وہ منگول تھا تو ہرگز نہیں مگر یہ دونوں لڑکے اسے منگول ہی کہتے تھے جس کی وجہ اُس کی شکل و صورت، قد قامت، ایک پر اسرار سی اجنبیت جو وہ بظاہر ہر کسی سے روا رکھتا تھا اور اس پہ طُرہ اس کی کھردری شخصیت تھی جس سے بہادری اور بے باکی ٹپکتی تھی۔ درمیانہ سا قد جو اس کی چوڑی چکلی چھاتی اور کشادہ پیشانی اور بڑے بڑے سخت ہاتھوں کی وجہ سے چھوٹا ہی لگتا تھا، چھوٹی چھوٹی افغان ترکمانوں جیسی آنکھیں جن میں ایک بیزار سی مگر بے پناہ اور خطرناک ذہانت جھلکتی تھی، سفیدی مائل زرد رنگت، سیاہ گھنگھریالے بال، مونچھیں جو نتھنوں کے نیچے تو پیدا نہ تھیں تھیں البتہ ہونٹوں کے کونوں تک پہنچ کر اتنی گھنی ہو جاتی تھیں کہ وہ انہیں تاؤ بھی دے لیتا تھا, جس کے بعد ہو واقعی منگول لگتا تھا۔ ڈاڑھی مونڈتا تھا اور سر کے بال بھی بہت ہی چھوٹے رکھتا تھا جس وجہ سے کوئی وثوق سے نہیں کہہ سکتا تھا کہ وہ گھنگھریالے ہی تھے۔
اشفاق اور بوبی اُسے دور دور سے ہی دیکھتے رہتے تھے کیونکہ انہیں اس سے ذیادہ اسے جاننے میں دلچسپی تھی ہی نہیں کہ وہ منگول لگتا تھا، بالیقین وہ منگول نہیں تھا اور وہ دونوں اسے منگول کہتے تھے۔
اسے مزید نہ جاننے کی خواہش کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ سینئر تھا۔ اُس کی وردی پہ نان کمیشنڈ افسر کی امتیازی دھجی ہی انہیں اس سے آدھے فرسنگ کی دوری پہ رکھتی تھی کیونکہ اشفاق اور بوبی پلٹن میں نئے آئے تھے، جیونئیر سپاہی تھے اور نہایت شوخ و شنگ بلکہ فوجی معیارات کے مطابق کسی حد تک بدتمیز لونڈے تھے۔ منگول کی ظاہری متانت کا مطلب یہ تھا کہ وہ ان دونوں کی شوخ صحبتوں کو پسند نہ کرے گا۔ وہ دونوں اگرچہ ہر طرح کی بدتمیزیوں کے شائق تھے مگر کتاب بینی کے شوق نے انہیں دوست بنایا تھا اور وہ چھاؤنی کی لائبریری میں ہی پہلی دفعہ ملے تھے۔ اشفاق کا مطالعاتی ذوق قدرے عامیانہ تھا اور بوبی کا نہایت عجیب۔۔۔
زیادہ وقت نہ گزرا تھا کہ انہوں نے منگول کو ایک نوجوان میجر کے ساتھ بڑی رواں اور درست انگریزی میں جس میں کہیں کہیں اردو بھی ملی تھی، تیز تیز گفتگو کرتے دیکھا، بلکہ سُنا تو اس کے لب و لہجے سے یہ تو پتہ چل گیا کہ وہ پٹھان تھا۔ وہ نہایت سنجیدگی سے کچھ کہے جا رہا تھا اور میجر صاحب سر جھکائے ہنسے جا رہے تھے، شاید منگول کی بات سے لفظ اندوز ہو رہے تھے۔
بعد میں پتہ چلا کہ واقعہ ہی بڑا گھمبیر تھا جس پر منگول بڑی دلچسپ گفتگو کر رہا تھا۔
اس مستقر میں کچھ ایسا ماحول تھا کہ زمینی، بحری اور فضائی فوج کے دستے ساتھ ساتھ ہی ہوا کرتے تھے۔ یہاں ہر قماش کے سپاہی لوگ پائے جاتے تھے، پیشہ ورانہ قابلیت کے سخت کوش محنتی سپاہی، فقط وقت گزاری میں پڑے رہنے والے سست اور کاہل جنہیں سرکار نے غیر اہم کاموں پر مامور کیا ہوا تھا، ہر وقت ریٹائرمنٹ کے منصوبوں پر بحث کرنے والے، بہت ذہین اور دنیادار بھی اور موٹے دماغوں والے نیم مذہبی بھی، کتابیں پڑھنے، شعر کہنے والے بھی اور چھاؤنی اور شہر بھر کی عورتوں اور خوبرو لڑکوں کا تعاقب کرنے والے بھی، وہ بھی جن پر سپاہ کو ناز تھا اور وہ بھی جو اپنی اپنی پلٹن کے لیے باعثِ شرم تھے۔ منگول ان کے ساتھ پریڈ پر اکٹھا ہوتا تھا یا کھانے پر۔ وہ بحری فوج کا غوطہ خور تھا اور حال ہی میں سپاہی سے این سی او بنا تھا۔ ان دنوں فضائیہ والوں کا ایک لڑاکا طیارہ کسی دریا میں گرا تھا اور وہ اسے نکالنے والی ٹیم میں شامل تھا۔ وہ بحری فوج کے میجر صاحب کے ساتھ دلچسپ بحث اسی موضوع پر ہو رہی تھی۔ خیر اس کے انگریزی بولنے نے پہلی دفعہ انہیں اس سے متاثر ہونے کی ٹھوس وجہ فراہم کی، پھر کسی نے انہیں بتایا کہ وہ ہسٹری کے مضمون میں گریجویٹ ہے تو انہیں امید بندھی کہ کتب بینی کا شائق بھی ہو گا اور اسی رشتے سے ان دونوں کو اس کے حلقہء احباب میں جگہ ملے گی۔ فوج تھی اور کچھ ایسا بھی نہیں تھا کہ اس حوالے سے کوئی موقع بھی جلد میسر آ جاتا۔ ان کی پلٹن کے کرنے کے بیسیوں کام تھے سو وہ مصروف رکھے جاتے تھے۔ دن بھر تربیتی قواعد میں جان توڑنا، کبھی کسی فوجی کی میت کو اعزاز کے ساتھ تدفین دینے کی پریڈ، کبھی کسی کمانڈر کے معائنے کے لئے چھاؤنی کے درودیوار کو تیار کرنا، کبھی کسی سرکاری مہمان، سیاستدان کو اعزازی گارد پیش کرنا، کبھی چھاؤنی کے طول و عرض میں اُگتی بے پناہ گھاس میں چھپے دشمن یعنی مچھروں کے مسکنوں کا قلع قمع کرنا اور کبھی کبھی سچ مچ کے دشمنوں، حملہ آوروں کے ممکنہ حملے کے مقابل اقدام کرنا، ٹھیکری پہرے دینا اور تلاش (سرچ) کے آپریشن کرنا کیونکہ اب وہ بدصورت صدی آغاز ہو چکی تھی کہ سپاہی جنگ لڑنے کے لیے میدان جنگ میں نہیں جاتے تھے بلکہ ایک بیہودہ سی موت اور بالکل غیر سپاہیانہ سی موت اُنہیں اچانک چھاونی کے صدر دروازے پر، میس ہال میں، فوجی لاری کی سیٹ پر یا راہ چلتے کسی بازار کی بھیڑ میں آ دبوچتی تھی اور یہ اتنی بدصورت جنگ تھی کہ اس پر کوئی ناول لکھنا چاہے گا نہ کوئی فلم بنانا پسند کرے گا۔
ان حالات میں منگول کا کردار ایک دلچسپ فلم یا ناول کے پلاٹ کی طرح ان دونوں کے سامنے آہستہ آہستہ ابھر رہا تھا۔ وہ کتاب بینی کا شائق تو تھا مگر کسی تفریح اور وقت گزاری کرتے، موسیقی سنتے یا فلم دیکھتے ہوئے کبھی نظر نہ آتا۔۔۔ بس نظر ہی آتا۔
ایک جمعے کی شام اشفاق اور بوبی آپس میں خرافات بکتے، ہنسی مخول کرتے اور قہقہے اڑاتے تفریح کے ہال میں داخل ہوئے جہاں سپاہی عموماً اپنے فارغ وقت میں بیٹھ کر فلمیں دیکھتے یا اخبارات پڑھتے اور سگریٹ پھونکتے تھے۔ اس وقت ہال کی طرف سے کسی شور غلغلے کی آواز نہ سُن کر انہوں نے فرض کر لیا کہ ہال خالی ہی ہے سو ان کے قدموں میں ایک لاپروائی اور آوازوں میں ایک اعتماد اور آزادہ روی تھی۔ ہال میں داخلہ اور ایک دھماکے دار قہقہہ بیک وقت واقع ہوئے تو ہال میں بیٹھا واحد شخص چونکا۔ یہ منگول تھا جو کہ صوفے پر نیم دراز آنکھیں موندے بڑے انہماک سے سگریٹ پئے جا رہا تھا، وہ پورے قبائلی لباس میں ہمیشہ سے زیادہ کرخت نظر آ رہا تھا۔
سیاہ قبائلی لباس میں اس کی زرد رنگت اور بھی نمایاں ہو رہی تھی، اور اس پہ اس کی مونچھوں کی سیاہی یوں لگ رہی تھی جیسے اس کے ہونٹوں کے گرد دو سیاہ امریکن بریکٹ ذرا ترچھے لکھ دیے گئے ہوں۔ اُس نےناگواری سے ان دونوں پر نگاہ ڈالی، دونوں لڑکے فوراً شرمندگی کی اداکاری کرتے ہوئے سیدھے کھڑے ہو گئے اور چہرے پر سپاٹ سپاہیانہ تاثرات، جو کہ کوئی تاثرات نہیں ہوتے، لے آنے کی کوشش کرنے لگے۔ وہ دونوں وردی میں تھے سو انہوں نے ایڑیاں جوڑ لیں۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتے، منگول نے گرج کر انگریزی میں کچھ کہا جو انہیں ہرگز سمجھ نہ آیا، وہ احمقوں کی طرح ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے تو منگول نے ایک فلک شگاف قہقہہ لگایا جیسا کہ فلموں میں جناتی کردار لگایا کرتے ہیں۔ وہ مزید چونک گئے۔ وہ فوراً اپنے قہقہے کو ایک مسکراہٹ تک سمیٹتے ہوئے گویا ہوا۔۔۔
“میری بات نہیں سمجھے تم؟”
“نو سر، سوری سر” ان کا جواب بالکل میکانکی انداز میں مگر ایک احمقانہ دیانت داری کے ساتھ تھا۔
“گدھے ہو!! تم دونوں! کیا بچپن میں کارٹون فلم نہیں دیکھے؟ یہ میرے پسندیدہ کارٹون فلم کا ڈائیلاگ تھا۔ ایک جن نے اپنے باغ میں داخل ہونے والے دو معصوم بچوں سے کہا تھا”
یہ کہہ کر منگول نے پھر اسی جناتی انگریزی میں وہ ڈائیلاگ دہرایا جو انہیں سمجھ نہ آیا مگر منگول نے کم بلند آواز میں طویل دورانیے کا ایک قہقہہ لگایا تو یہ دونوں” آسان باش” ہو کر ایک دوسرے کو مسکرا کر دیکھنے لگے۔
منگول انہیں دلچسپ کردار لگ رہا تھا۔ اُس نے دونوں نوواردوں کو قریب کے صوفے پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ وہ بیٹھ گئے۔ منگول نے باری باری ان دونوں کی طرف سگریٹ کی ڈبیا بڑھائی، دونوں نے ادب سے معذرت کر لی۔ انہیں ابھی تک یہ عادت نہیں پڑی تھی۔
“اَیز یُو لائک اٹ” منگول نے ایک سگریٹ نکالا اور سلگائے بغیر انگلیوں میں اڑس لیا۔ اس نے ان کی وردیوں پر لگی نام کی تختیوں کو پڑھنے کے لئے خود کو آگے جھکایا اور نام پڑھے۔
“اشفاق۔۔۔ خالد۔۔۔ نہایت غیر دلچسپ نام۔۔۔ دونوں کے۔۔۔۔ آئی ڈِس لائیک۔۔۔ رادر۔۔۔ آئی ہیٹ اریبک نیمز” ان کے نام پڑھ کر وہ مصنوعی مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے بولا تو وہ دونوں ہنس دیے۔ بوبی ائر فورس سے آیا تھا اور اشفاق سے قد میں لمبا، خوبرو اور زیادہ شوخ چنچل سا تھا اور خطہ پوٹھوہار کی مردانہ وجاہت کے ساتھ ساتھ ذہانت اس کی شخصیت پہ عیاں تھی۔ اس نے اس مردانہ وجاہت کے بل پر کئی نوخیز حسیناؤں کے دل جیت رکھے تھے۔ حُسن پرست اور رومانوی طبیعت بلا کی پائی تھی۔ اشفاق اس کے بر عکس۔ قد، قامت، شکل، صورت نے ناصرف اسے ان نعمتوں سے دور رکھا تھا بلکہ اس کی اماں جان اور بڑی بہن نے بچپن سے ہی اسے عورت ذات سے بیزار کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ خیر، بوبی پر کشش تھا۔ منگول نے سگریٹ سے اس کی طرف اشارہ کیا۔
“تمہیں میں ایلسیبائیڈیز کہا کروں گا!” دونوں نے حیرت سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور پھر سوالیہ نگاہیں منگول کی طرف پھیر لیں۔ منگول پھر قہقہہ لگا کر ہنسا گویا انہیں اس طرح ششدر کرنے میں اسے لُطف آ رہا تھا۔
“سقراط کے فوجی دوست کا نام۔۔۔ خوبصورت جوان تھا وہ۔۔۔ ” منگول نے مسکراتے ہوئے نوعمر سپاہیوں کی آنکھوں میں اٹکے سوال کا جواب دیا تو بوبی شوخی سے مسکرایا۔
“یعنی مجھے آپ سقراط کہیں گے؟” اشفاق نے چہکتے ہوئے کہا۔
“تمہیں سقراط کہا تو خود زہر کا پیالہ پی لوں گا!”
منگول نے مصنوعی ناگواری سے اس کی طرف دیکھ کر کہا تو اس پر وہ تینوں ہنس پڑے۔
“تمہیں میں کسی بھی نام سے پکار لوں گا۔۔۔ موقعے کی مناسبت سے”
اشفاق کی طرف رُخ کیے بغیر سگریٹ سلگاتے ہوئے منگول نے کہا۔
“ویسے سر ہم اسے فوکر کہا کرتے ہیں” بوبی نے لقمہ دیا لیکن اس نے اشفاق کی حماقت کا وہ قصہ نہیں سنایا جس کی وجہ سے اس کا نام فوکر پڑا تھا۔
“کتنی تعلیم ہے تم دونوں کی؟” منگول نے انگلی گھمائی۔”سر بی اے” “سر ایف ایس سی” بوبی اور اشفاق نے بالترتیب اپنی اپنی تعلیمی قابلیت بتائی۔ منگول نے بوبی کی طرف تحسین آمیز نظر سے دیکھا اور مسکرایا۔
“تنخواہ سے بچت فنڈ میں کتنا چھوڑ رہے ہو؟”
“سر بیس فیصد” بوبی نے فوراً کہا مگر اشفاق چپ رہا۔
“یعنی تعلیم بھی کم ہے اور دنیاداری میں بھی احمق ہو!” منگول نے اشفاق کی طرف دیکھ کر نرم سی سرزنش کرتے ہوئے کہا۔ “یس سر” کے سوا وہ کیا جواب دے سکتا تھا۔
“فوجیوں کے بچے ہو؟” اس سوال پر دونوں نے ہم آواز ہو کر “یس سر” اور منگول کی بھنووں کی حرکت سے ہی بھانپ گئے کہ اب وہ پوچھے گا کہ ان کے باپ کس کس صیغے سے تھے۔ بوبی بولا “پلٹن”۔۔۔ “ائر فورس” اشفاق نے آہستہ سے کہا تو منگول نے قہقہہ لگایا۔
“پلٹن والے کا بیٹا ائر فورس میں اور ائر فورس والے کا بیٹا پلٹن میں!” اشفاق بھانپ گیا کہ اب پھر کوئی شگوفہ چھوڑے گا۔
“برخوردار، جیسا کہ پہلی نظر میں لگے، ہر لحاظ سے گاؤدی ثابت ہو رہے ہو!”
منگول نے ہنستے ہوئے کہا تو اشفاق کھسیانا سا ہو گیا۔
“بُرا مت ماننا، لوگوں کا مذاق اڑانا، ہنسی مذاق کے پیرائے میں ان کی توہین کرنا بھی ایک فن ہے جو تمہیں بھی سیکھنا چاہیئے، میں بھی اس عمر میں آ کر یہ شاندار صلاحیت خود میں پیدا کر رہا ہوں۔۔۔”
منگول نے مربیانہ انداز میں کہا۔
“اگرچہ میں اس کا قائل نہیں۔ آج تک مروت کو بڑی چیز سمجھتا رہا ہوں” منگول نے پھر ایک قہقہہ لگایا۔
“سر میرا دوست بوبی پہلے ہی اس فن میں طاق ہے!” اشفاق نے بوبی کو آنکھ مارتے ہوئے کہا تو وہ دونوں بھی منگول کے قہقہے کے آخری ‘مصرعے’ میں شامل ہو گئے۔
“ٹھیک ہے لڑکو۔۔۔ تم سے تعارف اچھا لگا۔ آئی ایم شیرانی۔۔۔ تم لوگوں سے ملاقاتیں رہیں گی” یہ کہہ کر منگول نے ایک طرف کے میز پر پڑا ایک کارل والتھر پستول، ایک سرخ چمڑے کی جلد والی ڈائری اور سگریٹ کی ڈبیا اٹھائی اور جانے کے لیے اٹھ کھڑا ہوا۔ لڑکے بھی اٹھ کھڑے ہوئے اور محفل برخاست ہوئی۔
” ایلسیبائیڈیز!” چند قدم چل کر منگول نے بوبی کو پکارا تو وہ دونوں اُٹھ کر دروازے میں آ گئے۔
“تمہاری شخصیت میں ایک رعنائی ہے جو مجھے اچھی لگی ہے مگر تم خطرناک ہو۔۔۔ یہ رعنائی خطرناک ہے!” وہ دونوں منہ کھولے رہ گئے اور منگول چلا گیا۔
منگول سے اس کے بعد کئی دن تک ان کا آمنا سامنا بھی نہ ہوا مگر اشفاق اور بوبی ہمہ وقت، سنتری ڈیوٹی کے دوران، میس میں کھانا کھاتے ہوئے، کینٹین پہ چائے پیتے ہوئے، ہر آن منگول کے بارے میں باتیں کرتے رہتے کہ وہ کتنا عجیب کردار ہے۔ اور یہ موضوع گفتگو ملنا اس وجہ سے اچھا ثابت ہوا کہ بوبی اب گفتگو میں خدا اور مذہب کے بارے میں جو متشککوں والی گفتگو چھیڑتا تھا، اشفاق کو بُری لگنے لگی تھی اور قریب تھا کہ وہ اس سے کنارا کر لیتا لیکن وہ منگول کو موضوع بنا کر گھنٹوں باتیں کیا کرتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک دن سنتری ڈیوٹی کے دوران وہ دونوں منگول کے بارے میں گفتگو کر رہے تھے کہ خدا جانے وہ کوئی جاسوس ہے یا پھر کوئی جن، وہ کوئی حقیقی کردار ہے یا ان دونوں کو ‘ہالوسینیشنز’ ہو رہی ہیں۔ انہیں حیرت تھی کہ ہماری فوج میں اس طرح کے سپاہی این سی او تو کیا افسر بھی کم ہی ملتے ہیں۔ یہاں تو ہر شخص سیدھا سا کھلی کتاب کی طرح اور فقط ضرورت کے مطابق پڑھا لکھا تھا، بلکہ سپاہیوں میں تو بنیادی قابلیتوں کا بھی فقدان پایا جاتا ہے۔
“تو کیا وہ جاسوس ہے؟”
“ذرا ادھر دیکھنا، منگول!” بوبی نے اسے کہنی مارتے ہوئے متوجہ کیا تو منگول سامنے سے آتا دکھائی دیا۔ اشفاق ایم ٹی یارڈ کے سنتری پہرے پر تھا اور بوبی فقط اس سے گپ لگانے کو اپنے کیمپ سے آیا تھا اور باوردی تھا۔ منگول فوجی گاڑیوں اور ٹرکوں کی لمبی قطار کے اُس سرے کے پاس سے ایک سیاہ ہیولے کی طرح نمودار ہوا۔ اُس نے بحری فوج والی سیاہ ڈانگری اور سر پر سیاہ بیری ٹوپی پہن رکھی تھی جبکہ پاؤں میں لمبے فوجی بوٹ جن کی وجہ سے وہ غوطہ خور کم اور ٹینک ڈرائیور زیادہ لگ رہا تھا۔ انہیں لگا اُس کے ہاتھ میں کوئی چیز ہے جس سے وہ کھیلتا چلا آ رہا ہے۔ قریب پہنچا تو انہوں نے تاڑا کہ ایک پستول تھا، مگر یہ وہ کارل والتھر نہیں تھا جو پہلے روز اس کے ہاتھ میں دیکھا گیا تھا بلکہ یہ ایک ریوالور تھا جو بالیقین پلٹن کی کوت کا تو ہرگز نہ تھا۔ “خدایا اس شیطان کے پاس یہ مردود ہتھیار کہاں سے آیا!” بوبی نے زیر لب بڑبڑاتے ہوئے کہا تو اسی اثنا میں منگول ان سے دس قدم کے فاصلے پر آ کر رک گیا۔ “السلام علیکم سر” دونوں نے ایڑیاں جوڑ کر زبانی سلام کیا۔ منگول نے کوئی جواب نہ دیا بلکہ ایک ایسے زاویے سے ریوالور میں گولی بھرنے لگا کہ دونوں واضح طور پر ریوالور دیکھ رہے تھے۔ اس نے ریوالور میں ایک ہی گولی بھری اور چرخی کو زور سے گھمایا، چرخی ایک موٹر کی سی تیزی سے گھوم رہی تھی کہ منگول نے کھٹاک سے ریوالور بند کر دیا اور بوبی پر تان لیا۔ وہ دونوں ہکا بکا رہ گئے۔
“تم تقدیر پر یقین رکھتے ہو؟” منگول نے بلند آواز میں سوال کیا تو بوبی نے بھی بلند آواز میں کہا “نہیں؟” وہ پڑھا لکھا اور سائنسی مزاج کا آدمی تھا اور اپنے جدید نظریات کا بے دھڑک اظہار کرتا تھا۔ اشفاق اس سے قدرے متاثر ضرور تھا سو کسی حد تک اس کا ہم خیال بھی تھا۔”اسی لیے سر آپ سے گزارش ہے کہ پنگا نہ لیں اور پستول نیچے کریں، پلیز!” بوبی نے کانپتی ہوئی مگر بلند آواز میں کہا مگر اشفاق کے تو پاؤں لڑکھڑانے اور ٹھنڈے پسینے آنے لگے۔ “ہاہاہا۔۔۔ میں تقدیر پہ یقین رکھتا ہوں۔۔۔ تم جدت کے اغلام زدہ شہری لونڈے نہیں سمجھو گے! سنو میں ٹرِگر دبانے لگا ہوں اور تمہیں بتانے لگا ہوں کہ تم پر گولی نہیں چلے گی!” منگول نے تیزی سے کہا اور اس سے پہلے کہ بوبی ہلتا بھی، منگول نے ٹرگر دبایا اور ریوالور کے ہیمر کی ننھی سی ٹِک کی آواز ان دونوں کی سماعتوں پر بم کے گولے کی طرح آن لگی۔ ظاہر ہے کہ گولی نہیں چلی تھی اشفاق کے تو ہاتھ پاؤں ٹھنڈے پڑ گئے۔ بوبی ساکت کھڑا رہا۔ اشفاق کافی دیر سے پیشاب روکے کھڑا تھا اسے اس کی فکر لاحق ہونے لگی۔
“اور تُم!” منگول نے پستول اشفاق پر تانا تو اس کے دانتوں میں بھی بجلی کی لہر دوڑ گئی۔
“بچنا! میں گولی چلانے لگا ہوں فوکر!” یہ کہہ کر منگول نے اشفاق کی پیشانی کا نشانہ لے کر ٹرگر دبا دیا!
ایک زوردار دھماکے سے اس کی ٹوپی پر لگا ہوا پنجاب رجمنٹ کا پلُوم ایک ایسی بدنصیب مرغابی کی طرح، جسے حالتِ پرواز میں ہی شکاری کی بندوق نے آ لیا ہو، کئی پروں کی صورت ہوا میں بکھر گیا اور ٹوپی اُڑ کر دور جا گری۔ نجانے کس طرح مگر اسی وقت اشفاق کو محسوس ہوا کہ اسی لمحے اس کی خاکی پتلون گرم گرم مائع سے بھیگ گئی۔ یہ پیشاب روکے رکھنے کی کوشش ناکام ہونے کا بڑا غلط لمحہ تھا۔ منگول نے اشفاق کی بزدلی کی داد کے طور پر ایک فلک شگاف قہقہہ لگایا جو کسی توپ کے دنادن چلنے کی طرح اشفاق کے سر پر برسا۔ وہ بھاگا بیت الخلاء کی طرف۔ اسے بیت الخلاء میں بھی منگول کے قہقہے سنائی دے رہے تھے البتہ بوبی کی آواز میں ایک بلند بانگ ماں کی گالی سنائی دی جو نجانے فوکر کے حق میں تھی یا منگول کے لیے۔ اشفاق نے شاور کھولا اور وردی سمیت نہا کر خود کو مکمل بھگو لیا۔ جب وہ باہر نکلا تو ملٹری پولیس کے لوگ، ایجوٹنٹ، بحری فوج کا ایک سردار صاحب اور فضائی فوج کے دو اہلکار وہاں موجود پائے جو کہ منگول کو حراست میں لیے ہوئے تھے۔ بوبی کو اُس سے دور کھڑا کر دیا گیا اور اشفاق کو بھی جاتے ہی ہاتھوں ہاتھ لیا گیا اور پھر سوال جواب کا ایک سلسلہ شروع ہوا۔ بورڈ آف انکوائری کے سامنے پیش ہونے سے پہلے بوبی نے اشفاق سے کہا کہ سب کچھ سچ بتانے کے ساتھ ساتھ یہ ضرور کہنا کہ منگول ہمارا دوست ہے اور ہم اس طرح کی خطرناک شرطیں بدتے رہتے ہیں۔ اشفاق نے اس کی بات مان لی۔ اس نے اپنے ابا جان سے بھی سن رکھا تھا کہ فضائی فوج والے ایسی صورت حال میں جُرم کی ذمہ داری آپس میں بانٹ لیتے ہیں تاکہ کوئی ایک فریق کڑی سزا کا نشانہ نہ بنے۔
بحری فوج والوں کا یہ قاعدہ ان دونوں کو عجیب لگا کہ اگلے ہی منگل کو پریڈ گراؤنڈ میں انٹر سروسز کے تمام لوگ فال اِن یعنی جمع کیے گئے۔
ان کے سامنے منگول ملٹری پولیس کے دو جوانوں کی تحویل میں اپنی پوری تقریباتی وردی میں ہوشیار کھڑا تھا، کمان افسر نے انگریزی میں اس کی فردِ جرم اور پھر سزا پڑھ کر سنائی تو بحری پولیس کے ایک پیٹی افسر نے آگے بڑھ کر بڑی درشتی سے منگول کے بازو پر لگی عہدے والی دھجی جس پر نیلے رنگ کا لنگر کڑھا ہوا تھا، اچک کر کھینچ لی۔ وہ پھر سے سپاہی بنا دیا گیا تھا۔ پھر ایک کاشن پر منگول وہاں سے مارچ کرتا ہوا چلا گیا۔ ان دونوں کے لئے دو باتیں حیران کرنے والی تھیں۔ ایک تو یہ کہ ان کے ہاں اس طرح کسی مجرم کو سرِعام رسوا نہیں کیا جاتا تھا، دوسری یہ کہ منگول کا نام انگریزی فرد جرم میں “ایم کے شیرانی تمغہ ء بسالت” پڑھ کر سنایا گیا تھا۔
“یعنی یہ شیطان صرف دلیر نہیں بلکہ دلیری کا تمغہ بھی لے چکا ہے” بوبی نے دانت پیستے ہوئے کہا۔ خیر دونوں لڑکوں کو ان کی یونٹوں سے شرطیں بدنے کے جرم پر سزا ملی مگر کم شدت کی۔ بوبی پر ایک ماہ تک کیمپ سے چھٹی اور بُک آؤٹ جانے پر پابندی لگی جبکہ اشفاق کو سات دن کوارٹر گارڈ کی قید۔ اس کی کوارٹر گارڈ کی قید ختم ہوئی تو وہ بوبی سے ملنے اس کے کیمپ گیا۔ منگول اسے کہیں نظر نہ آیا۔ سچ تو یہ ہے کہ وہ منگول سے ڈرا ہوا تھا۔ بوبی کا کہنا تھا کہ جب اس کی سزا ختم ہو گی تو وہ دونوں منگول سے ملنے جائیں گے لیکن اشفاق نہ مانا۔ وہ بھانپ گیا تھا کہ بوبی منگول سے بہت متاثر ہے۔ بوبی کی سزا ختم ہوئی تو وہ اشفاق سے ملنے آیا اور وہ دونوں منگول سے ملنے اس کے کیمپ چلے گئے۔ وہ مصروف تھا مگر انہیں تپاک سے ملا۔
“سندھی! مجھے اندازہ ہے کہ ایم ٹی یارڈ کی سنتری ڈیوٹی میں آدمی کو پیشاب بڑے زور سے آتا ہے، شرمسار نہ ہو!” منگول نے اشفاق سے گلے ملتے ہوئے کہا اور قہقہہ لگا کر ہنس دیا۔ اشفاق نے دل میں شکر ادا کیا کہ اس بات کا بوبی اور اشفاق کے سوا صرف شیرانی کو پتہ تھا اور کسی سے ذکر نہیں کیا گیا تھا۔ خیر وہ کھسیانا ہو کر ہنسنے لگا۔
” لڑکو! مجھے معاف کرنا، اُس دن میں نے ایک عجیب سی کتاب پڑھ لی تھی!” پھر بڑے گھمبیر انداز میں بولا تو وہ دونوں ہنس دیے۔
“تم دونوں لڑکے مجھے بہت پسند ہو اور میں جنہیں پسند کرتا ہوں، ان کے ساتھ ایسی حرکتیں کرتا ہوں کہ وہ مجھے بھلا نہ دیں!” یہ کہہ کر پھر ایک قہقہہ لگایا اور ان دونوں کے لئے چائے منگوائی۔ یہ مختصر سی ملاقات تھی۔ اشفاق کو وہاں سے اٹھنے کے بعد یاد آیا کہ منگول کو جو تمغہء بسالت ملا تھا، اس کی کہانی اس سے پوچھنے سے رہ گئی۔ چند دن بعد پتہ چلا کہ اُسے واپس سمندر میں بحری جہازوں پر بھیجا جا رہا ہے۔ ضابطے کے مطابق بڑی سزا کے بعد اس کا تبادلہ ضروری تھا۔ سو وہ جا رہا تھا۔ جب اس کی روانگی کا پتہ چلا تو اس وقت وہ اپنا سازوسامان بحری فوج کے بھدے سُرمئی ٹرک میں لاد کر چھاؤنی سے نکلنے والا تھا۔ وہ دونوں بھی پھاند کر اس پرانے برطانوی ساختہ ٹرک پر سوار ہو گئے۔
“بوبی! اگر نیپولین آرٹلری اسکول میں ہی کوئی توپ اُلٹی چل جانے سے مر جاتا، تو بھی اٹھارہ سو بیس تک فرانس اور یورپ کے وہی حالات ہوتے جو نیپولین کر کے مرا تھا۔۔۔ مانتے ہو؟” منگول بلند آواز میں بولا، خدا جانے بوبی نے کیا جواب دیا، اشفاق کو بات کی سمجھ ہی نہ آئی کہ وہ کہنا کیا چاہتا تھا۔” اوئے سندھی! تُو سمجھ گیا ناں؟” وہ اشفاق کی طرف رخ کر کے بلند آواز میں بولا۔ ٹرک چل چکا تھا اور اس کے انجن کا شور بہت تھا۔” یس سر!” اشفاق نے میکانکی انداز میں کہا۔
“آدمی بے بس ہے، وقت کا ریلا ایک پر اسرار چلن رکھتا ہے جس کا ہر قدم نپا تُلا ہوتا ہے، اس کا نام تقدیر رکھ لو یا کچھ۔۔۔ البتہ کچھ لوگ اس چلن سے وقت کا اگلا قدم بھانپ جاتے ہیں۔ یہ بھی ایک پر اسرار طاقت ہے جو ہر کسی کے پاس نہیں ہوتی۔۔۔ سمجھے؟” منگول کی بات اشفاق کو حرف بہ حرف یاد ہو گئی مگر وہ سمجھا نہیں۔ ٹرک اب پہاڑی سے اتر کر شہر کی شاہراہ پہ چڑھ رہا تھا جہاں چھاؤنی کا صدر دروازہ تھا۔ اشفاق کی وہاں سنتری ڈیوٹی تھی۔ اس نے ٹرک کے ڈرائیور کو آوازیں لگائیں مگر وہ ٹیپ پر بآواز بلند بھارتی گانے چلا کر مست بیٹھا تھا، جب تک اس نے ڈرائیور والے ہودے کی چھت پر مُکے مار مار کر اُسے متوجہ کیا، ٹرک کافی آگے نکل چکا تھا۔ ٹرک رُکا اور وہ دانت پیستا ہوا اور بحری فوج کے کھٹارا ٹرکوں اور گنوار ڈرائیوروں کو کوستا ہوا ٹرک سے چھلانگ لگا کر اتر گیا۔ “اس حرامزادے کی وجہ سے اب پندرہ بیس منٹ کی پیدل مسافت کرنی پڑے گی” اشفاق نے سوچا۔ “اشفاق! سُنو!” اچانک منگول نے چونک کر اسے بلایا۔ “سر!”
وہ ایڑھی پر پیچھے گھوما۔
“اگر میری بات سمجھ جاؤ تو یہاں تک میرے ساتھ سفر فائدہ مند تھا! اب ڈرائیور کو کوسنا بند کرو اور دفع ہو جاؤ! خدا حافظ!”
منگول نے مربیانہ انداز میں کہا اور ٹرک راولپنڈی کی طرف چل پڑا۔
” حرامی۔۔۔ سمجھتا ہے کہ ایسی فضولیات پہ ہم اسے فلسفی سمجھیں گے!” اشفاق نے ہنستے ہوئے زیرِ لب منگول کی شان میں یہ جملہ خود سے کہا اور رائفل سنبھالتے ہوئے واپس چھاؤنی کی طرف پیدل چلنے لگا۔ بوبی کو راولپنڈی اسٹیشن تک منگول کے ہمراہ جانا تھا، فقط رسمِ مشایعت کے طور پر۔
چند قدم کے بعد ہی اشفاق منگول کو ذہن سے جھٹک کر اور باتوں پر سوچنے لگا۔ عامیانہ سی باتیں جن کے بارے میں نصف ملین کے اس باوردی ہجوم میں ہر ایک سوچتا ہے۔ جو باتیں منگول اور بوبی سوچتے تھے، وہ کوئی بھی نہیں سوچتا یا پھر سپاہ کے بگڑے ہوئے چند افسر سوچتے ہوں گے جو یا تو کپتان بننے کے بعد سدھر جاتے ہیں یا پھر ایسی اُلٹی سوچوں کے طفیل ہی میجر ریٹائر ہو جاتے ہیں۔ اشفاق کی سوچ کا موضوع اس کی لانس نائیک کے عہدے پہ ممکنہ ترقی تھی مگر ایک فلک شگاف دھماکے کی آواز نے اس کی سوچوں کا تسلسل توڑ دیا۔ چھاؤنی کا صدر دروازہ جس پر اس کی ڈیوٹی تھی اور ابھی تو وہ دس منٹ کی پیدل مسافت پر تھا، وہاں ایک بم دھماکا ہوا تھا جو یقیناً خودکش حملہ تھا۔
دھویں کا ایک خفیف سا مرغولہ ہی جو کہ دھماکے کی آواز کے مقابلے میں کم تھا، اُسے نظر آیا۔ وہ دیوانہ وار اس طرف بھاگ کھڑا ہوا۔۔۔ وہ پانچ سے چھ منٹ میں ہی وہاں تک پہنچ سکا مگر ملٹری پولیس والے تب تک جائے وقوعہ کو گھیرے میں لے چکے تھے۔ ایمبولینس ابھی تک نہ پہنچی تھی البتہ اس کے بھونپو کی آواز قریب سے قریب تر ہوتی سنائی دے رہی تھی۔ چند گاڑیاں اور گارڈ روم کی کھڑکیاں شیشوں سے محروم دکھائی دے رہی تھیں، چند زخمی سپاہی اور سویلین زمین پر لیٹے یا بیٹھے کراہ رہے تھے۔ ایک ہنگامہ تھا مگر اشفاق کو بھی وقوعہ سے ذرا فاصلے پر ہی روک لیا گیا۔ اس واقعے میں ایک سنتری مارا گیا باقی تمام زخمی ہوئے۔ مارے جانے والا سنتری ایک بلتستانی لانس نائیک مرجان تھا جس کی جگہ آدھا گھنٹہ قبل سے اشفاق کو موجود ہونا تھا۔ اس کے ذہن میں منگول کے الفاظ گونج رہے تھے۔۔۔
“بوبی سچ کہتا ہے اُسے۔۔۔ شیطان۔۔۔ ایک دم شیطانی حس ہے اُس کی!” وہ سر جھٹک کے خود کلامی کے انداز میں ایم پی کے پیچھے کھڑا کہے جا رہا تھا۔
پھر کئی دن اس سانحے کی انکوائری کی نذر ہو گئے اور اسے یاد تک نہ رہا کہ منگول کون تھا۔ یاد تو رہا مگر واقعات نے وقت کو پہیے لگا دیے جس کی وجہ سے وہ نام یادداشت کی کسی اونچی الماری میں چلا گیا جہاں روزمرہ کی زندگی میں خیال کا ہاتھ نہ پہنچتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انہی دنوں میں یہ ہوا کہ بوبی کی گریجویشن اس کے کام آ گئی اور اسے فضائی فوج میں ہی انگریزی کا استاد بنا کر وارنٹ افسر کا عہدہ دے دیا گیا۔ اشفاق کو اس امر کی خوشی تھی کہ اس کا دوست اتنی کم عمر میں ان کے سردار کے برابر عہدہ پا گیا تھا اور اب افسر بننا بھی شاید دور نہ تھا۔ جس روز اشفاق نے اسے کراچی کے لیے رخصت کیا، اس نے اسے تاکید کی کہ کراچی میں منگول سے ملے تو اس کا سلام ضرور پہنچائے۔
دوسرا واقعہ اشفاق کا اپنا کمیشن کی امیدواری کا امتحان تھا۔ سلیکشن بورڈ نے اسے کمیشن کے لیے موزوں قرار دے دیا لیکن خدا جانے کیا ابتلاء پڑی کہ تربیت کے لئے بلایا ہی نہ گیا۔ یہ دن اس کے لیے سخت مایوسی کے دن تھے۔ پھر ایک دن اسے بحری فوج کی طرف سے خط ملا کہ اُسی سابقہ امتحان کی کامیابی کی بنیاد پر اسے بحری فوج میں کمیشن کی تربیت پانے کی پیشکش دی جاتی ہے۔ اس کے تو وارے نیارے ہو گئے۔ سانگھڑ اشفاق کا آبائی وطن تھا، بحری فوج میں کمیشن تو گویا دہری خوش قسمتی تھی۔ اُس نے فوراً رضامندی ظاہر کر دی اور کراچی پہنچ گیا۔
اگلے تین سال اشفاق کے لیے بہت طویل تھے۔ یوں لگا گویا صدی گزر گئی اور وہ بھی بہت کڑی۔ بحری فوج کی تربیت مکمل ہونے تک اسے جہان دیگر کا ہوش نہ تھا۔ اس دوران بوبی کے ساتھ خط و کتابت کا سلسلہ بھی رہا اور گاہے گاہے ملاقاتیں بھی ہوئیں جن میں سر راہے منگول کا ذکر بھی ہوتا کہ ان کی مشترکہ کہانی میں منگول کا کردار اب بھی ناگزیر تھا۔ یہ کردار ایک دن اچانک نمودار ہوا جیسے کوئی غرقاب چیز سطح آب پر آ نکلتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“شرارِ دریا” نام کی ایک جنگی مشق ہو رہی تھی۔ اشفاق بحری جہاز پر تعینات تھا۔ مخالف بحریہ یا “فوکس نیوی” کو جو جہاز سونپے گئے تھے، اُن کی طرف سے اِن کے خلاف کی گئی سب کارروائیاں ناکام ہو رہی تھیں لیکن فوکس نیوی کے غوطہ خور ان کے جہاز کے نیچے سبوتاژ کی کارروائیاں اور نقلی بم لگانے میں بار بار کامیاب ہو رہے تھے اور امپائروں کی نظر میں اشفاق کے جہاز کے کپتان کو سخت سبکی کا سامنا ہو رہا تھا۔ انہوں نے اپنے حفاظتی انتظامات مزید سخت کر دیے اور ایک رات انہوں نے مخالف بحریہ یعنی فوکس نیوی کا وہ چھلاوہ صفت غوطہ خور رات کے اندھیرے میں اپنے جہاز کے نیچے نقلی بم لگاتے ہوئے پکڑ ہی لیا۔ اس کے طریقے اتنے اچھوتے تھے کہ سبھی کو اندازہ ہو گیا تھا کہ ہر دفعہ یہی ایک حملہ آور آتا تھا۔ جب اُسے اوپر لایا گیا تو وہ پورے غوطہ خوری کے لباس میں تھا اور چہرے پر گریس اور کالک ملی ہوئی تھی، کالا بھجنگ غوطہ خور کوئی سمندری بلا معلوم ہو رہا تھا۔
اشفاق ٹریک سوٹ پہنے ہینگر میں گیا تو وہ غوطہ خور اپنے حراست میں لینے والوں سے سگریٹ طلب کر رہا تھا۔
“ہیلو آئی ایم سب لیفٹیننٹ اشفاق!” اشفاق نے اس کی طرف سلام کے لئے ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا۔ وہ اسے اس کے سابقہ مشنوں کی وجہ سے داد دینا چاہ رہا تھا۔ جواب میں ایک فلک شگاف قہقہہ آیا اور اشفاق نے خوب جانی پہچانی آواز میں ایک جانا پہچانا انگریزی جملہ سُنا جو کسی کارٹون فلم میں ایک جن نے اپنے باغ میں داخل ہونے والے دو معصوم بچوں سے کہا تھا۔ اشفاق نے قہقہے کا جواب قہقہے سے دیا اور وہ دونوں بغلگیر ہو گئے۔ منگول گذشتہ چار پانچ سالوں میں ذرا بھی نہیں بدلا تھا بلکہ ویسا ہی سخت جان اور زندہ دل۔ اشفاق نے اس کے لیے چائے اور کباب منگوائے اور وہ دیر تک بیٹھے گپیں ہانکتے رہے۔ اُس کا جو نائیک کے برابر عہدہ چند سال پہلے اترا تھا، ضابطے کے مطابق اسے واپس تو مل گیا تھا مگر وہ تب سے اسی عہدے پر تھا۔ وہ جتنی بے پناہ صلاحیتوں کا مالک تھا، کامیابی اور ناکامی اور ترقی تنزلی کے دنیاوی فلسفے سے اتنا ہی بیزار، ورنہ خُدا جانے کیا طغیانی مچاتا۔ اشفاق اس دوران اس کے بارے میں یہی سوچ رہا تھا۔ ضابطے کی کارروائی کے بعد اشفاق اُسے بیڑے کی میس میں چھوڑ آیا اور پھر ایک عرصے تک منگول کی خبر نہ سنی۔ البتہ بوبی کو یہ واقعہ سنایا تو وہ دونوں دوست خوب ہنسے۔ تاہم بوبی نے اشفاق کو اس بات پر لے ڈالا کہ اس نے اس ملاقات میں بھی منگول سے تمغہ ملنے کا قصہ نہیں پوچھا۔
اشفاق اکثر بوبی سے ملنے جاتا تھا کہ اسے آفیسرز میس سے زیادہ لطف بوبی کے سارجنٹ میس کے ماحول میں آتا جہاں سری لنکا، بنگلہ دیش، مالدیپ اور فلسطین کے سارجنٹ اور کارپورل بھی ہوتے تھے اور بڑے دلچسپ لوگ تھے، تکلفات اور ڈسپلن کی قید سے آزاد راتیں خوب یادگار تھیں۔ بیئر کے خم لنڈھائے جاتے اور سگریٹ کے کش لگتے، گویا عروس البلاد کی ساری رونقیں ایک کھاڑی میں واقع سارجنٹ میس کے اس کمرے میں سمٹ آئی ہوں۔ اس پہ بوبی کے نت نئے معاشقوں کی ناکامیوں کے قصے اور ان میں کہیں کہیں منگول کا تذکرہ! لیکن عجیب بات یہ ہے کہ انہیں وہاں بھی وہ دن رہ رہ کر یاد آتے جو انہوں نے شمال میں سپاہی کی حیثیت سے اکٹھے گزارے تھے۔ بوبی کو وارنٹ افسری کا نشہ چڑھا تھا نہ اشفاق کو لفٹینی کا۔ شاید ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ اپنے ساتھیوں کی نظر میں تو کامیاب انسان بن چکے تھے لیکن اب وہ اس کامیابی کے نشے سے بھی اکتا گئے تھے۔ اشفاق کی اکتاہٹ کی وجوہ تو شاید پیشہ ورانہ تھیں کہ وہ اپنے یونٹ کے قابل افسروں میں شمار نہیں ہوتا تھا اور اس بابت اب اسے کوئی خاص پروا بھی نہ تھی۔ لیکن بوبی کی کئی اور وجوہ تھیں جیسا کہ اس کی ناخوشگوار ازدواجی زندگی، اُس کے باپ کا اس کو عاق کر دینا، چھوٹے بھائیوں کا بے مروت ہو جانا اور بہنیں، جو اسے جان سے پیاری تھیں، ان میں بڑی کا زچگی کے دوران مر جانا اور منجھلی کا شادی کے بعد شوہر کے ساتھ بیرون ملک چلے جانا۔۔۔ بھیانک تنہائی!!! بوبی اب کتابیں پڑھتا یا پھر ویک اینڈ پہ شراب کے نشے میں دھت، بےحد خوش ہونے کی اداکاری کرتا اور رانگ نمبروں پر ٹیلی فون کر کے کراچی کی حسیناؤں کے دلوں سے کھیلتا۔ ٹیلی فون پر اس کی آواز اتنی پر کشش تھی کہ لڑکیاں نہ چاہتے ہوئے بھی اس سے گھنٹوں باتیں کیا کرتیں۔ اشفاق اور بوبی کی ان حرکتوں کے طفیل اب ان کی اعلیٰ کمان ان کی تقدیر پر مہر لگا چکی تھی۔ بوبی کو اب وردی میں عمر گزار کر بھی وارنٹ افسر ہی ریٹائر ہونا تھا اور اشفاق کو بھی لیفٹیننٹ کمانڈر سے اوپر نہیں جانا تھا۔
اس امر نے انہیں ایک بدمعاشوں کی سی طمانیت بخشی تھی اور گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ یہ طمانیت بھی ایک اکتاہٹ سے بدل رہی تھی کہ انہیں کوئی بھی چیز اب خوش نہ کرتی تھی۔ بوبی کو اس کی اپنی درخواست پر کراچی میں ہی ایک لڑاکا طیاروں کے مستقر پر لائبریری کا انچارج بنا کر بھیج دیا گیا۔ انہی دنوں اشفاق کو بوٹ کیمپ میں تدریسی ذمہ داریوں پر مامور کر دیا گیا۔ فضائی اور بحری فوجوں میں یہ دونوں جگہیں ایسی سمجھی جاتی تھیں کہ یہاں معتوب افسروں، سرداروں اور سپاہیوں کو بھیجا جاتا ہے مگر وہ اس سے بھی بے نیاز تھے بلکہ دونوں جگہوں کے قریب ہونے کے سبب اب اشفاق کا بوبی کے ہاں آنا جانا اور بھی بڑھ گیا کیونکہ اس مستقر میں اس کا بچپن گزرا تھا، اس کے مرحوم والدین کی جوانی گزری تھی تو اسے اس جگہ سے محبت تھی۔ بوبی ساحلِ سمندر پر چھٹی کا دن گزارنے کے شوق میں اس کے ہاں آ کر ٹھہرنے کی ضد کرتا تو وہ اسے لعن طعن کر کے باز رکھتا۔
خیر اس یکسانیت سے بھرپور تالاب میں ایک بلبلہ ان کی دلچسپی کا پھر ابھرا۔ اشفاق کے کمانڈانٹ بڑے شاندار آدمی تھے۔ کیپٹن جمشید جی منوچہر اسفندیار نٹ بولٹ والا شاید اپنی بحری فوج کے آخری آخری پارسی افسر ہوں گے ورنہ ایک زمانہ تھا کہ اس فوج کی تو پرورش ہی پاکستان بننے کے بعد ایک عرصے تک پارسی اور انگریز افسروں نے کی تھی۔ پارسی کمیونٹی میں یہ جمی نٹ بولٹ والا کے نام سے مشہور تھے کہ وہاں ان کی پہچان خاندانی کاروبار کے حوالے سے ہی ہوتی تھی۔ ان کے والد مہربان جی فرام جی آرام جی نٹ بولٹ والا بمبئی میں انڈین نیوی کے سپیئر پارٹس کے بڑے سپلائر تھے لیکن گوداوری کی بغاوت کے بعد تھوڑے سیاسی ہو بیٹھے، بعدہٗ کراچی آنا پڑا۔ جمی نٹ بولٹ والا کی صفات اور اخلاق کی صرف پارسی کمیونٹی ہی نہیں بلکہ تمام شہر اور بحری فوج دلدادہ تھی۔ یونٹ کے افسران بھی ان کا تذکرہ جمی یا “جے این بی” (جمی نٹ بولٹ والا) کے نام سے کرتے، سیلر انہیں نٹ بولٹ کے نام سے یاد کرتے اور بے حد محبت اور اپنائیت سے کرتے۔ ان کی بیگم، بھابی منیژہ اگرچہ کیپٹن صاحب سے ہر وقت جھگڑتی رہتی تھیں مگر پھر بھی ان سے بڑھ کر شاید ہی دنیا میں کسی اور افسر کی اہلیہ مہمان نواز اور گھر داری کا سلیقہ رکھنے والی ہو گی۔
ان دنوں اشفاق بوبی سے ملاقاتوں میں انہی کیپٹن صاحب کے قصے سناتا رہتا تھا۔
جمی نٹ بولٹ والا کی دو بیٹیاں تھیں جو نہایت لائق اور چندے ماہتاب، چندے آفتاب قسم کی لڑکیاں تھیں اور الترتیب آٹھویں اور تیسری جماعت میں پڑھتی تھیں۔ تمام بوٹ کیمپ کے افسروں اور چیف صاحبان کو ان سے اپنی بیٹیوں کی طرح انسیت تھی۔ حتیٰ کہ افسروں سے بیزار اور شاکی سیلر بھی ان بچوں پر جان چھڑکتے تھے۔ وہ خوش ہوتیں تو تمام چھاؤنی خوش، ان میں سے کوئی بیمار پڑ جاتی تو تمام یونٹ اداس۔
خیر قصہ یہ ہوا کہ بڑی صاحبزادی شیریں منوچہر نے جونیئر کیمبرج میں داخلہ لیا تھا اور حال ہی میں مضمون نویسی کے ایک مقابلے میں دولتِ مشترکہ کے ممالک میں اول آئی تھی۔ (چھوٹی کا نام اشفاق کو کبھی یاد نہیں رہا)۔ کیپٹن صاحب نے تمام افسروں اور کو پیغام بھجوایا کہ شیریں کے ٹیوٹر صاحب کے اعزاز میں ان کے گھر پر ایک عشائیہ ہو گا کہ انہوں نے بیٹی کو بڑی محنت سے پڑھایا اور اس مقابلے کے لئے تیار کروایا تھا۔ کچھ چیف اور پیٹی افسران بھی مدعو تھے۔ ہفتے کی شام کو کمانڈانٹ کے بنگلے پر ایک سادہ سی تقریب عشائیے کی ہوئی تو اکثر افسروں کو یہ دیکھ کر حیرت کا ایک جھٹکا سا لگا کہ معزز ٹیوٹر صاحب اسی کیمپ میں واقع غوطہ خوری کے اسکول کے انسٹرکٹروں میں سے ایک یعنی ایم کے شیرانی تمغہ ء بسالت تھے۔ لیکن اس حیرت کو اپنے افتتاحی خطاب میں ان کے ہردلعزیز جمی نٹ بولٹ والا نے ایک خوشگوار احساس سے بدل دیا۔
“جنٹلمین، یہ عشائیہ ایک کمانڈانٹ کی طرف سے اپنے یونٹ کے ایک سپاہی کے لیے نہیں بلکہ ایک باپ کی طرف سے اپنی بیٹی کے استاد کے اعزاز میں ہے!” یہ کہہ کر وہ اٹھے اور “سر!” کہہ کر منگول کو مرکزی کرسی پر براجمان ہونے کی دعوت دی، پورا جزیرہ تالیوں سے گونج اٹھا۔
اسی لمحے اشفاق نے دل میں فیصلہ کر لیا کہ بحری فوج سے ریٹائرمنٹ کے بعد استاد بنے گا۔” ہم اہلِ مشرق کے پاس بھی کیا دلگداز جادو ہیں!” وہ سوچتا رہا۔ اس دن اشفاق نے پہلی بار منگول کو پتلون کوٹ میں دیکھا، بہت باوقار اور متین لگ رہا تھا۔
عشائیہ خیر خیریت سے ہو چکا تھا، چائے کا دور چل رہا تھا، افسروں کا ایک بڑا دائرہ لان میں کھڑا گپیں ہانک رہا تھا جس میں مرکزی کردار ان کے محبوب کمانڈر جمی نٹ بولٹ والا تھے اور اشفاق کا پرانا دوست منگول! ایک منحوس خیال اس کے ذہن میں کوندا۔
“منگول ہر ملاقات میں کچھ ایسا کرتا ہے کہ چونکا کر رکھ دیتا ہے بلکہ بَولا دیتا ہے۔۔۔ کیا اب وہ بدل چکا ہے یا اس چونکا دینے والی صلاحیت سے محروم ہو چکا ہے؟” وہ یہی سوچ رہا تھا کہ کمانڈنٹ نے ایک جوان افسر کو مخاطب کر کے پوچھا،
“عمر! اب اگلی ضیافت تمہارے لیے ہو گی (چہکتے ہوئے) بیٹا پیدا ہونے کی مبارک۔۔۔ بہت بہت مبارک!” باقی افسران اسے مبارک باد دینے لگے تو اشفاق کی جو شامت آئی، اس نے پوچھ لیا کہ بیٹے کا نام کیا رکھا ہے؟
“نوشیروان” لیفٹیننٹ عمر نے یک گونہ مسرت سے بیٹے کا نام پکارا۔ اس سے پہلے کہ کوئی افسر اس نام کی تعریف کرتا، منگول تنک کر بولا،
” سر یہ کس حرامزادے کے نام سے بیٹے کو موسوم کر دیا؟” یہ جملہ تمام محفل پر بم کی طرح پھٹا۔
“سر اُس نے تو مزدک جیسے جلیل القدر پیغمبر کی ناموس مٹی میں رول دی تھی!” یہ جملہ تو گویا بم پھٹنے کے بعد کا کولیٹرل ڈیمج تھا! سب زبانیں گنگ، جمی نٹ بولٹ والا کے چہرے سے پہلی بار رنگ اڑا دیکھا گیا۔ کسے کیا کہنا تھا، کسی کو کچھ پتہ نہ تھا۔ منگول شاید کچھ اور بھی بولتا لیکن اس سخت لمحے میں شیریں منوچہر کی معصومیت نے کسی مدد کے فرشتے کی طرح سب کو آن بچایا اور اس کی آواز درمیان میں گونجی۔
“بابا، میں سب مہمانوں کو اپنی پینٹنگز دکھانا چاہتی ہوں!”
“جی جی، کیوں نہیں بٹیا، بڑے شوق سے” تمام افسر یک زبان ہو کر بولے۔
دوسرے دن اشفاق کے دفتر کے ٹیلی فون پر منگول کی کال آئی
“فوکر۔۔۔ یار میرا خیال ہے کہ مجھے وہ بات نہیں کہنی چاہیے تھی”
یہ کہہ کر فون بند۔ پھر اس کے بعد ایک عرصے تک ان کی ملاقات نہ ہوئی۔
اب بوبی سے ملاقات میں بھی اشفاق کا موضوع گفتگو زیادہ تر کیپٹن جمی نٹ بولٹ والا ہی ہوتے تھے، منگول دوسری ترجیح بن گیا۔
جمی نٹ بولٹ والا نیوی ایوی ایشن کے پائلٹ تھے اور جلد ہی واپس نیول ائیر آرم میں چلے گئے مگر بڑی حسین یادیں چھوڑ گئے۔ اُن کی الوداعی پارٹی میں انہوں نے کفایت شعاری اور قومی وسائل کے استعمال میں احتیاط کے موضوع پر جو گفتگو کی تھی وہ اشفاق کو ہمیشہ یاد رہی۔
لیکن اس کہانی سے متعلق بات اس گفتگو میں یہ تھی کہ کیپٹن صاحب نے منگول کے بارے میں ایک یاد رہنے والی مثال دی جس سے اندازہ ہوا کہ آخری بدمزگی کو وہ جھٹک چکے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ منگول ان کا پسندیدہ سپاہی کس واقعے سے بنا۔
چینل میں غوطہ خوری ہو رہی تھی اور جب منگول اپنی باری پہ غوطہ لگا کر سطح آب پر آیا تو ڈائیونگ ٹینڈر پر کیپٹن موصوف اتفاق سے موجود تھے۔ منگول بری طرح ہانپ رہا تھا۔ پتہ چلا کہ وہ زیر آب آپریشنوں میں آکسیجن سلنڈر ختم ہونے تک کام کرتا تھا اور ہمیشہ آخری لمحے میں ہی ابھرتا تھا۔ کیپٹن صاحب نے اس بے احتیاطی سے بازپرس کی تو منگول کا جواب تھا؛
سر! جو سانس میں زیرِ آب لیتا ہوں، میری قوم ایک ایک سانس کی قیمت ادا کرتی ہے!” کیپٹن صاحب نے اس طرز عمل سے تو تکنیکی بنیاد پر اتفاق نہ کیا مگر اس کے پیچھے کارفرما فلسفہ انہیں بھا گیا۔ اس مکالمے کے بعد منگول ان کا پسندیدہ سپاہی اور مزید بعد میں ان کی بیٹی کا ٹیوٹر قرار پایا۔ خیر، جمی نٹ بولٹ والا کے چلے جانے کے بعد حُسنِ اتفاق دیکھیں کہ اشفاق بھی نیوی ایوی ایشن کے لیے منتخب کر لیا گیا۔ یا پھر شاید نیول ہیڈکوارٹرز میں اس کا آرمی کے زمانے کا وہ لطیفہ پہنچ گیا تھا جس کی وجہ سے اس کا عرفی نام فوکر پڑا تھا۔ وہ سپاہی تھا اور اپنے ایک افسر کو پنڈی ائرپورٹ پر چھوڑنے گیا جس نے وہاں سے نیوی کے ایک فوکر طیارے کے ذریعے کراچی جانا تھا:
کرنل صاحب نے اسے اپنا بریف کیس دیا اور کہا “اسے فوکر کے پاس لے چلو، میں آتا ہوں” اور انہوں نے جہاز کی طرف اشارہ کیا جس کے پاس عملے کے کچھ افسر کھڑے تھے۔ اشفاق بریف کیس لے کر عملے کے افسران کے پاس گیا اور نہایت سادگی سے انہیں مخاطب کر کے کہا،
“سر آپ میں سے فوکر صاحب کون ہیں؟”
اسے پرواز کی بنیادی تربیت کے لئے گوجرانوالہ بھیج دیا گیا۔ اس دوران منگول سے رابطہ ہوا نہ کوئی اس کی خبر سنی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
روٹری ونگ پائلٹ کورس کے بعد اشفاق واپس آیا تو جمی نٹ بولٹ والا کے زیرِ کمان نوکری کا دوبارہ موقع ملا۔ یہاں ایک شعبہ تھا جس کا کام سمندر میں گرنے والے طیاروں کے پائلٹوں کو بچاؤ کی تربیت دینا تھا۔ یہاں ایک غوطہ خور کی آسامی پہ جمی نے منگول کا تبادلہ خصوصی احکامات پر کروا لیا۔ حُسنِ اتفاق دیکھئے کہ فضائی فوج کے جس مستقر کے ساتھ ان کا رن وے سانجھا تھا، بوبی بھی عارضی تبادلے پر وہاں کی لائبریری کا وارنٹ افسر انچارج بن کر آ گیا اور اشفاق کی صبحیں جمی نٹ بولٹ والا اور شامیں بوبی اور منگول کی رفاقت میں گزرنے لگیں۔ یہ تینوں دوست ڈرگ روڈ ریلوے لائن کے کنارے، جسے بوبی سارہ شگفتہ روڈ کہتا تھا شاموں میں لمبی آوارہ گردی کرتے اور اشفاق زیادہ تر بوبی اور منگول کی علمی و نیم علمی بحثوں سے خوب لطف اندوز ہوتا تھا۔ اور اکثر علمی بحث کے نام پہ عجب احمقانہ قضیے چھڑتے۔
ایک بار منگول نے کہا،
“لونڈو! تم کیا جانو، ملٹری ہسٹری میں ایک سے بڑھ کر ایک نابغے جرنیل پڑے ہیں۔۔۔ جنرل ہرمن مورائس کو جانتے ہو؟ جس نے میدان جنگ کی ایک رات میں اسّی جوان دوشیزاؤں کے ساتھ جفتی کرنے کی کوشش کی اور اسی مورچے پر جان دے دی؟” پہلے تو وہ دیر تک قہقہے لگا کر ہنستے رہے پھر جو بوبی نے مہتابی دکھائی کہ “سراسر بکواس، یہ عملی طور پر ممکن ہی نہیں!” تو منگول صاحب تو دَن سے چلے بپھری ہوئی توپ کی طرح اور علم الابدان اور جنسیات کے علم کے وہ راز آشکار کیے کہ بوبی اور اشفاق پسینہ پسینہ ہو گئے! منگول کچھ تو عمر میں دونوں دوستوں سے بڑا تھا اور تھا بھی بددماغ، سو وہ کبھی دوستوں کے عہدے کے رعب میں نہ آیا۔ اشفاق بھی باوجود ساتھی افسران کے اظہارِ ناپسندیدگی کے، اس “گنوار قبائلی” کی صحبت سے باز نہ آیا۔ یہ شامیں بڑی یادگار تھیں۔ انہی شاموں میں انہیں پتہ چلا کہ ایک بہت بڑے سیلاب میں کتنی ہی انسانی جانیں بچانے پر منگول کو تمغہ ء بسالت ملا تھا اور وہ فخر سے بولا کہ میں وہ خوش قسمت سپاہی ہوں کہ مجھے جان لینے پر یا جان دینے پر نہیں بلکہ جانیں بچانے پر تمغہ ملا ہے۔ منگول کی یہ بات بظاہر متاثر کرنے والی ضرور تھی لیکن چونکا دینے والی نہ تھی سوائے اس قصے کے کہ کس طرح وہ ایک خاندان کے افراد کو سیلاب سے نکالنے کے بعد ان کی ایک کم سن بچی کی گڑیا کو ڈھونڈنے کے لیے دوبارہ پانی کے ریلے میں کود گیا تھا۔
ایک شام اچانک چلتے چلتے وہ رک گیا اور بولا
“تم دونوں اپنے اپنے ہاتھ دکھاؤ!” انہوں نے ہاتھوں کی ہتھیلیاں سامنے کر دیں۔ منگول غور سے ان کے ہاتھوں کی ہتھیلیوں کو دیکھتا رہا گویا لکیروں میں چھپی قسمت کی بجھارتیں پڑھ رہا ہو پھر اچانک قہقہہ لگا کر ہنسا۔
“ابے تم دونوں ہاتھ کی لکیروں پہ یقین رکھتے ہو؟” وہ دونوں کھسیانے سے ہو گئے مگر پھر وہ سنجیدہ گیا،
“بوبی، فوکر! تم دونوں جتنا خوش رہنے کی اداکاری کرتے ہو، اتنی ہی غمگینی اور اداسی تمہاری منتظر ہے!” ان دونوں کے چہرے اتر سے گئے تو وہ پھر قہقہہ لگا کر ہنسا “مادر۔۔۔! بہت ہی تھڑدِلّے ہو!!” صحبت کا رنگ پھر وہی ہو گیا۔ یہ صحبتیں تب تک خوب رہیں جب تک کیپٹن جمی نٹ بولٹ والا کی کمان رہی۔ وہ سمندری سیکیورٹی ایجنسی میں کسی کمان پر چلے گئے تو نئے کمانڈر نے اشفاق کو شامیں دوستوں کے ساتھ گزارنے کی مہلت ہی نہیں دی۔ کئی ماہ گزر گئے، اس دوران بوبی اور منگول سے ملاقاتیں تو رہیں مگر وہ محفلیں برہم ہو گئیں بلکہ بوبی کا کثرتِ مے نوشی کے الزام میں سزا کے طور پر جیکب آباد تبادلہ ہو گیا، اشفاق اور منگول ہی رہ گئے۔ اس عرصے میں کیپٹن جمی نٹ بولٹ والا کے بارے میں منگول نے ہی بتایا کہ بھابی منیژہ کے ساتھ ان کی اَن بَن چل رہی ہے اور وہ بیٹیوں کو لے کر جرمنی چلی گئی ہیں۔ منگول کیپٹن جمی کو اور ان کی نجی زندگی کے بارے میں بہت جاننے لگ گیا تھا اسے بعد میں نٹ بولٹ والا فیملی سے ہی پتہ چلا کہ شیریں منوچہر کی بی ایس سی کے فوراً بعد شادی ہو گئی تھی اور وہ اپنے میاں کے ساتھ کینیڈا میں تھی، جبکہ چھوٹی بیٹی ماں کے ہمراہ جرمنی جا کر تعلیم حاصل کر رہی تھی۔ کیپٹن جمی کی ریٹائرمنٹ قریب آئی تو فوکر نے کئی بار سوچا کہ وہ اُن سے جا کر مل لے کیونکہ وہ ریٹائرمنٹ کے بعد جرمنی جا کر بیگم سے مصالحت کرنا اور بدگمانیاں رفع کرنا چاہتے تھے لیکن نئے کمانڈر نے اشفاق کو ذاتی زندگی کی کسی دلچسپی کے قابل ہی نہ چھوڑا سوائے منگول کی کسی کسی وقت کی صحبت کے۔ یوں تو لیفٹیننٹ کمانڈر وقاص، لیفٹیننٹ شیر علی اور اسکواڈرن لیڈر شکیب الحسن بھی اس کے ہر وقت کے ساتھی تھے مگر ان کی صحبت بھی کتنی ملتی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ موسمِ سرما کا آغاز تھا، ان دنوں اشفاق منگول کے ہمراہ شام کو اکثر کہیں نہ کہیں سیر یا چہل قدمی پہ نکلتا تھا۔ یا پھر وہ شہر میں پارسیوں کی ایک لائبریری میں جا بیٹھتے تھے۔ اس شام وہ ڈرگ ریلوے لائن کے کنارے ٹریک سوٹ پہنے چہل قدمی کر رہے تھے۔ ریلوے لائن کے دونوں جانب اُگے قد آدم سرکنڈے ڈرگ روڈ کی شاہراہ اور فضائی فوج کے مستقر کو ان کی نظروں سے یوں چھپائے ہوئے تھے گویا یہاں اس پٹڑی اور ان سرکنڈوں کے سوا کچھ نہ تھا۔ اس وجہ سے ان کے کان دونوں اطراف سے پیدا ہوتے شور سے بھی بے نیاز تھے جو اب شام کے فسوں سے کمزور پڑ رہا تھا۔ منگول کچھ کھویا کھویا سا لگ رہا تھا،
“اشفاق۔۔۔” اس نے لگ بھگ تین سے پانچ منٹ کی لمبی خاموشی توڑی۔ وہ جب اسے فوکر کی بجائے سیدھے نام سے پکارتا تھا تو وہ بھانپ جاتا کہ کوئی سنجیدہ مذاق کرنے یا گھمبیر نکتہ بیان کرنے والا ہے۔
“میں ریٹائر ہونے والا ہوں۔۔۔ پیسہ کمانے کی عمر کتابیں پڑھنے اور یادیں سمیٹنے میں گزار دی لیکن اب شاید کتابیں پڑھنے کی عمر میں پیسہ نہ کما سکوں۔۔۔ نہ ہی یادیں سمیٹ سکوں۔ اور یوں بھی بعد کی زندگی میں میرا کلیرنس ڈائیور ایم کے شیرانی تمغہء بسالت ہونا کوئی معنی نہ رکھے گا۔۔۔ بہرام اور شہرام جوان ہو رہے ہیں لیکن وہ باپ کے طور پر میری ذات سے اتنے مانوس نہیں ہیں کہ میں اب ان کی تعلیم و تربیت پر اثر انداز ہو سکوں۔ سچ یہ ہے کہ مجھے اب اُن سے زندگی میں کچھ بننے کی توقع ہی نہیں رہی۔۔۔ یا یوں کہوں کہ وہ بڑے ہو کر کیا بنیں گے، مجھے اس سے کوئی گہری دلچسپی نہیں رہی۔۔۔ تم جیسے دوستوں سے پیچھے رہ جانے کا ہیجان اور غصہ مجھ میں تھا ہی کب اور میں کیرئیر کی دوڑ میں شریک ہی کب تھا۔۔۔” وہ اشفاق کے چہرے کے تاثرات دیکھے بغیر روانی سے کہے جا رہا تھا”
“فوکر نکتہ یہ ہے کہ میں آگے آنے والی زندگی کی یکسانیت سے ڈر رہا ہوں اور ڈھلتی عمر اور اختتام کے قریب تر ہونے کا احساس بھی مجھے خوفزدہ کر رہا ہے۔۔۔” اس نے سگریٹ سلگاتے ہوئے بات جاری رکھی۔ اشفاق نے بھی سگریٹ سلگا لی۔
” تمہارا کبھی جے این بی سے رابطہ ہوا ہے؟” منگول نے غیر متوقع سوال کیا۔
“نہیں شیرانی صاحب، بالکل نہیں۔۔۔ خیر؟” اس بے تکلفی میں بھی وہ اُسے شیرانی صاحب ہی کہہ کر پکارتا تھا اور وہ اسے کبھی اشفاق، کبھی فوکر اور کبھی فقط ‘سر’ کہہ کر مخاطب کرتا تھا۔
“میں پرسوں ملا تھا اس سے، کیا کھلی کتاب جیسا آدمی ہے۔۔۔ مگر اس پریشانی میں وہ بھی مجھ سے مختلف نہیں۔۔۔ بلکہ وہ تو ذہنی طور پر بالکل کھسک چکا ہے! وہ بھی ریٹائرمنٹ کے بعد کی زندگی کی بے معنویت سے بے حد گھبرایا ہوا لگ رہا تھا کیونکہ فلائنگ اور دونوں بیٹیاں ہی اس کی کل کائنات کا محور رہی ہیں۔۔۔ اب وہ ان سے دور ہوتا ہوا بہت بوکھلا گیا ہے۔ بڑے آدمی کو ایک چھوٹے خول نے مضبوطی سے جکڑا ہوا تھا۔۔۔”
“وہ ٹھیک تو ہیں؟” اشفاق کو تشویش سی ہوئی۔
” کیا ہونا ہے۔۔۔ بس یہی کہ وہی خوف ہے جو مجھ میں ہے! باوردی زندگی کا آدھا عرصہ زندگی کی بے مقصدیت پہ سوچنے میں گزرا کیونکہ ہمیں جتنی ذہنی فراغت اس فوجی زندگی سے ملی ہے، کہیں نہ مل سکتی تھی!
بحرِ عرب، خلیجِ فارس، انگلش چینل اور بحرِ احمر کی گہرائیوں میں اتر چکا ہوں، سب سے زیادہ وقت اپنے سمندر کی غواصی میں گزرا، باقی تو ایک ایک دفعہ کے تجربے تھے۔۔۔ غواصی کا مطلب جانتے ہو؟ مطلب غوطہ خوری۔۔۔ یہ وہ مواقع تھے جو اس پیشے نے مجھے دنیا کو دنیا سے ہٹ کر اور زندگی کو زندگی سے الگ ہو کر دیکھنے کے فراہم کیے۔ پھر آدھی سروس زندگی کی بے مقصدیت سے آنکھیں چرانے میں گزر گئی۔ ساری عمر گزر جاتی مگر یہ جو آخری دنوں میں ایک بدصورت جنگ دیکھنی پڑی۔۔۔ وار آن ٹیرر۔۔۔ جو کہ آغاز میں ہم نے قومی جذبے سے مغلوب ہو کر جرات مندی سے گزاری اور پھر باقی جو تھی وہ اس احساس کے زیرِ اثر شدید بے دلی میں گزاری کہ مغرب کے ہتھیار مشرق میں بیچنے کے حیلے بہانے آج کل جنگ کہلاتے ہیں۔۔۔ اور اب ایک خوف اس جرات مندی کی جگہ لے چکا ہے۔ زندگی کے بارے میں جو وحی مجھ پہ خلیجِ فارس کے ایک غوطے کے دوران اُتری تھی۔۔۔ یہ تب کی بات ہے جب ہم اُس طرف جایا کرتے تھے۔۔۔ اور ہاں! وحی سے مراد تم سمجھے ناں؟ جو ایک مایوس کر دینے والی سرد روشنی میرے دل میں اس گہرائی میں اُتری تھی، وہی روشنی کلی منجارو کی پہاڑی کے پر اسرار برفانی تاج کے اوپر سے پرواز کرتے ہوئے کیپٹن جمی کو بھی ملی تھی، تب وہ لیفٹیننٹ کمانڈر تھا شاید۔۔۔ میں اسے نہیں جانتا تھا، نہ وہ مجھے۔۔۔ لیکن ہماری منزل ایک تھی، سفر جدا جدا رہا! اب ہم اس خود فریبی سے نکلنے والے ہیں تو خوفزدہ ہیں۔
میرا انگلش چینل میں جان پہ کھیل کر اترنا اور کوئی دھماکا خیز مواد ڈی فیوز کرنا، سینکڑوں گھنٹے سمندر کی گہرائی میں ویلڈنگ، کٹنگ، ڈیمولیشن کرنا یا کچھ بھی میرے لیے یہاں سے جانے کے بعد جہانِ دیگر کے لیے کیا معنی رکھے گا جس کی بنا پر میں نیوی میں بڑا ٹارزن بنا پھرتا رہا، باقی جو کتابیں میں نے پڑھیں، کراچی کے ہندووں، پارسیوں، شیعوں، اسماعیلیوں، عیسائیوں اور شاعروں ادیبوں کے ساتھ مذہب کے ابطال پر بحثیں کی ہیں، ان سے شہرام اور بہرام کی زندگی پہ بھی تو کوئی بڑا اثر نہیں پڑے گا! زندگی کے بارے میں وہ کون سا بُدھا کے درجے کا گیان پا لیں گے؟
ہمارے ایلسیبائیڈیز کو بھی شراب میں ڈبونے والی طاقت یہی انکشافات ہیں! میں نے زندگی کو جس بلوری مرتبان میں رکھ کر مدتوں اس کی پوجا کی، اسے میرے خیالات کی قطرہ قطرہ ٹھیس نے کریک کرکے توڑ ڈالا، اپنے ایلسی بائیڈیز کے معاملے میں بس ایک ہتھوڑا ہی کافی ثابت ہوا یعنی اُس کا محبت سے ایمان اٹھ گیا اور زندگی کی جس مورتی کو وہ پوجتا تھا، وہ ریزہ ریزہ ہو گئی!” پھر سگریٹ کو آخری لمبے سے کش میں ختم کر کے منگول قہقہہ لگا کر ہنسا۔ اشفاق مسکراتا رہ گیا۔۔۔ اب فوکر کو اس کی باتیں سمجھ آتی تھیں۔ بوبی کو اس کی بیوی اس لیے چھوڑ کر چلی گئی تھی کہ وہ کسی اور نوعمر لڑکی کے عشق میں گرفتار تھا اور اس سے بیاہ کے عہدوپیمان بھی کر چکا تھا۔ مگر بیوی کے چھوڑ جانے نے اسے حیران کن حد تک توڑ کر رکھ دیا تھا۔ وہ اس کا کم سن بیٹا بھی ساتھ لے گئی تھی۔ اب وہ ہمہ وقت شراب میں غرق رہتا تھا۔ خداجانے اب جیکب آباد میں یہ منحوس چیز اسے کون مہیا کر رہا تھا۔ کچھ دنوں سے اس کا معمول یہ تھا کہ وہ بیس لائبریری میں دھت پڑا رہتا تھا اور دوست یار اسے گھسیٹ کر میس میں لے جاتے۔ شکیب کے ذریعے چند روز قبل پتہ چلا تھا کہ اس کے خلاف پھر انکوائری چل رہی ہے۔
“بوبی کا قصور نہیں، اُسے ائر فورس نے کورنگی کے علاوہ ہر جگہ لائبریری انچارج بنا کر خود اس کے پاگل پن کا سامان کیا، مگر لگتا ہے نیوی نے آپ کو بہت مصروف نہیں رکھا!” فوکر کی اس بات پر وہ دونوں ہنس پڑے مگر منگول کے چہرے پر سنجیدگی کے تاثرات اس کی آنکھوں کا ساتھ نہیں دے رہے تھے۔
” لیکن!” وہ سنجیدہ ہوا” اشفاق یار لعنت بھیجو میرے اور جمی صاحب کے اندیشوں پہ، بوبی کو سیریس لو! وہ مرنے والا ہے!” اشفاق چونکا۔
” کیا اس کو کوئی عارضہ ہے؟ مجھے لگتا ہے کہ کثرتِ شراب نوشی کی وجہ سے اس کے گردوں۔۔۔” اشفاق کہہ ہی رہا تھا کہ منگول نے ٹوکا،
“شراب نہیں! خود کشی! اشفاق میں نے ایک مدت پہلے بوبی کی آنکھوں میں دلیری اور بزدلی کا وہ مرقع دیکھ لیا تھا جو آدمی کو خود کشی کی طرف لے جاتا ہے۔۔۔ وہ خود کشی کر لے گا!!” منگول کی اس بات نے فوکر کو دہلا کر رکھ دیا۔ اب اسے منگول کی نادیدہ قوت یا “شکتی” پر اتنا یقین نہ تھا کہ وہ وقت کے قدموں کی چاپ سن لیتا ہے مگر بوبی کےاحوال ذیادہ پریشان کُن تھے۔ فوکر نے فوراً سوچ لیا کہ واپس جاتے ہی کیپٹن جمی نٹ بولٹ والا سے بات کرے گا کہ وہ اپنے نسبتی بھائی گروپ کیپٹن بہزاد سے کہہ کر بوبی کا تبادلہ یہیں کراچی میں کروا دیں تاکہ وہ تنہائی کے اس عفریت سے بچ جائے جو کہ جیکب آباد میں اسے کھانے کو آ رہا تھا، دوسرے یہ کہ اسے شراب کی لت سے بچا لے۔ اور اس نے اس معاملے میں ذرا بھی تامل نہیں کیا۔ کیپٹن جمی نٹ بولٹ والا کا ردعمل فوکر کی توقع سے بھی زیادہ مشفقانہ اور سریع نکلا۔ تھوڑی ہی دیر میں وارڈ روم میس میں اشفاق کے کمرے کا فون بجا اور ایک فوجی لب و لہجے کی آواز آئی،
“لیفٹیننٹ کمانڈر اشفاق؟”
“جی جناب”
“بیٹا میں گروپ کیپٹن بہزاد جی مانک بات کر رہا ہوں۔۔۔ جمی کے ریفرنس سے۔۔۔”
ایک مربیانہ لہجے کی باوقار آواز گونجی۔ اس نے ان کی شفقت اور فوری رابطے پہ شکریہ ادا کیا۔
“اشفاق مجھے معلوم تو نہیں کہ وارنٹ افسر خالد واسطی سے تمہارا کیا رشتہ ہے مگر۔۔۔ جمی کا فون آتے ہی میں نے بیس کمانڈر جیکب آباد سے بات کی ہے جو میرا سرگودھیئن کلاس فیلو ہے۔۔۔ اس نے مجھے پریشان کر دیا ہے۔۔۔ وارنٹ افسر خالد نے ابھی کچھ دیر پہلے آرڈرلی افسر ڈیوٹی کے دوران فوجی پستول سے اپنی جان لے لی ہے۔۔۔ اس کی خود کشی کی وجوہ بیس کمانڈر کو بھی پوری طرح معلوم نہیں، سوائے اس کے کہ کل اس کا سمری کورٹ مارشل ٹرائل ہونا تھا۔۔۔” گروپ کیپٹن کی بات نے اس پہ گویا ہزاروں وولٹ کا کرنٹ چھوڑ دیا ہو۔
“سر، آپ کے کنسرن کا شکریہ۔۔۔” اس نے بمشکل کہا اور فون رکھ کر سسکیاں لے کر رونے لگا، وارڈ روم میس کا اسٹیوارڈ نہ پہنچتا تو شاید وہ چکرا کر گر بھی جاتا مگر اس اسے تھام کر بیڈ پہ بٹھایا اور دلاسہ دیا۔
اشفاق اور منگول اسی رات ائر فورس کے ایک سی ون تھرٹی طیارے سے جو اتفاق سے اسکردو کے لئے انہی کے رن وے سے اڑان بھر رہا تھا اور اسی طیارے نے جیکب آباد سے بوبی کی میت اٹھانی تھی، راولپنڈی پہنچے اور گوجر خان میں بوبی کی تدفین میں حصہ لیا۔ اُس کے بوڑھے باپ کی غمزدگی دل ہلا دینے والی تھی۔ وہ ریٹائر صوبیدار تھے، بڑے قد آور، دلاور آدمی، پینسٹھ اور اکہتر دونوں جنگوں میں قیدی ہوئے تھے مگر ثابت قدم رہے مگر آج اُن کی حالت قابلِ رحم تھی۔
واپسی پر اشفاق ایک ہفتے تک فلائنگ پہ نہ جا سکا اور نیند کی گولیاں کھاتے رہنے کی وجہ سے میس میں پڑا رہا۔ اس عرصے میں کئی دفعہ منگول اس کے پاس آیا مگر وہ دونوں خاموش بیٹھے رہتے اور ایک جملہ بھی نہ بولتے، پھر شیر یا شکیب کے آنے پہ منگول اُٹھ کر چلا آتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک شام وہ اپنے یونٹ کی کینٹین پر بیٹھے خاموشی سے چائے پی رہے تھے جب ایک پیٹی افسر فوکر کی طرف بڑھا، اس کے ہاتھ میں خط کا نیلا لفافہ تھا۔ انہیں ذرا حیرت ہوئی کہ فی زمانہ خط کون لکھتا ہے، جیبی ٹیلی فون ہماری زندگی میں آ چکا تھا اور خط فقط سرکاری یا کاروباری نوعیت کے ہوتے تھے۔ یہ خط عام ڈاک سے بھیجا گیا تھا اور اس کے پیچھے بھیجنے والے کے پتے پر صرف “بوبی” لکھا تھا۔ یہ کوئی ڈیڑھ ہفتے قبل جیکب آباد سے پوسٹ کیا گیا تھا۔۔۔ فوکر نے نہایت ناصبوری سے اسے کھولا۔
“فوکر!
یہ خط میں تمہیں عام ڈاک سے یہ یقینی بنانے کے لیے بھیج رہا ہوں کہ یہ خط تمہیں میری زندگی میں نہ ملے کیونکہ میں نہیں چاہتا کہ اب مجھے کوئی ایسا شخص روکے جس کی بات میں ٹال نہ سکوں جیسا کہ تم ہو (یا منگول جیسا شیطانی دماغ جس کی دلیل میں رد نہ کر سکوں) خدا حافظ میرے دوست!!
فوکر! مجھے مدت پہلے منگول نے کسی دانا کا قول سنایا تھا کہ اگر بنی نوع انسان کو ‘ایگزسٹنس’ کا کرب معلوم ہو جائے تو وہ خود اپنی نسل کو معدوم کر لے۔ مجھے یہ بات سمجھنے میں بڑی دیر لگی اور پھر میں نے جانا کہ ہم میں سے ہر شخص کسی سراب یا خود فریبی کے سہارے یہ وجود کی یکسانیت اور مشقت گزار رہا ہے۔ جب سراب چھٹ جائے یا خود فریبی سے نگاہیں بدل جانے کی ہمت پیدا ہو جائے تو انکشاف ہوتا ہے کہ ایگزسٹنس فقط بے معنی ہی نہیں بلکہ کتنی کربناک ابتلا بھی ہے۔ مجھے محبت نے عمر کے بتیس سال اس فریب میں رکھا۔ میں جب زندگی کی لایعنیت کا قائل ہو رہا تھا تب بھی محبت نے ہی مجھے یہ دلیل دی کہ محبت کے ہوتے ہوئے زندگی لایعنی ہو ہی نہیں سکتی۔
سیارہء زمین پر زندگی کا آغاز جس فطری حادثے کے نتیجے میں ہوا تھا، شاید وہ بھی محبت ہی کی کوئی صورت تھی، بہرحال محبت کو ہی حیات کا محور و مقصد سمجھا۔ صدف میں اتنی قابلیت نہیں تھی کہ وہ میری نظریاتی ہستی کا پندار ہلا دیتی لیکن پھر بھی منگول کی دلیلوں سے گہرا کام صدف کی بے رُخی اور بے اعتنائی نے کر ڈالا۔ وہ چھوڑ کر نہ جاتی تو میں اس فریب میں مزید عمر گزار دیتا اور پھر آخر عمر میں تو یونہی توہمات کے لئے ہماری زمین زیادہ نرم پڑ چکی ہوتی ہے مگر۔۔۔ اس نے، میری بیوی نے مجھے اس کی مہلت ہی نہ دی۔ وہ میرے بیٹے کو ساتھ لے کر چلی گئی اور مجھے اتنی بھیانک فراغت دے گئی کہ میں وجود کی لا یعنیت اور اُن تمام حقیقتوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر آمنے سامنے ہو گیا جو میں نے بڑی کوشش سے نظر انداز کی ہوئی تھیں۔
اُسے الزام نہیں دیا جا سکتا، اُس کا ذہن اگر اس امر کو تسلیم نہیں کرتا تھا کہ مجھے اُس سے بے پناہ محبت کیسے ہو سکتی ہے جبکہ میں شارقہ سے بھی کم و بیش اتنی ہی والہانہ محبت کرتا تھا تو وہ حق بجانب ہے! اُس کے لئے میں ایک بے وفا مرد تھا، محبت کا جھوٹا دعوے دار تھا اور ہرجائی! اور شارقہ کی نگاہوں میں اس سے بھی بڑا مجرم! علی بڑا ہو گا تو اپنے باپ کو اس بنا پر ناپسند بھی کرے گا! خیر اس سے کیا فرق پڑے گا۔
کاش اس وسیع و عریض کائنات میں میرا دل کہیں پورا آ سکتا!
مجھے مرتے ہوئے بس یہ اضطراب اور گھبراہٹ ہے کہ خدا، مذہب، وطن، ملت، ذات پات، رشتے، زندگی، خوشی، مسرت، دولت، ہر بُت ٹوٹ جائے، محبت کا بُت نہ ٹوٹے! میں اس بت کے ٹوٹنے سے پہلے خود کو پاش پاش کرنے لگا ہوں کیونکہ کسے خبر یہ میرے ہی ہاتھ سے گر کر ٹوٹ جائے! اور یہ گھبراہٹ کہ میں علی کو دوبارہ کبھی نہیں دیکھ سکوں گا!
میں خدا سے ملنے نہیں جا رہا۔۔۔ میں جانتا ہوں کہ کائنات اپنے زمان و مکان اور امکانات میں اتنی وسیع ہے کہ شاید اس کے بنانے والے کو اب اس سیارہء زمین کی اس مخلوق کے حال کی خبر تک نہ ہو! میں خدا کے وجود کا منکر نہیں ہوں بلکہ اس کے کرب کو سمجھنے کا دعویدار ہوں کہ وہ اس کائنات کو تخلیق کر کے کتنا اکیلا ہے! اس تنہائی کی اکتاہٹ نے اسے بے نیاز کر دیا ہے، ہر دوعالم سے بے نیاز۔۔۔ خیر اب میری بات کی بے ربطی اور ابسرڈٹی بڑھ رہی ہے کہ شراب اپنا کمال دکھا رہی ہے۔۔۔
منگول سے کہنا کہ وہ ہرگز پریشان نہ ہو، دس بارہ سال پہلے پنڈی کے ریلوے اسٹیشن پر اُس نے جو مجھے کہا تھا، ایلسیبائیڈیز، خدا نہ کرے ایسا ہو مگر تمہارا انجام خود کشی ہے۔۔۔ تو میرے اس انجام کا ذمہ دار وہ ہرگز نہیں ہے۔ وہ آدمی ہم تم جیسوں سے بہتر زندگی کا ادراک رکھتا ہے۔۔۔ اُسے میرے سلام کہنا۔
فوکر! تم سے جدا ہونا بہت مشکل لگ رہا ہے کیونکہ تمہاری (یہاں انگریزی کا کوئی لفظ تھا جو اسے سمجھ آیا نہ منگول کو) اور صحبت میری زندگی کا سرمایہ تھی۔ تمہاری سادہ لوحی اور مستقل مزاجی کتنی اچھی ہے کہ تم منگول اور میرے جیسوں کی صحبت میں بھی راستے سے نہیں اترے۔ اب میرے لیے لکھنا مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔
الوداع۔
نوٹ: ہو سکے تو میری تدفین پہ آنا اور مجھے خود قبر میں اتارنا۔ ابا جان سے کہنا، آپ کا بیٹا ہو کر میں کورٹ مارشل کی ذلت نہیں اٹھا سکتا تھا تبھی میں نے مرنے کے لئے آج کی تاریخ کا انتخاب کیا ورنہ چاردن بعد تو میری بتیسویں سالگرہ تھی!
بوبی ”
اشفاق کی آنکھوں سے آنسو ٹپک رہے تھے کیونکہ وہ بوبی کے کسی فلسفے سے متفق تھا نہ قائل۔ اسے یقین تھا کہ بوبی غلط تھا۔ اس نے اپنا بہترین دوست کو کھو دیا تھا! اُس نے وہ خط منگول کی طرف بڑھا دیا جس کا ڈکشن بعینہٖ ویسا ہی تھا جیسا منگول کی گفتگو اور دلائل کا ہوا کرتا تھا۔ اس نے خط پڑھ کر ایک طرف رکھا اور سگریٹ سلگا لی۔ فوکر کچھ نم آنکھوں سے خلا میں گھورتا رہا تا آنکہ اسے احساس ہوا کہ وہ کینٹین پر بیٹھے تھے اور کتنے سیلر سپاہی اسے ٹکٹکی باندھے دیکھے جا رہے تھے۔ فوکر نے اپنی کار کی چابی منگول کو تھمائی اور وہ شہر کی طرف نکل گئے۔
اس عرصے میں اشفاق اور منگول اکثر اکٹھے رہتے مگر بات بہت کم کیا کرتے تھے۔ اُسے یوں لگا جیسے وہ منگول سے دور کھنچتا چلا جا رہا تھا، وہ نجانے اسے بھانپ گیا یا کیا، وہ بھی آہستہ آہستہ دامن تہی کرنے لگا۔ مگر پھر وہ دونوں اس کے ایک دو ماہ بعد ملے تو بڑے تپاک سے ملے۔ وہ دونوں ائر پورٹ پر کیپٹن جمی نٹ بولٹ والا کو رخصت کرنے والے طائفے میں شامل ہونا چاہتے تھے لیکن اشفاق کی منحوس کار ناتھا خان کے پُل کے عین اوپر خراب ہو گئی۔ جب تک وہ ائرپورٹ پہنچ سکے، وہ صرف جمی سے بغلگیر ہو کر خدا حافظ کہہ سکے۔ بعد میں سُنا کہ وہ جرمنی بیگم کے ساتھ ہی مستقل رہ رہے تھے۔ انہی دنوں منگول نے پیٹی افسر کے عہدے پر ترقی کی پیشکش مسترد کی تو قاعدے کے مطابق اسے بھی ریٹائر ہونا تھا۔ وہ اپنی کاغذی کارروائیوں میں مصروف ہو گیا اور فوکر اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں، کیونکہ اسے بھی متوسط کارکردگی کی وجہ سے فلائنگ سے گراؤنڈ کر کے ایک ٹریننگ یونٹ میں بھیج دیا گیا تھا۔
اشفاق کا منگول کو الوداعی عشائیہ دینے کا ارادہ بنا تو یونٹ کے مذہبی تعلیمات کے انسٹرکٹر اور اشفاق کے دوست لیفٹیننٹ کمانڈر وقاص نے بھی دلچسپی ظاہر کی کیونکہ وہ بھی سپاہیوں میں مقبول تھے اور منگول کے تمغہ ء بسالت کی بڑی قدر کرتے تھے۔ فوکر نے انہیں ہمراہ لیا، ادھر سے اسکواڈرن لیڈر شکیب اور لیفٹیننٹ شیر علی بھی آ گئے اور وہ منگول کی بارک پہنچے، اسے ساتھ بٹھایا اور شہر کے ایک اچھے ہوٹل جا دھمکے۔
منگول بڑا تازہ دم تھا اور چہک چہک کر باتیں کر رہا تھا۔ اُسے کھانے پینے کی ضیافتوں کا سوشل پہلو پسند تھا کھانے کے میز پر خوب گپ شپ رہی۔
معزز میزبانوں میں لیفٹیننٹ کمانڈر وقاص سینیئر ترین تھے، ان کا تعلق نظامت تعلیماتِ اسلامی کی برانچ سے تھا اور کسی بڑے دینی مدرسے کے فارغ التحصیل عالم بھی تھے۔ ان کی جو شامت آئی تو پوچھ لیا کہ نیوی کے ماحول میں بیس سال سے زائد وقت گزارا، آپ کو کچھ ناپسند بھی آیا؟ منگول نے بریانی کا بھرا چمچ اور کانٹا ہاتھ سے رکھ کر بڑے مدبرانہ انداز میں سب کے پسینے چھڑا دیئے۔
“سر یہاں کے ماحول میں ریاکاری کی حد تک مذہبی رنگ مجھے سخت بُرا لگا۔”
وقاص کی تلملاہٹ دیدنی تھی مگر ایک کھسیانی ہنسی میں اڑا گئے اور فوکر کی مداخلت سے کسی اور موضوع پر بحث چھڑ گئی۔ منگول نے ریٹائرمنٹ پر ملنے والی ایک سال کی رخصت کراچی میں گزارنے کا فیصلہ کیا تو اشفاق کو کچھ طمانیت ہوئی کہ ملتے رہا کریں گے مگر وہ تو اس کے بعد ایسا غائب ہوا کہ چھے ماہ بعد کہیں فوکر کو فون کیا اور بتایا کہ اس نے موبائل ٹیلیفون لے لیا ہے اور رابطہ رہے گا۔ اس کے بعد پھر غائب۔ سال ہونے کو آیا تو ایک دن اس کا فون آ گیا۔
“فوکر! کیسے ہو، یار میں ایک مصیبت میں پھنس گیا ہوں، کچھ کر سکتے ہو؟”
اس کے لہجے میں تو کوئی گھبراہٹ نہ تھی مگر اشفاق نے گھبرا کر پوچھا کہ اسے کیا مدد درکار تھی؟ قضیہ یہ تھا کہ موصوف ایک سال سے یہاں پارسیوں کے کسی کالج میں بی ایس آنرز کے طلباء و طالبات کو ہسٹری کا اختیاری مضمون پڑھا رہے تھے اور بڑے ہردلعزیز پروفیسر تھے، کیا لڑکے کیا لڑکیاں، سب ان کے علم کے گرویدہ تھے، اوپر تلے سبھی کالج انتظامیہ اس کی کارکردگی سے خوش تھی۔
“خدایا، کسی لڑکی کا معاملہ نہ ہو!” اشفاق نے سوچا۔ دراصل حال ہی میں انکشاف یہ ہوا تھا کہ موصوف کی اپنی ایم اے ہسٹری کی ڈگری جعلی تھی۔ اور صرف یہی نہیں بلکہ یہ انکشاف سچ تھا اور منگول نے اس کا فوری اعتراف کر لیا تھا۔ یعنی سپاہی رینک میں بی اے کر لینے کے بعد آنجناب نے فقط اپنی وسعتِ مطالعہ کی بنا پر دنیائے دیگر کو یہ داؤ لگائے رکھا تھا، پہلے پہل زبانی دعویٰ تھا، بعد میں بوبی کی مہارت سے جعلی سند بھی چھاپ لی گئی تھی، فوکر کو ہمراز نہ بنایا گیا۔
خیر، اشفاق نے ایک جاننے والے پولیس افسر کو ہمراہ لیا اور پرنسپل صاحب سے جا کر منت سماجت کی اور اس کا پنڈ چھڑایا اور اسے مشورہ دیا کہ فوراً کراچی چھوڑ کر واپس صوبہ سرحد چلا جائے۔ جس روز اسے ریلوے اسٹیشن پر رخصت کرنے آیا تو وہ بڑا فکرمند نظر آ رہا تھا۔
“فوکر، مجھے لگتا ہے کہ تمہیں اب شادی کر لینی چاہیے!” اُس نے سنجیدگی سے کہا۔
“ہاں شیرانی صاحب۔۔۔ کالج سے نکلتے ہوئے میں نے آپ کو منگنی کی تقریب کی تصویریں دکھائی تھیں ناں۔۔۔ ہونے والی ہے شادی۔ آپا کا اصرار بہت بڑھ گیا تھا اور مجھے بھی آپ کے جانے کے بعد لگا کہ زندگی میں اب کافی بوریت آ چکی ہے۔۔۔ یا ٹھہراؤ کہہ لیں۔ سو اس میں کچھ بُرا ہی ہو مگر نیا ہو۔ میں نے ہاں کر دی ہے۔ لیکن منگیتر صاحبہ کسی اور موڈ میں ہیں اسے فوجیوں سے چڑ، بلکہ نفرت ہو چکی ہے” فوکر نے ہنستے ہوئے کہا تو منگول بھی ہنسا۔ اس کی منگیتر میڈیا کے شعبے سے وابستہ تھی اور یہ چڑ سمجھ آنے والی تھی۔
” اُسے سمجھانا میرا کام ہے۔ صاعقہ بہت اچھی لڑکی ہے، اگرچہ عمر میں تم سے کچھ زیادہ ہی چھوٹی ہے مگر موزوں رہے گی تمہارے لیے!” منگول کی بات پر وہ چونکا۔ اسے فوکر کی منگیتر کا نام بھی معلوم تھا اور عمر بھی۔ پتہ چلا کہ وہ بی ایس میں اس کی شاگرد رہ چکی تھی مگر کالج والی ملاقات میں شاید بتانے کا محل نہ تھا۔ خیر آنے والے دنوں میں وہ منگول کی ثالثی کے بغیر ہی راہ راست پر آ گئی۔
شادی کے بعد کی زندگی اگرچہ بہت دلچسپ یا قابلِ ذکر نہ تھی مگر اشفاق کی مستقل مزاجی کی بدولت بہت ناگوار یا مشکل بھی نہ تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت دن نہیں ہوئے جب اشفاق کو سرحد میں بھرتی مہم کے لیے جانے کا موقع ملا تو لامحالہ طور پر منگول سے ملاقات ایک لازمی امر تھا۔ اشفاق اس سے ملنے کا ارادہ کرتے ہی اس سے ملنے کے لیے بےتاب ہو گیا حالانکہ رابطے نہ ہونے کے برابر رہ گئے تھے مگر ان کی دوستی عجب ہی تو تھی۔ اسے اچانک احساس ہوا کہ بوبی کی موت اور منگول کی ریٹائرمنٹ کے بعد وہ دوستی اور رفاقت کے حقیقی ذائقے سے محروم ہو گیا تھا۔ ساتھی افسران ہر لحاظ سے مشفق اور بامروت تھے لیکن یوں لگتا تھا کہ ان کی موجودگی میں اسے کوئی چیز گھٹن کا احساس دلاتی تھی۔۔۔ وہ گھٹن جو سپاہی سے افسر بننے والے ہر افسر کو باقی افسران دانستہ یا نادانستہ محسوس کراتے ہیں۔ منگول سے مل کر دل کا غبار جھاڑنا ضروری تھا۔
مانسہرہ کے پہاڑوں کے درمیان ایک بے نام سی پہاڑی پر کوئی سرکاری مواصلاتی تنصیب تھی جس پر منگول کو بطورِ سیکیورٹی گارڈ ملازمت ملی جو کہ اس نے فقط اس وجہ سے حاصل کی تھی کہ کہ اس کے گاؤں سے آدھے میل کے فاصلے پر تو ہو گی۔ اشفاق راستہ پوچھتا پہچانتا وہاں جا پہنچا اس کی کار پہاڑی کی چوٹی پر ایک پھاٹک نما جنگلے کے سامنے رُکی، منگول پہلے ہی منتظر تھا۔ چھے سال بعد ملاقات کے خیال سے اشفاق قدرے پر جوش تھا کیونکہ جب سے وہ شناسا ہوئے تھے سال بھر سے زیادہ کبھی ملاقات میں وقفہ نہ ہوا تھا۔ ان چھ سالوں میں فون پر رابطے بھی فقط احوال پرسی کی حد تک تھے جن کی روشنی میں اسے یہ پتہ چلا تھا کہ منگول کا بڑا بیٹا میٹرک کے بعد گھر سے باغی ہو گیا تھا اور ہمیشہ کے لیے پشاور چلا گیا تھا جہاں کبھی کبھار کوئی نوکری، مدام آوارگی اور مستقلاً چرس اور شراب نوشی کے سوا اسے کوئی کام نہ تھا۔ منگول نے اسے عاق تو نہ کیا مگر اس سے لاتعلق ضرور رہتا تھا البتہ وہ کبھی کبھار گھر آ نکلتا تو منگول اسے محبت سے ملتا تھا۔ چھوٹا بیٹا نا صرف محنتی اور لائق نکلا بلکہ اب کسی معمولی سی نوکری کے ساتھ ساتھ یونیورسٹی کی تعلیم تک پہنچ چکا تھا۔ منگول کی شادی فوجی زندگی کے دوسرے سال میں ہو گئی تھی جب وہ اٹھارہ سال کا تھا اور اس کی بیوی چودہ سال کی تھی۔ زندگی اس پر جیسی بھی گزری تھی، اس کی بیوی اس سے بے پناہ محبت کرتی تھی، اَن پڑھ تھی مگر ہزاروں پشتو اشعار اسے ازبر تھے جو وہ منگول کے ہجر میں گنگناتی تھی۔ اب وہ خوش تھی کہ اس کاسرتاج ہمیشہ اس کے ساتھ رہے گا۔ اس کا نام شگوفہ بی بی تھا اور بھلے وقتوں میں بوبی اور اشفاق اس نام سے اسے خوب چھیڑا کرتے تھے۔ جب فوکر پہنچا تو منگول پھاٹک کے تالا لگا رہا تھا۔ اشفاق کو دیکھتے ہی خدا جانے پشتو میں کیا نعرہ لگایا اور اس کی کار کا دروازہ کھول کر اس سے بغلگیر ہو گیا۔ وہی مضبوط جسم، چہرے پر صحتمندی کی سرخی، پہلے سے زیادہ جاندار مسکراہٹ مگر آنکھوں وہ دیرینہ ذہانت دم توڑتی نظر آ رہی تھی۔ ڈاڑھی رکھ لینے کی وجہ سے وہ منگول نہیں بلکہ کوئی آزردہ حال برمی مسلمان لگ رہا تھا۔ سیکیورٹی گارڈ والی ملیشیا شلوار قمیض پر سبز فوجی ویب بیلٹ کی وجہ سے واضح ہورہا تھا کہ اس کا جسم اب بھی تنو مند تھا اور فربہی کی طرف مائل نہیں ہوا تھا۔ پھاٹک کے ساتھ ایک بظاہر کمزور سا اور بدرنگ بھورا گھوڑا بندھا تھا جس پر ایک خستہ حال زین کسی گئی تھی۔ منگول نے فوکر کو کار پر اس کے پیچھے پیچھے آنے کا کہا اور وہ خود گھوڑے پر سوار ہو گیا۔ وہ بے ساختہ مسکرادیا۔ وہ اپنی چونکا دینے والی عادات سے باز نہیں آیا تھا۔ اشفاق نے گھوڑے کی ظاہری حالت پر افسوس کیا کہ منگول کی انفرادیت کی خواہش میں یہ بیچارہ اس کے ہاتھ سستے داموں آ گیا ہو گا اور اب اسے کار کے پیچھے ذلیل ہونا پڑے گا۔
دوسرے وہ یہ سوچ رہا تھا کہ اسے منگول کا نام دینے کی بوبی کی تجویز کچھ بے جا بھی نہ تھی۔ شجاعت سے قناعت تک، ہر صفت منگولوں والی تھی ہی، اب پتہ چلا کہ موصوف شہسواری بھی جانتے ہیں۔ اُس نے جو گھوڑے کو ایڑ لگائی، اشفاق گھوڑے کی رفتار سے دنگ رہ گیا۔ پہاڑی راستوں پر اس کی محتاط ڈرائیونگ اس گھوڑے کا تعاقب کرنے میں بہت پیچھے رہ گئی۔ مگر خیر گزری کہ پانچ دس منٹ میں ہی وہ ایک بڑے ڈرائیور ہوٹل کے سامنے رکے جو شاہراہ پر واقع تھا۔ منگول نے گھوڑا باندھا اور اشفاق کار سے اُترا۔ وہ ایک بار پھر بغلگیر ہو کر ہنسنے لگے۔
پشتو میں ہوٹل کے بیرے کو لمبی چوڑی ہدایات دینے کے بعد منگول نے اشفاق کو ایک بڑی چارپائی پر بیٹھنے کی دعوت دی۔ رسمی احوال پرسی ہونے لگی، پھر بوبی کا ذکر چھڑا، پھر اس سے باتیں نکلتی چلی گئیں۔
“زندگی کی جس بے مقصدیت اور رائیگانی کے احساس سے آپ کو گھبراہٹ ہوتی تھی شیرانی صاحب، اُس کا حال سُنائیں!”
فوکر نے چھیڑا۔ اس پہ منگول نے ہاتھ سے پانی کا گلاس رکھا اور وہ جناتی قہقہہ لگایا جو اس کا ٹریڈ مارک ہوتا تھا اور بوبی کی موت کے بعد منگول نے وہ قہقہہ کبھی اچھالا تھا، نہ ہی اس قہقہے کی کمی کسی نے محسوس کی تھی۔۔۔
” سب سے پہلی بات!” منگول نے اپنی مونچھ سے پانی کے قطرے پونچھتے ہوئے کہا۔
“تمہارا عرفی نام فوکر ہے اور چھ سات سال سے ویسٹ لینڈ کے ہیلی کاپٹر اڑا رہے ہو، پہلے تو اپنی ذات کو رائیگانی سے بچاؤ!” منگول اپنی ہی اسی بات پر پھر کھل کے ہنسا اور اشفاق نے اس قہقہے کا ساتھ ایک کھسیانی سی ہنسی کے ساتھ دیا۔
“فوکر! یہ میری، شیرانی کی یا جسے تم دونوں منگول کہتے ہو، کی زندگی کی کہانی ہی نہیں بلکہ وہ بوبی ہو، نٹ بولٹ والا ہو یا۔۔۔ بے شک مدر ٹریسا ہی کیوں نہ ہو۔۔۔ سب کی زندگی ایک حسرت ناک رائیگانی ہے۔۔۔ وحدتِ تاثر سے محروم ایک کہانی جس کے بالآخر کوئی معنی نہیں ہوتے، کوئی پلاٹ نہیں ہوتا۔ سو یہ کہانی فقط سننے سنانے کے لیے ہوتی ہے ناکہ اس فکر میں گھلنے کے لیے کہ اس کا مورل کیا ہے، پلاٹ کیا ہے؟ دیکھو ارسطو، سقراط، موسیٰ، بُدھا اور مشرق کے دیگر پیغمبروں نے جو اونچے آدرش دیئے، وہ چند قدم ہمارے ساتھ چلے بھی تو کیا! آج پھر ہم نے سیارۂ زمین زندگی کے قابل نہیں چھوڑا اور ‘انشاءاللہ’ فنا ہونے والے ہیں! یہ جو چہار روزہ زندگی کا ڈرامہ انسان رچاتا ہے، مرنے کے بعد اس کی اسٹوری ‘ہسٹری’ کے حوالے کر دی جاتی ہے، عام آدمی کی کہانی فیملی ہسٹری کے دفتر میں جاتی ہے۔
مین کائنڈ ہسٹری کا دفتر جو کسی زمانے میں بڑا مقدس دفتر تھا جسے بڑے عظیم دماغوں نے سنبھال رکھا تھا، جسے میں بنی نوع انسان کی کولیکٹو میموری کہتا ہوں۔۔۔ یہ میموری کرپٹ ہونے جا رہی ہے اور اب ہماری انفرادی زندگی سے لے کر اجتماعی زندگی کے قصے، سب بے معنی ہو گئے ہیں سو اب اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ ہم اس رائیگانی کا دکھ منائیں۔۔۔ یا میں مناؤں؟ میری رائیگانی اُس عظیم رائگانی کا ادنیٰ سا حصہ ہے۔۔۔ مرگِ انبوہ جشنی دارد۔ جب ساری بنی نوع انسان رائیگانی کے گڑھے میں گر گئی ہے تو میں کیوں نہ اس غوطے سے لطف اندوز ہوں؟ وہ خوف اب فقط فنا کے خوف سے بدل گیا ہے لیکن یہ بھی تو ایک لایعنی سا خوف ہے۔ یہ سیاہ وردی اور یہ بھورا گھوڑا میرا وقت گزارنے کے لیے کافی ہے اور ہاں! موت تک کے عرصے کے لیے میں نے ایک اور مشغلہ اپنا لیا ہے!” کھانا چنا جا رہا تھا، اس جملے کے بعد منگول نے تھوڑا توقف کیا۔” کیا مشغلہ؟” اشفاق نے تجسس سے پوچھا۔ شاید وہ پھر چونکانا چاہ رہا تھا۔
“مذہب، خُدا، عبادت! کیسا مشغلہ ہے!” منگول نے مسکرا کر کہا،
“فوکر! میں خدا کے وجود کا پوری طرح منکر ہی کب تھا جو اس کا نیم قائل ہونے میں اتنا وقت لگتا! کچھ ہم بُڈھوں کو موت کے ڈر، فنا کے ڈر سے لڑنے کے لیے ایک بُری بھلی لاٹھی بھی چاہیئے ہوتی ہے ناں۔۔۔ سو میں نے سوچا کہ خدا سے ہی چند باتیں ہو جایا کریں! عدم کی طرف رواں بُڈھے کی بات عدم میں بیٹھے اکیلے بُڈھے سے بہتر کون سمجھ سکتا ہے! ” یہ کہہ کر وہ پھر ہنسا۔
” تو پھر پُوجا کرتے ہیں، نماز پڑھتے ہیں یا کوئی آگ بھڑکا کر اوِستا پڑھتے ہیں؟ اشفاق نے بھی چھیڑا۔
“نہیں نماز پڑھتا ہوں! مسلمانوں والے خدا سے ناتا جوڑا ہے کیونکہ ہم سرحد والوں کو وہی خُدا نزدیک پڑتا ہے!” منگول کے اس جملے پہ ان دونوں نے ایسا بے ساختہ قہقہہ لگایا کہ ہوٹل پہ آس پاس بیٹھے لوگ بھی چونک گئے۔ وہ دیر تک اسی بات پر ہنستے اور کھانا چباتے رہے۔
“فوکر! میں اگر متشکک کی بجائے ملحد بھی ہوتا تو لوَٹنے کے فیصلے پر لوٹ کر اسلام کی طرف ہی آتا اور جمی نٹ بولٹ والا ملحد ہوتا تو لوٹ کر زرتشت کے دین کی طرف ہی آتا!” منگول سنجیدہ ہوا اور پھر بولنے لگا،
“فوکر سارے مذاہب برابر سچے ہیں لیکن ہم دراصل عمر بھر چند بنیادی تعصبات کے ساتھ وفادار رہتے ہیں۔ بظاہر ہمارے نظریات ہمارے مطالعے کے ساتھ ساتھ بدلتے رہتے ہیں اور ہم تعصبات کی ایک حسبِ مقدور موٹی تہہ اپنے اوپر سے جھاڑ کر پرے پھینکتے ہیں مگر کچھ تعصبات عمر بھر ہمارے ساتھ رہتے ہیں۔۔۔
مشرق ہو یا مغرب، اپنے ظاہری فکری عروج پہ ہیں لیکن تعصب ان دونوں سمتوں میں ہمیشہ سے بڑھ کر ہے کیونکہ انسان اپنی شعوری بلوغت اور دانائی کا عروج کئی صدیاں پہلے دیکھ چکا ہے اور اب ذہنی طور پر اپاہج، غبی، سطحی سوچ والا اور متعصب ہے!”
” لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اہلِ مغرب ہم سے کہیں کم متعصب ہیں۔۔۔ آپ مذہبی عصبیت کو بھی دیکھ لیں۔۔۔ اس معاملے میں۔۔۔”
اشفاق نے موقع پاتے ہی اپنا سوال داغ دیا
” نہیں فوکر، اہلِ مغرب کے تعصبات مذہب کے معاملے میں اور نسل کے بارے میں ہمیشہ ان کے تعصبات پر غالب رہے ہیں! وہ مشرق کے پر اسرار انسان کو نہیں سمجھ پاتے تو اس کے پیغمبروں اور ادیان کی اہانت کرکے اپنی جہالت چھپاتے ہیں!” وہ رکا اور پانی کا گھونٹ پینے لگا۔
“خیر، تعصب ایک حقیقت ہے، اس سے فرار تو ممکن نہیں لیکن اسے خوشنما لبادے پہنائے جا سکتے ہیں” پھر وہ دیر تک تعصب، محبت، دولت اور تقدیر کے موضوع پر فلسفے بگھارتا رہا جس میں تقدیر والا فلسفہ اشفاق کو سب سے مشکل لگا بلکہ اس کے اوپر سے گزر گیا۔
وہ کھانا کھا چکے تو قہوے کے پیالوں پر یہ گفتگو جاری رہی۔۔۔ اب شاید زندگی کی بے وقعتی کا موضوع چل رہا تھا کہ انہیں اندازہ ہوا کہ شام ڈھل رہی ہے۔۔۔ اشفاق نے اجازت چاہی مگر اُس نے جیسے نظر انداز کر دیا اور کسی اچانک چل جانے والی بندوق کی طرح گویا ہوا۔۔۔
“عورت خدا کی سب سے دلچسپ تخلیقی شرارت ہے۔۔۔ نعوذبااللہ (قہقہہ) مگر دیکھو اُس نے ایک ایسا نازک آبگینہ جو بخدا مرد سے برتر تخلیقی کارنامہ ہے، بنا کر آدمی کے پہلو میں رکھ دیا۔
مگر مرد نہ تو اس پراسرار آبگینے کو سمجھنے کی صلاحیت آج تک حاصل کر سکا نہ اسے پا لینے کی اور نہ اسے چھُو سکنے کی۔۔۔ جب بھی چھوا، یہ آبگینہ ٹوٹ گیا۔۔۔ مرد کو ہر طرح کا ہنر سکھایا گیا مگر یہی ایک ہُنر مرد کو نہ آیا اور وہ نالائقی، نااہلی کے احساس میں پاگل ہوا پھر رہا ہے اور عورت کے اُلٹے سیدھے نام رکھتا ہے۔۔۔ احمق۔۔۔ سو سمجھدار مرد وہ ہوتے ہیں جو عورت کو فقط ایک بیگانہ روی کی نگاہ سے دیکھتے، اُسے سمجھنے کی احمقانہ کوشش سے پرہیز کرتے اور اس سے غیر مشروط محبت کرتے ہیں۔۔۔” اشفاق کے چہرے کے تاثرات دیکھ کر وہ زور سے ہنسا، پھر خاموش ہو گیا۔ چند لمحے وہ دونوں خاموش بیٹھے رہے اشفاق یہی سوچ رہا تھاکہ” آبگینہ کسے کہتے ہیں؟ ہاں! نازک شیشہ کا ظرف! ایک تو یہ مردود اب بھی اتنی مشکل اردو بولتا ہے!”
“ارے! تم نے یہ تو بتایا ہی نہیں کہ میری شاگرد اور بھابی کیسی ہے؟” وہ چونکا اور اٹھتے ہوئے پوچھا۔
“صاعقہ میری توقع سے اچھی بیوی ثابت ہوئی ہے، وہ بہت خوش ہے اور میرا بہت خیال رکھتی ہے مگر۔۔۔” اشفاق کچھ کہتے کہتے خاموش ہو گیا۔
“فوکر! میں اس حوالے سے ایک پیشن گوئی کروں؟” اسی اثنا میں فوکر اس سے معانقے کرنے کے بعد اپنی کار میں بیٹھ چکا تھا۔
“نہیں! شیرانی!! پلیز!!” اشفاق نے بوکھلا کر اُسے ٹوکا تو وہ مسکرا دیا لیکن اشفاق نجانے کیوں اتنا بدحواس ہو گیا تھا۔ انہوں نے خدا حافظ کے اشارے کئے اور منگول بھی اپنے گھوڑے پر سوار ہو گیا۔ اشفاق نے کار اسٹارٹ کی تو وہ اپنے گھوڑے کو ایڑ لگا چکا تھا اور گھوڑا سرپٹ دوڑتا ہوا سڑک سے پرے ایک کچی پگڈنڈی پر شفاف قسم کی پہاڑی گرد اڑاتا ہوا دوڑا جس رہا تھا۔ اشفاق دیر تک اُسے دیکھتا رہا تاآنکہ وہ نگاہوں سے اوجھل ہو گیا۔ اس نے بھی گاڑی سڑک پر ڈال دی۔
“میں آئندہ کبھی منگول سے نہیں ملوں گا۔۔۔
زندہ رہنے کے لیے ایسے چونکا دینے والے کرداروں سے دور رہنا ضروری ہے جو حیرت کی کہانیوں سے نکلے ہوتے ہیں انہی کہانیوں میں رہ جاتے ہیں۔ حقیقی زندگی سے ان کا کیا تعلق ہے؟ حقیقی زندگی سے ان کا کیا تعلق ہے؟ حقیقی زندگی؟ بکواس لفظ ہے یہ بھی لیکن زندگی تو ایک اٹل حقیقت ہے۔۔۔ سو زندہ رہنے کے لئے۔۔۔ ”
واپسی کے سفر کے ساتھ ساتھ سوچوں کا ایک نیا ہجوم اس کے ہمراہ ہو لیا۔۔۔
(ایبٹ آباد)
10 اگست 2022ء