ہم خالی پیٹ سرحد پر
ہاتھوں کی امن زنجیر نہیں بنا سکتے
بُھوک ہماری رانیں خشک کر دیتی ہے
آنسو کبھی پیاس نہیں بجھاتے
رجز قومی ترانہ بن جائے
تو زرخیزی قحط اُگانے لگتی ہے
بچے ماں کی چھاتیوں سے
خون چوسنے لگتے ہیں
کوئی چہروں پہ پرچم نہیں بناتا
اور یومِ آزادی پر لوگ
پھلجھڑیاں نہیں، اپنی خوشیاں جلاتے ہیں
فوج کبھی نغمے نہیں گُنگنا سکتی
کہ سپاہی کھیتیاں اُجاڑنے والے
خود کار اوزار ہوتے ہیں
کیا پھول نوبیاہتا عورت کے بالوں
اور بچوں کے لباس پر ہی جچتا ہے؟
کاش۔۔۔!
وطن کی حدود کے تعیّن کے لیے
پھولوں کی کیاریاں
آ ہنی تاروں کا متبادل ہوتیں!