظریے کی مساوات جو کہ دماغ کو ماؤف کر دینے والے مشکل تصورات پر مبنی تھی، کا خالق جرمنی کا ایک نوجوان نابغہ وارنر ہائزن برگ تھا۔ ہائزن برگ نے فرض کیا کہ الیکٹران ہروقت اپنا وجود نہیں رکھتے۔ یہ صرف اس وقت وجود رکھتے ہیں جب کوئی شخص یا کوئی شئے انہیں دیکھتی ہے یا پھر جب وہ کسی دوسری چیز سے تعامل کرتے ہیں۔ جب یہ کسی دوسری چیز سے ٹکراتے ہیں تو اس جگہ پر کسی خاص امکان کے ساتھ ظاہر ہوتے ہیں جس کا حساب لگایا جا سکتا ہے۔ایک مدار سے دوسرے مدار تک کوانٹمی جستیں ان کے حقیقی ہونے کا وسیلہ ہیں۔ ایک الیکٹران ایک تعامل سے دوسرے تعامل تک جستوں کا مجموعہ ہے۔ جب کوئی چیز اس سے تعامل نہیں کر رہی ہوتی تو یہ کسی بھی خاص مقام پر موجود نہیں ہوتا۔ بلکہ یہ کہیں بھی “موجود” نہیں ہوتا۔

یہ بالکل ایسے ہی جیسے خدا نے حقیقت کا خاکہ تیار کرنے میں مکمل اورگہرے خط کھینچنے کی بجائے محض دھندلی اورادھوری سی کچھ نیم مکمل لائنیں کھینچ دی ہیں۔

کوانٹم میکانیات میں کسی بھی جسم کا کوئی خاص مقام متعین نہیں ہوتا سوائے جب وہ کسی دوسرے جسم سے ٹکراتا ہے۔ ان دو تعاملات کے درمیانی وقفے میں اسے بیان کرنے کے لیے ایک تجریدی کلیے کا سہارا لینا پڑتا ہے جس کا وجود حقیقی کی بجائے تجریدی ریاضی میں ہے۔ لیکن ابھی اس سے زیادہ پیچیدہ مسئلہ باقی ہے۔ الیکٹرانوں کی ایک مقام سے دوسرے مقام تک ان تعاملاتی جستوں (Interactive Leaps) کی پیش گوئی ممکن نہیں بلکہ مجموعی طور پر یہ بے ترتیب ہوتی ہیں۔ صرف اس امکان (Probability) کا حساب لگانا ممکن ہے کہ الیکٹران کا ظہور یہاں ہو گا یا وہاں، نہ کہ اس کا کہ اس کا ظہور کسی خاص مقام پر ہوگا۔ ان امکانات کا سوال فزکس کی اساس تک جاتا ہے جہاں بظاہرہرچیزخاص قوانین کے تحت کام کرتی محسوس ہوتی ہے اورجو ہمہ گیراورناقابلِ تغّیر ہیں۔

کیا یہ لامعنی محسوس ہوتا ہے؟ یہ آئن سٹائن کو بھی بے معنی ہی لگا تھا۔ ایک طرف تواس نے ہائزن برگ کے اس نظریے کا اعتراف کرتے ہوئے اس کا نام نوبل انعام کے لیے تجویزکیا کہ اس نے دنیا کے بارے میں کسی بنیادی چیز کو سمجھا ہے۔ جب کہ دوسری جانب اس نے کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا جہاں وہ اس نظریے کے خلاف بڑبڑا نہ سکے کہ یہ تصوّر اس کے نزدیک قرین قیاس نہیں۔

کوپن ہیگن کے نوجوان افسردہ تھےکہ یہ کیسے ممکن ہے کہ آئن سٹائن ایسا سوچے؟ان کا روحانی باپ جس نے ناقابلِ تصورکو تصورمیں لانے کی جرّات کی، اس نامعلوم (Unknown) کی جانب ایک نئی جست لگانے سے گھبرا رہا تھا جس کی بنیاد اس نےخود رکھی تھی۔ وہی آئن سٹائن جس نے ثابت کیا تھا کہ وقت ہمہ گیر نہیں ہے اور مکاں منحنی ہے، اب کہہ رہا تھا کہ دنیا “اس قدر”عجیب نہیں ہو سکتی۔

بوہر نے نہایت تحمل سے آئن سٹائن کوان تصورات کی وضاحت پیش کی۔ آئن سٹائن نے اعتراضات کیے۔ اس نے ان نئےتصورات میں موجود تضادات ثابت کرنے کے لیے تخیّلی تجربات (Thought Experiments) ترکیب دیے۔ روشنی سے بھرے ایک ڈبے کا تصور کریں جس سے ہم صرف ایک فوٹان کوباہرآنے دیتے ہیں اوریوں آئن سٹائن کی مشہورمثال “روشنی کے ڈبّے والا تخیلی تجربہ” کا آغاز ہوتا ہے۔ لیکن ہر بار بوہر کوئی ایسا جواب دھونڈ لیتا جس سے ان اعتراضات کو رد کیا جا سکے۔ سالوں تک ان کا مکالمہ خطوط، دروس اور مضامین کے ذریعے جاری رہا۔ تبادلہ خیال کے دوران دونوں شخصیات کو اپنے خیالات پرنظرثانی کرنےاوران کوتبدیل کرنے کی ضرورت پڑی۔ آئن سٹائن کو بالآخر یہ ماننا پڑا کہ نئے تصورات میں تضادات نہیں ہیں اور بوہر کو یہ ماننا پڑا کہ چیزیں اتنی آسان اور سادہ نہیں ہیں جتنی اس نے پہلے سمجھی تھیں۔ آئن سٹائن اس پر بالکل نرمی نہیں برتنا چاہتا تھا جو اس کے لیے سب سے اہم مسلہ تھا: کہ اس سے بالاتر کہ کون سی چیز کس سے تعامل کرتی ہے، کائنات کی ایک معروضی حقیقت موجود ہے۔ جب کہ بوہرنے اس نئے نظریے پر، جس نے حقیقت کی عمیقیت کو نئے انداز میں تصور کیا، کوئی شک نہ کیا۔ بالآخر آئن سٹائن نے مان لیا کہ یہ نظریہ دنیا کے متعلق ہماری فہم میں بہت بڑی جست ہے۔ وو اس بات پربھی قائم رہا کہ چیزیں جتنی عجیب نظرآتی ہیں اتنی ہیں نہیں۔ یقیناً ان مظاہر کے پیچھے قابل فہم وضاحت موجود ہے۔

آج ایک صدی بعد بھی ہم اسی مقام پرکھڑے ہیں۔ کوانٹم میکانیات کی مساواتوں اوران کے مضمرات کو طبیعیات دان، کیمیا گر، انجینئراورحیاتیات دان روزمرہ زندگی کے بہت سارے مختلف علمی میدانوں میں استعمال کرتے ہیں۔ یہ مساواتیں ہم عصر ٹیکنالوجی میں بہت کار آمد ہیں۔ کوانٹم میکانیات کے بغیر الیکٹرانکس مثلاّ ٹرانسسٹر کا کوئی وجود نہ ہوتا۔ ان کےعملی استمعال کے باوجود یہ مساواتیں پر اسرار اور کسی حد تک ناقابلِ فہم رہتی ہیں۔ کیوں کہ یہ محض یہ بتاتی ہیں کہ ایک طبعی نظام دوسرے طبعی نظام پر کیسے اثر انداز ہوتا ہے، یہ نہیں بتا پاتیں کہ اس تعامل کے دوران اس طبعی نظام کے ساتھ کیا ہوتا ہے۔

اس کا مطلب کیا ہوا ؟ کہ کسی نظام کی بنیادی حقیقت ناقابلِ بیان ہے؟ کیا اس کا مطلب ہے کہ ہمارے پاس اس پہیلی کو حل کرنے کے لئے ایک حصّے کی کمی ہے؟ یا کیا اس کا مطلب یہ ہے( اور جو مجھے بھی لگتا ہے) کہ ہمیں اس حقیقت کو مان لینا چاہیےکہ یہ تعامل ہی اصل حقیقت ہے۔ اس سے صحیح معنوں میں ہماراعلم بڑھے گا۔ ایسا مان لیںے سے ہم وہ کچھ کرنے کے قابل ہوں گے جس کے بارے میں ہم نے ابھی تک تصوّربھی نہیں کیا۔ لیکن اس سے نئے سوالات اور نئے اسرار جنم لیتے ہیں۔ اس کے باوجود، تجربہ گاہوں میں ان نظریات کی مساواتوں کواستعمال کرنے والے اپنا کام جاری رکھتے ہیں۔ لیکن مضامین اورکانفرنسوں میں جو حالیہ سالوں میں کافی بڑھ گئی ہیں، طبیعات دان اورفلسفی اپنی تلاش جاری رکھتے ہیں۔ اپنے جنم کے ایک صدی بعد آج نظریہ کوانٹم کیا ہے۔۔۔ حقیقت کی اصل ماہیت میں ایک گہری ڈبکی؟۔۔۔۔ایک صریح غلطی (Blunder) جو محض حادثاتی طور پر کام کر گئی؟۔۔۔ یا پھر دنیا کی ساخت کے بارے کسی عمیق راز کی طرف اشارہ جس کو ہم ابھی مکمل طور پر سمجھ نہیں پائے؟

جب آئن سٹائن فوت ہوا تو اس کے سب سےبڑے نظریاتی حریف بوہر نے اس کے لیے نہایت جذباتی تعریفانہ کلمات کہے۔ جب کچھ سالوں بعد بوہرکی وفات ہوئی تو کسی نے اس کے کمرہ مطالعہ (Study Room) کے تختہ سیاہ کی تصویر لی۔ اس کے اوپر ایک ڈرائینگ بنی ہے۔ آئن سٹائن کے “روشنی کے ڈبّے والے تخیلی تجربے کی ڈرائینگ”۔ حرفِ آخر میں: خود کو للکارنے اور زیادہ سے زیادہ سمجھنے کی خواہش اورآخر میں سب سے اہم بات: شک۔

ہمارے لیے لکھیں۔