چاچا ایلس کدوری (کرم خان مرحوم کی ہسٹری)
کرم خان کا ورثہ مختلف راستوں سے آگے منتقل ہو گیا تھا مگر پھر بھی یہیں کا یہیں پڑا رہ گیا
جاوید بسام کے دو افسانے (جاوید بسام)
پرچھائی
وہ بیٹھے بیٹھے چونک اٹھتا اور ہمہ تن گوش ہو جاتا۔ کئی دنوں سے وہ مختلف آہٹیں سن رہا تھا۔ کبھی چلنے کی سرسراہٹ سنائی دیتی کبھی کرسی گھسیٹنے کی...
غیر مطبوعہ ناولٹ: اندھیرا، موت اورمسیح سپرا (مشرف عالم ذوقی)
سفید چادروں کے درمیان والی عورت اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔ مسیح سپرا نے آنکھیں بند کرلیں۔
نروان (نیر مصطفیٰ)
نروان کی تلاش میں نگری نگری پھرنے والے سیلانی نے اپنے سنگِ مر مر سے بنے سفید محل کی چوکھٹ پر کھڑے ہو کر یہ سارا منظر دیکھا اور نروان کی حقیقت جان گیا۔
بوئے خوں (رفاقت حیات)
بھولے کو چارپائی پر لٹا نے کے بعد اس نے پہلے صندوق اور پھر الماری کو چھان مارا بڑی مشکل سے پاؤڈر کا ڈبہ اور عطر کی شیشی ہاتھ آئی اس نے مردہ جسم پر دونوں چیزیں خالی کر دیں۔
جمال زیست (منزہ احتشام)
جب وہ مرا تو بارہ سال کا تھا۔
اب اسے مرے ہوئے بیس سال بیت چلے تھے۔ اصولاً تو اسے ابھی بھی خاندان کی یاداشتوں اور تصویری البم میں بارہ سال کا ہی ہون...
پیل دوج کی ٹھیکری (رفاقت حیات)
کتنے دنوں سے وہ روز خوابوں میں آجاتی ہے۔ رات کو نیند میں دن کو آرام کر تے ہوئے یا دوپہر کو قیلولے کے وقت۔ حتیٰ کہ جاگتے ہو ئے بھی ایسا لگتا ہے کہ می...
بچھڑی کونج (رفاقت حیات)
معمول کے کام نمٹاکر وہ سستانے بیٹھی تو سوچ رہی تھی ’’کھا نا پودینے کی چٹنی سے کھالوں گی، بیٹے کے لیے انڈا بنا نا پڑے گا۔ پرسوں والا گوشت رکھا ہے۔ آلو...
ایک پرانی تصویر کی نئی کہانی (ناصر عباس نیر)
تصویر کے آدھے حصے کے غائب ہوجانے کا انکشاف اس زلزلے سے بڑھ کر تھا جو پندرہ سال پہلے آیا تھا اورجس کے نتیجے میں آدھی سے زیادہ آبادی پہلے چھتوں اور...
ٹِک ٹِک ٹِک (محمد جمیل اختر)
ٹِک، ٹِک، ٹِک
’’ایک تو اس وال کلاک کو آرام نہیں آتا، سردیوں میں تو اس کی آواز لاوڈ سپیکر بن جاتی ہے‘‘
ٹِک ٹِک ٹِک
یہ آواز اور یہ احساس واقعی بہت ت...
مہر منگ کی کہانی
زاہد حسن: سورج غروب ہوتے ہی دیوان سنگھ ٹھیکے دار کے گھر مہر منگ بڑی شان کے ساتھ آیا۔ باہر کے دروازے پر ٹھہر کے اونچی آواز سے کلام پڑھا۔ سارا خاندان، سب کچھ چھوڑ چھاڑ کلام سننے لگا۔
وَاپسی
محمد حمید شاہد: اور اُس نے وہ خط جو کئی دِن سے اُس کے ٹیبل پر بند پڑا تھا ‘اِن دو دِنوں میں کئی بار پڑھ ڈالا تھا۔ اور جب وہ اَڑھائی بجے والی بس سے ایک طویل عرصے بعد اپنے گاﺅں ویک اینڈ گزارنے جا رہا تھا تو سب تعجب کا اِظہار کررہے تھے۔
پیالہ پاؤں
تصنیف حیدر: جاسوس خود اس قصے کو پوری طرح سمجھ نہیں پارہا تھا، مگر اس نے بیوی کو یہ کہہ کر خاموش کردیا کہ ہمیں تو اس کام کو کرکے بقیہ سات ہزار روپے لینے ہیں، ہمارا اس بوڑھے کی رنگین دلچسپیوں سے کیا لینا دینا۔