Laaltain

جاوید بسام کے دو افسانے (جاوید بسام)

7 اگست، 2020

[divider]پرچھائی[/divider]

وہ بیٹھے بیٹھے چونک اٹھتا اور ہمہ تن گوش ہو جاتا۔ کئی دنوں سے وہ مختلف آہٹیں سن رہا تھا۔ کبھی چلنے کی سرسراہٹ سنائی دیتی کبھی کرسی گھسیٹنے کی آواز آتی اور کبھی کوئی کسی کو پکارتا۔ وہ وہاں اکیلا رہتا تھا۔ بال بچے دوسرے شہر میں تھے۔ بیوی اپنی بیمار ماں کی تیمارداری میں مصروف تھی۔ ان کی یاد ہوا کے جھونکے کی طرح چلی آتی اور وہ اداسیوں میں گھر جاتا۔ دفترسے آنے کے بعد رات گئے تک فارغ ہوتا۔ اجنبی شہر میں اس کا کوئی دوست نہ تھا۔ لہذا مطالعہ کی پرانی عادت عود آئی تھی۔ وہ کتابیں خرید لاتا اور ٹانگیں میز پر ٹکائے گھنٹوں مطالعے میں غرق رہتا۔ گھر پر زیادہ تر خاموشی چھائی رہتی تھی۔ پھر وہ آہٹیں غیر محسوس طور پر اسے سنائی دینے لگی۔ پہلے پہل تو اس نے اسے اپنا وہم سمجھا۔ پھر دھیرے دھیرے یقین آنے لگا اور اب اس کا یقین اس جستجو میں لگا تھا کہ آواز کا منبع کہاں ہے۔

وہاں سب گھر ایک جیسے بنے تھے۔ پیچھے گھر میں لگے بادام کے درخت کی پھننگ اسے اپنی دہلیز سے نظر آتی تھی۔ دونوں گھروں کے درمیان دیوار ایک ہی تھی۔ اس میں کوئی روزن یا کھڑکی نہیں تھی، لیکن اسے لگتا تھا کہ آوازیں پیچھے گھر سے آتی ہیں۔ اب جیسے ہی آواز محسوس ہوتی۔ وہ اچھل کر کھڑا ہو جاتا اور درمیانی دیوار سے کان لگا دیتا۔ آخر اس کا انہماک رنگ لایا۔ اس کی سماعت بتدریج کچھ اور آوازوں کو سننے کے قابل ہوتی گئی۔ کبھی کسی مرد کے بولنے کی آواز آتی کبھی چوڑیوں کی کھنکھناہٹ سنائی دیتی اور کوئی بچہ مچلتا۔ یہ سب سننا اس کے معمولات میں شامل ہوگیا تھا۔ اگرچہ وہ مطالعہ کر رہا ہوتا لیکن کان آہٹوں کے منتظر ہوتے اور جوں ہی آواز آتی وہ کتاب میز پر الٹی دھردیتا۔ حتیٰ کہ مزید کی جستجو میں چھت سے لٹکے پنکھے کو بھی بند کر دیتا کہ اس کی چرخ چو آواز میں مزاحم ہوتی تھی۔ بالآخر وہ کامیابی حاصل کرتا۔ مرد کبھی غصے میں اول فول بکتا تو اسے سنائی دیتا۔ بچہ دوائی پیتے ہوئے روتا تو وہ اس سے بھی محسوس کرتا۔

وہ سوچتا، معلوم نہیں وہ کون لوگ ہیں۔ وہ کبھی پچھلی گلی میں نہیں گیا تھا۔ اس کا تجسس عروج پر پہنچ جاتا۔ وہ ان سے ملنا چاہتا تھا مگر خفت محسوس کرتا بھلا بلاجواز کوئی کسی سے کب ملتا ہے؟ پھر اس کی شام بجائے مطالعہ کے اس مشغلے میں صرف ہونے لگی۔ اس نے میز کرسی کا رخ پچھلی دیوار کی طرف کردیا۔ جب آہٹ سنائی دیتی تو وہ اپنی نگاہیں بنا پلکیں جھپکائے دیوار پر مرکوز کر دیتا۔ بہت سا وقت گزر جاتا۔ وہ ایسے ہی بے حس و حرکت بیٹھا رہتا۔ آخرکار ایک دن اسے دوسری طرف کا گھر نظر آنے لگا۔ وہ اسے اپنے گھر جیسا ہی لگا۔ دو کمرے، کشادہ صحن، ایک گوشے میں باورچی خانہ وغیرہ۔ دوسری طرف کیاریاں جس میں لگے بادام کے درخت کی پھننگ اسے اپنی دہلیز سے نظر آتی تھی۔ مکین بھی عام سے لوگ تھے۔ مرد غالباً کسی دفتر میں کام کرتا تھا۔ عورت اگرچہ زیادہ خوبصورت نہیں تھی، لیکن جوان تھی اور اپنے لباس کی تراش خراش کا خوب خیال رکھتی تھی۔ اور بچہ تو اسے بیٹے جیسا ہی لگا۔ وہ دیکھتا مرد اخبار پڑھ رہا ہے، عورت کھانا پکاررہی ہے اور بچہ کھلونوں سے کھیل رہا ہے۔ پھر وہ سب ایک ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتے۔ وہ یک ٹک دیوار پر نظریں جمائے یہ مناظر دیکھتا رہتا۔ وقت چیونٹی کی چال چلتا رہتا۔ دھوپ دیواروں پر سے غائب ہو جاتی۔ ایک کوا زور زور سے کائیں کائیں کرتا رہتا۔ اس کی کیاری میں گلاب کے پودے پر ہمیشہ ایک ہی پھول کھلتا۔ شام کے سائے گہرے ہوتے ہوتے رات کے اندھیرے میں ڈھل جاتے۔ وہ یونہی بیٹھا رہا تھا۔ اسے روشنی کرنا بھی یاد نہ رہتا۔ پھر کچھ دنوں سے وہ کاغذ اور پنسل لے کر خاکے بنانے لگا ۔ آڑی ترچھی لکیروں میں یکے بعد دیگرے عریاں نسوانی پیکر نمایاں ہو جاتے۔ بعد ازاں وہ انھیں ٹکڑے ٹکڑے کر کے کوڑے دان میں ڈال دیتا۔ اسے ان کی جیتی جاگتی فلم دیکھنے میں مزا آتا تھا۔ کبھی وہ دیکھتا مرد عورت ایک دوسرے میں گم ہیں۔ بچہ چولہے کی طرف بڑھ رہا ہے وہ چیخ کر انھیں آگاہ کرتا، پھر اچانک سب کچھ غائب ہوجاتا ہے اور سپاٹ دیوار جس کا چونا جگہ جگہ سے اکھڑ رہا تھا، سامنے رہ جاتی۔ وہ سر کو دونوں ہاتھوں میں دبائے گھنٹوں شکستہ بےحس و حرکت بیٹھا رہتا۔ اگرچہ اس مشق سے اس کی سوچوں اور ذہنی خلفشار میں اضافہ ہوگیا تھا، لیکن اس کی ہموار اور سپاٹ زندگی میں تھوڑی سی ہلچل بھی پیدا ہوگئی تھی۔

ایک دن اس کی بیوی کا تار آیا۔ وہ پریشان تھی۔ اس کی بوڑھی ماں بستر مرگ پر آخری سانسیں لے رہی تھی۔ اس کا اصرار تھا کہ چھٹی لے کر گھر آجائے۔ جس دن تار آیا۔ اس دن اسے کوئی آہٹ سنائی نہیں دی۔ اس نے سوچا وہ لوگ شاید کہیں گئے ہوئے ہیں۔ کوشش کرنے سے دس دن کی چھٹی مل گئی۔ جانے سے پہلے اس نے سوچا اپنے پڑوسیوں سے ملنا چاہیے۔ ہمت کرکے وہ لمبی گلی میں چلتا چلا گیا۔ موڑ مڑ کر دوسری گلی بھی اپنے گلی جیسی ہی لگی۔ بس فرق چند درختوں کا تھا جو زیادہ تھے۔ وہ چلتا ہوا اس گھر تک جاپہنچی جس میں لگے بادام کے درخت کی پھننگ اسے اپنی دہلیز سے نظر آتی تھی۔ لیکن دروازے پر لگے تالے کو دیکھ کر وہ سخت مایوس ہوا۔ وہ ٹھوڑی کھجاتے ہوئے الجھن آمیز انداز میں ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ کچھ آگے ایک گھر کا دروازہ کھلا اور ایک بڑے میاں نمودار ہوئے۔ اس نے سوچا ان سے معلوم کروں، لیکن پھر خیال آیا انہیں کسی ضروری کام سے جانا پڑ گیا ہوگا۔ دس دن کی تو بات ہے واپس آ کر ملاقات کرلوں گا، ممکن ہے بیوی بھی ساتھ ہو۔ وہ واپس پلٹ گیا۔ اس سے دروازے کی اڑی ہوئی رنگت، زنگ آلود تالے اور چوکھٹ کے آگے جمی ہوئی مٹی کو کوئی اہمیت نہیں دی تھی۔

[divider]راستہ بند ہے[/divider]

وہ گہری نیند میں ڈوبا تھا کہ اچانک بجلی چلی گئی ، فوراً ہی اس کی نیند ٹوٹ گئی، لیکن وہ آنکھیں بند کیے پڑا رہا ہے۔ گہری خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ اس کے کان آوازوں کی کھوج میں لگے تھے لیکن کوئی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ ایسا لگتا تو سڑک گاڑیوں سے خالی ہوگئی ہے، پھیری والوں کے منہ پر مہریں لگ گئی ہیں اور پڑوسیوں نے جھگڑوں سے توبہ کر لی ہے یا پھر آوازوں اور کانوں کے درمیان بھاری دیواریں حائل ہو گئی ہیں۔ ایسی بےکراں خاموشی اس نے پہلے کبھی محسوس نہیں کی تھی۔ اسے گزری شب یاد آئی جو کسی عذاب کی طرح اس پر مسلط رہی تھی۔ ساری رات نادیدہ ہاتھ اسے توڑتے مروڑتے رہے تھے۔ اب اس کی حالت اس نچوڑے ہوئے کپڑے جیسی ہو رہی تھی۔ جسے کوئی پھیلانا بھول گیا ہو۔ وہ انتظار کر رہا تھا کہ کوئی آواز سنائی دے تو اٹھے، لیکن سکوت کی دبیز چادر نے ہر آواز کو ڈھانپ لیا تھا۔ ” کیا میں قبر میں ہوں ؟ ” وہ بڑبڑایا۔ لیکن جب اس نے آنکھیں کھولیں تو خود کو انہی میلے در دیوار کے درمیان پایا جنہیں وہ مدتوں سے دیکھتا آرہا تھا۔ وہ اذیت سے مسکرایا اور اٹھ کر باتھ روم میں چلا گیا، لیکن نل میں پانی نہیں آرہا تھا۔ وہ برآمدے میں چلا آیا۔ نیچے سڑک سنسان پڑی تھی کوئی زی روح دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ اسے خیال آیا کہ کوئی سیاسی یا مذہبی جلوس گزرنے والا ہے۔

اس کے چہرے کے تاثرات بدلنے لگے اس نے مسرت سے ایک ہاتھ کمر پر رکھا پھر پیر اٹھاکر رقص کے انداز میں گھوما اور بڑبڑایا۔ ” آہاں۔۔۔۔ مزا آئے گا۔ ” وہ دوبارہ نیچے دیکھنے لگا۔ سیاہ سڑک سنسان پڑی تھی، حالانکہ کل تک وہ کسی چونچال ناگن کی طرح متحرک بل کھاتی نظر آتی تھی۔ اسے سڑک کے درمیان سفید لکیر اندھیری رات میں چمکتی اس روشن بدلی کی طرح لگ رہی تھی۔جس نے چاند کو چھپا لیا ہو اور جس کی مدد سے کارواں اپنی راہ ڈھونڈتے کی کوشش کرتے آئے تھے۔ اس نے اپنے اندر خوشی کا ایک بھپرا دریا بہتا محسوس کیا۔ اس کی آنکھیں چمکنے لگیں اور جسم کا رواں رواں متحرک ہو گیا، اسے یاد آیا کہ وہ مدت سے اس دن کا منتظر ہے۔ اس کی کئی نسلیں اس انتظار میں عدم سے وجود میں آنے سے پہلے ہی فنا ہو گئیں۔ وہ آرزؤں کی مضبوط بوتل میں سر پٹکتی رہیں، لیکن مسائل کی مضبوط ڈاٹ نے انہیں باہر نہ آنے دیا، لیکن آج موقع مل رہا تھا۔ وہ چاہتا تھاسڑک کے درمیان سفید لکیر پر سینہ تان کر چلے اور وہ بے شمار فرمودات جو وہ بچپن سے سنتا چلا آ رہا ہے، پھیپھڑوں کی پوری طاقت سے دوہرائے یعنی ” ملک اس وقت نازک دور سے گزر رہا ہے “۔ ” ہم ہر فیصلہ قوم کے وسیع تر مفاد میں کریں گے۔ ” اس کے مجہول اور ناتواں جسم میں حیرت انگیز پھرتی پیدا ہوگئی۔ آج بڑے دنوں بعد اس کی تمنا کی تکمیل کا لمحہ آپہنچا تھا۔ وہ اپنی کمزوری بھول کر تیزی سے سیڑھیوں کی طرف لپکا اور ایک ساتھ کئی سیڑھیاں اترتا چلا گیا ایسا لگتا تھا، جیسے پاتال میں اتر جائے گا۔ عمارت کے دروازے پر کچھ لوگوں کو کھڑا دیکھ کر وہ رک گیا۔ کیسے بے ہودہ لوگ ہیں راستہ روکے کھڑے ہیں۔

” ہٹو۔۔۔۔۔ ہٹو! ” وہ چیخا۔

وہ دونوں پلٹے تو اس نے دیکھا کہ وہ وردی پوش ہیں۔ ان کے ہاتھ میں بندوقیں بھی نظر آرہی تھی۔ انھوں نے غصے سے اسے گھورا اور ڈپٹ کر ہاتھ سر پر رکھنے کا حکم صادر کیا۔ وہ اسے مشکوک نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ پھر ایک وردی پوش آگے بڑھا اور اس کی تلاشی لینے لگا۔

” دیکھو! پیٹ پر ہاتھ نہ لگانا۔ ” وہ کراہا۔

دفعتاً اسے اپنی تکلیف یاد آگئی تھی۔ وردی پوش گھبرا کر پیچھے ہٹ گیا۔ پھر اسے قمیض اوپر کرنے کا حکم ملا۔ اس نے قمیض اوپر کی تو انہوں نے اطمینان کا سانس لیا۔

وہ بولا۔ ” جناب طبیعت ٹھیک نہیں ہے ڈاکٹر کے پاس جانا چاہتا ہوں۔ ”

” سڑک بند ہے۔ گھر میں رہو۔ ” وردی پوش بولا۔

” کیوں۔۔۔۔ سڑک کیوں بند ہے ؟ ” اس نے حیرت سے پوچھا۔

” صاحب گزرنے والے ہیں۔ ” وہ بولے۔

اس نے ڈرتے ڈرتے گردن نکال کر باہر جھانکا۔ جہاں تھوڑے تھوڑے فاصلے پر وردی پوش چوکس کھڑے تھے۔ اب اس کی سمجھ میں وجہ سکوت آئی۔ خالی سڑک دیکھ کر وہ پھر بے چین ہو گیا۔

” حضور! تھوڑی دیر کے لیے سڑک پر جانے دیں۔ جلد واپس آ جاؤں گا۔ ” وہ گھگھیایا۔

” بالکل نہیں۔۔۔۔ گھر جاؤ۔ ” انھوں نے زینے کی طرف اشارہ کیا۔

وہ اسے غصیلی نظروں سے گھور رہے تھے۔ وہ اوپر چلا گیا۔ کچھ دیر بعد وہ برابر والے فلیٹ کا دروازہ کھٹکھٹا رہا تھا۔

” شیخ صاحب! درد کی گولی مل جائے گی ؟ ”

” میاں یہاں کوئی میڈیکل اسٹور نہیں کھول رکھا۔” دروازہ جھٹ سے بند ہوگیا۔

وہ سر کھجاتے ہوئے سوچنے لگا۔ لوگ اتنے چڑچڑے کیوں ہو گئے ہیں۔ پہلے تو شیخ صاحب اس کی ذرا سی تکلیف پر تڑپ جاتے تھے۔ وہ پھر برآمدے میں چلا آیا، اچانک سیٹیاں بجنے لگیں اس نے نیچے جھانکا، غالبا صاحب کی سواری آپہنچی تھی، لیکن سڑک اسی طرح خالی تھی۔ وردی پوش اسے برآمدے سے ہٹنے کا اشارہ کر رہے تھے۔ اس کا دل چاہا نیچے کود جائے۔ یہ کیسا دن تھا ؟ کوئی سڑک پر نہیں آ سکتا تھا، کوئی اپنے برآمدے میں کھڑا نہیں ہو سکتا تھا۔ وہ کمرے میں چلا گیا، لیکن بے چینی چیونٹیوں کی طرح اس کے بدن پر برابر رینگ رہی تھی۔ وہ اسی تگ ودو میں تھا کہ عمارت سے کیسے باہر نکلا جائے۔ آخر اسے چھت کا خیال آیا۔ سب عمارتوں کی چھتیں ملی ہوئی تھیں۔ وہ مکاری سے مسکرایا۔ چھت پر قدم رکھتے ہی تیز ہوا نے اس کا استقبال کیا، لیکن چاروں کونوں پر وردی پوش بھی موجود تھے۔ انھوں نے نخوت سے اسے گھورا اور نیچے جانے کا اشارہ کیا۔ اس نے دوسری چھتوں پر نظر دوڑائی۔ وہ ہر چھت پر موجود تھے۔ آج کوئی اپنی چھت پر بھی نہیں آسکتا تھا۔ اس نے حسرت سے ان کبوتروں کو دیکھا جو منڈیروں پر آزادی سے اٹھکھیلیاں کررہے تھے اور واپس پلٹ گیا۔ وہ کرسی پر بیٹھا جھلاہٹ میں برابر سوچے جا رہا تھا۔ آخر اس کے ذہن میں کھٹ سے نیا خانہ کھلا۔ وہ پتلا گلیارہ جو بھنگی استعمال کرتے ہیں۔ وہ فورا نیچے آیا۔ وہ دونوں اسی طرح باہر کی طرف رخ کیے کھڑے تھے۔ وہ دبے پاؤں گلیارے میں ہولیا۔ جیسے ہی وہ راستے سے گزر کر سڑک پر پہنچا۔

دو مضبوط ہاتھوں نے اسے دبوچ لیا۔

“چھوڑو چھوڑو!۔۔۔۔۔ مجھے جانے دو۔ ” وہ چیخا۔

اس کی نظریں سڑک پر چمکتی لکیر پر جمی تھیں، لیکن کوشش کے باوجود خود کو ان سے نہ چھڑا سکا۔ اس کے بازو مضبوط گرفت میں تھے۔ اتنے میں کچھ اور وردی پوش اس کے قریب چلے آئے۔

” اوئے تو کون ہے ؟ ” کسی نے کرخت لہجے میں پوچھا۔

” میں بیمار ہوں۔ مجھے سڑک پر جانے دو۔ ” وہ تمسخر سے ہنسے۔

” سڑک تیرا علاج کرے گی ؟ ”

” ہاں آج کل سڑک پر آنے سے ہی کام بنتا ہے۔ ”

” آج تیرا سڑک پر کوئی کام نہیں، اس کی تلاشی لو۔ مجھے تو یہ خود کش بمبار لگتا ہے۔ ایک بولا۔

دوسرے نے آگے بڑھ کر قمیض اوپر کردی۔ وہاں دھنسے ہوئے استخوانی پیٹ کے علاوہ کچھ نہ تھا۔

” مجھے چھوڑ دو۔۔۔۔۔ مجھے جانے دو۔ ” وہ ہذیانی آواز میں چیخ رہا تھا۔

ایک آہنی ہاتھ نے اس کا گلا دبا کر آواز بن کر دی۔ پھر وہ اسے گھسیٹتے ہوئے گلیارے تک لے گئے اور اندر دھکیل دیا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *