جیسے مدھم سا، نرم سا احساس
جیسے جنگل میں مُشک کی خوشبو
دھند چاروں طرف ہے چھائی ہوئی
ایسا گہرا لطیف سناٹا
سانس لینا سنائی دیتا ہے
کہر ایسا کہ اپنا ہاتھ بھی اب
غور پر ہی دکھائی دیتا ہے
ایک ایسا عجیب سا جادو
جیسے ٹھنڈک لپٹ کے سوئی ہو
اک پرندہ بھی جب نہ جاگا ہو
گھپ اندھیرے سے دن نکلتا ہے
سارے جنگل پہ چپ کی چادر ہے
صبح کچھ کسمسا کے اٹھتی ہے
اک کرن دھوپ سے ذرا پہلے
آکے کہرے میں ٹوٹ جاتی ہے
چار سُو رنگ ہیں، دھنک کے رنگ
میرے قدموں میں رنگ ناچتے ہیں
جیسے قوسِ قزح کو گھیر کے دھند
قید کرنے مجھے ہی آئی ہو
مجھ کو لگتا ہے تیرا سایہ ہے
مجھ کو لگتا ہے کوئی آیا ہے
مجھ سے ملنے، مری تلاش میں تُو

جیسے مدھم سا، نرم سا احساس
جیسے جنگل میں مُشک کی خوشبو
Image: Vilhelm Bjerke Petersen

Leave a Reply