لندن کے شب خانوں میں
نیم واقف عورتوں کی کمریں گھیرے
برہنہ ٹانگوں ، ادھ کھلے پستانوں پر چھا جانے کی خواہش میں
آدمی خود کو زخمی کر لیتا ہے
آدمی سوچتا ہے
زخم اِنسان کا زیور ہے
یہ تو ایک مکَر ہے
مکَر عورت کا چور دروازہ ہے
اور مرد کے ماتھے کا محراب
منکوحہ عورتیں منافق نکلیں
تو رات نے سوچا
جس کا مرد زیادہ گھائل ہو
اس کی عورت زیادہ گہری ہوتی ہے
لندن لڑکیوں سے بھرا پڑا ہے
لیکن دل کا دالان خالی ہے
مے نوشی کی رات کے بعد
راہ پڑے بنچ پر آنکھیں کھولو
کمرے میں جوتوں سمیت جاگو
یا اجنبی بستر کی رانوں سے طلوع ہو
آدمی تنہائی کو طلاق نہیں دے سکتا
رات کے تین بجے ہوں
یا تیس برس کی زوجیت ہو
خواب ہو یا بستر
عورت اپنا مرد خود چنتی ہے
عمر علی!
لندن ہو یا لائل پور
دنیا ایک سی ہے
منشی محلے کے چکلے کی عورت بھی شاطر نکلی
اُس نے رمضان کے سارے روزے رکھے
اور تیس راتیں کمائیں
ہم بستری کے بعد وہ نماز پڑھنے چلی گئی
میں غسل کیے بغیر نظم لکھنے لگا
Image: Jean-Michel Basquiat
Leave a Reply