Laaltain

غیر مطبوعہ ناولٹ: اندھیرا، موت اورمسیح سپرا (مشرف عالم ذوقی)

5 اگست، 2020

 

باب اوّل

 

[divider](1)[/divider]

[dropcap size=big]زندگی[/dropcap]

آپ میں سے کچھ نہ کچھ خالی کرجاتی ہے۔ پیدائش سے موت تک یعنی آخری سانس تک روح کا باقی اثاثہ بھی آپ سے چھین لیتی ہے اور سرد جسم دیکھنے والوں کے لیے چھوڑ جاتی ہے۔ اس سرد جسم کا قصہ یوں ہے کہ کچھ دیر تک یونہی لاوارث چھوڑ دیجیے تو مکھیاں بیٹھنے لگتی ہیں کچھ دیر اور چھوڑ دیجیے تو چیونٹیاں سوراخوں سے نکل کر خوراک بنا لیتی ہیں۔ اور کچھ ہی گھنٹوں میں اس سرد جسم کی بدبو پھیلنے لگتی ہے جو کچھ دیر پہلے یا کچھ ماہ قبل جب زندہ تھا تو خواہشات کا مجسمہ تھا۔ اس مجسمے میں تپش بھی تھی اور خواہش بھی۔ روح کا اثاثہ چلا گیا تو ایک بے حس جسم، جس پر کوّے بھی منڈرائیں گے اور گدھ بھی۔ اور مسیح سپرا کے لیے یہ معاملہ یوں دلچسپ تھا کہ اس نے خو د کو زندگی میں ہی مردہ تصور کرلیا تھا۔ وہ تین زبانیں جانتا تھا۔ اردو، ہندی اور انگریزی۔ اسی لیے وہ سوچتا تھا اور اس وقت سوچتا تھا جب اس نے خود کو مردہ تصور نہیں کیا تھا کہ انگریزی میں موت کو ڈیتھ کہا جاتا ہے۔ ڈیتھ سے ڈ نکال دیجیے تو ایٹ یا کھا نے کے لیے اُمنگ کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ یعنی پیدا ہوتے ہی موت آپ کا شکار کرنے یا آپ کو کھانے بیٹھ جاتی ہے۔ ہندی میں موت کے لیے مرتیو کا لفظ ہے۔ آپ م نکال دیجیے تو ریتو کی موسیقی پیدا ہوتی ہے۔ مگر یہ موسیقی اس قسم کی ہے جو آپ کو اداسی اور موت کی طرف لے جاتی ہے۔ یعنی موت کا موسم۔ موت قریب ہے۔ آپ بدنصیب ہیں کہ پیدا ہوگئے۔ اب ساری زندگی مرتیو کی رتیو کا انتظار کیجیے۔ اردو میں مرنا سے م نکال دیجیے تو یہ احساس ہوتا ہے کہ آپ رورہے ہیں۔ اور یہ رونا زندگی کی صداقت ہے۔ پیدائش سے موت تک انسان روتا ہی ہے۔ موت سے م نکال دیجیے تو بھوت کا تصور پیدا ہوتاہے۔ یعنی انسان پیدائش سے موت تک بھوت رہتا ہے۔ ہندی میں بھوت ماضی کو کہتے ہیں۔ یعنی انسان زندگی نہیں گزارتاہے بلکہ ایک طرح سے بھوت کال یا ماضی میں ہوتا ہے جہاں تاریخ کے گڑے مردے ہوتے ہیں اور یہ مردے زندہ انسانوں کے ساتھ ساتھ چلتے رہتے ہیں۔

مسیح سپرا کو موت کا خیال کسی سایے کی طرح نظر آتا تھا، ایسا سایہ جو سفید لباس میں معلق ہو یا نیلے آسمان پر چلتے سفید بادلوں میں وہ موت کا عکس دیکھا کرتا تھا۔ اور جب اس نے سوچ لیا کہ وہ مرچکا ہے تو سب سے پہلے اسے سرد خانے میں کام کرنے والے ملازم مجومدار کا خیال آیا۔ ایک زمانہ تھا جب وہ مجومدار سے کئی بار ملا۔ اور مجومدار سردخانہ کے بارے میں بہت دلچسپ باتیں بتایا کرتا تھا۔ جیسے مجومدار نے بتایا کہ مردے خاموش رہ کر باتیں کرتے ہیں اور ان کی باتیں اتنی مزیدار ہوا کرتی ہیں کہ سرد خانے کے آہنی گیٹ سے باہر نکل کر، باہر کی دنیا کو دیکھنے کا خیال بھی اسے ناگوار گزرتا ہے۔ یہ مجومدار نے ہی بتایا کہ سرد خانے کے آہنی گیٹ سے باہر جو دنیا ہے، وہ بھی ایک مردہ خانہ ہے۔ وہاں شور ہے، سازشیں ہیں اوریہاں تنہائی۔ کوئی سازش نہیں۔ مجومدارنے ہنستے ہوئے بتایا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دیکھویہ سینگیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔’

‘ سر میں ؟’

‘ لو، سینگیں کہاں ہوتی ہیں؟’

‘ لیکن سر میں سینگیں۔ ۔ ۔ ۔ نظر تو نہیں آتیں۔’

‘ مجھے آتی ہیں۔ سینگیں چیختی بھی ہیں۔’

‘ لیکن سینگیں کہاں سے آئیں؟’
‘ٹھنڈ سے۔’

‘ٹھنڈ سے ؟’

‘ لاشوں سے او ر ان کی باتوں سے۔’

مسیح سپرا کے لیے اس کی بات پر یقین نہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں تھی۔ بیسیوں بار وہ ایسی سینگیں اپنے سر پر بھی محسوس کرچکا تھا، جب اس کی بیوی زندہ تھی اور کسی بات پر غصہ ہوجاتی تھی تو اچانک اس کے سر پر بھی سینگیں پیدا ہوجاتی تھیں۔ وہ ہنستا تو مرحومہ کے سر کی سینگیں اور بڑی ہوجاتی تھیں۔ پھر کچھ دیر میں یہ سینگیں غائب ہوجاتی تھیں۔ سڑک پر آوارہ گردی کرتے ہوئے کتنے ہی لوگوں کے سروں پر اس نے یہ سینگیں دیکھی تھیں۔ اس لیے مسیح سپرا کو مجومدار کی سینگوں میں کوئی زیادہ دلچسپی نہیں تھی، مگر مجومدار نے مردہ خانے کے بارے میں جو کچھ بتایا، اس کے تجسس میں اضافہ کرنے ک لیے کافی تھا۔

‘ زندہ یہی لوگ ہیں۔ جو باہر ہیں، سب مرے ہوئے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اسی لیے میں بھی زندہ ہوں، کیونکہ ان کے درمیان ہوں۔’

مجومدار ہمیشہ سفید کرتہ اور پائجامہ میں ہوتا تھا۔ سفید چادروں سے ڈھکی لاشوں کے درمیان ایک زندہ سفید لاش۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بقول مجومدار، دودھیا رنگ کے سفیدجمے پانیوں میں تیرتے اجنبی سیاح۔ ۔ ۔ ۔ ایک کولڈ اسٹوریج۔ ۔ ۔ ۔ سنگ مرمر کا سفید فرش۔ آہنی دروازہ کے کھلتے ہی ایک مختصرراہداری۔ رات میں مردے گفتگو کرتے ہوئے دروازے تک آکر ٹہلتے رہتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ اور دلچسپ یہ کہ چلتی پھرتی لاشیں موسم بہار اور موسم خزاں دونوں پر گفتگو کرتی ہیں اور جیساکہ اس نے سنا، موسم خزاں کا لطف یہ مردے زیادہ اٹھاتے ہیں۔ مجومدار نے یہ بھی بتایا کہ کئی بار اس کی ملاقات موت کے فرشتے سے بھی ہوچکی ہے۔ وہ کبھی بیل پر سواری کرتا ہوا آتا ہے کبھی عورت کی شکل میں جس کی آنکھیں بڑی بڑی اور چہرے پر سفید رنگ کا نقاب ہوتا ہے۔ سپرا کی دلچسپی ان باتوں میں اس لیے بھی نہیں تھی کہ اب وہ بھی خود کو مردہ سمجھ رہا تھا بلکہ اس کو یقین تھا کہ وہ مرچکا ہے اور گھر کو اصل مردہ خانے میں تبدیل کرنے کے لیے اسے کچھ انتظام بھی کرنے ہوں گے۔ گھر میں کل ملاکر چھ کمرے تھے۔ ہر کمرے میں دیوار پر گھڑیاں سجی تھیں۔ وقت رُک گیا تھا، اس لیے گھڑیاں بھی رُکی پڑی تھیں۔ مردوں کو وقت سے کیا کام۔ وقت سے کام تو زندوں کو ہوتا ہے اس لیے مسیح سپرا نے پہلا کام یہ کیا کہ ایک ہتھوڑا لیا اور گھڑیوں کے ٹکرے ٹکرے کردیے۔ پھر ان ٹکروں کو ڈسٹ بین میں ڈال آیا۔ مسیح سپرا نے گھر کی دیواروں کا جائزہ لیا۔ دیواریں بے رونق تھیں۔ سفیدی سیاہی میں تبدیل ہوچکی تھی۔ مردے چلتے ہیں، جیساکہ مجومدار نے بتایا تھا اور اس لیے گھر سے باہر نکلنے میں اسے کوئی پریشانی نہیں تھی۔ سپرا آرام سے باہر نکلا۔ سڑکوں پر ٹہلتا رہا۔ ٹریفک کو دیکھ کر اور سڑکوں پر چلتے ہوئے لوگوں کو دیکھ کر اسے ہنسی آرہی تھی۔ یہ لوگ کل نہیں ہوں گے۔ ان میں سے کوئی بھی نہیں ہوگاا ور یہ لوگ اپنی موت سے کس قدر بے خبر ہیں۔ سپرا نے شاپنگ کی اور گھر آگیا۔ سفید چادروں کا ایک بنڈل تھا، جو اس نے دیواروں پر سجانے کے لیے خریدا تھا۔ ایک ہالی وڈ کی ہارر فلم میں اس نے مردہ خانہ کی یہ تصویر دیکھ رکھی تھی۔ پورے گھر کو سفید چادروں سے ڈھک دیا گیا تھا۔ یہاں تک کہ کھڑکی، روزن کو بھی۔ گھر کے چھ کمروں میں سفید چادریں دیواروں پر چڑھاتے ہوئے اسے پانچ گھنٹے لگ گئے۔ ایک بار تو اسے ایسا لگا جیسے کوئی اور بھی ہے جو اس کے ساتھ کام میں شریک ہے۔ ہوسکتا ہے مرحومہ کی روح ہو۔ سفید سفے چادروں کے درمیان اب ایک دھندلکاطاری تھا۔ اسے ایسا محسوس ہوا جیسے ان سفید چادروں سے نکلنے والی دھند نے کمرے کو اپنے حصار میں لے لیا ہو۔ اس نے گھر کی ساری بتیاں بجھادیں۔ ہوا میں لہراتے سفید پردے تھے جو دیواروں پر جھول رہے تھے۔ کچھ دیر کے لیے مسیح سپرا زمین پر لیٹ گیا۔ اس نے آنکھیں بند کرلیں اور اچانک اس نے محسوس کیا، ایک عورت نقاب لگائے ہوئے اس کے کمرے میں داخل ہوئی۔ مجومدار نے اس عورت کو موت کا فرشتہ کہا تھا۔ سپرا کے اندر کہیں بھی خوف کا احساس نہیں تھا۔ بلکہ وہ آہستہ آہستہ بدبدا رہا تھا۔ وہ مردہ گھر میں ہے۔ او ر اب اسے اسی حال میں رہنا ہے۔ موت ہر حال میں زندگی سے بہتر ہے۔ موت آپ کے اندر سے احساس اور جذبات کا سمندر لے جاتی ہے۔ موت آپ کو بے نیاز اور خوش رکھتی ہے۔ مسیح سپرا کو کچھ ایسے جابر اور ظالم حکمراں بھی یاد آئے جو خود کو زندہ رکھنے کے لیے اور عمر بڑھانے کے لیے عجیب عجیب طریقے اپنایا کرتے تھے۔ برما کا ایک سابق حکمراں ڈولفن مچھلی کا خون پیتا تھا۔ چنگیز خاں کو جانوروں اور انسانوں کے خون کی مہک پسند تھی۔ کچھ ایسے بھی حکمراں تھے جو جوان اور کنواری لڑکی کو ہلاک کرکے، اس کے لہو سے غسل کیا کرتے تھے۔ مسیح سپرا کو حیرت تھی، ایک بے مقصد اور بد تر زندگی کے لیے خون پینا، غسل کرنا، عیاشی کرنا، سفر کرنا، آوارہ گردی کرنا، ان مشاغل کی کیا ضرورت ہے۔ ۔ ۔ ؟ اور اسی لیے پہلے دن جب مردہ ہونے کا خیال آیا تو اس نے اپنی پرانی خادمہ کو،جو اہلیہ کے انتقال کے بعد اس کی ضرورتوں کا پورا خیال رکھتی تھی، بلایا اور ڈرائنگ روم میں رکھا ہوا بڑا سا ٹی وی اور کچھ روپے اس کے حوالے کرتے ہوئے کہا، اب تم جاؤ اور آج سے، تم سے جو بھی جسمانی رشتہ تھا، اس کو ختم کررہا ہوں۔ سپرا جانتا تھا کہ یہاں جسمانی رشتے کا مفہوم وہ نہیں تھا، جو عام طور پر لیا جاتا ہے۔ اب وہ ایک مردہ دنیا سے وابستہ تھا، جہاں رشتے صرف روح کے ہوتے ہیں۔ برسوں پرانی خادمہ نے خوف سے اس کے چہرے کو دیکھا۔ جھک کر سر ہلایا۔ ایک آٹو والے کو بلایا اور ٹی وی کا ڈبہ لے کر چلی گئی۔ اب اس گھر میں تفریح کا کوئی سامان نہیں تھا۔ ویسے بھی مردوں کو تفریح کی ضرورت نہیں ہوا کرتی۔ اور سپرا کے لیے یہ خیال کافی تھا کہ وہ مرچکا ہے اور اس کا زندگی سے ہرطرح کا تعلق ختم ہوچکا ہے۔ بقول مجومدار وہ ایک انجانے جزیرے کا سیاح ہے اور اس کے چہار اطراف دودھیا نہر بہہ رہی ہے۔ اسے احساس ہوا،باہر کتے رورہے ہیں اور بلّیاں بھی۔ رونے کی ان آوازوں کا تعلق بھی موت سے ہے اور جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ بلّیاں اور کتے انسانوں سے زیادہ موت کی آہٹ کو محسوس کرنے کی حس رکھتے ہیں۔ مسیح سپرا ہر انسانی کیفیت سے باہر نکلنا چاہتا تھا۔ مگر جس وقت وہ لیٹا ہوا تھا اور خود کو موت کی آغوش میں محسوس کررہا تھا اور اس عورت کو جو موت کا فرشتہ تھی اور نقاب میں تھی، اس کو بھی قریب سے دیکھ رہا تھا، ٹھیک اسی لمحہ اس کے موبائل کی گھنٹی بجی اور اسے احساس ہوا کہ وہ اپنی پرانی خادمہ کو موبائل دینا بھول گیا۔ یہ انسانی تحفہ اسے آگے بھی پریشان کرسکتا ہے۔ کچھ دیر تک موبائل کی گھنٹی بجتی رہی۔ پھر گھنٹی خاموش ہوگئی۔ مسیح سپرا کو موت کی ان وادیوں میں بس ایک ہی بات کا خطرہ تھا کہ ریحانہ کے رشتے دار اس سے ملنے آسکتے ہیں۔ ریحانہ، اس کی اہلیہ، جس کی موت ایک ماہ قبل ہوئی تھی اور جس کے رشتے دار دور دراز علاقے میں کافی تھے۔ یہ رشتے دار کبھی بھی آسکتے تھے اور اسے موت کی وادیوں سے الگ ایک بیزار، بد مزہ اور خوفناک زندگی کے تجربوں میں واپس لاسکتے تھے۔ مسیح سپرا نے کروٹ بدلی۔ پھر اٹھ کھڑا ہوا۔ میز پر موبائل پڑا تھا اس نے موبائل پر یہ دیکھنا ضرور نہیں سمجھا کہ کس نے فون کیا تھا۔ موبائل آف کرنے کے بعد وہ ریوالونگ چیئرپر بیٹھ گیا۔ سفید سفید چادروں کے درمیان اس وقت وہ ایک مجسمہ تھا اور ریوالونگ چیئر کو ہلانے کی کوشش کررہا تھا اور بلا مبالغہ، ایسا کرتے ہوئے اسے سکون مل رہا تھا، پھر اس نے دیکھا کہ سفید چادروں کے درمیان سے ایک عقاب نکلا اور کمرے میں رقص کرنے لگا۔ وہ جنگلی بھیڑیوں کی آواز یں سننا چاہتا تھا۔ دوسرے ہی لمحے اس کے کانوں میں بھیڑیوں کے چیخنے کی آوازیں گونجنے لگیں۔ اب وہ خلا میں سفید گھوڑوں کو اڑتے اور قلابازیاں کھاتے ہوئے دیکھنا چاہتا تھا۔ سفید چادروں سے سفید گھوڑے برآمد ہوئے اور ہوا میں تیرنے لگے۔ اس نے ایک ہالی وڈ کی فلم میں سفید پروں کو پھیلائے ایک راج ہنس کو دیکھا تھا جو بادلوں کے درمیان اڑ رہا تھا۔ یہ منظر بھی زندہ ہوگیا۔ مسیح سپرا کو خوشی تھی کہ وہ موت کے انجان جزیرے میں داخل ہوچکا ہے اور محیرالعقل واقعات کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے اس نے شیش ناگ کاتصور کیا اور اچھل کر شیش ناگ پر بیٹھ گیا۔ ٹھیک اسی وقت دروازے کی بیل بجی۔ سپرا کو غصہ تھا کہ یہ انسان’موت’سے جینے بھی نہیں دیتے۔ وہ کرسی سے اٹھا۔ دروازہ کھولا۔ ۔ ۔ ۔ سامنے دودھ والا تھا۔ اس نے دودھ والے کا حساب برابر کیا۔ اور کہا۔

‘ اب یہاں کوئی نہیں رہتا۔’

‘ آپ جات ہو؟’

‘ اب یہاں کوئی نہیں رہتا۔’

مسیح سپرا نے چیخ کر کہا۔ دودھ والا گھبراکر دو قدم پیچھے ہٹا پھر سائیکل چلاتا ہوا نظروں سے اوجھل ہوگیا۔ مسیح سپرا نے دروازہ بند کیااور دوبارہ ریوالونگ چیئر پر آکر بیٹھ گیا۔ اسے احساس ہوا، کوئی چیز ہے جو چمک رہی ہے اور جس سے اس کا قریبی رشتہ بھی رہا ہے۔ اُف۔ ۔ ۔ اس نے دھیان سے دیکھا۔ پردے کے پاس اہلیہ کی ریڈیم کی تسبیح تھی، مرحومہ تسبیح ہمیشہ اسی جگہ رکھتی تھیں۔ اس سے ان کو سہولت ہوتی تھی۔ زندگی نہیں ہونے کے باوجود اپنی نشانیوں میں یاد رکھی جاتی ہے۔ جبکہ مسیح سپرا کی حقیقت یہ تھی کہ وہ زندگی سے وابستہ ہر شئے، پریشانی کو بھولنا چاہتا تھا۔ اس نے آنکھیں بند کیں اور خود کو ایک نیلی جھیل کے درمیان پایا۔ جھیل میں بطخ تیر رہے تھے اور پھر مسیح سپرا نے کرنل سدھو کو دیکھا۔ کرنل سدھو، جو ایک زمانے میں ان کے ساتھ جاگنگ کیا کرتے تھے۔ فوج سے ریٹائر ہوچکے تھے۔ گورے چٹے اور کیا جسم پایا تھا۔ لحیم شحیم۔ سب سے زیادہ دلچسپ ان کی باتیں ہوا کرتی تھیں وہ فوج کی بات کم ہی کرتے تھے۔ مستقبل کی باتیں زیادہ ہوا کرتی تھیں۔

مسیح سپرا نے خیال کیا کہ وہ کرنا سدھو کے ساتھ جاگنگ پر ہیں۔ کرنل ٹھہاکے لگا رہے ہیں۔

‘ایک بیوی بہت دنوں تک ساتھ نہیں دیتی۔ ۔ ۔ ۔ ہا۔ ۔ ۔ ہا۔ ۔ ۔’

‘پھر کیا کروگے کرنل؟’

‘ مرغابیوں کا شکار کریں گے۔’

‘اس عمر میں مرغابیاں ملنے سے رہیں۔’

‘ہاہا۔ ۔ ۔ ۔ یہ عمر۔ ۔ ۔ اصل تو یہی عمر ہے سپرا۔ لڑکیاں اسی عمر پر فدا ہوتی ہیں۔ یہ بات تم کوکون سمجھائے۔’

‘ پھر شادی بھی کروگے۔’

‘ نہیں یار، لڑکیاں پٹاؤ۔ عشق لڑا ؤ۔ پتنگیں کاٹو اور بھول جاؤ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہاہا۔ ۔ ۔ ۔’

مسیح سپرا کو ایک دوسری ملاقات یا دآئی، جس میں کرنا سدھو نے ساتھ ساتھ جاگنگ کرتے ہوئے امرت کور کے بارے میں بتایا تھا۔

‘اسے فوجی پسند ہیں۔’

‘یعنی کوئی مل ہی گئی۔’

‘ تازہ انار کا جوس ہے۔ تم کیا جانو ذائقہ۔’

‘ پھر آگے کیا پروگرام ہے۔’

‘ دو روز بعد ہم نینی تال جارہے ہیں۔’

‘ امرت کور کے ساتھ۔ ۔ ۔ ؟’

‘ ہاں۔ ۔ ۔ ۔ ہا ہا۔ ۔ ۔ ۔’

کرنل سدھو نے ٹھہاکہ لگایا۔ اور اس کے ٹھیک دوسرے دن، جب آسمان پر کہرا چھایا تھا۔ دس بجے تک دھوپ غائب تھی،سردی میں بستر چھوڑناظلم تھا، موبائل کی گھنٹی بجی اور مسیح سپرا کو فون پرسدھو اس کے بیٹے نے بتایا، کرنل نینی تال نہیں گئے، بہت دور نکل گئے۔ مسیح سپرا ٹھنڈک کے جان لیوا احساس کو بھول گیا۔ سدھودودن بعد نینی تال جانے والا تھا، یہ کیسے ممکن ہے؟ دود ن قبل جاگنگ کرتے ہوئے اس کے ٹھہاکے گونج رہے تھے۔ کرنل سدھو کا مسکراتا ہوا چہرہ یاد آرہا تھا۔ اس عمر میں کہیں بوجھل پن یا تھکاوٹ نہیں تھی، بھر پور زندگی کا احساس تھا۔ بیمار بھی نہیں تھے۔ مگر اچانک۔ ۔ ۔ منصوبے دھرے رہ گئے۔ آسمان کی فلائٹ پکڑ لی۔ یہ چور دروازے سے موت کیوں آتی ہے؟ موت پیچھا کرتی ہے بلکہ موت دیکھ رہی ہوتی ہے۔ جاگنگ کرتے ہوئے کرنل سدھو نے بھی موت کو دیکھا ہوگا۔ موت نے ممکن ہے اشارے بھی کئے ہوں گے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ موت سال بھر سے اشارے کرنے شروع کردیتی ہے۔

سپرا نے کرنل سدھو کے مردہ جسم کو دیکھا —سرد چہرے کو۔ چہرہ بولتا ہوا، جیسے کرنل ابھی ٹھہاکے لگائیں گے۔ سپرا کو پتہ نہیں، وہ ان کے بیٹے سے کیا کیا باتیں کرتا رہا۔ حیر ت وخوف نے اس کے الفاظ کو برف بنادیا تھا۔

‘ ہاں وہ تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور موت بھی تھی، جس وقت ہم جاگنگ کررہے تھے اس نے سیاہ نقاب لگارکھی تھی اور وہ ایک عورت تھی۔ وہ کرنل کے پیچھے پیچھے چل رہی تھی۔ لیکن کرنل اسے دیکھ نہیں رہے تھے۔ ۔ ۔ ۔ جبکہ میں۔ ۔ ۔ ۔ اور یقیناً میری آنکھیں اس کا تعاقب کررہی تھیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ذرا فاصلے پر مرغابیاں تھیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔’

کرنل سدھو کے بیٹے نے غصے سے سپرا کی طرف دیکھا۔ پھر وہ کسی کے ساتھ سیاست کی باتیں کرنے لگا۔’پنجاب میں ڈرگز کا کاروبار بڑھ گیا ہے۔ پنجاب کی سیاست میں اس کی دلچسپی ہے۔ ڈیڈی کو سیاست پسند نہیں تھی۔ ۔ ۔ ۔ اور مرغابیاں۔ ۔ ۔ ۔ ۔’

مرغابیاں کہتے ہوئے پلٹ کر اس نے سپرا کی طرف غصے سے دیکھا۔ سپرا کو دھویں سے بھرے آسمان میں کرنل سدھو کاچہرہ نظر آیا۔ وہ ٹھہاکے لگا رہا تھا۔

کمرے میں ایک چوہا آگیا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور سفید چادروں کے درمیان گھسنے کی تیاری کررہا تھا۔ مسیح سپرا اٹھا لیکن اس نے چوہے کو بھگانے کی کوشش نہیں کی۔ اسے یقین تھا کہ وہ مرنے کی ریہرسل نہیں کررہا ہے بلکہ وہ مرچکا ہے اور اس یقین کو پختہ کرنے کے لیے اس وقت اسے بازار کے لیے نکلنا ہوگا۔ یہ ضروری بھی ہے اور ایسا کرنا اس کے یقین کو مضبوط کرنے کے لیے اہم ہے۔ وہ بازار کے لیے نکلا۔ کافی دوڑ دھوپ کے بعد اس کو ایک عورت کا ایک مجسمہ نظر آیا۔ عورت شان سے پتھروں میں لپٹی ہوئی اس طرح کھڑی تھی کہ زندہ معلوم ہورہی تھی۔ وہ اس مجسمہ کو لے کر گھر آگیا۔ چادروں کے درمیان اس نے مجسمہ کو رکھ دیا۔ مجسمہ پر سفید چادر لپیٹ دیا۔ سر پر سیاہ نقاب ڈال دیا۔ اب ایک چھڑی کی کمی تھی۔ برسوں قبل اس کا ایک دوست واشنگٹن سے آیا تو اس کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی۔ یہ چھڑی سانپ کی طرح آڑی ترچھی تھی اور دیکھنے میں خوبصورت لگتی تھی۔ سپرا وہ چھڑی لے آیا اور چھڑی کو عورت کے ہاتھ میں دے دیا۔ پھر ایک دیوار سے لگ کر کھڑا ہوگیا۔ دودھیا چاندنی میں اب وہ عورت موت کا فرشتہ معلوم ہورہی تھی۔ سفید چادروں کے درمیان کھڑی، جیسے اسے لے جانے آئی ہو۔ وہ اس منظر سے خوش تھا۔ ایک لمحے کے لیے زمین پر لیٹے لیٹے اس نے موسم بہار کا تصور کیا۔ پھر وہ اپنے رفیقوں کی تلاش میں نکلا۔ اس نے چڑیوں کی چہچہاہٹ محسوس کی۔ ۔ ۔ ۔ اور خیال کیا کہ جادوگر کے کرشمہ کی طرح آنکھیں بند کرتے ہی اس کا جسم ہوا میں معلق ہوسکتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ اوریقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ انجانے جزیرے پر، جہاں موت کے فرشتے کا ساتھ ہوگا،یہ مناظر اس کے ہمراہ ہوں گے اور جیسا کہ ڈاکٹر سدھاکر کہتا ہے، ہم ایک دھند میں رہتے ہیں اور ایک دن یہی دھند ہمارا شکار کرلیتی ہے۔

ڈاکٹر سدھاکر کو یاد کرنا مسیح سپرا کو خاصہ تقویت دے رہا تھا۔ ایک خوبصورت شخص، جس کی باتیں جسم میں گرمی پہنچانے کا کام کیا کرتی تھیں اور جب وہ اپنی آنکھوں سے حیرانیوں کا اعتراف کرتا تو ایک خاص قسم کا چمکتا ہوا ہیرا ہوتا، جو اس کی آنکھوں میں نظر آتاتھااور اس ہیرے سے روشنی پھوٹتی تھی۔ ڈاکٹر سدھاکر مذہب کو نہیں مانتا تھابلکہ کسی بھی طر ح کے عقیدے کو نہیں مانتاتھا۔ وہ کہتا تھا، ہم ایک بے ڈھب گوشت کے لوتھڑوں کے ساتھ آنکھیں کھولتے ہیں۔ پھر یہ بے ڈھب گوشت کا لوتھڑہ ایک دن مردہ گھر میں کھوجاتا ہے۔

مگر اس دن، جیسا کہ مسیح سپرا کو یاد ہے، ڈاکٹر سدھاکر سیاست کی باتیں کررہا تھا۔ بدلتے ہوئے حالات پر اس کی ناراضی تھی اور وہ ساری دنیا میں آگ لگانے کی باتیں کررہا تھا۔ اس کی حیرانیوں میں وہ چمکتا ہوا ہیرا مسیح سپرا کو صاف نظر آرہا تھا۔

‘ میں نے ایک خطرناک انجکشن تیار کیا ہے۔ یہ ڈرون اور میزائل کی شکل کا ہوگا اور یہ اس شخص کو ہلاک کرے گاجو سیاست کا بدترین مجرم ہے۔’

‘سیاست کا بدترین مجرم؟’

‘ اس کے لیے جس نے ہندوستان کو ایک گندے میلے تالاب میں تبدیل کردیا۔’

ڈاکٹر سدھار ہنسا۔

‘ تم سائنسداں کب سے ہوگئے؟’

‘ ڈاکٹر بھی سائنسداں ہوتا ہے۔’

‘ سیاست میں کیوں نہیں جاتے؟’

‘ یہی تو مشکل ہے۔ سیاست گندے ریس کا میدان بن چکی ہے۔ یہ ہم لوگوں کے لیے نہیں ہے۔’

ڈاکٹر سدھاکر مسکرائے۔’اب دیکھو،کل کی فلائٹ سے لندن جارہا ہوں۔ لندن میں ایڈز پر ایک سمینار ہے۔ گندے لوگ اور گندی سیاست نے ہمیں ایڈز کا تحفہ دیا ہے۔ وہاں سے واپس آکر تم سے ملتا ہوں۔’

‘ کل کتنے بجے کی فلائٹ ہے؟’

‘ شام کی۔’

دھند میں سدھاکر کا چہرہ تیرتا ہے۔ سدھاکر لندن سمینار کا حصہ نہیں بن سکا۔ صبح ہارٹ اٹیک ہوا۔ لندن کی جگہ عدم آباد پہنچ گیا۔ صبح ہی صبح ڈاکٹرکستوری نے موبائل پر یہ خوفزدہ کرنے والی خبر سنائی۔ وہ سنتا رہا۔ سپرا کی آوازکہیں کھوگئی تھی۔ چہرہ سرد تھا۔ جسم بھی۔ کافی دیر تک وہ موبائل تھامے رہا۔ جب تک کستوری کی آواز گم نہیں ہوگئی۔ یہ کیسے منصوبے ہیں؟ کرنل ڈیٹس پر جانے والے تھے۔ ڈاکٹر سدھاکر لندن۔ منصوبے میں جھول آگیا تھا۔ جھول میں نقاب والی عورت۔ ایک رات۔ کچھ لمحے۔ لیکن ڈاکٹر سدھاکر نہیں جانتا تھا کہ صر ف کچھ گھنٹوں کے بعد کیا ہونے والا ہے۔

اس دن وہ آخری تماشے کا حصہ نہیں بنا۔ ۔ ۔ ۔ اس دن وہ دیر تک سڑکوں پر آوارہ گردی کرتا رہا۔ اسے یقین تھا کہ یہ گاڑیاں جو سڑکوں پر دوڑ رہی ہیں، ابھی اچھا ل لیں گی اور ایک دوسرے سے ٹکراکر بکھر جائیں گی۔ یہ لوگ جو سڑکوں پر چل رہے ہیں، یہ گھر جانے سے قبل ہی موت کو پیارے ہو جائیں گے۔ اس دن وہ گھر لوٹا تو ریحا نہ اوراپنے کاشف کو حیرت سے دیکھا۔ اس دن آخری بار اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ مثال کے لیے اس نے کاشف سے پوچھا۔ ۔ ۔ ۔

‘تو تم ہونا۔ ۔ ۔ ۔ ؟’

‘ ہاں پاپا کیوں۔ ۔ ۔ ۔ ۔’

‘ نہیں۔ کچھ نہیں۔ تم ہو اور یہ میرے لیے مزے کی بات ہے۔’

یہی سوال اس نے ریحانہ سے کیا۔

‘تو تم ہونا۔ ۔ ۔ ۔ ؟’

‘کیوں ؟’

‘ پتہ نہیں۔ میری تسلی نہیں ہوئی۔’

‘یعنی میں نہیں ہوں؟’

‘ ہوسکتا ہے۔’

ریحانہ نے مسیح سپرا کو عجیب نظروں سے دیکھا۔ پھر پوچھا۔’ تو آج تم نے پھر سے بلڈ پریشر کی دوا نہیں لی۔’

‘بھول گیا۔’

‘ بھولا مت کرو۔ اس دوا میں ایک جنگلی بلی ہوتی ہے، جو تمہیں تھپکیاں دے کر نارمل کردیتی ہے۔’

‘ جنگلی بلّی۔’ سپرا زور سے ہنسا۔

ریحانہ پتلی دبلی سی عورت تھی۔ شادی کے بعد بھی اور کاشف کی پیدائش کے بعد بھی اس میں ذرا سی بھی تبدیلی نہیں آئی تھی۔ اس کی آنکھیں گہری تھیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کی ذات مکمل طور پر ریحانہ پر منحصر تھی۔ ناشتہ، کھانا، دوا، یہاں تک کہ باہری خرید وفروخت کے لیے بھی ریحانہ نے کبھی اس کو پریشانی میں نہیں ڈالا۔ عام طورپر اس کا چہرہ سپاٹ رہتا تھا اور اندازہ لگانا مشکل ہوتا تھا کہ کس وقت وہ کس فکر میں غلطاں ہے۔ کاشف اٹھارہ کا ہوگیا تھا اور اب سپرا کو کاشف کے کیریر کو لے کر فکر ہورہی تھی۔ کاشف موٹر سائیکل تیز چلاتا تھا اور کئی بار سپرا نے کاشف کو تیز چلانے سے روکنے کی کوشش بھی کی تھی۔ ڈاکٹر سدھاکر کے جانے کے بعد ٹی وی اینکرسیمتا میں اس کی دلچسپی بڑھی تھی۔ یہ ملاقات بھی اچانک ہوئی تھی انڈیا انٹرنیشل کیفے میں، جہاں وہ ہندوستانی سیاست کو لے کر ایک سابق سیاستداں سے کچھ سوال کررہی تھی۔ سپرا، انڈیا انٹر نیشنل کاممبر تھا۔ سیمتا میں اس کی دلچسپی پیدا ہوئی۔ اچانک سیمتا نے اس کی طرف دیکھا۔ پھر چونک گئی۔

‘ آپ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟’

‘تو آپ مجھے جانتی ہیں؟’

سمیتا کھلکھلاکر ہنسی۔’سیاست میں سو سال بھی کم ہوتے ہیں۔ یہاں سب کو جاننا ہوتا ہے۔ ایک چھوٹی سی بائیٹ دیں گے۔’

‘ کیوں نہیں۔’

اب سمیتا نے مائک کا رخ سپرا کی طرف کردیا۔

‘حکومت کے اچھے کاموں کی تعریف میں کچھ لوگ بخالت سے کیوں کام لیتے ہیں؟’

سپرا کو ہنسی آئی۔’ آپ نے جارج آرویل کا۱۹۸۴ پڑھا ہے؟’

‘ ہاں۔’

‘ تعریف بدل دیجیے۔’

‘مطلب ؟’سمیتا چونکی۔

‘ اچھے کو برا بنا دیجیے۔ بُرے کو اچھا۔ مثال کے لیے چنگیز اور ہلاکو اچھے لوگ تھے’، سمیتامسکرائی۔’ تعریف بدلنے سے کیا ہوگا؟’

‘ پھر آپ یہ سوال نہیں پوچھیں گی۔’

اس دن سمیتا نے ساتھ بیٹھ کر کافی شیئر کی۔ دوبارہ ملنے کا وعدہ کیا اور انڈیا انٹر نیشنل سینٹر میں اس سے ملاقاتوں کا سلسلہ طویل ہوتا چلا گیا۔
سپرا نے ایک ملاقات کے دوران پوچھا۔

‘ تم نے شادی کیوں نہیں کی؟’

‘ پہلے ایک فلیٹ خریدنا چاہتی ہوں۔’

‘ اسی لیے حکومت کی چاپلوسی ہورہی ہے؟’

‘ ہاں۔’ وہ کھلکھلاکر ہنسی۔ اس کے دانت موتیوں کی طرح سفید تھے اور سفید موتیوں سے الفاظ آبشار کی طرح بہتے تھے۔

‘ نہیں کروں گی۔ توپیسے تم دوگے؟’

سپرا مسکرایا۔

‘ دودن بعد ہی ایک فلیٹ بُک کررہی ہوں۔ پھر شادی۔’

‘ فلیٹ دیکھ لیا؟’

‘ ہاں۔ گریٹر نوئیڈا میں ہے۔ خوش ہو ں کہ اب اپنے فلیٹ میں چلی جاوں گی۔’

سمیتا نے بتایا کہ ایک خبر کے لیے آج شام وہ دہرا دون جاری ہے۔ کل صبح واپس ہوگی۔’ٹیم کے ساتھ جارہی ہے۔’

‘ میں تمہارے نئے فلیٹ میں تم سے ملنے آؤں گا۔’

‘ ضرور۔’

سمیتا کے جانے کے بعد مسیح سپرا باہر آیا۔ دیر تک دیواروں پر آویزاں پینٹنگس کو دیکھتا رہا۔ آسمان پر پرندوں کا ایک ہجوم جارہا تھا۔ ایسے مناظر اسے پسند تھے۔ اس نے ایک خوشحال زندگی گزاری تھی۔ باہر گاڑیاں مسافروں کو اتار کر آگے بڑھ رہی تھیں۔ سپرا کو آنکھوں کے آگے دھند کا احساس ہوا۔ اسے یقین تھا، خالی وقت میں یہ لوگ موسیقی بھی سنتے ہو ں گے، ہوٹل میں بیٹھ کر شراب بھی پیتے ہوں گے۔ عیاشیاں بھی کرتے ہوں گے۔ معصوم لوگ، جو بہت زیادہ آگے یا مستقبل کی فکر کرتے ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ ایک دن دھند میں آسمان اورنہ ختم ہونے والی فصیلیں بھی گم ہوجاتی ہیں۔ کیا یہ ایک واہیات دن تھا یا خوشیوں بھرا دن کہ سمیتا کے ساتھ کچھ لمحے گزارنے کا موقع ملاتھا۔ لیکن جس وقت سمیتا اس کے پاس سے اٹھ کر جارہی تھی، مسیح سپرا کو احساس ہوا کہ ہوا میں معلق ایک صلیب ہے،جس پر موٹی موٹی کیلیں ہیں اور ان کیلوں میں سمیتا جھول رہی ہے۔ یہی لمحہ تھا جب اس کے چہرے پر جھریا ں پیدا ہوئیں اور اسے اپنے چہرے کی جلد کے سرد ہونے کا احساس ہوا۔ جہاں پر وہ کھڑا تھا، اس سے کچھ دوری پر دو عورتیں تھیں جو مچھلی کے شکار کی باتیں کررہی تھیں اور ایک بوڑھا شخص دیوار سے لگا کھڑا تھا جو ایک نوجوان کو اپنی عشق کی داستان سنا رہا تھا۔ مسیح سپرا کو احساس ہوا کہ عشق ومحبت کی داستان کے درمیان صلیبیں آجاتی ہیں اور مچھلیاں کیلوں میں پھنس جاتی ہیں۔ پھر یہی عورتیں نگاڑے ڈھول کے درمیاں جنگل میں مناسب جگہ تلاش کرکے بھنی ہوئی مچھلیوں کاذائقہ لیتی ہوں گی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انڈیا انٹر نیشنل کے دروازے سے باہر نکل کر اس نے ایک پولیس والے کو دیکھا جو ہتھکڑیاں لگائے ایک قیدی کو ساتھ لیے جارہا تھا اور مسکرا مسکرا کر اس سے بات بھی کررہا تھا۔ کہیں نہ کہیں زندگی کی رمق موجود ہے۔ تنہائی میں، احساس جرم میں، قید خانے کی گھٹن میں اور جنگل کی وادیوں میں۔ اس دن گھر پہنچنے کے بعد ریحانہ نے اس کے چمکتے دمکتے چہرے کو دیکھ کر پوچھا تھا۔

‘ شکار کیا ؟’

‘ کس کا ؟’

‘ مچھلیوں کا؟’

‘ اب یہ عمر مچھلیوں کے شکار کی نہیں رہی۔’

‘ جھوٹ۔ مچھلیاں اس عمر میں بغیر کانٹے کے بھی پھنس جاتی ہیں۔’

‘ یہ تمہارا تجربہ ہے؟’

‘ تمہارے تجربے سے ایش ٹرے بناتی ہوں۔’

‘ پھر ایش ٹرے میں راکھ کس کی ہوتی ہے؟’

‘ تمہارے اندر کی خواہشوں کی۔ ان میں سگریٹ سے زیادہ کاربن ہوتا ہے۔’

‘ سگریٹ کی مہک آرہی ہے؟’

‘ باہر کوئی قیدی پی رہا ہوگا۔ ایک تم بھی جلالو اپنے لیے۔’

اس رات خواب میں صلیبیں دوبارہ روشن ہوئیں۔ پھر اس نے آگ کے بڑے بڑے تندور دیکھے جہاں مچھلیوں کو بھونا جارہا تھا۔ اس نے اس بوڑھے کو بھی دیکھا جو اپنی خادمہ کے ساتھ ہم بستری کررہا تھا۔ ۔ ۔ ۔ اور جب صبح اس کی آنکھ کھلی تو کھڑکی کے باہر کا آسمان سیاہ تھا اور ہلکی ہلکی بارش ہورہی تھی۔ اس سے پہلے کہ وہ بارش کی موسیقی کے مزے لیتا، موبائل کی گھنٹی نے خیالوں کے بنتے ابھرتے سلسلے کو روک دیا۔ اسے خبر ملی کہ دہرا دون سے واپس آتے ہوئے کار ایکسیڈینٹ میں سمیتا اور تین لوگوں کی موت ہوگئی۔ سمیتا واپسی کے بعد اپنے فلیٹ میں جانا چاہتی تھی۔ شادی کرناچاہتی تھی۔ وہ کل تک تھی مگر اب نہیں تھی۔ ۔ ۔ صلیبیں، کیلیں۔ ۔ ۔ بارش۔ ۔ ۔ اب وہ کچھ نہیں دیکھ سکتی۔

دھند میں اب ایک نورانی گھوڑا تھا جس کو کافی عرصہ پہلے مسیح سپرا نے ایک جیل کے برآمدے میں دیکھا تھا جب وہ بیرکوں اور کچھ قیدیوں کے معائنہ کے لیے گیا تھا۔ وہی اسپ نورانی اس وقت اس کی نگاہوں کے سامنے تھا اور نظروں میں وہ بزرگ قیدی تھے جو اب زندگی سے تھک چکے تھے۔ مسیح سپرا نے اپنے ہاتھوں کی طرف دیکھا۔ کوئی جنبش نہیں۔ لیٹے لیٹے اس نے پاؤں اٹھانے کی کوشش کی مگر محسوس ہوا، پاؤں اکڑ چکے ہیں۔ اس نے سرہلانے کی کوشش کی تو اس کوشش میں بھی ناکام رہا۔ دھند میں سفید چادروں کے درمیان نقاب والی عورت سامنے تھی۔ سپرا کو احساس ہوا، اس عورت نے پلٹ کر اس کی طرف دیکھا ہے۔ ۔ ۔ ۔ اور اب وہ اس کی طرف بڑھ رہی ہے۔

اور جب راتیں چاند پر مہربان تھیں کہ چاند ستاروں کے درمیان اٹکھیلیاں کرتا ہوا نیلگوں آسمان کے درمیان یوں تیر رہا تھا جیسے بدمست مجذوب ہو یا نشے کی حالت میں دنیا ومافیہا سے بے خبر شرابی یا پھر وجد کی وادیوں میں رقص کرتا ہوا صوفی یا پھر آسمانی چادر پر اڑتا ہوا پرندوں کا ہجوم اور مسیح سپرا نے دیکھا کہ ایک پرانی عمارت ہے اور اس شہر میں ہے، جسے بندروں نے گھیر رکھا ہے۔ وہ زیر لب بڑبڑایا۔ شرارتی بندر— اور اس کے بعد اسے کچھ بھی یاد نہیں رہا۔

[divider](2) خانہ بدوشوں کامقدمہ[/divider]

[dropcap size=big]وہ[/dropcap]

تعداد میں کئی تھے اور انہیں جاننے والا کوئی نہیں تھا۔ وہ الگ الگ شہروں سے جمع ہوئے تھے اور ان میں ایک تھا جو خود کو مارکیز کے شہر کا خانہ بدوش کہتا تھا اور یہ بھی کہ سوسال کی تنہائی میں اس نے اس بوڑھے کو طوطے کا تحفہ دیا تھا جو انسانی آواز میں بولنا جانتا تھا—اور یہ وہ شخص تھا، جس کے سرکے بال نہیں تھے۔ چہرے کا رنگ گورا تھا— اور اس وقت جو بھی خانہ بدوش تھے، وہ ان سب سے زیادہ پڑھا لکھا تھا اور زیادہ انسانوں جیسی باتیں کرسکتا تھا جبکہ ان میں وہ بھی تھے جو ابھی بھی سرخ گرم آگ پر چھریاں تیز کررہے تھے۔ ان میں وہ بھی تھے جن کے ہاتھوں میں ترشول تھے اور ان خانہ بدوشوں میں ایسے بھی تھے جنہوں نے اپنے اپنے ہاتھوں میں ایک ایک اینٹ سنبھالی ہوئی تھی۔ اینٹ کسی اچھی بھٹی سے نکالی ہوئی تھی۔ اس لیے اینٹیں بھری بھری نہیں تھیں بلکہ سخت تھیں اور ان پر ہندی میں کچھ لکھا ہوا تھا، جسے آسانی سے پڑھا جاسکتا تھا۔ ان میں کوئی بھی قطار کا مطلب نہیں جانتا تھا اور یقین کے ساتھ کہا جاسکتاہے کہ یہ وحشت کی تہذیب کو لے کر اس ہال میں جمع ہوئے تھے، جس کی دیواریں بے رونق تھیں۔ دروازہ ٹوٹا ہوا تھا اور دروازے کے بعد دور تک گھاس اُگی ہوئی تھی۔ اور گھاس پر اس وقت بھی گائیں آرام سے گھوم رہی تھیں اور جس وقت مندر سے بھجن کی آواز آئی، خانہ بدوشوں میں سے پانچ شخص ایسے تھے جنہوں نے گردن میں لپٹے ہوئے رومال کو نکالا اور پیشانی پر باندھ لیا۔ اب وہ پوری طرح سے لچے اور شہدے نظر آرہے تھے اور کمال یہ کہ خود کو اس حالت میں محسوس کرکے وہ خوش تھے کہ زندگی کی بدلی ہوئی تعریف میں اب یہی تعریف ایسی تھی، جس کے ذریعہ خانہ بدوش کی زندگی کو ایک نئی سیاسی زندگی میں تبدیل کیا جاسکتا تھا۔ غارت ہو اس سیاہ روشنی کا کہ بھجن کے دوران ہی پاس کی کسی مسجد سے اذان کی آواز آنی شروع ہوئی۔ بوڑھا، جو انسانی آوازمیں بولنا جانتا تھا، اس وقت اس کے تیور بدل گئے تھے اور وہ ایسی آوازمیں باتیں کررہا تھا،جیسے وہ بھیڑیوں کے منہ سے نکلی ہوئی آوازوں کے مطلب سمجھتا ہو۔ اذان کی آواز ختم ہونے کے بعد اس نے ہونق بھیڑ کی طر ف دیکھا۔ اور مسکرا یا۔ اس کی باتوں کا جواب دینے والے کئی خانہ بدوش تھے۔ اس وقت جن کے ناموں کا جاننا ضروری نہیں۔ جن کی شناخت خانہ بدوش کے طورپرہی تھی اور جو یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ وہ یہاں کس لیے اکٹھا ہوئے ہیں۔ مگر وہ خوش تھے کہ نئے موسم میں اور اس نئی صبح میں ایک نئے کھیل کی شروعات ہونے والی ہے اور ان سب کے پیچھے وہ بوڑھا ہے، جسے خود پر ضرورت سے زیادہ یقین ہے اور جو طوطے کی طرح اس بات کو فراموش کرگیا ہے کہ زیادہ یقین سے آپ کیڑے لگی ہوئی گیلی لکڑی کی طرح کھوکھلے ہوجاتے ہیں اور ایک ایسے خانہ بدوش میں تبدیل ہوجاتے ہیں جس کے لیے صرف رحم کے الفاظ رہ جاتے ہیں۔ وہ خوش تھا کہ وہ اپنی ذات کے جنوں خانے سے نکل کر اس قبیلے کا حصہ بنا تھا، جسے’ گھومنتو’ قبیلہ کہا جاتا ہے۔ اور اس قبیلے کو اس بات کی اجازت نہیں تھی کہ شعوری فکر کے روزن میں روشنیوں کو آنے دیں۔ روشن خیال وافکار کی دھوپ جمع کریں۔ کیونکہ جب مرغا بیاں گاتی ہیں تو سازندے اس گیت کے سُر میں سُرملاتے ہیں۔ پھر جو نغمہ گونجتا ہے وہ کمزور ذہنوں کی آبیاری کرتا ہے اور اس لیے خانہ ندوشوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ مذہبی عبادت گاہوں پر چڑھ جائیں۔ اینٹ سے اینٹ بجادیں اور خانہ بدوشی کی تعلیمات میں نئے علم کا اضافہ کریں کہ دو اور دو مل کر ایک سو بیس کروڑ بھی ہوسکتے ہیں۔ اس وقت بوڑھا مارکیز کی سوسال کی اداسی کے صفحات سے نکل کر ا ن چراغوں کو دیکھ رہا تھا جن کی ٹمٹماہٹ وقت کے ساتھ کمزور پڑتی گئی تھی اور ایک دن ایسا بھی آیا جب سیاسی دیے بجھ گئے۔ ان دیوں میں روشنی کا فقدان تھا۔ ان دیوں میں تیور نہیں تھے، خانہ بدوش نہیں تھے۔ پتھر پھینکنے والے اور پتھر سنبھال کر رکھنے والے اورغیض وغضب سے پیدا شدہ نسل کو ہر طرح کی فکر سے محروم کرنے والے اور خانہ بدوش نسل میں قبیلے کی قدیم لڑاکو تہذیب کے جراثیم رکھنے والے اور اپنی چنگیزی طبیعت سے ایک مخصوص طبقے کو غلام بنانے والے اور اسی لیے۱۹۲۵ کے دھندلے آسمان سے، آسمانی اور دھارمک منتروں کے ذریعہ قبیلہ نے وش کاپیالہ حاصل کیا تھا اور بوڑھے کو امید تھی کہ وش کا پیالہ پیتے ہی طوطے کی جان چلی جائے گی مگر سمندر منتھن کی طرح اس بار فتح دیوتاؤں کے حصے میں نہیں آئے گی بلکہ فاتح راکشش ہوں گے کہ ایک طبقے کو غلام کرنے کے لیے کبھی کبھی راکشش کی پناہوں میں بھی جانا پڑتا ہے۔ لہذا بنجاروں کو اجازت دی گئی کہ وہ مہینوں جانوروں کے ساتھ رہیں اور اپنا وقت جنگل میں گزاریں اور خطرناک جانوروں کی بولیوں کو ازبر کریں کہ مستقبل قریب میں ان آوازوں سے فائدہ اٹھانا ہے۔ بانسری، طبلے، ہارمونیم، تنبورے کے سریلے راگوں میں درندگی کی موسیقی کا سر پیدا کرنا ہے۔ اور اسروں ( راکچھس) کی جماعت میں شامل ہوکر ملک کو آزاد کرنا ہے۔ اس لیے گھروں کو مقفل کرکے مذہبی عمارت سے اینٹیں لے کر قومی سلامتی کی راہ پر آگے بڑھنا ہے اور طوطے سے بچے وش کو ساتوں سمندر، دریأوں، پہاڑوں پر اچھال دینا ہے۔

بوڑھے کے دماغ میں اس وقت بھی سیٹیاں بج رہی تھیں جب سورج کا گولہ گرم ہونے کی تیاری کررہا تھا اور اپنی اگنی شعاؤں سے دسمبر کی برف کو پگھلانے کی کوشش کررہا تھا۔ تاریخ کے تناظر میں ہم قدیم خانہ بدوش ٹھہرے مگر ملا کیا ؟ جب ملک کی ہوا سہ رنگی پرچم میں رنگ بھرنے کی تیاری کررہی تھی کچھ سریلے فنکار، فلاسفر اور تاریخ داں بوسیدہ دیواروں پر بجھی ہوئی راکھ سے آزادی اور سیکولرزم کے نعرے کو لکھ رہے تھے۔ خانہ بدوش حیران کہ یہ رنگ مٹے نہیں تو جبریہ طاقت اور ذہن کیسے پیدا ہوگا؟

ایک خانہ بدوش نے دریافت کیا۔’ماچس ہے؟’

‘ نہیں۔ مگر تیلیاں ہیں۔’

‘ تیلیاں آگ پکڑیں گی ؟’

‘ تیلیاں نقشوں کو جلانے میں ماہر ہیں مگر تیلیوں کو گرم پتھر وں سے رگڑ کر چنگاری پیدا کرنا ہوگا۔’

‘ کیا چنگاری سے چھریاں تیز ہوں گی؟’

‘ ترشول بھی؟’

‘ کیا مذہبی عمارت پر چڑھنے میں مدد ملے گی؟’

‘ اگر پیسے ملتے ہیں تو ہم خانہ بدوش پجاری بن جائیں گے۔’

بوڑھے کو ہنسی آئی۔ وہ ان خانہ بدوشوں کی باتیں سن رہا تھا۔ اور یہ کہ اسے ماچس کی تیلیوں میں آگ کا سمندر نظر آرہا تھا اور وہ خوش تھا کہ آگ کے سمندر سے اس وقت چیخیں نمودار ہورہی تھیں اور وہ ان چیخوں میں موسیقی تلاش کررہا تھا۔ اس نے پھر ان خانہ بدوشوں کی طرف دیکھا جنہوں نے اپنی پیشانی کو سرخ رومال سے باندھ رکھا تھا اور ان کے کھلے دانت پیلے تھے اور ان میں کیڑے لگے ہوئے تھے۔

‘ کیا ہمارے رسم وراوج عجیب نہیں تھے؟’

‘ تھے۔’

‘ ہماری طرز زندگی، ہماری زبان۔ ۔ ۔ ۔ ؟’

‘ ان میں اخروٹ کی سختی شامل تھی اور چھریوں کی دھار۔’

‘ ہم ننگے رہتے تھے اور جسم پر نقش ونگار بناتے تھے۔’

‘ اور یہ باتیں ہمیں گندے تہذیبی لوگوں سے دور رکھتی تھیں۔’

‘ لکڑی اور گھاس پھوس کے گھر ہوتے تھے۔ زمین میں بڑے بڑے کندے نصب کرتے اور دوسروں کی جھوپڑیوںمیں رات کے وقت آگ لگادیتے۔’

‘ خانہ بدوشی کا اپنا ذائقہ ہے۔’

‘ کیا ہم دسمبر کے بارے میں سوچ سکتے تھے؟’ ان میں سے ایک نے پوچھا جو ابھی تک ایک بڑے سے چھرے کو پتھر پر رگڑ رہا تھا۔

‘ دسمبر، جہاں آگ روشنی دیتی ہے۔ کدال اور پھاوڑے گنبدوں کو ڈھادیتے ہیں اور پرندے آسمانوں میں چھپ جاتے ہیں۔’

‘ خوب۔ دسمبر۔’ اور بوڑھے نے فرض کیا کہ اس کے ہاتھ میں بھی ایک اینٹ ہے، جس پر سنسکرت زبان میں کچھ لکھا ہوا ہے۔ کاش وہ سنسکرت کی سمجھ رکھتا۔ مگر اس نے اپنے لیے یاترائیں چنیں۔ تیرتھ یاترا۔ رتھ یاترا۔ رتھ یاترا اور دسمبر، جب کہرے آسمان پر چھا جاتے ہیں اور رتھ یاترا کے ٹائر اس طرح گھومتے ہیں اور ناچتے ہیں جیسے سفید گھوڑے آسمانوں پر رقص کررہے ہوں۔ جب رات کو ٹمٹماتے دیے بجھ رہے تھے،وہ خانہ بدوشوں کو جمع کررہا تھا اور یہ خانہ بدوش پورے ملک کے جنگلوں سے آئے تھے۔ یہ مہذب دنیا کے بارے میں زیادہ تفصیلات نہیں جانتے تھے۔ یہ پتھروں سے آگ نکالنا، جھوپڑیوں کو جلانا بخوبی جانتے تھے۔ یہ ایک دوسرے سے الگ تھلگ رہتے تھے اور انسانی رشتوں کی پہچان نہیں رکھتے تھے۔ ایسا قدیم زمانے سے چلا آرہا تھا اور بو ڑھے نے ایک بار انڈمان کے جزیرے میں ان قبائلیوں کو دیکھا تھا جو ننگے رہتے تھے اور خوب ہنستے تھے۔ بوڑھے نے ان قبائلیوں کے ساتھ رقص بھی کیا تھا اور بتایا تھا کہ حضرت نوح کی طرح وہ بھی ایک کشتی کی تعمیر کررہا ہے مگر یہ رتھ ہوگا اور یہاں جنگلی سور ہوں گے جن کی چمڑیاں سخت ہوں گی اور جو گندے کیچڑوں میں لوٹتے ہوں گے۔ انڈمان کے روایتی قبیلے والوں نے بتایا کہ ایسے بے شمار سور ان کے پاس ہیں، جن کا شکار وہ تیر بھالوں سے کرتے ہیں۔ پھر پتھروں سے آگ جلا کر سوروں کو بھون کر جشن مانتے ہیں اور بوڑھے نے کہا تھا، اب ان سوروں کو جلانے کی ضرورت نہیں ہے۔ انھیں بھی ہتھیار دینے کی ضرورت ہے۔ ہم تمہیں ان سؤروں کے لیے مناسب رقم دیں گے۔ بوڑھے کو یقین ہے کہ اس ہجوم میں انڈمان کے قبائلی بھی ہوں گے، کیونکہ ان خانہ بدوشوں میں کئیوں کے پاس لباس نہیں تھے مگر ہاتھوں میں اینٹیں موجود تھیں۔

وہ عمارت کے سب سے بدنما کمرے میں کھڑے تھے اور ایک عجیب سی بدبو تھی جو ماحول میں پیدا ہورہی تھی اور ممکن ہے کہ یہ بدبو ان خانہ بدوشوں کے جسم سے آرہی ہو، جنہوں نے پسینہ بہاکر مذہبی عمارت کے گنبد کو زمین میں دفن کردیا تھا۔ آسمان سے پرندوں کا قافلہ اس طرح رخصت ہوا، جیسے اب کبھی واپس نہیں آئے گا۔ بوڑھے کو تاہم اطمینان ہے کہ اسے تمام اختیارت حاصل ہیں اور اس وقت خانہ بدوشوں کے درمیان اس کی حیثیت کسی راجہ یا مکھیا کی ہے، جس کے آگے سب کوسر جھکانا ہے۔ اس نے کٹورے سے پانی پیا اور اس لیے پیا کہ چلاّتے شور کرتے ہوئے اس کی زبان بیٹھ گئی تھی۔ گلے سے گھڑ گھڑانے کی آواز آرہی تھی اور مذہبی عمارت کی اونچی چوٹی پر دیر تک رہنے کی وجہ سے اس کے قدموں میں نقاہت آگئی تھی۔ اس نے خانہ بدوشوں کی گفتگو کا رُخ قدیم زمانے سے آج کی تاریخی فتح تک موڑنے کی کوشش کی مگر سب کے سب ایسے ترشول لہرا رہے تھے جیسے بھالو اور خنزیروں کا شکار کرنے آئے ہوں۔ ان کے جسم توانا تھے اور بوڑھے کو یقین تھا کہ آج کے بعد اس کی عظیم الشان کامیابی کے درمیان محض چند قدم کا فاصلہ رہ گیا ہے۔ اس کے بعد مرغابیاں جھیلوں پر اتریں گی اور وش کا نغمہ سنائیں گی۔ وہ اچانک چونکا، جب اس نے ایک خانہ بدوش کی آواز سنی۔ اس خانہ بدوش کے ساتھ کئی دوسرے خانہ بدوش بھی کھڑے تھے۔

‘ تو تم اس وقت رورہے تھے۔’

‘ ہاں۔’

‘ مگر کیوں ؟’

‘ میں نے پنکھوں والے ایک فرشتہ کو دیکھا جس کے ہاتھ میں لالٹین تھی۔’

‘ سب غارت۔ فرشتہ کہاں سے آگیا؟’

‘ اس کے دوسرے ہاتھ میں چاقو بھی تھا۔’

‘۔ ۔ ۔ ۔ اور یقین ہے، تیسرا ہاتھ نہیں ہوگا۔’

‘ اورتم اس لیے روئے کہ فرشتہ کے ہاتھ کی لالٹین بجھ گئی تھی؟’

‘ نہیں۔ تیز ہوا کے باوجو د جل رہی تھی۔ بلکہ لالٹین کے اندر سے شعلے نکل رہے تھے۔’

پہلے نے گھور کر دیکھا۔’کیا تم اقبال جرم کررہے ہو ؟’
‘ نہیں۔ اس نے کندھے اُچکائے۔ اس وقت میرے ہاتھ میں ایک کدال تھی اور میں فرشتہ کا سرقلم کرنا چاہتا تھا۔’

‘ اوہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ویسے تم اس قابل نہیں تھے۔ تم نے چار گھنٹے میں صرف چار اینٹیں جمع کیں۔ اور پاجامہ کو بہت حد تک گیلا کردیا۔’

بوڑھے کو ہنسی آئی اور ہنسی اس بات پر آئی کہ جس وقت وہ گنبد تک پہنچنے کی کوشش کررہا تھا، ایک سیال اس کے پیٹ کے نیچے جمع ہورہا تھا۔ اس نے چپ چپاہٹ محسوس کی اور یقین کیا کہ اس کا پیشاب خطا ہوگیا ہے جو اکثر جوش جوانی میں ہوجاتا ہے۔ جسم میں رتھ یاتراؤں کی تھکاوٹ اب بھی موجود تھی اور جشن مناتی وہ بھیڑ بھی اب بھی نظروں میں گھوم رہی تھی کہ بوڑھے نے اپنی زندگی میں ایسی کسی بھیڑ کا تصور نہیں کیا تھا۔ سارے ہندوستان میں گھومتے ہوئے رتھ کا پہیہ ایک ایسے علاقے میں جام ہو ا، جس کے بارے میں وہ جانتا تھا کہ یہاں سوروں کے شکار ہوتے ہیں اور یہاں کی زمین پتھریلی ہے۔ یہاں گنوار، دیہاتی مگر پڑھے لکھے لوگ رہتے ہیں جو اب بھی تہذیبی زبان سے واقف ہیں اور اس خطے میں اتنے گڑھے ہیں کہ رتھ کا پہیہ کسی وقت بھی اچھل کر رتھ سے نکل سکتا ہے یا رتھ کے پہیے پتھریلی زمین پر جام ہوسکتے ہیں۔ اسے یہ بھی خیال تھا کہ اگر پہیے اس خطے یا علاقے میں جام نہیں ہوتے تو اسے کامیابی نہیں ملتی۔ کیونکہ خانہ بدوش جماعت ناراض تھی اور غصے میں ترشول لہراتی ہوئی اس بات کو فراموش کرگئی تھی کہ بوڑھا تھک چکا ہے اور واپس دارالسلطنت لوٹنا چاہتا ہے۔ اس کے ہونٹوں پر خون کی پپڑیاں جمی تھیں کیونکہ دوبار رتھ کے پہیے ایسے اچھلے کہ اس کا سر رتھ کی پشت سے ٹکرایا اور کمزور دانتوں نے ہونٹ کو زخمی کردیا۔ اس نے خفیف سی جھر جھری لی کہ وہ گر بھی سکتا تھااور گرنے کی صورت میں اس کی موت بھی ہوسکتی تھی۔ بوڑھے کو اس بات کا گمان تھا کہ وہ صفر سے طلوع ہوا اور رتھ کی کمان تھام کر ان خانہ بدوشوں کا امیر کارواں بن گیا۔ اس نے سنا۔ وہاں کچھ خانہ بدوش اور بھی تھے، جو اب سیاست کی اولادوں میں سے تھے اوہ یہ بھی جانتا تھا کہ پسندنہ کرنے کے باوجود یہ لوگ اس کے پیچھے پیچھے چلنے پر مجبور تھے اس نے کان لگایا اور ان کی باتوں پر دھیان دیا۔

‘ کیا اینٹیں نرم تھیں؟’

‘ نہیں۔ اس میں سے انسانی خون کی بو آرہی تھی۔’

‘ اور تم نے ڈھانچے پر چڑھتے ہوئے ایک گارڈ کو مکّا مارا تھا۔’

‘ مجھے وہ عمارت کی نگرانی کرنے والا معلوم ہوا۔’

‘ جبکہ وہ بھی خانہ بدوش تھا اور بوڑھے کا قریبی۔’

‘ یہ بوڑھا ان خانہ بدوشوں سے کیا کام لے گا؟’

‘ وہ اپنی سلطنت بنائے گا۔’

‘ لیکن اس سے قبل گماں آباد کے خانہ بدوش اسے چپ کرادیں گے۔’

‘ کیا تم تقدیر کو مانتے ہو؟’

‘ نہیں۔ رتھ کو۔ مذہبی عمارت کو اور وحشتوں کو۔’

‘ وحشتوں نے ہر دور میں ہمارا ساتھ دیا ہے۔’

‘ اور اس بار بھی وحشتیں ساتھ دیں گی۔’

بوڑھے نے اطمینان سے ان کی باتیں سنیں اور اسے پہلے سے علم تھا کہ ان میں اکثریت ایسے لوگوں کی بھی ہے، جو ابھی بستروں پرسیاہ حبشی کو بھی اپنے ساتھ سلالیں۔ مگر ان میں آپس میں بھی اختلاف ہے اور یہ لوگ کسی حد تک اس کی شہرت اور مقبولیت سے بدگمان بھی ہیں۔ مگر وہ رتھ لے کر کافی دور نکل چکا تھا اور جہاں نکل آیا تھا، وہاں پتھر سخت تھے، دریا اونچائی پر تھا اور دسمبر کے زمانے میں زمین برف سے ڈھک چکی تھی۔ مشرق سے نکلتے ہوئے سورج کا گولہ ٹھنڈا تھا اور بوسیدہ دروازے کے باہر لوگوں کا ہجوم اس کا منتظر تھا۔ وہ تاریخ اور اپنے قریبی دوستوں کا شکرگزار تھا جنہوں نے سنبھل کر، آگے بڑھ کر مذہبی عمارت کا قفل کھولا تھا۔ پھر انہی دوستوں نے آگے بڑھ کر پتھر کے مجسمہ کو اس عمارت میں منتقل کیا تھا۔ لیکن منتقل کرتے ہوئے اور قفل کھولتے ہوئے وہ اس فن سے واقف نہیں تھے، جس سے وہ واقف تھا۔ اور اب آسمان سے زمین تک سارا نظارہ اسے سرخ نظر آرہا تھا۔ اس سرخی سے اسے زعفران پیدا کرنا تھا اور ملک بھر میں زعفران کی کھیتی کرنی تھی۔ وہ ہجوم کے قریب آیا۔ چیختے چلاتے،جوشیلے قبائلیوں کو دیکھا۔ اس کے کمزور ہاتھوں میں جنبش ہوئی اور اس نے نرم لہجہ اختیار کیا۔ اس نے وحشتوں سے پر ہجوم کی طرف دیکھا اور اس ہجوم کے کسی گوشے میں بوڑھے کو لاٹھی ٹیکے ہو ئے وہ ننگا فقیر بھی نظر آیا، جس کا وہ منکر تھا اور سخت نفرت کرتا تھا۔ مگر یہ نظر آنا ایک چھلاوہ تھا۔ دراصل آہنی دروازے کے باہر رکھا ہوا رتھ کاپہیہ تھا، جو اس مقام تک آتے آتے رتھ سے نکل گیا تھا۔ اس نے آنکھیں ملیں۔ دروازے کی بھربھری لکڑی کو دیکھا اور نئی مہم کے لیے روانگی سے قبل اپنے الفاظ کو جنبش دی۔

‘ وہ سفید فام نسل تھی، جو اس ملک میں آئے اور جن کے لیے ہم نے فرمانبرداریاں پیش کیں۔ ان کی عظمت کو سلام کہ وہ ہمیں سمجھتے تھے مگر وہ ہمیں ایک ایسی زمین دے کر گئے جہاں لاٹھی ٹیکنے والاایک نیم برہنہ فقیر رہتا تھا، ہم نے کوشش کی اور فقیر کو غائب کردیا۔ لیکن غائب ہونے کے بعد فقیر دوبارہ زندہ ہوگیا اور یہ اس کی تعلیمات کا جادو تھا کہ ہم رتھ کی لگام تھامے مستقل کھڑے رہے اور راستہ گم رہا۔ پھر میں آیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔’

بوڑھے نے شان سے ہاتھ ہلایا۔ ۔ ۔ ۔ اس وقت چناروں کے درمیان بجلیاں کڑک رہی تھیں اور برفیلی چٹانیں پگھل رہی تھیں۔ خوبصورت دھماکوں کے شور بھی تھے جو ہم ا پنے ساتھ لائے تھے اور پھر میں رتھ پر بیٹھ گیا۔ ۔ ۔ ممکن ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔

بوڑھے نے ہجوم کی طرف دیکھا۔

‘ ممکن ہے، زنداں کا دروازہ کھل جائے۔ ممکن ہے، مذہبی عمارت کو گرانے کے عوض ہم پر مقدمہ چلایا جائے۔ مگر یہاں سب دوست ہیں جو زنداں کے پالن ہار ہیں، وہ بھی۔ جو بیڑیوں میں بند ہیں وہ بھی۔ جو وحشتوں کے اسیر ہیں، وہ بھی۔ جو سیاست کے مزدور ہیں، وہ بھی۔ جو حکومت کے طرفدار ہیں، وہ بھی۔ اس لیے تماشہ ضرور ہوگا مگر کوئی نتیجہ برامد نہیں ہوگا۔ کیونکہ سب اپنے ہیں اور ان کی تعداد بے حد کم ہے جو پرانی عمارت سے چپکے ہوئے ہیں۔’

بوڑھے نے ایک بار پھر ہجوم کی طرف دیکھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اسے احساس تھا کہ وہ ابھی اس وقت ایک مقدمے سے گزر رہا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اوردسمبر کی ٹھنڈک کے باوجود زمین گرم ہے۔ یہاں وہ لوگ ہیں، جن کو غسل کیے ہوئے کئی روز گزر چکے ہیں اور جن کے لباس سیاہ پڑ گئے ہیں۔ مگر اس کے باوجود دھوپ میں ان کے چہرے چمک رہے ہیں اور بندوق کی جگہ اینٹوں کا تحفہ لے کر یہ خوش ہیں کہ زندگی میں سب سے بڑا انعام یہ حاصل کرچکے ہیں۔ بوڑھا مسکرایا اور قیاس کیا کہ وہ اپنے لو گوں کی عدالت میں ہے اور یہ صحیح وقت ہے کہ اس ہجوم سے مکالمہ قائم کیا جاسکتاہے۔

‘ جب آسمان سرخ دھول سے غسل کررہا تھا، کیاوہاں کوئی آبادی تھی، جہاں ایک پرانی عمارت کھڑی تھی؟’

‘ بالکل بھی نہیں۔’

بوڑھے کو یاد آیا، وہاں دور تک جنگل جھاڑ تھا۔ دھول بھری سڑک تھی۔ اور ٹیمپو والے مسافروں کو دھول بھری سڑک پر لاکر اتار دیتے تھے۔ اور جب بسوں، ٹرکوں میں بھر بھر کر لوگ اس مقام پر پہنچے تو فضا میں چاروں طرف دھول ہی دھول تھی اور عمارت کی جگہ ایک دلدل یا ملبہ نظر آرہا تھا۔ چند قدموں کا فاصلہ اور مٹی کا ملبہ۔

‘ ہم پرانی کی جگہ نئی اور عالیشان عمارت کھڑی کریں گے اور ایک دن۔ ۔ ۔ ۔ ۔’

‘ کیا اس دن سوروں کا گوشت تقسیم ہوگا۔’

‘ بالکل بھی نہیں۔’

‘ کیا اس دن مادہ کبوتروں کو حمل ٹھہرے گا؟’

بوڑھے نے مڑکر دیکھا۔ وہ ایک ناگا خانہ بدوش تھا — اور اس وقت اپنے برہنہ جسم کا مظاہرہ کررہا تھا۔

‘ کیا اس دن فاختائیں ہوں گی؟’

‘ اس دن ہم ہوں گے اور نئی عمارت ہوگی۔’ بوڑھے نے جوش سے کہا۔

‘ — اور اس یقین کو گھسنے میں کتنے برس لگ جائیں گے؟’

‘ جتنے دن جنگلی بلّیوں کے دانت نوکیلے ہونے میں لگتے ہیں۔’

‘ جنگلی بلیاں۔ کیا ان بلیوں کا رنگ زعفرانی ہو گا؟’

‘ ہاں۔ اور زمین کا رنگ بھی۔ اور ملک کے نقشے کا رنگ بھی۔ فصیلوں کا رنگ بھی۔ یہاں تک کہ ہمارے چہروں کا رنگ بھی۔’

‘ کیا ہمارے لیے زنداں کے دروازے بھی ہوں گے؟’

‘ ہاں ہوں گے۔ تب تک ہم اپنے گھوڑوں پر بہت آگے نکل چکے ہوں گے۔’

بوڑھے نے اشارہ کیا۔ دو برس قبل ہم نے اسی مقام پر گولیاں کھائی تھیں۔ اور اب پرندے اڑ گئے۔ گنبد ٹوٹ گیا۔ ملبہ میں حیرتیں دفن ہیں۔

اس نے ہجوم کے درمیان سے آواز سنی، کوئی کہہ رہا تھا۔

‘ ایک دن تم بھی حیرتوں میں دفن ہو جاؤ گے۔’

بوڑھے نے اس مکالمے کو نظر انداز کیا۔ دسمبر فتح کے لیے آتا ہے اور دسمبر میں دھوپ کی کرنوں پر دھند کی حکومت رہتی ہے۔ کچھ لوگ ابھی بھی دھند میں ہیں اور یقیناً درختوں پر چڑھے ہوئے، بندر ایسے لوگوں کا راستہ تنگ کردیں گے۔ بوڑھا جب ان اطراف میں آیا تھا تو اسے چاروں طرف بند ر ہی بندر نظر آئے تھے۔ مگر خانہ بدوشوں کو دیکھ کر یہ بندر بھی بھاگ کھڑے ہوئے تھے۔

‘ کیا ابھی بھی ہم بندروں کے ساتھ ہیں؟’

‘ ہاں۔ وہ ہر چوراہے پر ہیں۔ درختوں پر بھی ہیں۔ ملبے کے آس پاس ہیں اور عمارتوں کی چھت پر بھی نظر آرہے ہیں۔’

‘ ہمیں ان بندروں کو بھی ساتھ لینا ہوگا؟’

بوڑھے نے ہاتھ ہلایا اور ٹھیک اسی لمحہ اس نے دیکھا، ایک شخص نے جھک کر اس کے ہاتھ کو تھاما ہوا ہے۔ اس کے چہرے پر ہلکی سی داڑھی تھی۔ وہ دبلا پتلا تھا۔ کپڑے گندے اور دھول سے بھرے تھے۔ اور اس نے بوڑھے کے ہاتھوں کا بوسہ لیا اور عقیدت سے دریافت کیا۔

‘ آپ تھک گئے ہیں۔ میں آپ کے لیے چائے لے کر ابھی حاضر ہوتا ہوں۔’

[divider](3) ۱۹۹۲—[/divider]

[dropcap size=big]دور[/dropcap]

تک پھیلی ہوئی دھند میں مسیح سپرا کو اس بوڑھے کا چہرہ یاد تھا، جس کانام وشال کرشن ناتھانی تھا جو ایک سندھی تھا اور تقسیم کے وقت جس کا خاندان ہجرت کرکے دارالسلطنت میں آباد ہوا تھا۔ دھند میں اور کچھ تصویریں بھی تھیں، جو واضح نہیں تھیں، مگر مسیح سپرا خود کو اس دھند کے آئینہ میں دیکھ سکتا تھا۔ اس زمانے تک وہ ایک ڈیٹکٹیو رائٹر تھا اور مسیح سپرا کے نام سے ہی اس کے جاسوسی ناول شہرت یافتہ ادارہ پگمل سے شائع ہوا کرتے تھے۔ سراغ رسانی میں اس کی بچپن سے دلچسپی تھی مگر وہ سراغ رساں نہیں بن سکا۔ ہر چند کہ اس نے کوشش بہت کی مگر کامیابی نہیں ملی۔ پھر اسی زمانے میں اسے لکھنے کا شوق پیدا ہوا اور اس وقت اس کی عمر پچیس سال تھی۔ پہلا ہی ناول’ناگن کا قاتل’ نے کامیابی کے پرچم لہرائے تو پگمل کے ادارے سے باضابطہ پانچ برس کا معاہدہ ہوگیا۔ اس زمانے میں ٹی وی اورموبائل کا چلن نہیں تھا اور ایک بہت بڑی آبادی جاسوسی ناولوں میں دلچسپی رکھتی تھی۔ یہ بات سپرا جانتا تھا کہ تھکے ہوئے دماغ میں بہت زہر بھرا ہوتا ہے۔ زہر کی پوٹلی میں سازشیں ہوا کرتی ہیں۔ لذت وصل، گناہ اور قتل جیسے واقعات میں لوگوں کی دلچسپی ہوا کرتی ہے۔ اس عمر میں اس نے سینکڑوں ناول پڑھ رکھے تھے۔ سر آرتھر کانن ڈائل اور اگاتھا کرسٹی میں اس کی خاص دلچسپی تھی۔ کرداروں کا ہجوم اس کے آس پاس ہی رہتا تھا۔ مسیح سپرا نے کرنل سوامی اور مس کرشنا کے کردار کو گڑھا اور یہ کردار اتنے دلچسپ تھے کہ اس کے ناولوں کی مانگ بڑھتی چلی گئی۔ پیسے آنے لگے تو شادی کرنے میں دیر نہیں کی۔ ریحانہ سے شادی ہوگئی۔ مگر ان سب کے باوجود مسیح سپرا کو احساس تھا کہ اسے کچھ اور چاہیے، جس کا تصور ابھی ذہن میں واضح نہیں ہے۔ اس کی دلچسپی سیاست میں تھی مگر اس بات پر اس کو ہنسی آتی تھی کہ کہاں ایک جاسوسی ناول نگار اور کہاں سیاست۔ پھر اس عہد میں اس پر کون سی پارٹی مہر بان ہوسکتی ہے۔ اس نے کئی ناول لکھے—گنگا کنارے قتل، دوہرا قتل، قاتل عورت، قتل ایک چھلاوہ، قاتل کی واپسی، گنہگار کون، سیریل کلر— اس کی شہرت کا یہ عالم تھا کہ سنجیدہ ادیبوں سے لے کر سیاستداں تک اس کے ناول پڑھتے تھے۔ ۔ ۔ ۔ اور اس کا نام ایسے تمام لوگوں کے درمیان کسی تعارف کا محتاج نہیں تھا۔ اپنے ناول سیریل کِلر میں اس نے ایک سیاستداں کی زندگی پر روشنی ڈالی تھی جو معصوم تھا مگر رات کے اندھیرے میں خاموشی سے لڑکیوں کا قتل کیا کرتا تھا۔ یہ ناول اس قدر مشہور ہوا کہ دیکھتے ہی دیکھتے اس ناول کے کئی ایڈیشن آگئے۔ اور اسی زمانے میں حکمراں پارٹی کے لیڈر مسٹر کمار سے ایک پارٹی میں اس کی ملاقات ہوئی۔ مسٹر کمار نے بتایا کہ وہ ان کے فین ہیں اور سپراکے، اب تک کے تمام ناول انہوں نے پڑھ رکھے ہیں۔ مسٹر کمارنے حکمراں پارٹی کے کئی لیڈران سے اس کی ملاقات کرائی اور اس طرح جب پارٹی کا دعوت نامہ ملا تو سپرا انکار نہیں کرسکا۔ پارٹی میں پہنچ ہوئی تو راجیہ سبھا کے ایک ممبر کے فوت ہونے پر لاٹری سپرا کے نام کھلی۔ ۔ ۔ ۔ اور اس طرح مسیح سپرا راجیہ سبھا میں پہنچ گیا۔ یہ ایک لمبی چھلانگ تھی۔ مگر سپرا کی مجبوری تھی کہ و ہ سیاست سے ناواقف تھا اور جذباتی آدمی تھا۔ اسے سیاست کے قاعدے قانون پسند نہیں آتے تھے۔ اس لیے راجیہ سبھا پہنچنے کے بعد جس ناول کے لکھنے کا آغاز اس نے کیا، وہ ایک جاسوسی ناول ضرور تھا، مگر سپرا اس ناول میں اپنے عہد کے المیہ کو بھی پیش کرنا چاہتا تھا۔ ۔ ۔ ۔ اور اس لیے اس نے ناول میں سیاسی فضا پیدا کرتے ہوئے ایک اہم کردار کو، جس نے مذہبی عمارت کے ملبہ میں تبدیل ہونے کی کہانی کو آسان بنایا تھا، دلچسپ مکالمے کے ذریعہ عدالت میں پیش کردیا تھا۔ جرح کے دوران اس سے پوچھا جاتا ہے۔

تم سب سے اعلیٰ عہدے پر فائز ہو۔

‘ ہاں،ایسا ہے۔ ۔ ۔ ۔’

اور تم ایک سیاسی آدمی ہو۔

‘ منظور۔’

‘ اور تم پر ذمہ داری تھی کہ پرانی عمارت۔ ۔ ۔ ۔ ۔’

‘ میں ایک مذہبی آدمی بھی ہوں۔’

‘ کیا مذہبی آدمی آئین اور دستور کا خیال نہیں رکھتا؟’

‘ مذہب کا دائرہ ان دائروں سے زیادہ بلند ہے۔’

‘ کیا تم کو معلوم ہے کہ افراتفری میں کتنے لوگوں کی جان گئی؟’

‘ تین سو چھیاسی۔’

‘اور اس موقع پر کتنے شہروں میں فساد ہوا۔’

‘ ایک سو باون۔’

‘ ذمہ دار کون ہوا؟’

‘ سلطان۔’

‘ کیا سلطان نے پرانی عمارت کی تعمیر کی تھی؟’

‘ ایسا ہی ہے۔’

‘ کیا پرانی عمارت سے پہلے بھی کوئی عمارت تھی، اس کا کوئی ثبوت ہے؟’

‘ آستھا ہے۔’

‘ آستھا اور آئین کے درمیان کتنا فاصلہ ہے ؟’

‘ جتنا فاصلہ آپ کے اور ہمارے درمیان۔’

‘ کیا آپ کو پرانی عمارت کے ٹوٹنے کا غم ہے؟’

‘ نہیں۔ حادثہ یہ ہے کہ آپ مجھے عدالت میں لے کر آئے اور اس ملک میں یہ پہلی بار ہورہا ہے۔’

‘ کیا پہلی بار ایسا نہیں ہوا کہ بغیر جواز یا ثبوت کے ایک پرانی عمارت محض اس قیاس پر ڈھادی گئی کہ اس کے نیچے کوئی اور عمارت موجود تھی؟’

‘ آستھا۔’

‘ آستھا کا تعلق کن لوگوں سے ہے ؟’

‘ صرف اکثریت سے۔’

‘ اور اقلیت ؟’

‘ حکومت اقلیتوں کے ووٹ سے تعمیر نہیں ہوتی۔’

‘ اقلیتوں کا خیال رکھنا بھی ضروری نہیں ہے؟’

‘ ہاں۔’

‘ کیا آپ جانتے ہیں کہ پرانی عمارت اب جبکہ ایک تاریخ کا حصہ بن چکی ہے، یہ تاریخ آپ کے مرنے کے بعد بھی دہرائی جاتی رہے گی اور آپ کا نام۔ ۔ ۔ ۔ ؟’

‘ زندہ رہے گا؟’

‘ آخری سوال۔ آپ کی حکومت کا رنگ کیا ہے؟’

‘ زعفرانی۔’

‘ اور جو دوسری پارٹی سامنے آئی ہے؟’

‘ اس وقت سب سے بڑی طاقت زعفران ہے۔ جس کا حصہ مضبوط ہوگا، بندر اسی کے ہوں گے۔’

‘ بندر کیوں؟’

‘ ڈارون نے کہا تھا۔ ہم سب بندر ہیں۔’

‘ اور بندر پرانی عمارت پر چڑھ کر، عمارت کو ملبہ بناسکتے ہیں؟’

‘ آستھا۔ اب میری میٹنگ کا وقت ہے۔’

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دھند بڑھ گئی تھی۔ سپرا کو احسا ہوا کہ اس کے پاس ریحانہ لیٹی ہوئی ہے اور اس کے ہاتھ ریحانہ کے پستانوں کو چھو رہے ہیں۔ اس نے جھینگا مچھلی کا تصور کیا اور گھٹنوں کے بل فرش پر بیٹھ گیا۔ سپرا کو احسا س ہوا کہ وہ چیخنا چاہتا ہے مگر چیخ اس کے اندر اندر کہیں کھوگئی ہے۔ سفید سفید چادروں کے درمیان ایک نا معلوم جزیرہ آباد ہے اور وہ ایک ویران چوراہے پر کھڑا ہے، جہاں کچھ فاصلے پر تیزی سے گاڑیاں بھاگ رہی ہیں۔ موہن راؤ۔ یہ نام اسے یاد آیا۔ اور سپرا دوبارہ اپنی جگہ لیٹ گیا۔ یہ موہن راؤ تھا، حکمراں پارٹی کا سربراہ— اور وہ ناول جو اس نے لکھا، اس کا عنوان سیاسی قاتل تھا۔ آنکھوں کے آگے دھند کا سفر جاری تھا— اور اس سفر میں سپرا سیاسی قاتل کے صفحات کو کھول رہا تھا۔ کچھ اور بھی دلچسپ مکالمے تھے، جس کو لکھتے ہوئے راجیہ سبھا ممبر ہونے کے باوجود اس نے سکون محسوس کیا تھا۔

قومی صدر کے ذریعہ دریافت کیا جاتا ہے

‘ آپ نے پارٹی کے موقف کے خلاف کام کیا۔’

‘ بالکل بھی نہیں۔’

‘ پارٹی کا کام پرانی عمارت کو بچانا تھا نہ کہ مسمار کرنا۔’

‘ جو اکثریت کو پسند تھا، میں نے وہی کیا۔’

‘ کون سی اکثریت؟’

‘ ہم، آپ اور کروڑوں۔’

‘ لیکن یہ کروڑوں لباس کے اندر زعفران نہیں رکھتے۔’

‘ یہ غلط فہمی ہے۔’

‘ کیا میں بھی زعفرانی ہوں؟’

‘ ہاں۔ کچھ اقلیتوں کو چھوڑ کر۔’

‘ کیا ہم پہلے بھی یہی تھے۔’

‘ آزادی کے بعد کی پہلی کابینہ سے لے کر اب تک۔’

‘ پھر اقلیت ہمارے ساتھ کیوں ہے ؟’

‘ ان کے پاس دوسرا کوئی راستہ نہیں۔’

‘ کیا پرانی عمارت کے ڈھانے کے بعد بھی وہ ہمارے ساتھ ہوں گے ؟’

‘ وہ ہمیشہ ہمارے ساتھ رہیں گے۔’

‘ کیوں؟’

‘ کیوں کہ ہم نے انہیں خوفزدہ کر رکھا ہے۔’

‘ کس سے؟’

‘ زعفران سے۔’

‘ بقول آپ کے، زعفرانی آپ بھی ہیں۔’

‘ اور آپ بھی۔’

‘ تو اقلیتیں ہم سے خوفزدہ کیوں نہیں؟’

‘ کیونکہ ہمارے اندر کا زعفران انہیں نظر نہیں آتا۔’

‘ فرض کیجیے نظر آگیا۔ اس کے بعد؟’
‘ کچھ نہیں ہوگا۔’

‘ کیوں؟’

‘ کیونکہ ان کے پاس لڑنے کے لیے کچھ بھی نہیں۔’

‘ ہماری اصلیت واضح ہوجانے کے بعد وہ کس کو ووٹ دیں گے؟’

‘ ہم کو۔’

‘ کیوں؟’

‘ کیونکہ ان کو یقین ہے،تحفظ ہم ہی دے سکتے ہیں۔’

‘ ہا۔ ۔ ۔ ہا۔ ۔ ۔ ہا۔ ۔ ۔ ۔ ۔’

قومی صدر نے قہقہہ لگایا۔ اور اس طرح یہ میٹنگ مشترکہ قہقہوں کے ساتھ ختم ہوگئی۔

مسیح سپرا آزادی سے قبل اور آزادی کے بعد کے اب تک کے واقعات سے آگاہ تھا۔ اس کے پاس عمر وعیار کی زنبیل ہوتی تو وہ تمام شاطر سیاست دانوں کا قتل کرچکا ہوتا۔ ریحانہ اسے خوب سمجھتی تھی۔ بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ اسے قابو میں رکھتی تھی وہ کسی میٹنگ میں حصہ لینے کی تیاری کرتا تو ریحانہ پہلے اس کے ہاتھوں کو تھام لیتی اس سے قبل کہ وہ کچھ سمجھتا۔ ریحانہ اس کے ہاتھوں کو اپنے سر پرلے آتی۔

‘ میری قسم ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔’

‘ کیا؟’

‘ میٹنگ میں کسی سے بکواس نہیں کروگے۔’

‘ میں بکواس کرتا ہوں؟’

‘ جھگڑا تو کرتے ہو۔’

‘ سچ بولنا گناہ ہے؟’

‘ اب تم کرائم رائٹر نہیں ہو۔’

‘ یعنی انسان بھی نہیں ہوں۔’

‘ یہی سمجھو۔ اب تم سیاست داں ہو۔ ایک نمبر کے جھوٹے۔’

وہ ریحانہ کی باتوں کا مزہ لیتا۔’ یعنی اب جھوٹا بھی ہوگیا ؟’

‘ تمہارا کوئی ساتھی سچ بولتا ہے کیا؟’

‘ ہاں۔ یہ تو ہے۔’

‘ اور سچ اب تم بھی نہیں بولتے، بہت ساری باتیںمجھ سے چھپالے جاتے ہو۔’

‘ یہ بھی ہے۔’

سپرا قہقہہ مارکر ہنسا۔ پھر ناز ک سی ریحانہ کو اپنی آغوش میں بھر لیتا۔

‘ ایک بات کہوں؟’

‘ ہاں۔’

‘ اب لگتا ہے۔ سیاست میں آکر اچھا نہیں کیا۔ پارٹی کا اس قدر پریشر رہتا ہے کہ ہم اپنی بات بھی نہیں کرپاتے۔’

‘ تم ایک اقلیتی ڈنکی ہو۔ ‘

‘ اقلیت والے ڈنکی ہوتے ہیں۔’

‘ ساری عمر بوجھ ڈھونے کے بعد ملتا کیا ہے، اقلیت والوں کو؟’

‘ کیوں نہیں ملتا؟’

‘ وہ ہمیشہ سے حاشیہ پر ہیں۔ اس لیے کہ تم جیسے لوگ بھی پریشر میں ہو۔’

اسے پہلی بار احسا ہوا کہ ریحانہ سچ بول رہی ہے۔ ریحانہ اس دھند کو دیکھ چکی ہے، جس کے اس پار جھوٹ کے سمندر کے سوا کچھ بھی نہیں۔ یہاں آپ پارلیمنٹ میں ہیں تواپنی مرضی سے تقریر بھی نہیں کرسکتے۔ کسی اخبار والے کو اپنے حساب سے بائیٹ بھی نہیں دے سکتے۔ پارٹی کا پریشر۔ آپ کے منہ میں پارٹی کی زبان ڈالی جاتی ہے اور پارٹی کیا ہے؟ کیا حقیقت میں پارٹی نے سیکولرزم اور جمہوریت کا لباس پہنا ہوا ہے؟ یا یہ سیکولر زم محض فریب ہے جیسا کہ وہ اپنے ناول میں لکھ رہا ہے۔ پرانی عمارت شہید ہوگئی۔ آپ اس کو پرانی عمارت، مذہبی عمارت بھی نہیں کہہ سکتے۔ پارٹی کے اصولوں کے مطابق آپ کو ڈھانچہ کہنا ہے۔ پارٹی اگر سیکولرزم کے اصولوں پر چلتی تو کیا آزادی کے بعد ہزاروں فسادات ہوتے؟ کیا پارٹی فسادات کو روکنے میں ناکام رہتی؟ راجیہ سبھا کا ممبر بننے کے بعد سپرا صاف دیکھ رہا ہے کہ گندگی کہاں ہے؟ فرق کہاں ہے؟ بھید بھاؤ کہاں ہے؟ اور اس فرق کو چھپانے کے لیے وعدے کیے جاتے ہیں۔ سفارشات لائی جاتی ہیں۔ کمیٹی بیٹھائی جاتی ہے۔ باربار اقلیت کا نام لیا جاتا ہے۔ لیکن پارٹی نے اقلیت کی سطح پر کیا کیا ہے؟ سارے واقعات نظروں کے سامنے تھے۔ کلیم پورہ، جہاں بندوق کے نشانہ پر حکمراں پارٹی کی پولیس اقلیتوں پر گولی چلانے کے لیے لے گئی تھی۔ حسن پور، جہاں فسادات کے بعد ایک برسوں پرانا کنواں جلیاں والا باغ بن گیا تھا۔ سپرا کو احساس تھا کہ زعفران ہر جگہ ہے اور ملک میں بڑے پیمانے پر زعفران کی کھیتی ہورہی ہے۔ اور سپرا کو اس بات کا بھی احساس تھا کہ بار بار اقلیتوں کا نام لینے سے ایک دن یہ اقلیت، اکثریت کے نشانے پر آجائیں گے اور وشال کرشن ناتھانی، بانسری جوشی، شردھا بھارتی جیسے لوگ اس کا فائدہ اٹھائیں گے۔ ایک دن یہ چیخ ایک بہت بڑے نقصان میں تبدیل ہوجائے گی۔ سپرا کو احساس ہوا، ریحانہ کچھ غلط نہیں کہتی ہے۔ بلکہ ریحانہ اس سے کہیں زیادہ دور کی سوچتی ہے۔ اسے ریحانہ پر پیار پر آیا۔ وہ دیر تک ریحانہ کو آغوش میں لیے رہا۔ ایک عجیب سی ٹھنڈک کا احساس ہوا۔ نور کا جھروکہ کھلا۔ اسے احساس ہوا۔ وہ نور کے اس جھروکے میں داخل ہورہا ہے۔ مگر اس جھروکے میں بھی زعفران کھلا ہے۔ وہ فوراً ریحانہ سے الگ ہوا۔

‘ کیا ہوا؟’

سپرا ہنسا۔’’خوفزدہ ہوگیا۔’

‘ کیا میری جگہ نتاشا کو دیکھ لیا؟’

‘ نتاشا کون؟’

‘ سیما کہہ لو۔ ۔ ۔ آصفہ کہہ لو۔ ۔ ۔ کچھ بھی۔ سیاستداں ہو۔ ۔ ۔ ۔’

‘ سیاستداں کیا پانی میں تیرتے ہیں؟’

‘ اکیلے نہیں۔ مگر تیرتے ہیں۔’

‘ کس کے ساتھ ؟’

‘ نتاشا، آصفہ اور سیما کے ساتھ۔’

‘ تم پاگل ہو۔’

ریحانہ ہنسی۔’’ایک شک تو رہتا ہے میرے اندر اور میرے اندر اس شک کو رہنے دیا کرو۔’

‘ اس سے کیا ہوگا؟’

‘ شک کی کھیتی سے بادام نکلے گا۔ بادام جسم کو طاقت پہنچاتا ہے۔’

‘ اچھا۔ چلو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دروازہ بند کرو۔’

بادام نکلے گا۔ ۔ ۔ ۔ وہ دیر تک اس محاورے پر غور کرتا رہا مگر آخر تک سپرا کسی نتیجے تک نہیں پہنچ سکا۔ پرانی عمارت کا قصہ تمام ہونے کے بعد ملک میں بی مشن کی تیاریاں شروع ہوچکی تھیں۔ اس مشن کے امام وشال کرشن ناتھانی تھے۔ لیکن پارٹی کو مضبوطی دینے کے لیے گردھر باجپائی کو آگے رکھا گیا تھا۔ گردھر باجپائی پارٹی کا سیکولر چہرہ تسلیم کیے جاتے تھے۔ پارلیمنٹ میں ان کی تقریر نپی تلی ہوتی تھی اور حکمراں پارٹی کے لیڈران بھی ان کو پسند کرتے تھے۔ دھوتی اور کرتا پسندیدہ لباس تھے۔ مشن کے پرانے ساتھی تھے اور یہ سمجھا جاتا تھا کہ ان کے آنے سے مشن کے نرم چہرے کو آگے رکھا جاسکتا ہے۔ جبکہ وشال کرشن ناتھانی کو آئرن مین کہا جارہا تھا اور یہ پارٹی کا گرم چہرہ تھے۔ پرانی عمارت کا ٹوٹنا تاریخ کا ایک ایسا حصہ تھا، جس کے بارے میں سپرا سوچتا تھا کہ ملک کی تقدیر اب اسی عمارت کے بھروسے لکھی جائے گی اور سیاست میں تبدیلی یہی عمارت لے کر آئے گی۔ عمارت مسمار کرنے کے بعد وہاں ایک چہار دیواری کے چاروں طرف زعفرانی کپڑوں کی ایک دیوار کھڑی کردی گئی تھی۔ ملک کا موسم اس وقت سے بدترین ہونے لگا تھا جب اس مقام پر دو سال قبل گولیاں چلائی گئی تھیں۔ ادھر چنار کے درختوں سے شعلے نکلنے شروع ہوگئے تھے۔ سپرا سیاست میں ان موسموں کو قریب سے دیکھ رہا تھا۔ ۔ ۔ ۔ اور یہ بھی محسوس کررہا تھا کہ ہوا بدل رہی ہے اور اس ہوا میں نفرت کے کیڑے لگنے شروع ہوگئے ہیں۔

سیاسی قتل لکھنے کے دوران وہ حکمراں پارٹی کے ایک مسلم لیڈر سے ملا جو کبھی وزیر رہ چکے تھے۔ محمود خورشید۔ حکمراں پارٹی کے پرانے آدمی۔ وکیل بھی تھے۔ شاندار شخصیت کے مالک۔ اکثر پارلیمانی اجلاس کے بعد محمود خورشید کا ساتھ ہوتا تو گفتگو کا مزاج دلچسپ ہوجاتا۔ باہر سے تعلیم حاصل کرکے لوٹے تھے اور سیاست میں بلند مقام حاصل کیا تھا۔ اقلیتوں کے رہنما بھی تھے۔ مسیح سپرا نے محمود خورشید کو سیاسی قتل کے بارے میں بتایا تو وہ اچھل پڑے۔

‘ پارٹی سے بغاوت کرناچاہتے ہیں ؟’

‘ یہ بغاوت ہے؟’

‘ سیدھے سیدھے بغاوت۔ اور آپ کو اس کا اختیار نہیں ہے۔’

‘ کیوں؟’

‘ کیوں کہ ہم اس مہان آتما کے بندر ہیں۔ آنکھ بند۔ کان بند۔ زبان بند۔’

‘ کیا یہ زبان بندی آپ کو پسند ہے ؟’

‘ پسند ناپسند کا سوال نہیں۔ سوال ہے کہ آپ پارٹی میں ہیں تو آپ کو پارٹی کے اصولوں پر چلنا ہے۔’

‘ کیا پارٹی اپنے اصولوں پر چل رہی ہے؟’

‘ نہیں۔’

‘ کیا پارٹی ملک کو دھوکہ نہیں دے رہی ہے۔’

‘ زبان بند۔’

‘ کیا اقلیتوں کو نچایا نہیں جارہا؟’

‘ زبان بند۔’

‘ کیا زبان بندی پہلی بار ہورہی ہے؟’

‘ نہیں۔ یہ ہمیشہ سے ہے۔ ہم سے پہلے جو آئے، انہوں نے بھی زبان بند رکھی۔’

‘ آپ کو کیا لگتا ہے؟’

محمود خورشید نے سپرا کی طرف دیکھا۔’ دو ناؤ پر سواری ہماری پارٹی کو مشکل میں ڈال سکتی ہے۔’

مسیح سپرا کو احساس تھا کہ پرانی عمارت کے ڈھانے کے بعد ملک کا موجودہ ثقافتی، سماجی، معاشرتی ڈھانچہ بھی تبدیل ہوگا۔ ۔ ۔ ۔ اور اس تبدیلی کی آہٹ سیاست سے سماج تک واضح تھی۔

اس رات ریحانہ کے برہنہ جسم سے کھیلتے ہوئے سپرا نے ریحانہ کے پستانوں پر ہاتھ پھیرا تو نرم پستانوں میں گرمی کا احساس نہیں ہوا۔ اس نے ریحانہ کے چہرے کو ہلایا۔

‘ تمہارے پستان بھی سیاسی ہوگئے ہیں۔’

‘ مطلب؟’ریحانہ کھلکھلاکر ہنسی۔

‘ تمہارے مزاج و معیار سے چلتے ہیں۔ میری ہاتھوں کی پرواہ نہیں کرتے۔’

ریحانہ نے قہقہہ لگایا۔’ کرائم رائٹر بن گئے ہیں۔’

‘ کون؟ پستان۔ ۔ ۔ ؟’

‘ ہاں۔ جذبات کا پتہ لگنے نہیں دیتے۔’

مسیح سپرا نے قہقہہ لگایا۔ اور دوسرے ہی لمحے اس نے محسوس کیا کہ ریحانہ کا جسم تندور بن چکا ہے اور پستانوں سے آگ کے شعلے نکل رہے ہیں۔

‘ سب سیاست۔’

سپرا زور سے ہنسا اور سفید گھوڑے کی طرح ہوا میں اڑا اور ریحانہ کے جسم پر چھا گیا۔

[divider](4) قدیم شہر: زندگی یا ملبہ[/divider]

[dropcap size=big]پارلیمانی[/dropcap]

اجلاس میں، پرانی عمارت کو لے کر مختلف پارٹیوں کے لیڈران نے نہ صرف سوال اٹھائے بلکہ تخریبی عمل کی مخالفت بھی کی۔ کلال پاسبان جم کر گرجے۔ مسیح سپرا نے باہر نکل کر مبارکباد بھی دی۔ میڈیا نے بھی پرانی عمارت کا ساتھ دیا۔ اخبارات نے شرم کی سرخیاں لگا کر جمہوریت کی اہمیت کو واضح کیا۔ مگر محمودخورشید کا خیال تھا کہ یہ تمام باتیں پارلیمانی اجلاس تک محدود ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ایسے تمام مقررین کب چھلانگ لگا کر کہاں پہنچ جائیں، کوئی بھروسہ نہیں۔ مسیح سپرا نے اس قدیم شہر کا دیدار اس وقت بھی کیا تھا جب وہ پرانی عمارت موجود تھی۔ اور جب اس نے اس سرزمین پر قدم رکھا تھا، تو اس کا پہلا استقبال بندروں نے کیا تھا۔ اس وقت یہ تنازعہ ہنگامی شکل اختیار کرچکا تھا۔ جب اس نے اس سرزمین پر قدم رکھا۔ اس وقت بھی سردیوں کا موسم تھا۔ کچھ جگہوں پر الاؤ جل رہے تھے۔ سورج کے نمودار ہونے تک وہ اس مقام تک پہنچ جانا چاہتا تھا، جہاں پرانی عمارت واقع تھی۔ اب اس جگہ پر پولیس پہرہ دے رہی تھی۔ مگر پرانی عمارت شان سے کھڑی تھی۔ آس پاس جنگلی گھاس اُگی ہوئی تھی۔ عمارت بہت پرانی لگ رہی تھی اور جیسا کہ کہا جارہا تھا کہ عمارت چارسو برس پرانی ہے۔ سپرا کو اس وقت بھی عمارت کے قریب جانے نہیں دیا گیا۔ مگر وہ اس تاریخی عمارت کو جی بھرکر دیکھنے کے بعد اپنی آنکھوں میں بسا لینا چاہتا تھا۔ درختوں کے جھرمٹ میں عمارت کے گنبد صاف کہتے نظر آئے کہ ابھی پولیس کا پہرہ ہے۔ مگر بھوکی نگاہیں میرا مشاہدہ کررہی ہیں۔ کرگس آئیں گے اور ساتھ میں چیتے بھی۔ اس وقت دریا کا پانی سرخ ہوگا اور درختوں سے پتے زرد ہوکر زمین پر گررہے ہوں گے۔ سپرانے ایک نظر پولیس والوں کو دیکھا اور پھر احساس ہوا کہ قدیم شہر کی یہ قدیم عمارت آثار قدیمہ میں تبدیل ہوگئی ہے۔ بہت سے مزدور ہیں جو کھدائی کررہے ہیں اور عمارت سے خوفزدہ کرنے والی آوازیں آرہی ہیں۔

( قدیم آوازوں کی کٹنگ پیسٹنگ سے )

آوازیں بند ہوگئیں۔ سپرا خواب سے جاگا تو زندگی سرائے کا دروازہ بند تھا۔ ۔ ۔ ۔ اور کوئی اس سے دریافت کررہا تھا کہ تاریخ کو فراموش کرنے میں کتنا وقت لگتا ہے؟ کیا تاریخ کی کوئی اہمیت ہے؟ کیا چارسو برس کی طویل مدت کے بعد بھی تاریخ بدل سکتی ہے؟ سپرا کو محمود خورشید کی باتیں یاد آئیں۔ اس نے ہنس کر کہا تھا کہ تاریخ میں اتنے سوراخ ہیں کہ جیل کی سلاخوں میں بھی نہیں ہوں گے۔ ان سوراخوں کے آر پار کچھ بھی نہیں ہے۔ ۔ ۔ اور ہے تو وہ تبدیل ہوجاتا ہے یا کردیا جاتا ہے۔

سپرا کو مزدوروں کی آوازیں ابھی بھی پریشان کررہی تھیں۔ ریحانہ کو اس نے اپنا فیصلہ سنا دیا۔

‘ وہ اس قدیم شہر کو ایک بار پھر دیکھنا چاہتا ہے۔’

‘ اس سے بہتر ہے کہ بھالو کا تماشہ دیکھ لو۔’

‘ کیوں ؟’

‘ تم بھی جانتے ہو کہ موسم بدل چکا ہے۔’

‘ اب اتنا بھی نہیں بدلا۔’

‘ تمہاری فکر سے زیادہ بدل چکا ہے۔ بلکہ مجھے احساس ہے کہ تمہاری فکر میں بھی کیکٹس چبھ رہے ہوں گے۔’

‘ کیوں؟’

‘ یہ تو مجھ سے بہترتم جانتے ہو۔ اور کیوں جانا چاہتے ہو مجھے پتہ ہے۔’

‘ تم کچھ نہیں جانتی۔’

‘ تم اپنی حیرانیوں کو مزیدموقع دینا چاہتے ہو۔’

‘ حیران ہونے کا۔’

‘ ہاں۔ اور غمزدہ ہونے کا بھی۔’

مسیح سپرا نے مسکرا کر پوچھا تھا۔ ‘مجھے اتنا کیوں جانتی ہو؟’

ریحانہ مسکرائی۔ ‘اس لیے کہ میرے اندر کی جنگلی بلی زندہ رہے۔’

‘ جنگلی بلّی۔’

مسیح سپرا ریحانہ کی ان باتوں پر ہی فدا تھا۔ اس نے ایک نرم گداز بوسہ ریحانہ کے حوالے کیا او دوسرے دن قدیم شہر کی پرانی عمارت کو دیکھنے نکل گیا۔

کبھی یہ قدیم شہر اودھ کے نوابوں کی جاگیریں ہوا کرتی تھیں۔ یہاں کی شان وشوکت اور تھی۔ واجد علی شاہ اس قدیم شہر کے آخری نواب وزیر تھے۔ جب واجد علی شاہ کا اودھ سے حقہ پانی ختم کیا گیا، بیگم حضرت محل نے اس جاگیر کی حفاظت کی۔ انگریز ۱۸۵۶ تک شہر پر شب خون مارنے سے گھبراتے رہے۔ اس شہر کو لے کر صرف ایک مذہب کی کہانیاں روشن نہیں تھیں، بلکہ اس قدیم شہر پر جین، مسلمان، بودھ سب کی نشانیاں موجود تھیں۔ ایک دفعہ اس قدیم شہر میں ایک گڑھی کو لے کر تنازع پیدا ہوا تو نواب واجد علی شاہ نے ہندؤں کے حق میں فیصلہ سنایا۔

ہم عشق کے بندے ہیں، مذہب سے نہیں واقف
گر کعبہ ہوا تو کیا، بت خانہ ہوا تو کیا

عشق کے بندے، عشق سے دور ہوگئے، بت خانہ آباد ہوا اور پرانی عمارت ملبہ میں تبدیل ہوگئی۔ ۱۲ ویں سے ۱۷ ویں صدی تک اس شہر پر مسلمانوں کی حکومت رہی۔ شمال میں میلوں پھیلی ہوئی سرمئی زمین۔ کچھ مٹی کے ٹیلے۔ اسٹیشن پر وہی بندروں کا ہجوم۔ اور اسٹیشن پر قدیم شہر کی سواری چیختے ہوئے ٹیمپو والے۔ مغربی علاقے کی طرف کچھ کچے پکے مکانات۔ مسیح سپرا کی آنکھیں اس پرانی عمارت کو تلاش کررہی تھیں۔ مگر اب وہاں ملبہ تھا اور ملبہ کا کچھ حصہ زعفرانی چادر سے گھرا ہوا تھا۔ مزدور پسینہ بہاتے ہوئے کھدائی کررہے تھے۔ سپرا کو شہر کی فصیلیں نظر آرہی تھیں۔ وہ دوبارہ ان آوازوں کی زد میں تھا، جو اس نے پچھلی بار سنی تھیں۔ مزدوروں کو یہ آوازیں سنائی نہیں دے رہی تھیں۔ کافی تعداد میں پولیس والے تھے۔ سپرا کو دور ہی روک دیا گیا۔ رسّیوں کا ایک گھیرا بنایا گیا تھا۔ گھیرے کے پاس کھڑے لوگ اب بھی چیخ رہے تھے اور نعرے لگارہے تھے۔ مسیح سپرا کو اس وقت پہلی بار دورہ پڑا تھا۔

یہاں پرانی عمارت تھی۔
اب نہیں ہے۔ ۔ ۔

ابّاحضور تھے۔ ۔ ۔
اب نہیں ہیں۔ ۔ ۔

امّاں حضور تھیں۔ ۔ ۔
اب نہیں ہیں۔ ۔ ۔

پرانی عمارت میں تین گنبد تھے۔ ۔ ۔
اب کچھ بھی نہیں ہیں۔ ۔ ۔

— اس کے بچپن کا ایک دوست رفیق تھا۔
— اب نہیں ہے۔

پرانی عمارت تھی۔ اور یہ نظروں کا دھوکہ نہیں ہے۔
— مگر اب نہیں ہے۔ ۔ ۔

— صرف انسان نہیں گم ہوتے۔ نقشے گم ہوجاتے ہیں۔ عمارتیں گم ہوجاتی ہیں۔ مکاں گم ہوجاتے ہیں۔ مکیں گم ہوجاتے ہیں۔

مسیح سپرا ہے۔ ۔ ۔
مسیح سپرا بھی نہیں رہے گا۔

یہ مردوں کی بستی ہے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے کھنڈرات سے بلند ہونے والی آوازیں دوبارہ اس کے کانوں میں چنگھاڑنے لگیں۔ سپرا کو لگا، روحیں ہیں جو آثار قدیمہ میں بھٹک رہی ہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے گھیرا بندی کرنے والی رسّی بوسیدہ دھاگے میں تبدیل ہوگئی اور اس نے الجھے دھاگو ں کو ٹوٹتے ہوئے دیکھا۔ پھر اس نے دیکھا کہ جو لوگ رسّیوں کے پیچھے کھڑے تھے، وہ ارواح میں تبدیل ہوگئے۔ ان کے لباس سفید تھے۔ پاؤں ہوا میں معلق تھے۔ آسمان کا رنگ گیہواں تھا۔ ایک سفید گھوڑا تھا، جو آسمان پر اڑرہا تھااور بادلوں کے نرغے میں وہی عورت تھی، جو نقاب پہنے تھی۔ اس کی آنکھوں میں غصے کی چمک تھی۔ سپرا نے زیر لب بڑ بڑانا جاری رکھا۔

وہ ہے۔ ۔ ۔
وہ نہیں ہے۔ ۔ ۔

پرانی عمارت تھی۔ ۔ ۔ پرانی عمارت اب نہیں ہے۔ ۔ ۔

ملبے کو دیکھنے والے ابھی، یہیں رسّیوں کے قریب جھول رہے تھے۔ ۔ ۔
اب یہ ارواح ہیں اور مرچکے ہیں۔

وہ مردوں کی بستی میں ہے اور مردوں کے ساتھ چل رہا ہے۔ سپرا کی سانسیں گھٹ رہی تھیں وہ اضطرابی کیفیت میں تھا۔ گھر لوٹنے تک وہ اسی کیفیت میں رہا۔ ریحانہ نے اس کی طرف دیکھا۔ مگر بے آواز رہی اور خاموشی سے اس کی طرف دیکھتی رہی۔

‘ کیا میں ہوں۔’
‘ہاں تم ہو۔ اور میں بھی ہوں۔’

پھر اسے کچھ یاد نہیں۔ پرانی عمارت، ملبہ، ارواح جیسے کچھ الفاظ دہراتے ہوئے اس پر بے ہوشی طاری ہوگئی۔

ریحانہ کے مطابق وہ ۴ گھنٹے تک بے ہوش رہا۔

سپرا کو یقین ہے، یہ چار لمحے اس نے اس عورت کے ساتھ گزارے جو بادلوں کے درمیان نقاب لگائے کھڑی تھی اور اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔

[divider](5)[/divider]

[dropcap size=big]پارلیمانی[/dropcap]

اجلاس کے ساتویں دن گاڑی سے اترتے ہی کلاّ پاسبان سے دوبارہ ملاقات ہوگئی۔ اس کی داڑھی بڑھی تھی۔ رنگ کالا تھا۔ لمبا تھا اور زیادہ تر سفاری سوٹ میں ہوتا تھا۔ وہ ان لیڈروں میں سے ایک تھا جو وقت کے ساتھ بھی تبدیل نہیں ہوتے۔ وہ اقلیتوں کے حقوق کی باتیں کرتا تھا۔ ملک کی سالمیت اور جمہوریت کی باتیں کرتا تھا اور ایک خاص طبقہ کے درمیان وہ مقبول ترین لیڈروں میں سے ایک تھا۔ مسیح سپرا نے پاسبان کے ہاتھوں کو گرمجوشی سے اپنے ہاتھ میں لیا۔

‘آپ نے کمال کردیا۔’

‘ کیسا کمال۔’

‘ اس دن جوآپ نے تقریر کی۔’

ارے یار’پاسبان مسکرایا۔’ قیدیوں کی تکلیف سننے کے لیے کہاں جاؤگے، ظاہر ہے جیل میں؟ وہاں ان کے پسینے کی بدبو بھی سونگھوگے۔ یہ اقلیت بھی قید میں ہیں اور صدیوں سے سسٹم انہیں قید کرتا رہا ہے۔ انہیں روشنی سے زیادہ پیار کی ضرورت ہے۔ یہ ہمارے اپنے ہیں۔ پرانی عمارت ڈھادی گئی؟ بنیاد کیا تھی؟ محافظ ہی دشمن بن جائیں تو۔ ۔ ۔ ۔ ۔’

‘ آپ اتنا سوچتے ہیں۔’

‘سوچنا پڑتا ہے اور بولنا توآپ کو بھی چاہیے۔ ایک انہیں سسٹم لگاتار صاف کرنے پر مجبور ہے اور یہ سہارا چاہتے ہیں۔ سیاست میں آنے کا مطلب کیا ہے؟ سیاست میں ہمارے کون ہیں۔ یہی محدود اقلیت والے۔ ان کے حقوق کے لیے لڑنا ہوگا۔ اتنی زحمت تو اٹھانی ہوگی۔’

‘ لیکن اقلیتوں کے بارے میں کون سوچتا ہے۔’

‘سوچنا تو ہوگا۔ اقلیتیں محض ووٹ بینک بن کر رہ گئی ہیں۔ ان کو اپنی مضبوطی کا احساس کرانا ہوگا۔ مسیح سپرا کے لیے یہ ایک بے حد خاص دن تھا۔ کلّا پاسبان کی باتوں نے اس پر اثر کیا تھا۔ مگر مجبوری تھی کہ پارٹی لائن کو دیکھتے ہوئے وہ زبان بندی کے لیے مجبور تھا۔ اس رات سیاسی قتل کے لیے اس نے ایک اور منظر لکھا۔ ایک واقعہ پیش آیا تھا۔ ہائی کورٹ کے ایک جج نے پریس کانفرنس میں اس بات کا اعلان کیا تھا کہ اس کی آواز کو دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ عدلیہ اور حکمراں طبقہ میں میل جول نہیں ہوسکتا۔ پھر اسی جج نے ناظم پورہ کے ان پولیس والوں کی رہائی کا حکم دیا تھا، جن کے قتل کے شواہد موجود تھے۔ یہ ایک دلچسپ منظر تھا اور مسیح سپرا نے اس منظر کو اسی طرح لکھا جس طرح یہ پیش آیا تھا۔ ناظم پورہ پولیس والوں کی رہائی کے بعد جب دوبارہ پریس کانفرنس ہوئی تو جج بھٹا چاریہ سے پریس والوں نے کئی طرح کے سوال پوچھے، لیکن بھٹا چاریہ کے پاس ہرسوال کا جواب موجود تھا۔

‘ جب پولیس والے بے گناہوں کو لیے جارہے تھے۔ ۔ ۔ ۔ ؟’
‘ میں وہاں نہیں تھا۔’

‘ وہ اقلیت تھے اور خوفزدہ اور اپنے ہاتھ اٹھائے ہوئے تھے۔ ۔ ۔ ۔ ۔’
‘ میں وہاں نہیں تھا۔’

‘ کچھ دن پہلے آپ نے ایک پریس کانفرنس کی تھی۔ ۔ ۔ ۔’
‘مجھے اچھی طرح یاد ہے۔ اور آپ بھی یاد رکھیے کہ آئین اور عدلیہ پر سوال اٹھانا بھی جرم ہے۔ آپ کو اس کی سزا مل سکتی ہے۔’

‘ کیا پولیس والوں کا کوئی قصور نہیں تھا۔’
‘ پولیس مجرموں کو پکڑنے کے لیے ہوتی ہے۔’

‘ کیا وہ بے قصور تھے یا بے گناہ؟’
‘وہ مجرم تھے۔’

‘ کیا اقلیت میں ہونا مجرم ہونا ہے؟’
‘ مجرم کوئی بھی ہوسکتا ہے۔’

‘ لیکن شواہد موجود ہیں۔ ۔ فوٹیج موجو د ہے۔ تصاویر موجود ہیں۔’
‘ ثبوت کوئی بھی نہیں۔’

ثبوت تو تصویریں ہیں۔’
‘ تصویروں کوثبوت نہیں مانا جاسکتا۔’

‘اچھا، ایک سوال اور۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو مجرم جیت کر پارلیمنٹ پہنچ جاتے ہیں۔’
‘ پھر وہ مجرم نہیں رہتے۔’

‘ سیاست بدل رہی ہے یا دنیا؟’
‘ دونوں طرف تبدیلی کا استقبال کرنا چاہیے۔’

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مسیح سپرا کو پرانی عمارت کا ڈھایا جانا ہندوستان اور سیاست کے لیے ایک ٹرننگ پوائنٹ لگتا ہے۔ اس موقع پر جشن منانے والوں کی کمی نہیں تھی۔ ایک بڑا طبقہ اسے فتح کے طور پر لے رہا تھا اور دوسرا طبقہ صدمے میں گم۔ مسیح سپرا جانتا تھا کہ یہ سیاست آگے بھی چلتی رہے گی اور ایک مخصوص طبقے پر اپنا اثر ڈالے گی۔ اس کا ناول ‘سیاسی قتل’ مکمل ہوچکا تھا۔ وہ اس ناول پر ہونے والے ہنگامے سے واقف تھا لیکن یہ بھی جانتا تھا کے سیاست میں ایسا ہوتا رہتا ہے اور بہت سے راستے کھلے رہتے ہیں۔ ‘سیاسی قتل’ پریس میں جاچکا تھا۔ ان دنوں ریحانہ امید سے تھی سپرا اس کا پورا خیال رکھتا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ اس موقع پر عورت کیا چاہتی ہے۔ اس کو آرام سے زیادہ شوہر کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ ایک اچھا شوہر بن کر دکھانا چاہتا تھا۔

پرانی عمارت گرنے کے بعد کئی شہروں میں فسادات ہوئے۔ نفرت کی آگ بڑھتی جارہی تھی۔ اس رات سپرا نے پھر ایک خوفزدہ کرنے والا خواب دیکھا۔ یہ خواب وہ مسلسل قدیم شہر سے لوٹنے کے بعد دیکھ رہا تھا۔ وہی، وحشیوں کا ہجوم جو پرنی عمارت کے گنبد پر چڑھ گئے ہیں اور پرندوں کا ہجوم واپس جارہا ہے۔ پھر اس وحشی ہجوم کو اس نے اپنے گھر کے دروازے پر دیکھا۔ لیکن ایک بات عجیب تھی۔ وحشی ہجوم کے گھیرے میں ریحانہ تھی۔ اور ریحانہ کے ہاتھ خون سے تربتر تھے۔ خواب کی یہ تعبیر سپرا کو ایک ماہ بعد سمجھ میں آئی۔ جب رات کے پچھلے پہر ریحانہ کی تیز چیخ گونجی۔ سپرا خوفزدہ ہوکر اٹھ گیا۔ کمرے میں روشنی کی۔ ریحانہ کو دیکھا۔ وہ بستر پر تڑپ رہی تھی اور اس کے ہاتھ خون سے بھیگے تھے۔ رات کے وقت ہی سپرا ریحانہ کو لے کر مدر اسپتال گیا۔ وہاں کے معالج نے ریحانہ کو فوراً آپریشن تھیٹر بھیج دیا۔ کاریڈورمیں کھڑا ہواسپرا رب سے دعائیں مانگ رہا تھا۔

دھند۔ ۔ ۔ ۔ دھند میں کتنے چہرے کھوجاتے ہیں۔ عمارت کھوگئی۔ ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہوگئی۔ کچھ ہی دیر بعد ڈاکٹروں نے آکر بتایا کہ ۵ ماہ کا حمل تھا۔ سپرا زور سے چیخا۔ گوشت کا زندہ لوتھرا۔ ۔ ۔ ؟

اس کی آنکھیں بند تھیں۔ وہ ریحانہ کے پیٹ میں تھا۔ پیٹ سے ہی چلا گیا۔ ۔ ۔ ۔ اندھیرے سے اندھیرے کی طرف۔ تین دن تک ریحانہ اسپتال میں رہی۔ وہ خود کو نارمل کرنے کی کوشش کررہی تھی۔ مگر سپرا کو احساس تھا کہ وہ جلد نارمل نہیں ہوسکے گا۔ وہ پانچ ماہ کے گوشت کے لوتھّڑے کو دیکھ بھی نہیں سکا۔ لوتھڑا، جس میں اس کا خون بھی شامل تھا۔ ایسا بھی ہوتا ہے، جسم کے اندھیرے سے بھی ایک راستہ انجان جزیرے کی طرف جاتا ہے۔ ایک ایسے جزیرے کی طرف جہاں روشنی کا کوئی تصور نہیں ہے۔ گھر آنے کے ایک ہفتہ کے اندر ریحانہ نے بہت حد تک خود کو نارمل کرلیا تھا مگر مسیح سپرا پر دورے پڑنے شروع ہوگئے تھے۔ اور اس رات جب آسمان میں چاند روشن تھا، اس کا خیال تھا کہ شہر کی فصیلوں پر بھیڑیے دوڑ رہے ہوں گے۔ متواتر دوڑنے کے عمل سے دھول اڑ رہی ہوگی۔ گزرگاہوں سے بنجاروں کا قافلہ جارہا ہوگا۔ بے نیاز۔ اور بھیڑیے اچانک بنجاروں پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔

تم نے آواز سنی۔ ۔ ۔ ۔ سپرا کا چہرہ سپید پڑگیا تھا
کیا؟ ریحانہ نے پوچھا۔ ۔ ۔
وہ تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اب نہیں ہے۔ ۔ ۔ ۔
مگر وہ تھا۔ گوشت کا لوھڑہ

ریحانہ زور سے چیخی۔ میں بھول چکی ہوں۔ تم بھی بھول جاؤ۔

‘ کیسے ؟ میں نے تو اسے دیکھا بھی نہیں۔ وہ تنہائی سے تنہائی میں گزر گیا۔ خیال سے خیال آباد میں، تاریکی سے نکل کر خوفناک تاریکی میں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔’

‘ وہ نہیں ہے۔ اور تمہارے جذباتی ہونے سے۔ ۔ ۔ ۔ ۔’

سپرا زور سے چیخا۔ ‘میں جذباتی نہیں ہوں۔ اس سے رشتہ تھا میرا۔ ۔ ۔ ۔ اور اس کو میں دیکھ بھی نہیں سکا۔’

سپرا سسک رہا تھا۔ دھند میں بنجاروں کی تکا بوٹی کی ہوئی لاشیں پڑی تھیں۔ سپرا کو کب نیند آئی اسے پتہ بھی نہیں چلا۔
صبح آسمان زرد تھا۔ ریحانہ نے بتایا کہ آندھی آئی تھی مگر وقفہ کم تھا۔ کچھ دیر میں ہی آندھی گزر گئی۔ وہ ڈرائنگ روم میں آکر کچھ دیر تک اخبار پڑھتا رہا۔ اسے احساس ہوا کہ تمام باتیں جھوٹی ہیں۔ سیاست جھوٹ کے راستے پر چل پڑی ہے۔ اس کی انتہا خطرناک ہوسکتی ہے۔ اس کی خاموشی میں اجنبیت کا عنصر قائم تھا۔ اس وقت وہ خود کی شناخت نہیں کرپارہا تھا۔ اس کی کتاب مارکیٹ میں آچکی تھی۔ مگر وہ ابھی کتاب کے بارے میں کچھ بھی سوچنا نہیں چاہتا تھا وہ خود فراموشی کی کیفیت میں تھا مگر وہ لوتھڑابار بار اس کی نگاہوں کے سامنے آکر اس کو زخمی کررہا تھا۔

ریحانہ آہستہ آہستہ چلتی ہوئی اس کے پاس آکر بیٹھ گئی۔

‘ تم اس پورے ہفتے کہیں نہیں گئے۔’

‘ ہاں۔’

‘ سیاست میں ہو۔ سیاست میں گرگٹ بننا پڑتا ہے۔’

‘ میں نہیں بن سکتا۔’

‘ پھر لومڑی بن جاؤ۔’

‘وہ بھی نہیں۔’

‘ پھر سیاست میں کیوں ہو؟’

‘ میرا خیال ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مسیح سپرا آہستہ سے بولا۔ ۔ ۔ سیاست مجھ سے اپنا رشتہ ختم کررہی ہے۔ اور یہ بہت جلد ہوگا۔’

‘ انتظام تم نے ہی کیا ہے۔’

‘ ہاں۔ سیاسی قتل۔’

‘ یہ قتل تمہارا بھی ہوسکتا ہے۔ سیاسی قتل۔ ۔ ۔ ۔ ۔’

ریحانہ آہستہ سے بولی۔ اس کے بعد وہ رُکی نہیں۔ کمرے سے باہر نکل گئی۔

[divider](6)[/divider]

[dropcap size=big]سپرا[/dropcap]

کے سر میں تکلیف ہے۔ بہت کچھ گڈ مڈ ہورہا ہے۔ ۔ ۔ ۔ اور گڈ مڈ ہونے کا احساس کوئی نیا نہیں۔ مثال کے لیے اس وقت تیسری آنکھ سے وہ سب کچھ دیکھ سکتا ہے۔ وہ دیکھ سکتا ہے کہ اعلیٰ کمان تک اس کا ذکر ہورہا ہے۔ وہ دیکھ رہا ہے کہ پارٹی میں اس کی موجود گی کو پسند نہیں کیا جارہا ہے۔ اور وہ جانتا ہے کہ میٹنگ میں اس کے بارے میں کیا فیصلہ ہوسکتا ہے۔ اس وقت وہ سب کچھ دیکھ سکتا ہے اور اس کی تیسری آنکھ کھلی ہے۔ ناسترو دومس اس تیسری آنکھ میں خود آکر بیٹھ گیا ہے۔ اور وہ اسے اس منظر کو دکھانے کی کوشش کررہا ہے۔ ، جو وہ دیکھنا نہیں چاہتا۔ ایک ہال ہے۔ ایک بڑی سی میزہے۔ محمود خورشید اور پارٹی کے دوسرے ممبرز خاموش بیٹھے ہیں۔ محمود خورشید انہیں ناول کے کچھ الگ الگ حصے پڑکر سنا رہا ہے۔ اس منظر میں اعلیٰ کمان اور قومی صدر کی موجودگی نہیں ہے۔ ذمہ داری کچھ ممبرز پر ڈالی گئی ہے۔ محمود خورشید کچھ الگ الگ حصے سنانے کے بعد خاموش ہو جاتے ہیں۔
سنیتا میڈم کی آواز ابھرتی ہے۔ ویری بیڈ

اعظم قریشی کہتے ہیں۔ باسٹرڈ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور چپ ہوجاتے ہیں۔

محمود خورشید کا بیان آتا ہے۔ ‘زیادہ توجہ دینے کی ضرورت نہیں۔ تیسرے درجے کا ادیب ہے۔’

اعظم قریشی کہتے ہیں۔’ مگر عوام میں مقبولیت تو ہے۔ ۔ ‘

رنجن ریڈی کہتے ہیں۔ ‘اقلیتوں کا ووٹ بینک ختم ہوجائے گا۔ ‘

محمود خورشید جواب دیتے ہیں۔’ کم ہوسکتا ہے ختم تو نہیں ہوگا۔ ‘

نیل سریواستو کے چہرے پر الجھن ہے۔ سپرا کو سمجھنا تو چاہیے تھا کہ وہ پارٹی میں ہے۔ پارٹی کے کچھ اصول ہوتے ہیں۔ اس نے تو صاف صاف لکھ دیا کہ سب کچھ راؤ کی نگرانی میں ہوا۔ ذمہ دار راؤ ہے۔

محمود خورشید مسکرائے۔ سب کچھ صاف۔ بی مشن کی ذمہ داری کم۔ حکومت کی زیادہ۔ قاتل ہم ہیں۔ یہی پیغام دیا گیا۔

‘ یہ پیغام دور تک جائے گا۔’

‘ضرور جائے گا۔’رنجن ریڈی نے کہا، وہ عوام میں پسند کیا جاتا ہے۔ اس کی باتوں کو سنجیدگی سے لیا جائے گا۔

نیل سریواستو نے کہا۔ یہ سیدھے سیدھے بغاوت ہے۔

رجنی سنگھ نے ایک نظر سب کی طرف دیکھا۔ پھر کہا۔ لیکن کیا یہ غلط ہے۔ ایسا تو ہوا ہے۔ اس سے ایک اور پہلو سامنے آتا ہے کہ پارٹی میں ایسے لوگ بھی شامل ہیں جو صرف کٹھ پتلی نہیں ہیں۔

‘ یہ پیغام کتنے لوگ سمجھیں گے؟’

رجنی نے نیل سریواستو کی طرف دیکھا۔ ‘کیا راؤ کی مرضی کے بغیر پرانی عمارت کو ڈھایا جانا آسان تھا؟’

‘ آپ بھی سیدھے سیدھے بغاوت کررہی ہیں۔’

‘ ابھی بغاوت کئی لوگ کریں گے۔’ رجنی کی آواز گونجی۔ میں بھولی نہیں ہوں۔ جب امرتسر گولڈن ٹیمپل میں گولیاں چلی تھیں۔ اب یہ حادثہ۔ کیا اس حادثہ کو روکا نہیں جاسکتا تھا؟

نور پٹیل نے لقمہ دیا۔’کیا آپ بھی راؤ پر الزام لگارہی ہیں؟’

‘ میں پوچھ رہی ہوں۔’

‘ کیا اس طرح کی باتیں ان حالات میں پوچھنا مناسب ہے؟’

محمود خورشید نے کہا۔’ہم یہاں مسیح سپرا پر فیصلہ لینے آئے ہیں۔’

نور پٹیل نے سختی سے کہا۔ ‘اعلیٰ کمان ناراض ہء۔ بہتر ہوگا کہ اسے پارٹی سے بغاوت کرنے کے جرم میں۔ ۔ ۔ ۔ ۔’

‘ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ پارٹی مسیح سپرا کے خیال سے اتفاق نہیں کرتی۔’

‘ یہ معاملہ طول پکڑ چکا ہے۔’

‘ ہر معاملہ طول پکڑ تا ہے۔’

‘ یہ آزادی کے بعد کا سب سے اہم معاملہ ہے۔’

‘ اور ہماری ہی پارٹی کو قصوروار کہا جارہا ہے۔’

رجنی نے دوبارہ بولنا شروع کیا۔’پارٹی میں بولنے کی اجازت ہونی چاہیے۔ پھر تو میں بھی جلد نکال دی جاؤں گی۔’

نور پٹیل بولے۔’پھر تو آہستہ آہستہ سب بغاوت کرنے لگیں گے۔’

‘کبھی بغاوت کے بارے میں سوچا ہے؟’ نور پٹیل نے مسکراکر پوچھا۔’پارٹی کے لیے مشکل یہ ہوگا کہ ریاستی سطح کی پارٹیاں کامیابی کے ساتھ کھڑی ہوجائیں گی اور دوسرا راستہ بی مشن بن جائے گا۔ بی مشن کو کم نہ سمجھئے۔’

‘ حالات کچھ ایسے ہی ہیں۔’

‘ میں نہیں مانتا۔’ نور پٹیل نے لقمہ دیا۔ وہ سنجیدہ تھے۔ ہماری پارٹی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔’

‘ اب وقت بدل رہا ہے نور پٹیل صاحب۔’

‘ ہندوستان میں اکیلی ہماری پارٹی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔’

‘ میں سوچتی ہوں۔’رجنی نے بات آگے بڑھائی۔ ‘ریاستی سطح پر ہمارا زوال شروع ہوچکا ہے۔ ہمیں سوچ سمجھ کر فیصلہ لینا ہے۔ یہاں سے بغاوت ہوگی تو ریاستی پارٹیاں اوربی مشن کا راستہ کھلے گا۔ پارٹی کو گمان و غرور سے باہر نکلنا چاہیے۔ ‘

‘ پھر کیا کرنا چاہیے؟’ محمود خورشید کی آواز کمزور تھی۔

‘ ہم ایک بار اعلیٰ کمان سے بات کریں۔ پھر کوئی مناسب فیصلہ لیں۔’رنجن ریڈی بولے

‘ بہتر۔’

اعلیٰ کمان سے بات اور اگلی میٹنگ پر سب کی مہر لگ گئی — اور میٹنگ برخاست ہوگئی۔

سپرا کا خیال تھاکہ ابھی طوفان کا زور ختم نہیں ہوا ہے۔ ایک سلسلہ ہے، جو ابھی ختم نہیں ہوگا۔ ابھی ان طوفانوں کو آنا بھی باقی ہے جو ملک کی تقدیر کا نیا صفحہ لکھیں گے۔

سپرا کھڑکی کھولتا ہے تو سامنے عمارتیں نظر آتی ہیں۔ وہ کھڑکی کی سلاخوں کو تھامے سامنے اُگی ہوئی جھاڑیوں کو دیکھتا ہے۔ کچھ دیر بے بسی کے عالم میں یونہی باہر کی طرف دیکھتا رہتا ہے۔ واپس اپنے کمرے میں لوٹتا ہے تودیوار سے لگے ریک پر سجی ہوئی اپنی کتابوں کو دیکھتا ہے۔ سرائے میں قتل۔ ۔ ۔ ۔ قاتل عورت، موت ہے دروازے پر۔ ۔ ۔ ۔ وہ اپنی ہی کتابوں سے خوفزدہ ہوجاتا ہے۔ اس کا دل کرتا ہے کہ وہ کچھ دیر کے لیے باہر نکل جائے، اس وقت اس کو کھلی اورخوشگوار ہوا کی ضرورت ہے۔ ۔ ۔ ۔ اور بند بند فلیٹ سے اس کو گھٹن ہورہی ہے۔ دروازہ کھول کر وہ کچھ دیر کے لیے باہر نکلتا ہے۔ مخالف سمت میں جامن کے درخت ہیں۔ ایک چھوٹا سا پارک ہے پھر ایک قطار سے کچھ دکانیں بنی ہوئی ہیں۔ کچھ لوگ اسے پہچانتے بھی ہیں۔ مگر اس وقت وہ خود کو لوگوں کی نظروں سے چھپانا چاہتا ہے۔ اسے ایک بڑی تبدیلی کا احساس بھی ہوتا ہے۔ پرانی عمارت کے ڈھائے جانے سے اخلاق اور کردار دونوں متاثر ہوئے ہیں۔ اب ایک نئی بحث چل پڑی ہے۔ اسے شدت سے احساس ہے کہ وہ حاشیہ پر آگیا ہے۔ اسے ریحانہ کی لہو سے تر انگلیاں نظر آتی ہیں۔ اس وقت وہ پریشان ہے۔ اس لیے ذہن ودماغ کی سکرین پر ایک کے بعد ایک منظر تبدیل ہورہا ہے۔ اور شاید یہ سب بہت ڈراؤنا ہے۔ آنے والے وقت میں بہت کچھ تیزی سے بدل جائے گا۔ سامنے کے فلیٹ سے ایک لڑکی اترتی ہے۔ وہ اس لڑکی کو جانتا ہے۔ عام دنوں میں یہ لڑکی سپرا کی طرف دیکھ کر ہیلو انکل ضرور کہتی تھی۔ پھر یہ بھی پوچھتی تھی کہ ان دنوں آپ کیا لکھ رہے ہیں۔ اسے یقین ہے، لڑکی نے اسے دیکھا ہے۔ مگر وہ خاموشی سے آگے بڑھ گئی۔ ممکن ہے وہ جلدی میں ہو۔ مگر ایک پہلو اور بھی ہے کہ نظریں بدل رہی ہیں۔ اس وقت وہ شکست خوردہ ہے۔ اور اس لیے اس کے ساتھ پارٹی کوئی بھی فیصلہ سنا سکتی ہے—

اس کے پاس میڈیا والوں کے کئی فون آئے۔ اخبارات سے فون آئے۔ مگر وہ ایک خوفزدہ شخص ہے۔ اس لیے سپرا نے کسی سے گفتگو کرنے کی ضرورت نہیں سمجھی۔ گھر کے فون بجتے رہے۔ اس نے ریحانہ کو بھی ہدایت کر رکھی تھی کہ فون نہ اٹھایا جائے۔ اسے کسی سے بات نہیں کرنی ہے۔ پبلشر کا فون آیا تھا کہ یہ کتاب سابقہ کتابوں سے زیادہ مقبولیت حاصل کررہی ہے۔ بلکہ ریکارڈ بنا رہی ہے۔ سپرا کو یقین ہے کہ معاوضہ اس بار زیادہ ملے گا۔ اگر پارٹی سے الگ ہوتا ہے تو وہ دوبارہ لکھنے کی طرف لوٹ آئے گا اور بار پبلشر سے بڑی قیمت وصول کرلے گا اور نیا معاہدہ تیار کرے گا۔

سپرا اچانک ٹھہرتا ہے۔ وہی خانہ بدوشوں کی ٹولی۔ یہ خانہ بدوش دور سے اپنے لباس میں نظر آجاتے ہیں۔ سپرا کو احساس ہوتا ہے، پہلے یہ خانہ بدوش ملک میں نظر نہیں آتے تھے اب بہت تیزی سے ان کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ ۔ ۔ ۔ اور اسے یقین تھا کہ ایسے خانہ بدوشوں کے گھر بار نہیں ہیں۔ وحشیوں کے پاس احساس وجذبات نہیں ہوتے۔ یہ خانہ بدوش دراصل وحشیوں کے قبیلے سے ہیں اور یہ ہر وقت ہتھیار سے لیس رہتے ہیں۔ ۔ ۔ اور اب یہ ملک کے چپّے چپّے پر پھیل رہے ہیں۔

وہ دیر تک ان وحشیوں کو دیکھتا رہا جو نعرے لگاتے ہوئے سڑک سے گزر رہے تھے۔ سپرا کو خبر ملی تھی کہ رجنی سنگھ نے پارٹی چھوڑدی اور خاموشی سے بی مشن کو جوائن کرلیا۔ جوائن کرتے ہوئے اس نے بیان دیا کہ پارٹی اپنے اصولوں سے الگ ہوکر کمزور پڑ گئی ہے۔ ۔ ۔ ۔ اور آہستہ آہستہ پارٹی کمزور ہوجائے گی۔ کلا پاسبان نے بیان دیا تھا کہ ملک کی جمہوریت اور ملت کو قائم رکھنے کے لیے سب کو ایک ساتھ ہوکر چلنا ضروری ہے۔ سپرا ان بیانوں کی حقیقت جانتا تھا۔ مگر اس وقت اس کے ذہن میں وحشی ناچ رہے تھے۔ کچھ دیر کی آوارہ گردی کے بعد وہ گھر آگیا۔ ریحانہ نے خاموشی سے پوچھا۔

‘ تمھارے چہرے پر تین طرح کے تاثرات ملتے ہیں۔’

سپرا ایک دم سے چونک گیا۔’ وہ کیا؟’

‘ پہلا تاثر۔ بغیر ہتھیار کے خود سے جنگ کررہے ہو۔ ‘

‘ دوسرا ؟’

‘ خرگوش اور لومڑی میں فرق کرنا بھول گئے ہو۔’

‘ مطلب؟’

‘ کنفیوز ہو۔’

‘ اور تیسرا؟’

‘ ٹھگ بننے جارہے ہو۔’

‘ ٹھگ۔ ۔ ۔ امیر علی جیسا۔ ۔ ۔ ۔ ۔’ سپرا نے چونک کر دیکھا۔

‘ امیر علی کیوں۔ دنیا میں صرف ایک ہی ٹھگ ہے کیا۔ ۔ ۔ ۔ ؟’

‘ میں ٹھگ کیسے ہوگیا؟’

ریحانہ زور سے ہنسی۔ ۔ ۔ ۔ ۔’تمہارے اندر جو کشمکش چل رہی ہے، اس کو مجھ سے زیادہ کوئی نہیں جان سکتا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور کشمکش یہ ہے کہ سیاست سے الگ ہوتے ہو توپبلشر کو ٹھگوگے۔ ۔ ۔ ۔ ۔’

‘ مائی گاڈ۔’

سپرا اداس موسم سے ایک لمحے میں باہر نکل آیا۔ یہ عورت؟ یہ عورت پاگل ہے یاناسترودومس؟یہ کتنا پہچانتی ہے اس کو۔ یہ اس کی آنکھوں کو پڑھتی ہے۔ اور دل کے تمام راز جا ن لیتی ہے۔ سپرا نے قہقہہ لگایا۔ کتنے دنوں بعد وہ کھل کر ہنسا تھا۔ اس کی چوری پکڑی گئی تھی۔ ریحانہ نے مسکراتی آنکھوں سے اس کی طرف دیکھا۔

‘ چاند کو زیادہ مت دیکھا کرو۔ تمہارے لیے چائے لاتی ہوں۔’

سپرا کے ہونٹوں کی مسکراہٹ گہری ہوگئی۔

‘یہ تم ہی ہو جو مجھے قدیم شہر کے ملبے سے صاف نکال لیتی ہو۔’

سپرا کو نہیں پتہ کہ ریحانہ تک اس کی آواز پہنچی یا نہیں پہنچی۔ کافی دنوں بعد گھر کا ماحول بدلا تھا۔ وہ ابھی کچھ اور سوچنے کی منزل میں نہیں تھا۔ سیاست سے اس کی نفرت بڑھتی جارہی تھی۔

[divider](7) پھر وہی خانہ بدوش[/divider]

[dropcap size=big]وہ[/dropcap]

ہتھیاروں سے لیس آسمان سے ٹپکے اور زمین پر چھا گئے۔ وہ زمانۂ قدیم کی تہذیبوں کو زندہ کرانے آئے تھے اور اس بات کا شدت سے احساس تھا کہ پہلے بھی وہ خانہ بدوش تھے۔ صحرا صحرا بھٹکتے تھے۔ اور پتھروں سے آگ نکالتے تھے۔ چھریاں چاقو بناتے تھے اور خانہ بدوشوں کو زمین کا ہر خطہ اپنا لگتا تھا۔ ۔ وہ ایک بار پھر نئی تاریخ کے روبرو کھڑے تھے۔ جب پتھر نرم تھے اور ہاتھ کھردرے، وہ لہو کی نمائش دیکھنے آئے تھے۔ ۔ ۔ اور ان خانہ بدوشوں میں سے کچھ نے مہذب دنیا کو اختیار کیا ہوا تھا اور ان کے ارادے بلند تھے، ان کے گھوڑے ہوا سے باتیں کرتے تھے۔

وشال کرشن ناتھانی قدما کی کتابیں پڑھتا تھا اور نرم اسلحے جمع کرتاتھا۔ اسے یقین تھا، اس نے موجوں کا رُخ تبدیل کردیا ہے۔ ہوا اس کے اشارے کی محتاج ہے۔ زمین پر خانہ بدوشوں کے قدم جم چکے ہیں اور اب لال قلعہ کی فصیلوں سے پرچم لہرانے کا وقت آچکا ہے۔ اس وقت بانسری جوشی اس کے ساتھ تھے۔ موسم بہار کا تھا مگر گفتگو میں سنجیدگی تھی۔

— ملبے سے زلزلے کی آوازیں آرہی ہیں۔

وہم ہے، بانسری جوشی نے کہا۔

—ہم ملبہ سے اٹھیں گے۔

‘ اور چاروںطرف پھیل جائیں گے۔’
‘ مگر کچھ خانہ بدوش۔ ۔ ۔ ۔ ۔’بانسری جوشی کے لہجہ میں شک کے جراثیم تھے۔

‘ کچھ لوگ۔’ وشال کرشن ناتھانی دیر تک کمرے میں ٹہلتے رہے۔ پھر بانسری جوشی سے مخاطب ہوئے۔ یہ کچھ لوگ ہمیشہ سے ہیں۔ ان خانہ بدوشوں کو ساتھ لے کر چلنا کبھی کبھی دشوار ہوجاتا ہے۔

‘ ان میں باغی بھی ہیں۔’

‘ اور یہ فیصلہ کرنا مشکل کہ کون ہمارے ہیں اور کون باغی۔’ وشال کرشن ناتھانی نے عینک اتاری۔ آنکھوں کو صاف کیا۔ بانسری جوشی کی طرف دیکھا۔

‘کیا جمنا کا پانی مختلف سمت بہہ رہا ہے؟

‘ اس کا رخ ہماری طرف ہے۔’

‘ یہاں سے لال قلعہ کی فصیلیں کتنی دور ہیں؟’

‘ فاصلہ زیادہ نہیں۔’

‘ کیا ان فاصلوں کو اور کم نہیں کیا جاسکتا؟’

‘ ابھی اتنا بہت ہے کہ ہوا نے رُخ تبدیل کردیا ہے۔’

ناتھانی ہنسے۔ ۔ ۔ ۔’ اور ہمارے گھوڑے ہوا میں اچھل رہے ہیں۔ قلابازیاں کھا رہے ہیں۔’

‘ کیا ہماری سلطنت قائم ہوگی؟’ بانسری جوشی نے آہستہ سے پوچھا۔

‘ اب دلّی چار قدم ہے۔’ ناتھانی نے کہا۔

‘ یہ چار قدم بہت زیادہ نہیں؟’

‘ مزید شرارتوں کے صفحے کھولے جاسکتے ہیں۔’

‘ نقصان۔’

‘ دھند میں سیکولرازم ہے۔’

‘ آپ سیکولرازم کو دھند میں دفن نہیں کرسکتے؟’

‘ ابھی مشکل ہے۔’

بانسری جوشی نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔’ یہ مت بھولیے کہ ہمارارتھ بیل گاڑی سے زیادہ کمزور تھا اور رتھ کی چال بھی دھیمی تھی۔’

‘ مجھے احساس ہے۔’

‘ کل کوئی میزائل لے آئے تو۔ ۔ ۔ ۔ ؟’

‘ دیکھا جائے گا۔ ابھی سرور ونغمہ کا وقت ہے اور گھوڑے ہوا میں اڑ رہے ہیں۔’

‘ ان گھوڑوں پر لگام لگائیے۔ ۔ ۔ ۔’

‘ بانسری۔ ۔ ۔ ۔ ۔’ناتھانی نے بانسری کو غور سے دیکھا۔ انعام تو تمہیں بھی برابر کا ملے گا۔’

‘ مگر تاج کسی اور کا ہوگا۔’

‘ مجھے احساس ہے۔ مگر تاریخ گواہ ہے کہ ہم نے ملک کا نقشہ تبدیل کردیا۔’

‘ تاریخ بے رحم ہوتی ہے۔’

‘ مجھے احساس ہے۔’ اس بار ناتھانی کا لہجہ کمزور تھا۔’ مگر حکمراں جماعت کے حوصلے ٹوٹ چکے ہیں۔ انہیں خبر ہے کہ آندھی آسکتی ہے۔’

‘ وہاں ہمارے لوگ بھی ہیں۔’

‘ حکمراںجماعت یہ بات بھی جانتی ہے۔’

‘ اب گھوڑے دوڑانے کا وقت ہے۔’ ناتھانی نے گھڑی کی طرف دیکھا، جو دیوار سے لگی ہوئی تھی۔’’وقت ضائع کیے بغیر ہمیں ایک اہم میٹنگ میں شامل ہونا ہے۔ انتخابات نزدیک ہیں۔ رتھ کے پہیے مضبوط کرنے ہوں گے۔

‘ میں کوشش کرتا ہوں۔’بانسری جوشی جانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک اور بغاوت ہوئی تھی۔ کلا پاسبان نے اپنی الگ پارٹی بنالی تھی۔

۱۹۹۱ کے بعد آنے والی ہر تبدیلی پر سپرا کی نگاہ تھی۔ وہ سیاست کا کوئی ماہر کھلاڑی نہیں تھا، مگر آہستہ آہستہ سیاسی چہروں کو قریب سے شناخت کرنے لگا تھا۔ پارٹی دفتر میں اس کی طلبی ہوئی تھی اور سپرا جانتا تھا کہ کوئی بھی فیصلہ سنایا جاسکتا ہے۔ سپرا کو میجر جو جو کی یاد آئی جو کہا کرتے تھے کہ زندگی کے ہر فیصلے کو قبول کرنا چاہیے۔ شروع میں لگتا ہے کہ یہ فیصلہ زندگی کو ناکام بنا دے گا۔ پھرہزار نئے راستے کامیابی کے کھل جاتے ہیں۔ اس نے آسمان کی طرف دیکھا۔ وہاں اسے میجر جوجو کا چہرہ نظر آیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ کون لوگ ہیں۔ کہاں سے آتے ہیں اورپھر کہاں چلے جاتے ہیں۔

‘ ذرا سی تفریح چاہیے تمہیں۔ چلو شاپنگ کے لیے چلتے ہیں۔’

اس دن ریحانہ کے ساتھ اس نے شاپنگ بھی کی۔ ریحانہ نے اپنے اور اس کے لیے کچھ نئے کپڑے خریدے۔ ریحانہ کے مطابق شاپنگ کا مطلب تفریح ہے۔ ذہن بوجھل ہوتو تفریح کرلو۔ وہ اس تفریح کے بعد گھر آیا تو اسے پارٹی میٹنگ کا خیال آیا۔ شام میں نور پٹیل اور محمود خورشید کے ساتھ اس کی میٹنگ تھی۔ ۔ ۔ ۔ اور اس میٹنگ میں اس کی سیاسی تقدیر کا فیصلہ ہونے والا تھا۔ وہ اس کے لیے تیار تھا اور اس لیے ذہنی طور پر اسے کوئی پریشانی نہیں تھی۔

میٹنگ آدھے گھنٹے تاخیر سے شروع ہوئی۔ نور پٹیل ٹریفک میں پھنس گئے تھے۔ پہلے مسکراہٹوں کا تبادلہ ہوا۔ چائے پی گئی۔ کسی فیصلے پر پہنچنے تک اس طرح کی فارملٹی کا خیال رکھا جاتا ہے۔ نور پٹیل نے سپرا کی طرف معنی خیز نگاہوں سے دیکھا۔ پھر پوچھا۔

‘ کسی نئی پارٹی سے آفر تو نہیں؟’

‘ کیوں؟ سب چھوڑکر جارہے ہیں اس لیے۔ ۔ ۔ ؟’

‘ ایسا نہیں ہے۔ جوجارہے ہیں، وہ نقصان میں رہیں گے’

‘ یہ فیصلہ کون کرے گا، وقت ؟’مسیح سپرا نے مسکرا کر پوچھا۔

‘ پہلے آپ یہ بتائیے کہ ہمارے علاوہ کوئی مستحکم پارٹی ہے ؟’ محمود خورشید نے اس بار مسکرا کر پوچھا۔

سپرا زور سے ہنسا۔’یہی خوش فہمی ہے۔ دروازہ بند کرلیجیے، آندھی آنے والی ہے۔’

‘ آندھی۔’نورپٹیل چونک گئے۔

مسیح سپرا کا لہجہ اس بار تلخ تھا۔ چیل اڑ رہی ہے۔ سامنے عقاب دیکھ رہا ہے۔ گدھ منڈرا رہے ہیں۔ اگر سچ مچ ایسا ہے تو آپ اسے کیا کہیں گے؟ میں دیکھ رہا ہوں اور اس لیے میں مطمئن ہوں۔ آسمان گدھوں سے بھر گیا ہے۔ ۔ ۔ اور پارٹی کو اطمینان ہے کہ کوئی مصیبت اس پر نہیں آئے گی۔’

‘ آپ کہنا کیا چاہتے ہیں مسٹر سپرا؟’ نور پٹیل کے تیور سخت تھے۔ آپ جانتے ہیں، آپ کی کتاب نے راؤ کا کتنا مذاق اڑایا ہے۔ اپوزیشن کے لوگ لطف لے رہے ہیں۔’

‘ اس قدر سنجیدگی سے ناول کو پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ بھی لطف لیجیے۔ ایک مرڈر ہوتا ہے اور آخر میں مرڈر ایک سیاسی قتل ثابت ہوتا ہے۔ اب اس کے درمیان کیا کیا واقعات ہیں، اس پر خاک ڈالیے۔’

‘ خاک ہی تو نہیں ڈالی جاسکتی۔ آپ راجیہ سبھا کے ممبر بھی ہیں۔’

مسیح سپرا نے اس بار دونوں کی آنکھوں میں غور سے دیکھا۔ کمرے کی سفید دیواروں میں بے شمار چہرے پیدا ہوگئے تھے۔ ہر چہرے کی ایک تاریخ تھی۔ وقت کے ساتھ کتنے ہی چہروں پر گرد پڑ چکی تھی۔ ہال کے باہر سے آوازیں آرہی تھیں۔ میجر جوجو کاچہرہ اب نظروں کے سامنے تھا۔ سپرا کو احساس ہوتا ہے، وہ دھول اور طوفان کی سمت دوڑ رہا ہے۔ اس کے پیچھے کچھ لوگ ہیں۔ دوڑتے ہوئے ایک دروازہ نظر آتا ہے۔ ایک پرانی عمارت ہے۔ یہاں ہوا کا گزر نہیں۔ ایک لیمپ ہے جو ٹمٹمارہا ہے۔ کوئی آہستہ سے کہتا ہے، اٹھارہویں صدی۔ ۔ ۔ ۔ کچھ لوگ ہیں، جن کے چہرے گھٹنوں کے درمیان چھپے ہوئے ہیں۔ ایک چہرہ سر اٹھاتا ہے تو یہ محمود خورشید کا چہرہ ہوتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ مسیح سپرا کو اس خاموشی میں بھی خفت ہوتی ہے کہ وہ کن خیالوں کے درمیان ہے۔ یہاں اس کی سیاسی تقدیر پر مہر لگنے والی ہے اور وہ آندھیوں کا تعاقب کررہا ہے۔

‘ آپ کیا سوچتے ہیں۔’ نور پٹیل کی آنکھیں اس بار جھکی تھیں۔

‘ میرا سوچنا ضروری نہیں ہے۔ سوال ہے کہ آپ کیا سوچتے ہیں۔’

‘ اعلیٰ کمان ناراض ہے۔’محمود خورشید کی آواز ابھرتی ہے۔

‘ کیا آپ اس ہال کے باہر دیکھ رہے ہیں؟’ مسیح سپرا دونوں کی آنکھوں میں جھانکتا ہے۔

‘ ہال کے باہر۔ ۔ ۔ ۔ ؟’

‘ خانہ بدوش ہیں۔ ان کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ اور ایک طوفان ہے۔’

‘ آپ مستقبل کی بات تو نہیں کررہے؟’ نور پٹیل کے چہرے پر سنجیدگی تھی۔

‘ ہال کے باہر ایک دھند ہے۔ ریاستی سطح کی پارٹیوں کے قد میں اضافہ ہوا ہے۔ اور بی مشن مضبوط۔ کھیلنے کا وقت پہلے بھی نہیں تھا مسٹر نور پٹیل۔ آزادی کے گواہ سب تھے لیکن مسلمان لٹو تھے۔ لٹو؟ لٹو جانتے ہیں آپ؟ میں نے نچایا ہے لٹو۔ مسلمان لٹو کی طرح ناچ رہے تھے۔ آپ ان کے ہاتھوں میں تسبیح تھما رہے تھے۔ پانچ وقت کی نماز اور پارٹی۔ آپ جانتے ہیں، اس راگ کا مطلب کیا ہے؟ آنے والے وقت میں مسلمانوں کے ہزار برس کا حساب لیا جائے گا اور آزادی کے بعد کے برسوں کا بھی۔ آپ کے پاس ایک ڈگڈگی تھی۔ جمہوریت کی۔ پرانی عمارت نے وہ ڈگڈگی چھین لی۔ پھر بھی آپ کوکرگس نظر نہیں آرہے۔ نہ چیل نہ گدھ۔ میں تو بس یہی دیکھ رہا ہوں کہ پارٹی کی بنیاد رکھنے والا بھی ایک فرنگی تھا۔ ۔ ۔ ۔ اور پارٹی ایک خوبصورت یو ٹو پیا میں جیتی رہی۔ مگر اب۔ ۔ ۔ ۔ ۔’

‘ اب کیا؟’ محمود خورشید کا چہرہ سرخ تھا۔

‘ اخروٹ توڑنے میں کبھی کبھی ہاتھ زخمی ہوجاتے ہیں۔’

‘ یہاں اخروٹ کا ذکر کیسے آگیا؟’نورپٹیل کے چہرے پر ناراضگی تھی۔

‘ اخروٹ۔’مسیح سپرا نے قہقہہ لگایا۔ ‘خانہ بدوشوں کو اخروٹ پسند ہیں۔ اور اب اخروٹ کا موسم آنے والا ہے۔’

‘ واہیات۔’

‘ بے بنیاد باتیں۔’

‘ اخروٹ کا ذکر بے بنیاد ہے مگر راؤ کا نہیں۔ جبکہ پورا ملک یہ جانتا ہے کہ راؤ چاہتے تو پرانی عمارت محفوظ رہتی۔’

‘ یعنی کھلی بغاوت۔’

‘ ہم گلے میں پھندا ڈالے بیٹھے ہیں۔ ناتھانی اور جوشی ریس لگارہے ہیں۔’

‘ اس سے کیا ہوگا۔’

‘ ایک دن تاریخ زرد پتے کی طرح جھڑ جائے گی۔ پھر آپ بھی حاشیہ پر ہوں گے۔’

‘ بالکل بھی نہیں۔ غلط فہمی ہے آپ کی۔’محمود خورشید ذرا زور سے بولے۔

‘ جب تاریخ بدل رہی تھی ہماری لیڈر شپ یاتو قبرستانوں میں اونگھ رہی تھی یا دفن ہونے کی تیاری کررہی تھی۔’

مسیح سپرا اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا۔ اب اس کے پاس بولنے کے لیے کچھ نہیں تھا۔ ہال کے باہر بہت سے لوگ کھڑے تھے۔ وہ سیڑھیاں اتر کر لان میں آگیا۔ اسے یقین تھا، اب وہ آزاد ہے۔ اور وہ کسی قبرستان میں نہیں ہے۔ اس کو یاد آیا، اسے شاپنگ کرنی ہے۔ پبلشر سے ملاقات طے ہے۔ وہ کسی ریستوراں میں کھانا کھائے گا۔ اور اپنی آزادی کا جشن منائے گا۔ اس درمیان سپراخا موشی سے اپنا جائزہ لے رہا تھا۔ اس کی آنکھوں کی گول گول پتلیاں حرکت میں تھیں۔ پاؤں تیزی سے اٹھ رہے تھے۔ ہتھیلیاں گرم تھیں۔ کچھ چھوٹ رہا ہے۔ ابھی وہ زیادہ دور نہیں گیا تھا۔ وہ پلٹا اور ایک بار پھر سے اس کمرے میں تھا، جس کی دیواریں سفید تھیں۔ زمین پر بھی سفید ٹائلس بچھے تھے۔ دیواروں پر کو ئی پینٹنگس نہیں تھی اور چھت سے دو پنکھے جھول رہے تھے۔ نور پٹیل اور محمود خورشید نے چونک کر، پلٹ کر اس کی طرف دیکھا۔

سپرا مسکرایا۔’ایک بات رہ گئی تھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔’ وہ پھر مسکرایا۔ ۔ ۔’ان کمروں میں چھپکلی نہیں ہے۔ ہونی چاہیے۔ ۔ ۔ ۔ چھپکلی کیڑوں کا صفایا کردیتی ہے۔’ وہ مسکرا رہا تھا۔

‘ تو تم یہی کہنے آئے ہو۔ ۔ ۔ ۔’نور پٹیل نے پوچھا۔

‘ نہیں۔ پارٹی کی سب سے بڑی غلطی تھی کہ آزادی کے صرف دو برس بعد پرانی عمارت کا قفل کھول دیا۔ یہ قفل ذرا سی عقل اور رضامندی کے ساتھ بند کیا جاسکتا تھا۔ مگر ایسا نہیں ہوا۔ ۔ ۔ ۔ ۔’

‘ ہونہہ۔’محمود خورشید کا چہرہ فق تھا۔

‘ پھر آج جو کچھ ہورہا ہے۔ اس کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ ۔ ۔ اور بہتر ہے کہ۔ ۔ ۔ ۔’

‘ کیا بہتر ہے؟’ نور پٹیل کا چہرہ بھی زرد تھا۔

‘ ایسے تمام کمروں میں دو ایک چھپکلیاں ضرور ہونی چاہئیں۔’

سپرا مسکرایا۔ اس کے بعد وہ ٹھہرا نہیں۔ گاڑی میں بیٹھا اور گھر کی طرف چل دیا۔ اسے ریحانہ کو ساتھ لے کر شاپنگ کے لیے جانا تھا۔ پروگرام میں تبدیلی آگئی تھی۔ اس کے بعد اسے پبلشر سے ملنا تھا۔ اس نے کچھ اور بھی سوچ رکھا تھا۔ جیسے اسے کتّے پسند تھے۔ اس نے جنگلی کتّوں کے بارے میں کافی پڑھا تھا۔ کچھ کتے بھیڑیے کی نسل سے بھی تعلق رکھتے ہیں۔ وہ ایک بل ڈاگ پالنا چاہتا تھا۔ مگر کتے ریحانہ کو پسند نہیں ہیں۔ ریحانہ کہتی ہے، گھر ناپاک ہوجاتا ہے۔ کتوں کی موجودگی سے گھر میں فرشتے نہیں آتے۔ مسیح سپرا اب خود کو آزاد محسوس کررہا تھا، جبکہ ابھی تک فیصلہ نہیں آیا تھا اور اسے علم نہیں تھا کہ اس کی سیاسی تقدیر کا فیصلہ کیا آنے والا ہے۔

آگے ٹریفک جام تھا۔ کوئی حادثہ ہوگیا تھا۔ سپرا نے دیکھا، ایک موٹر سائیکل والا تھا۔ وہ بری طرح زخمی تھا اور پولیس اسے اٹھانے کی کوشش کررہی تھی۔ کچھ دیر میں ٹریفک صاف ہوگیا۔ اب سپرا کی گاڑی ہائی وے پر دوڑ رہی تھی۔

وہ اپنی آزادی کا جشن منانا چاہتا تھا۔ نئے ناول کا پلاٹ بھی اس نے سوچ رکھا تھا۔ مستقبل کی موت۔ ۔ ۔ اسے احساس تھا، خانہ بدوش اب مستقبل پر گولیاں چلارہے ہیں۔ سارے خانہ بدوش ایک جیسے نہیں ہوتے۔ مگر کچھ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اسے ان جنگلی خانہ بدوشوں سے شکایت تھی جو ملک کی تقدیر بدلنا چاہتے تھے۔ اور اس کے لیے انسانی لہو سے کھیلنا ضروری تھا۔

باب دوم

نئی دنیا، پرانی عمارت اور مردہ گھر

ایک دن
کھدائیوں سے صرف مردہ گھر نکلیں گے
لیکن ہم
ان مردہ گھروں کی شناخت نہیں کر پائیں گے

[divider](1)[/divider]

[dropcap size=big]سڑکوں[/dropcap]

چوراہوں پر ترشول اٹھائے اب ا ن خانہ بدوشوں کی تعداد بڑھتی جارہی تھی۔ سپرا نے ان خانہ بدوشوں کو ہالی وڈ کی فلموں میں دیکھا تھا۔ مارکیز کے ناول میں یہ بھلے خانہ بدوش تھے جو ہر دن نئی دنیا سے ٹکرارہے تھے۔ ان کا ایک سماج تھا اور اس سماج میں محبت جیسی شئے بھی قائم تھی۔ مگر ان خانہ بدوشوں کے چہرے سے زہریلے پوسٹر جھولتے تھے اور ان کے پیچھے وہ لوگ تھے جو تعلیم یافتہ تھے، مہذب معاشرے کے ٹھیکیدار تھے مگر ان کا تعلق اس کیمپ سے تھا، جس کی بنیاد پر نفرت کی فصیلیں قائم کرکے ہی یہ اپنی سلطنت کی بنیاد رکھ سکتے تھے۔

گلیشیرپگھل رہے تھے۔ سائبریا میں گھاس اُگ رہی تھی۔ سائنس کی تجربہ گاہ میں انسان بنائے جارہے تھے اور ناسا نئی دنیاؤں کی دریافت کے لیے تجربے کررہا تھا۔ پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے بعد بھی جنگوں کے دروازے کھلے تھے۔ اب ایٹمی ہتھیاروں کی باتیں پہلے سے کہیں زیادہ ہونے لگی تھیں۔ دنیا کے چھوٹے چھوٹے ممالک بھی ایٹمی ہتھیار بنانے پر زور دے رہے تھے۔ اور جیسا کہ ہر من ہیسے نے اپنے ایک ناول میں لکھا تھا، ایک نئی دنیا، مرغی کے انڈے سے باہر نکلنے والی ہے۔ ۔ ۔ ۔ اور یہ دنیا ان لوگوں کے لیے خطرناک ہوگی جو پرانی دنیاؤں سے ابھی بھی چپکے ہوئے تھے۔

سپرا کی آنکھوں میں ایک ٹائم مشین فٹ تھی، جس سے ہوکر وہ اکثر ماضی کی وادیوں میں نکل جاتا تھا۔ اسے شدت سے احساس تھا کہ بچپن سے اب تک کافی حد تک تبدیلی آچکی ہے۔ مگر اس تبدیلی کو بہتر ماننے سے وہ انکار کرتا تھا۔ جب کوئی سہولت یا آسانیاں نہیں تھیں، جب گرمی کے موسم میں پنکھے بھی نہیں ہوتے تھے اور جسم پسینے سے تر بتر ہوا کرتا تھا تب ایک آزادی تھی۔ دوڑنے کی آزادی۔ ۔ ۔ ۔ خوش رہنے کی آزادی۔ اپنی بات کہنے کی آزادی۔ وقت کے چھلانگ لگاتے ہی آزادی کا تصور بہت حد تک ختم ہوگیا تھا۔

یہ دوسرے دن کی خوشنما صبح تھی۔

وہ باہر لان میں کرسیوں پر بیٹھا تھا۔ ریحانہ چائے کا طشت لے کر آگئی۔ وہ آہستہ آہستہ چائے کا لطف لیتا رہا۔ اس نے ریحانہ کی طرف دیکھا جو اپنی دنیامیں کھوئی ہوئی تھی۔

‘ کیا تم مانتی ہوکہ نئی دنیا کا کوئی خیال ہے جو ہمارے ساتھ چلتا ہے۔’

‘ نہیں، میں نہیں مانتی۔ دراصل یہ پرانی دنیا ہے، جس میں ہم زندہ ہیں۔’

ریحانہ سپرا کی طرف دیکھ رہی تھی۔

‘ یعنی نئی دنیا کا کوئی تصور؟’

‘ ایسا کوئی تصور نہیں۔ یہ وقت ہے جو آگے بڑھتا ہے اور اپنے حساب سے بڑھتا ہے۔ کبھی کبھی ہم یہ بھی کہہ دیتے ہیں، وقت تیزی سے بھاگ رہا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے۔ وقت تیزی سے کیسے بھاگ سکتا ہے؟ہم بچے ہوتے ہیں۔ پھر ایک دن بوڑھے ہوجاتے ہیں۔ صد ہا سال سے ایک ہی دنیا ہے جو ہمارا تعاقب کررہی ہے۔’

‘ سائنس، گلوبل تبدیلی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور’

‘ یہ سب نئی اصطلاحیں ہیں۔ ہم ہمیشہ پرانی دنیا کے تعاقب میں رہتے ہیں۔ ۔ ۔ اور نئی دنیا کے احساس کو قائم رکھنے کے لیے نئی اصطلاحیں گڑھتے رہتے ہیں۔’

لیکن ایک نئی دنیا تھی اور اس دنیا میں بہت سی ایسی چیزیں تھیں جو سپرا نے اس سے قبل محسوس نہیں کی تھیں۔ نئی پرانی دنیا کے تصور میں وقت کا پیمانہ رہ جاتا ہے۔ ایک درزی ہے جو لباس کے لیے جسم کا ناپ لے رہا ہے۔ ایک وقت ہے جو کبھی پیچھے چلا جاتا ہے اور کھسک کر پاس آجاتا ہے۔ ریحانہ اس تصور کو نہیں مانتی تھی مگر اس کے باوجود ایک نئی دنیا برآمد ہورہی تھی۔ اس درمیان بغاوت کے جرم میں، سپرا کو پارٹی سے نکال دیا گیا۔ راجیہ سبھا سے استعفیٰ دینا پڑا۔ سپرا اپنی کرائم کی دنیا میں واپس آگیا۔

۱۹۹۵ تک سیاست کی دنیا میں کئی طوفان آچکے تھے۔ پرانی عمارت کا معاملہ گرم تھا۔ ایک نئی دنیا اور بھی سامنے تھی۔ اب ٹی وی گھر گھر پہنچ چکا تھا اور کتابیں پڑھنے کی روایت بہت حد تک کم ہوچکی تھی۔ جاسوسی، رومانی کتابوں کا مارکیٹ بھی زد میں آیا تھا۔ پبلشر نے کئی بار شکایت کی۔ اب ڈیمانڈ کم سے کم ہوتی جارہی ہے۔ پتہ نہیں آنے والے برسوں میں کیا ہوگا۔ سپرا پر کئی سیاسی پارٹیوں کا دباؤ تھا مگر اس نے خود کو سیاست سے الگ رکھا۔ وہ اب اس دنیا سے خود کوعلیحدہ کرچکا تھا۔ اس درمیان کاشف کی پیدائش ہوئی۔ اب ایک ننھے سے لوتھڑے کو چہرہ اور جسم مل چکا تھا۔ ریحانہ خوش تھی۔ سپرا کو بھی باپ بننے کی خوشی تھی۔ یہ خون کا رشتہ بھی کیسا عجیب ہوتا ہے۔ پہلے وہ کسی نوزائیدہ بچے کو دیکھتا تو چھونے سے بھی گھبراتا تھا اور اب۔ سارا دن وہ کاشف کے ارد گرد گھومتا رہا۔ سپرا زمانے کی چال کو دیکھ رہا تھا۔ مصروف ترین دنیا کے لوگ کتابوں سے کٹ گئے تھے۔ اب ٹی وی کی دنیا تھی اور نئے نئے سیریل۔ کچھ ایسے بھی سیرئیل تھے کہ دکانیں بند ہوجاتیں۔ سڑکوں پر سناٹا چھا جاتا۔ ہر شخص اپنا پسندیدہ سیرئیل دیکھنے کے لیے گھر میں وقت گزارنا چاہتا تھا۔ پھر ٹی وی پر فلمیں دکھانے کا رواج شروع ہوا توکتابیں پڑھنے والوں کی تعداد اور کم ہوگئی۔ سپرا کو پبلشر نے بلوایا تھا۔ سپرا کو یاد ہے۔ پبلشر اداس تھا۔ وہاں کام کرنے والوں کی تعداد بھی کم ہوچکی تھی۔ پہلے بہت سے لوگ ہوا کرتے تھے۔ خاص کر رامیشور سے اس کی بہت بنتی تھی۔ رامیشور سیلس دیکھتا تھا اور اس کا قاری بھی تھا۔ پبلشر نے رامیشور کو بھی نکال دیا تھا۔ سپرا کو احساس ہوا کہ اب ایک ایسی دنیا سامنے ہے جہاں ہر طرح کی کتابوں کی ضرورت کم ہوچکی ہے۔ پہلے ٹرین، ہوائی جہاز ہر جگہ کتابیں پڑھتے ہوئے لوگ ملتے تھے۔ مگر اب، گلیشیر پگھل رہے تھے اور کتابیں پانیوں میں تیر رہی تھیں۔

پبلشر نے ذرا ٹھہر کر کہا۔’ سوچتا ہوں، کوئی اور پیشہ اختیار کروں۔’

سپرا نے کچھ بھی نہیں کہا۔
‘ اب کتابیں نہیں بکتیں۔ پہلے لاکھوں کی تعداد میں فروحت ہوتی تھیں۔ اب پڑھنے والے نہیں رہے۔’

سپرا نے اس بار بھی خاموشی سے کام لیا۔

‘آپ کیا سوچتے ہیں؟’

سپرا مسکرایا۔’ جب مارکیٹ نہیں۔ تو ہم بھی نہیں۔ ہم تو مارکیٹ کا حصہ ہیں۔ جب پڑھنے والے نہیں تو آپ بھی نہیں۔’

‘ اب نیابازار ہے۔’ پبلشر کی آواز کمزور تھی۔

‘ بہتر ہے، آپ ماڈرن جوتوں کی ایک بڑی دکان کھول لیں۔’

‘ ماڈرن جوتے۔ ۔ ۔ ؟’

‘ کتابوں میں اور جوتوں میں فرق یہ ہے کہ جوتے ہمیشہ بکیں گے اور ایک دن ایک کتاب کا فروخت ہونا بھی بند ہوجائے گا۔’

پبلشر مسکرایا۔’ مجھ سے زیادہ آپ حالات کو سمجھ رہے ہیں۔’

‘ میں بھی سوچ رہا ہوں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔’

‘ کیا؟’

‘ جب آپ جوتوں کی شاپ کھولیں گے تو وہاں نوکری کر لوں گا۔’

مسیح سپرا باہر آیا تو اس کا سر گھوم رہا تھا۔ وہ سیاست سے پہلے ہی الگ ہوچکا تھا۔ اب کرائم بڑھ رہے تھے۔ مگر کرائم اسٹوری کوئی پڑھنا نہیں چاہتا تھا۔ ٹی وی پر کئی کرائم اسٹوری سیریز دکھائی جارہی تھی۔ یہ بھی ایک تبدیلی تھی۔ سپرا نے خیال کیا، اس کے ساتھ کے لکھنے والے اچانک زمین پر آگئے۔ ایسے لوگ جو کتابوں کی بدولت زندہ تھے اور جن کے فرضی ناموں کوایک دنیاجانتی تھی، اب یہ فرضی چہرے وقت کی دھند میں گم ہونے کی تیاری کررہے تھے۔ ایسا ہی ایک چہرہ اس کا بھی تھا۔ ایک فرضی چہرہ۔ لیکن سیاست میں اس نے کچھ پیسے بنائے تھے اور کچھ دولت کتابوں کی مارکیٹ سے بھی اس کے حصے میں آئی تھی۔ آگے کیا کرنا ہے، وہ زیادہ اس بارے میں سوچنا نہیں چاہتا تھا۔ مگر یہ خیال ضرورتھا کہ اس کو وقت کے ساتھ چلنا ہے۔ بدلے ہوئے موسم میں کبھی کبھی آسمان پر آنسوؤں کی جھلملاہٹ نظر آتی، جو بارش کی صورت برس تو جاتے لیکن اس سے ماحول پر زیادہ کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔ کبھی کبھی آگ کی لپٹیں دکھائی دیتیں۔ شمال میں انگریزوں کا ایک پرانا چرچ تھا، جس کے بند دروازے کے اندر اکثر وہ چمگادڑوں کو الٹا لٹکے ہوئے اور کبھی کبھی اڑتے ہوئے دیکھتا تھا۔ وقت کی زد میں اب اقلیتی طبقہ بھی آچکا تھا۔ گرمیاں شروع ہوگئی تھیں۔ اندھیری راتوں میں جب آسمان زمین پر جھکا نظر آتا تو تاحد نظر اسے کیکٹس کے درخت نظر آتے۔ یہ اس کا وہم تھا لیکن کیکٹس کے درختوں کو مسلسل دیکھنا اسے اچھا لگتا تھا۔ کیکٹس سے نکلے ہوئے کانٹے سیدھے اس کی روح کو زخمی کرتے تھے اور ان کی چبھن کا احساس پرانے گڑے مردوں کی یاد دلاتا تھا۔ دلی والے ویسے بھی اب دیر تک جاگنے کے عادی ہوچکے ہیں۔ مگر سپرا کو یقین ہے، وہ ان شعلوں کو ضرور دیکھتے ہوں گے، جو کبھی کبھی آسمان سے اٹھتے ہوئے نظر آتے تھے۔

خانہ بدوش مطمئن تھے کہ بغاوت اب زیادہ دور نہیں۔ اور اسی طری پارٹی مطمئن تھی کہ ۱۹۲۵ سے اب تک یہ سرد الاؤ تو جلاتے رہے مگرحاصل کچھ نہیں ہوا اور اس لیے پرانی عمارت کا غم یا حادثہ دلوں سے جلد نکل جائے گا۔ وشال کرشن ناتھانی کو وہ شخص عزیز تھا جو اکثر ان کا خیال رکھتا تھا اور انہیں چائے پلایا کرتا تھا۔ جبکہ باجپائی نے کئی بار انہیں ہدایت دی تھی کہ لوگوں کے چہرے کو پڑھنا سیکھیں ورنہ آیندہ مشکل ہوسکتی ہے۔ اور ناتھانی اس بات کو نظر انداز کرتے ہوئے مطمئن تھے کہ فضا اب ان کے حق میں ہے۔ اور بدلتے ماحول میں نئی پارٹی کو اس کا فائدہ مل سکتا ہے۔

سپرا کاشف اور ریحانہ کو لے کر اب دوسرے فلیٹ میں آچکے تھے۔ راجیہ سبھا والا مکان اب کسی اور ممبر کے حوالے کیا جاچکا تھا۔ اس بات سے سپرا کو کوئی زیادہ فرق نہیں پڑتا تھا۔ ہاں، اب وہ اپنے ناول کی تیاری کررہا تھا اور اس ناول میں پرانی عمارت کا ذکر بھی تھا۔ پرانی عمارت کو مسمار کرنے کے درمیان ایودھیا میں ایک شخص کا قتل ہوا تھا اور تفتیش کا مرحلہ ایسا دلچسپ مرحلہ تھا کہ نئے نئے انکشافات سامنے آرہے تھے۔ سپرا کو یہ بھی یقین تھا کہ بہت جلد پبلشر اپنی کتابوں کی دکان بند کردے گا اور دکان کی جگہ بھلے جوتوں کی دکان نہ کھولے، کوئی دوسرا کاروبار تو شروع کرہی دے گا۔ ایسا کاروبار جس میں منافع ہو۔

اس میں شک نہیں کہ سن ۲۰۰۰ء آتے آتے یہ پوری دنیابہت حد تک تبدیل ہوچکی تھی۔ سیاست میں اخلاقیات کے معنی بدل چکے تھے۔ زندگی بدل چکی تھی۔ اور بدلنے کی رفتار اتنی تیز تھی کہ ہر دوسرے دن سائنس اور ٹیکنالوجی کے نئے نئے کارنامے اور کرشمے سامنے آجاتے تھے۔ سن ۲۰۰۰ء تک بچوں کی دنیا بدل چکی تھی۔ پہلے جہاں صرف دور درشن دکھایا جاتا تھا، اب بہت سے ٹی وی چینلز آچکے تھے۔ اب کوئی سرکاری بھونپو کی طرف توجہ بھی نہیں دیتا تھا۔ کاشف پانچ برس کا ہوگیا تھا۔ ریحانہ شوگر اور دیگر امراض میں گرفتار ہوکر پریشان رہنے لگی تھی۔ ۔ ۔ اور آسمان پر عقاب اڑرہے تھے۔ بی مشن نے حکومت بنالی تھی۔ پارٹی کا غرور خاک میں مل گیا تھا مگر پارٹی کو اس کا علم تھا کہ ان کی واپسی ضرور ہوگی۔ مگر یہ علم نہیں تھا کہ ان کی واپسی کاکتنااثر ملک کے عوام پر پڑے گا۔ کیونکہ عوام کے فکر میںبہت تیزی کے ساتھ تبدیلی آئی تھی۔ سب سے بڑی تبدیلی یہ تھی کہ نئے بچوں کے کھان پان کا تصور بدل گیا تھااب فاسٹ فوڈ کا زمانہ تھا۔ بچے فاسٹ فوڈ کی دنیا میں، خود کو نئی زندگی میں محسوس کررہے تھے۔ ماں باپ کے ساتھ یا خاندان کے ساتھ رشتوں کی ڈور بہت حد تک کمزور پڑ چکی تھی۔ یہ بدلا ہوا ہندوستان تھا۔ جبکہ صبح کی کرنوں میں ابھی بھی اس پرانے ہندوستان کی جھلک دیکھنے والوں کو نظر آتی تھی۔ گلابی دھوپ کا پیغام پڑھنے والوں کی کمی تھی۔ مگر زندگی تیز رفتار ہوگئی تھی۔ سن۲۰۰۰ء کی شروعات نے سب سے بڑا حملہ اقتصادیات پر کیا۔ کئی ملکوں میں چیخ وپکار مچ گئی۔

ہندوستان میں کمرشل نائٹ سروس کا آغاز ہوا۔ نوجوان بچے غیر ملکی اداروں سے وابستہ ہونے لگے جہاں پیسے بہت زیادہ تھے اور زندگی آپ کو زیادہ غور و فکر کرنے کا موقع نہیں دیتی تھی۔

۲۰۰۵ء تک کاشف دس برس کا ہوچکا تھا۔ سپرا کو اب کاشف کی فکر ہورہی تھی۔ اس درمیان کئی ملکوں میں آنے والی سونامی نے بھی معیشت پر حملہ کیا تھا اور اس بات کا احساس دلایا تھا کہ ارنیسٹ ہیمنگ وے کا بوڑھا آدمی ہر مورچے پر کامیاب نہیں رہتا۔ سمندری غصے کے آگے انسان بے بس اور لاچار ہے۔ اور یہ لاچاری اس ملک میں اس وقت دیکھنے میں آئی جب گجرات میں ہونے والے فسادات نے ہندو اور مسلمانوں کو دو زہریلے حصوں میں تقسیم کردیا تھا۔

اور اس میں شک نہیں کہ ریاست کے سربراہ نے معصوموں پر گولیاں چلوائی تھیں اور اس شخص کو یہ عہدہ کرشن ناتھانی کی خدمت سے ملا تھا۔ کرشن ناتھانی کا ایک خواب تو پورا ہوا لیکن جس خواب کے لیے انھوں نے رتھ یاترا سے سماج کو تقسیم کرنے کا بیڑہ اٹھایا تھا، وہ خواب ابھی مکمل نہیں ہوا تھا۔ مگر سیاست میں ناتھانی کی حیثیت مضبوط تھی۔ اوریہ وہی زمانہ تھا جب گاڑیوں کی زیادہ آمد ورفت کی وجہ سے جمنا کا پل کمزور ہوگیا تھا۔ ابھی فلائی اوورز کے جال نہیں بچھے تھے۔ ریاستی سطح کی نئی پارٹیاں سر نکال رہی تھیں اور سب سے بڑا خطرہ اس پارٹی کو تھا، جو اب تک خوش فہمی میں تھی کہ آیندہ بھی اسی کی حکومت قائم رہے گی، جبکہ عوام کی نفسیات، تبدیلیاں، ہوا کا رُخ، بدلتے موسم کو دیکھنے میں پارٹی پوری طرح ناکام رہی تھی۔ اس درمیان کئی سیاسی قائد آئے اور گئے۔ ملک ایک کھلونا تھا، جس سے کھیلنے والوں کی کمی نہیں تھی۔ پارٹی کو یہ بھی نہیں پتہ تھا کہ ایک دن پارٹی میں روح پھونکنے والے قائد بھی حاشیے پر ڈالے جاسکتے ہیں اور یہی پارٹی کی سب سے بڑی کمی تھی کہ ان کے کسی بھی لیڈر کے پاس مستقبل کی پلاننگ یا دور اندیشی نہیں تھی۔

کاشف اب اسکول جانے لگا تھا۔ اور دس برس کی عمر میں ہی اس کی ڈیمانڈ یہ تھی کہ اس کو ایک موٹر سائیکل چاہیے۔ ریحانہ سے زیادہ سپرا خائف تھا۔ دس برس کا بچہ موٹر سائیکل کیسے چلائے گا مگر کاشف کا بچپن یہ تھا کہ و ہ پستول، راکٹ لانچروں اور ایسے ویڈیو گیموں میں پناہ لیتا تھا، جوسپراکے نزدیک بہتر نہیں تھے۔ دس برس کی عمر سے ہی اس نے گھر کے کھانوں سے انکار کردیا تھا۔ اس کے لیے میک ڈونالڈ جیسی کمپنیوں سے پزا اور برگر کے آرڈر دیے جاتے تھے۔ اس کو چاؤمین پسند تھا۔ ریحانہ ناراض ہوتی تھی کہ اس کا اثر کاشف کی صحت پر پڑے گا۔ یو ں تو کاشف دس برس کی عمر میں بھی متوازن شخصیت کا مالک تھا۔ مگر آہستہ آہستہ اس میں ایک خاص قسم کی بغاوت بھی پیدا ہورہی تھی۔ دوسرے بچوں کو دیکھ کر اس کی فرمائشوں کے انداز بھی تبدیل ہورہے تھے۔ سپرا نے سوچ رکھا تھا کہ ہر ممکن وہ کاشف کی مدد کرے گا۔ کیونکہ کاشف اور ریحانہ اس کی زندگی کے لیے سب سے زیادہ معنی رکھتے ہیں اور ان دونوں کو الگ کرکے وہ اپنی زندگی کے بارے میں کوئی تصور نہیں کرسکتا۔

لیکن کچھ باتیں تھیں جو سپرا کو ناگوار بھی گزرتی تھیں۔

‘ میرے دوست کے پاپا منسٹر ہیں۔’
‘ہوں گے۔’

‘ وہ پوری فوج کے ساتھ آتا ہے۔’
‘ آتا ہوگا۔’

‘ اس کے پاس بہت مہنگی گاڑی ہے۔’
‘ گاڑیاں سب ایک جیسی ہوتی ہیں۔’

‘ وہ بہت تیز موٹر سائیکل چلاتا ہے۔’
‘ اور میں ابھی تم کو موٹر سائیکل چلانے نہیں دے سکتا۔’

‘ کیوں ؟’
‘ کیونکہ میرا ایک ہی بیٹا ہے کاشف۔’

‘ یہ کیا بات ہوئی۔ وہ بھی اپنے باپ کا اکلوتا بیٹاہے۔’
‘ ان کی بات ہم سے مختلف ہے۔’

‘ وہ زیادہ پیسے والے ہیں اس لیے۔’
‘ یہ دنیا پیسے والوں سے نہیں چلتی۔’

‘ پھر کس سے چلتی ہیں۔’
‘ یہ بات آہستہ آہستہ تمہاری سمجھ میں آئے گی۔’

‘ اور نہیں آئی تو ؟’
‘ اس کے ذمہ دار تم ہوگے۔’

کاشف میں ایک خوبی یہ بھی تھی کہ وہ زیادہ بحث نہیں کرتا تھا۔ مگر آہستہ آہستہ اس میں تبدیلی آرہی تھی۔ پندرہ برس کی عمر میں اس نے اچھا خاصہ ہاتھ پاؤں نکالا تھا۔ ہلکی سی مونچھ بھی آگئی تھی۔ وہ ایک خوبصورت نوجوان تھا۔ ریحانہ کا عالم یہ تھا کہ کاشف کہیں بھی جاتا، وہ اس کے لیے صدقہ نکالتی۔ دعائیں پڑھ کر پھونکتی، پھر اسے جانے دیتی۔ اور جب تک کاشف گھر نہیں لوٹتا، وہ پریشان رہتی تھی۔

۲۰۱۰ تک ہماری دنیا لینڈ لائن اور سرکاری فون سے باہر نکل آئی تھی۔ اب موبائل کا زمانہ تھا اور دنیا کے اڑنے کی رفتار بہت تیز تھی۔ ہم جس قدر سہولتوں کے عادی ہوتے ہیں، اسی سطح پر ہم ایک زمانے سے کٹ بھی جاتے ہیں۔ پریوں کی کہانیاں گم ہوگئیں۔ شہزادی شہزادے وقت کے اندھیرے میں کھوگئے۔ بادشاہوں کے قصے پرانے پڑگئے۔ نصاب نئے ہوگئے، فکر بدل گئی، کمپیوٹر، موبائل اور لیپ ٹاپ نے بچوں کی زندگی کے مزاج اور معیار کو تبدیل کرڈالا۔ سپرا کو احساس تھا، اسی تبدیلی سے ایک مردہ گھر پیدا ہورہا ہے اور وہ اب مردہ خانے کے احساس سے خوفزدہ ہونے لگا ہے۔ ۔ ۔ ۔
‘ رجنی چلی گئی۔ مگر کیسے؟’

‘ شارو چلاگیا۔ کیا بات؟’

‘ مہندرو کی ابھی عمر ہی کیا تھی۔ ۔ ۔’

‘ بڑی باجی کو کیا ہوا تھا؟’

‘ منجھلی باجی کا بیٹا تو اب کاشف کے ساتھ کا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ایسا کیسے ہوگیا۔ ۔ ؟’

‘ ناظر میاں کے ساتھ تو کل اس نے شطرنج کھیلا تھا۔’

‘ واصف بھائی کے ساتھ کل صبح جاگنگ کی تھی۔’

‘ نارائن کیسے جاسکتا ہے۔ ۔ ؟’

‘ رشمی کو کیاہواتھا۔ ۔ ۔ ۔ ؟’

ہر دن ایک موت۔ ۔ ۔ ۔ اور اس میں شک نہیں کہ موت سپرا کے احساس کو قید کرلیتی ہے۔ سپرا کئی کئی دنوں تک موت کے احساس سے باہر نہیں نکل پاتا۔ یہ قریبی لوگ۔ ۔ ۔ ۔ دوست، رشتے دار۔ ۔ ۔ ۔ یہ سارے گم ہو کیسے سکتے ہیں؟جیسے جیسے عمر بڑھ رہی تھی، جانے والوں کا قافلہ تیز تھا۔ ہر دوسرے دن کسی نہ کسی کے بارے میں کوئی خوفزدہ کرنے والی خبر آجاتی۔ کسی کو ہارٹ اٹیک، کسی کو ہیمرج، کسی کو کینسر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایک بیمار دنیا، جہاں موت کا اندھیرا بڑھ چکا تھا اور کچھ لوگ اس بیمار دنیا میں نفرت کے پوسٹر لے کر کھڑے تھے۔ یہ تضاد اس کی سمجھ سے باہر تھا۔

پزا اور برگر کی دنیا کا ہر دن اب اسے تکلیف پہنچانے لگا تھا اور کاشف کی کچھ باتیں بھی ایسی تھیں، جو اسے پسند نہیں تھیں۔

— میں چھٹیوں میں گوا جارہا ہوں
— اسکول کے بچوں کے ساتھ دبئی جانا ہے۔
— فٹ بال کی پریکٹس کرنی ہے
— کرکٹ کے لیے جارہا ہوں۔

‘ چوٹ مت لگانا۔’ریحانہ ہمیشہ ایک ہی بات کہتی۔ صدقہ اتارتی۔ دعا پڑھ کر پھونکتی پھر کاشف کو جانے دیتی۔ وہ کچھ سوال کرتا تو جواب ملتا، کاشف کو اب باندھ کر نہیں رکھا جاسکتا ہے۔ وہ بڑا ہورہا ہے۔ باندھ کر رکھیں گے تو احساس کمتری میں مبتلا ہوجائے گا۔’

‘ ہاں یہ تو ہے۔ کیونکہ ہم سے زیادہ بچے تبدیل ہوگئے ہیں۔’

سپرا کو احساس تھا، یہ نوجوان بچے جس سمت نظریں دوڑائیں گے، وہاں منزل نما گرد کا غبار ہوگا۔ منزل نہیں۔ لاکھوں بچے اسی سمت دوڑ پڑتے ہیں اور ایک دن گرد غبار میں کھوجاتے ہیں۔

ملک کے مختلف حصوں میں خانہ جنگی جیسا ماحول تھا۔ اس ماحول کو پیدا ہونا ہی تھا۔ سپرا جانتا تھا کہ سیاست نئی قدروں اور نئی اخلاقیات سے گزر رہی ہے۔ ۲۰۱۰ تک کتنی ہی آندھیاں آئیں۔ اس درمیان پبلشنگ ادارے بہت حد تک بند ہوچکے تھے۔ جاسوسی اور رومانی کتابیں اب کوئی نئی پڑھتا تھا۔ اس نے بھی لکھنا بند کردیا تھا۔ اب وہ لائزننگ کاکام کرتا تھا۔ سیاست میں رہنے کا ایک فائدہ یہ تھا کہ نئے پرانے تمام چہروں سے ملاقات تھی۔ کئی چہرے تو اس کے دیکھتے ہی دیکھتے سیاست کے اُفق پر چھاگئے۔ لیکن یہ دوستی اب کام آرہی تھی۔ بہت سے ایسے جاننے والے تھے، جن کا کام حکومت سے رہتا تھا۔ کسی کو پٹرول پمپ چاہیے۔ کسی کو ایڈمیشن۔ کچھ ایسے تھے جو منسٹر سے مل کر کی خوش ہوجاتے تھے۔ سپرا جانتا تھا کہ لائزننگ کے ذریعہ زندگی آسانی سے گزاری جاسکتی ہے۔ ایک برس میں تین لوگوں کا بھی کام ہوگیا تو کافی پیسے مل جائیں گے۔ کبھی کبھی سپرا سوچتا ہے اور ہنستا ہے کہ زندگی کے بھی کیا رنگ ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب وہ مسخرہ تھا۔ پھر جاسوس بننے کا خیال آیا۔ پھر کرائم اسٹوری لکھنے لگا اور یہاں سے چھلانگ لگا کر راجیہ سبھا پہنچ گیا اور اب یہ دلالی کاکام۔ لیکن اس کام میں کوئی برائی نہیں ہے، وہ اپنا حصہ لیتا ہے بس۔ اور اس لیے لیتا ہے کہ زندگی گزارنی ہے۔

وقت گزرنے کے ساتھ کاشف نے اب سوال کرنا شروع کردیا تھا۔ سپرا خاموشی سے اپنے بیٹے کے چہرے کے تاثرات پڑھتا تھا۔ اس کے چہرے کی مسکراہٹ پر فدا ہوتا تھا۔ اس کے گلے شکوے کا حل نکالتا تھا اور جواب دیتا تھا۔ وہ اپنے بیٹے کو کسی صورت ناراض نہیں کرنا چاہتا تھا۔ مگر کاشف اپنا مقابلہ اب اپنے دوستوں سے کرنے لگا تھا۔

آپ نے راجیہ سبھا کیوں چھوڑ دیا ؟

وہاں ہوتے تو ہم منسٹروں جیسے ہوتے۔

مجھے آپ پر فخر ہوتا۔

‘ اب فخر نہیں؟’ سپرا نے پوچھا۔

‘ کیا بتاؤں دوستوں کو کہ کیا کرتا ہے میرا باپ۔’

‘ کہہ دینا کہ فروٹس بیچتا ہے۔’

‘ نہیں۔ میں کہہ دیتا ہوں کہ وہ راجیہ سبھا کے ممبر تھے۔’

‘ ماضی سے کھیلتے ہو؟’

‘ کھیلنا پڑتا ہے ڈیڈ۔’

ماضی۔ ۔ ۔ ۔ سپرا کو احساس تھا کہ ماضی سے کھیلنا پڑتا ہے کیونکہ ماضی ہرجگہ، ہر قدم آپ کے ساتھ ہوتا ہے۔ وہ ایک مہیب راستہ نکال کر آپ کے ذہن میں داخل ہوجاتا ہے۔ وہ پھر چور دروازے سے اور آپ کو اداس کرجاتا ہے۔ اور خاص کر جب آپ پریشان ہوتے ہیں، ماضی ذہن ودماغ میں وسیع مقام حاصل کر نے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ یعنی ڈپریشن۔ اس کے اوپر ڈپریشن۔ یہ ماضی کی تلوار ہمیشہ لٹکتی رہتی ہے۔ وہ اکثر تنہائی میں ماضی کی کتابیں کھول کر بیٹھ جاتا ہے۔ ابا حضور، اماں حضور، لئیق چاچا، شمو ماموں، حلیمہ نانی۔ ۔ ۔ ۔ کیسے کیسے چہرے۔ ۔ ۔ ۔ آئس کریم والا آیا نہیں کہ حلیمہ نانی کی آواز ابھرتی۔ ۔ ۔ ۔ ارے آئس کریم لے لو۔ ۔ ۔ لئیق چاچا شعر وادب کا ذوق رکھتے تھے۔ ۔ خوبصورت آدمی تھے۔ شموں ماموں داستان گو تھے۔ ساری دنیا کی رامائن سن لیجیے۔ یہ احساس اس وقت کہاں تھا کہ یہ لوگ اوجھل ہوجائیں گے۔ پھر نظر نہیں آئیں گے۔ داستانیں گم ہوجائیں گی۔ کمرے خالی ہوجائیں گے۔ صحن ویران ہوجائے گا۔ ایک آواز آتی ہے۔ میرے لیے آئس کریم لے آؤ۔ آواز کے ساتھ ایک جسم ہوتا ہے۔ جسم جگہ گھیرتا ہے۔ پلنگ پر، مسہری پر، کہیں بھی۔ ایک دن آواز خاموش۔ جسموں کا گھیرا ختم۔ سب کچھ ختم۔

اس نے ریحانہ سے پوچھا۔ ۔ ۔ ۔ ہم کہاں ملیں گے؟

وہ بری طرح چونک گئی۔ کہاں ملیں گے؟

‘جب نہیں ہوں گے۔’

‘ فاسفورس کے ڈھیر میں چمک رہے ہوں گے۔’

‘ نہیں۔ سچ بتاؤ۔ کیا جنت جیسی کوئی جگہ ہے؟’

‘ مردہ خانہ تو ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔’

مسیح سپرا پہلی بار چوکا تھا۔ ۔ ۔ ۔ مردہ خانہ؟

‘ چونکے کیوں؟’

‘ تم نے مردہ خانہ کہا؟’

‘ کیا جنت میں زندہ لوگ ہوں گے؟’

‘ پتہ نہیں۔’

‘ اور ہماری دنیا میں؟’ریحانہ زور سے ہنسی۔

‘ پتہ نہیں۔’

‘آدھے سے زیادہ مردے ہیں۔ چھپکلی۔’

‘ چھپکلی کیوں؟’

‘ دیواروں پر اس طرح تیرتے ہیں کہ کوئی بھی چھپکلی کی طرح مارسکتا ہے۔’

ٹھیک اسی وقت سپرا نے ایک چھپکلی کو دیکھا جو روشنی کے ارد گرد منڈرا رہی تھی۔ مردہ خانہ۔ ۔ ۔ ۔ اس کے کانوں میں یہ لفظ دیر تک گونجتا رہا۔

[divider](2)[/divider]

[dropcap size=big]مردہ خانہ[/dropcap]

دوسری بار یہ لفظ ۲۰۱۳ میں سنا۔ سیاست نئی کڑوٹ لے رہی تھی۔ پارٹی ملک کی کئی ریاستوں سے غائب ہورہی تھی۔ بی مشن کا قبضہ ہر جگہ ہورہا تھا۔ پرانی مذہبی عمارت کی گونج میں اضافہ ہوچکا تھا۔ سپرا کو وہ گنبد یاد تھا۔ پرانی عمارت کی یاد تازہ تھی۔ پھر وہ عمارت کا ملبہ بھی، جس کے چاروں طرف پولیس کا پہرہ تھا۔ پرانی عمارت کی جگہ نئی عمارت کی تعمیر نے اب سیاست پر قبضہ کرلیا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلمان محض ووٹ بینک بن گئے تھے اور اس بات سے سہمے ہوئے تھے کہ ان کا مستقبل کیا ہوگا۔ جبکہ پارٹی بھی مستقبل کو لے کر خوفزدہ تھی۔ عوام میں بگ مین کے نعرے گونج رہے تھے اور یہ نعرے اثر دکھارہے تھے۔ اس بات کا احساس ہوچکا تھا کہ بگ مین کے آتے ہی ملک کی تقدیر بدل جائے گی۔ دستور بدل جائیں گے۔ مسلمان بدل جائیں گے۔ اقلیتیں بدل جائیں گی۔ ان حالات میں پارٹی بے حد کمزور نظر آرہی تھی اور اس بات کا شدت سے احساس ہورہا تھا کہ اگلے انتخابات کے لیے پارٹی نے ابھی سے اپنی شکست تسلیم کرلی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ پارٹی اور پارٹی سے وابستہ لوگوں میں جوش وخروش کی کمی تھی۔ اپوزیشن نے کرپشن اور قومیت کے معاملے کواٹھاکر عوام کو متنبہ کردیا تھا کہ یہ کمزور لوگ ہیں اور کمزور لوگ حکومت کے قابل نہیں ہوتے۔

سیاست سے الگ ایک حادثہ ہوا تھا۔ ایسا حادثہ جسے فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ کاشف اٹھارہ کا ہوچکا تھا۔ ایک بالغ نوجوان۔ اب اس کے پاس نئی موٹر سائیکل بھی تھی۔ وہ لمبا تھا۔ چہرہ پر کشش اور اس کے چہرے پر بلا کی معصومیت تھی ریحانہ کو ہمیشہ کاشف کو لے کر خوف کا احساس ہوتا رہتا تھا اور اس خوف کا کوئی علاج نہیں تھا۔

‘ وہ کبھی کبھی میٹھے سروں میں اپنے کمرے میں گاتا ہے۔’

‘ اچھا۔’

‘ موبائل پر گھنٹوں بات کرتا ہے۔’

‘ بیٹا جوان ہوگیا ہے۔’

سپرا ریحانہ کو دیکھتا ہے۔ ریحانہ اسے ایک پریشان ماں کے طورپر نظر آتی ہے۔ سپرا کا قیاس ہے کہ ماں کہیں نہ کہیں بیٹے کی مصروفیت میں خود کو تقسیم ہوتے ہوئے دیکھتی ہے۔ کاشف نے اب اپنا وقت اپنے دوستوں کو دینا شروع کردیا ہے۔

یہ ایک بڑا سا کمرہ ہے، جہاں دونوں صوفے پر بیٹھے ہیں۔ دیوار پر ایک پینٹنگ ہے، جس میں درخت کی شاخ پر دو کبوتر خاموش بیٹھے ہیں۔ پینٹنگ کے قریب ہی ایک کھڑکی ہے۔ ریحانہ اس وقت کھڑکی کے باہر دیکھ رہی ہے۔ سپرا اس کی کشمکش کو پڑھ سکتا ہے۔ ماں ہمیشہ کمزور نہیں رہتی مگر وہ بیٹے کے لیے اکثر کمزور ہوجاتی ہے۔ ریحانہ اٹھ کر کھڑکی کے پاس جاکر کھڑی ہوجاتی ہے۔ سپرا کو یقین ہے کہ اس وقت وہ باہر کے مناظر کی جگہ کاشف کو دیکھ رہی ہوگی اور یہ خیال کررہی ہوگی کہ اس وقت وہ کہاں ہوگا۔ وہ اکثر تشویش میں مبتلا ہوجاتی ہے اور جیسا کہ دو روز قبل ہوا، کاشف رات کو تاخیر سے آیا۔ وہ دوستوں کے ساتھ پکچر دیکھنے چلا گیا تھا۔ ریحانہ دیر تک ٹہلتی رہی پھر کاشف کے آنے کے بعد اس کے صبر کا باندھ ٹوٹ گیا۔

‘ تم مجھے مار ڈالو گے۔’

‘ کیوں؟’

‘ ایک فون نہیں کر سکتے تھے؟’

‘ سنیما ہال میں تھا۔ فون سائلنٹ پر تھا۔’

‘ ایک فون تو کرسکتے تھے کہ دیری سے آؤگے۔’

‘ غلطی ہوگئی ممی۔’

کاشف کے معافی مانگنے کے باوجود ریحانہ غصے میں رہی اور اب وہ اس بات پر پریشان ہے کہ کاشف جوان ہوگیا ہے۔ یعنی وقت کو اس تیزی کے ساتھ اڑنا نہیں چاہیے تھا۔ اس تیزی کے ساتھ پھڑپھڑانا نہیں چاہیے تھا۔

اسی دن چار بجے کے آس پاس سنگیت سوامی کا فون آیا۔ سنگیت سوامی داڑھی رکھتے تھے۔ کرتا پائجامہ پہنتے تھے۔ راجیہ سبھا کے ممبر بھی تھے۔ اب بزرگ ہوگئے ہیں گھر پر دوستوں کو بلاکر خود کو زندہ رکھنے کا اہتمام کرتے ہیں۔ سنگیت سوامی نے کہا تھا، وقت ہوتو آجاؤ۔ کچھ دیر عیش کریں گے۔ سوامی بولنے والے لوگوں میں تھے اور سپرا کا خیال تھا کہ سوامی کو راجیہ سبھا میں دوسرا ٹرم ملنا چاہیے تھا، جو انہیں نہیں مل سکا۔ شام کے وقت سپراسنگیت سوامی سے ملنے گیا۔ کچھ دیر کی گفتگو کے بعد سنگیت سوامی نے گفتگو کا رخ پرانی عمارت کی طرف موڑ دیا۔ وہ اداس تھے اور پارلیمنٹ میں بھی دلیل کے ساتھ اپنی بات رکھا کرتے تھے۔

‘ ایک غیر محفوظ مستقبل تمہاری قوم کے لیے۔ ۔ ۔ ۔ ۔’

‘ شاید۔ ۔ ۔ ۔’

‘شاید نہیں اب قبول کرلو۔ پرانی عمارت کو مرکز بناکر ایک راستہ پکڑ لو۔ ۔ ۔ ۔ اور دیکھو، یہ راستہ کہاں تک جاتا ہے۔ یہ راستہ بی مشن کی حکومت تک جاتا ہے اور صرف دو برس بعد پارٹی نہیں ہوگی، بی مشن ہوگا۔ ان کے دستور ہوں گے۔ ان کے قاعدے قانون ہوں گے۔ میڈیا پہلے ہی فروخت ہوچکا ہے۔ کیا تمہاری پارٹی میڈیا کو خرید نہیں سکتی تھی؟ سکتی تھی۔ مگر تمہاری پارٹی کے پاس تجربے اورمشاہدے کی کمی تھی۔ بی مشن نے میڈیا پر قبضہ کرلیا۔ اب تمام ایجنسی پر وہ قبضہ کریں گے۔ ۔ ۔ ۔ اور وہی چاہیں گے، جو ان کے دل میں ہوگا۔’

‘ کیا یہ آسان ہوگا؟’

‘ صبح سورج نکلنے کی طرح آسان۔ وہ بہت آسانی سے تمہاری پارٹی کو ختم کردیں گے اور پھر ہر جگہ وہ ہوں گے اور پرانی عمارت کا راستہ بھی آسان ہوجائے گا۔’

‘ ناتھانی اور جوشی کا کیا ہوگا؟’

‘ ان کے ہاتھ کاپراجیکٹ ہائی جیک کرلیا گیا ہے۔ اب ایسے لوگ کسی ڈارک بنگلے میں ڈال دیے جائیں گے۔’

‘ کیا یہ لوگ جلدبازی میں ہیں؟’

‘ جلد بازی میں ہوں گے تو اپنا بیڑا غرق کریں گے مگر مسیح سپرا، کھیل مزیدار ہوگا۔’

‘ مزیدار۔ ۔ ۔ ۔ ۔’

‘ تم نے چوہوں کی کہانی سنی ہے۔ جب جہاز میں پانی آنے لگتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ؟’

‘چوہے اچھل اچھل کر بھاگتے ہیں۔’

‘ یہ کہاں جاتے ہیں؟’

سوامی ہنسے۔’بی مشن کے پاس۔ دیکھ لینا۔ تمام چوہے بی مشن کو اپنا لیں گے۔ اس وقت نہ کوئی اصول ہوگا اور نہ قانون۔ نہ سیاست کی اخلاقیات۔ تمام جرائم پیشہ افراد بڑے عہدوں پر ہوں گے اور میڈیا ایسے تمام لوگوں کو ہیرو بتارہی ہوگی۔’

‘ کیا آپ سورج کے پار دیکھ رہے ہیں؟’

‘ تمہیں بھی دیکھنا چاہیے مسیح سپرا۔ بلکہ تمہیں زیادہ دیکھنا چاہیے۔’

‘ ہونہہ۔’

‘ اقلیتوں سے زیادہ نشانے پر تم ہوگے۔ ۔ ۔ ۔ اور تم کچھ نہیں کرپاؤ گے۔’

‘ اس کے آگے۔ ۔ ۔ ۔ ۔’

سوامی ہنسے۔’کھلا کھیل فرخ آبادی۔ جیت کو ممکن بنانے کے لیے وہ کچھ بھی کریں گے اورتمہاری پارٹی دیکھتی رہ جائے گی۔ جانتے ہو فرق کیا پڑے گا۔’

سوامی کی نگاہیں خلا میں دیکھ رہی تھیں۔’برسوں کی ملّت کو شراپ ملے گا۔ جمہوریت نہیں ہوگی۔ سیکولرزم کی باتیں کرنے والے غدار ہوں گے۔ راشٹر واد کا موضوع اٹھایا جائے گا۔ ۔ ۔ اور تمام سیکولر ذہن کو حاشیہ پر ڈال دیا جائے گا۔’

سوای ٹھہر کر بولے۔’مجھے سیاست کا پرانا تجربہ ہے مسیح سپرا۔ اس لیے اس وقت جو میں دیکھ رہا ہوں، تم نہیں دیکھ رہے ہو۔ سیاست تم لوگوں کو بھی اتنے حصوں میں تقسیم کردے گی کہ شمار کرنا مشکل ہوگا کہ مشرق سے آئے ہو یا مغرب سے۔’سوامی ہنسے۔’مجھے خوف اس بات کا ہے کہ ملک کی حالت کیا ہوگی۔ لو چائے آگئی۔’

اس درمیان خادم چائے کی پلیٹ لاکر رکھ گیا۔ کچھ ڈرائی فروٹس بھی تھے۔

‘ حل کیا ہے ؟’

‘ ابھی حل کی مت سوچو۔ اپنے تحفظ کے بارے میں سوچو۔’

‘ تحفظ۔’

‘جو پہلے ہوا، اب اس سے کہیں زیادہ بھیانک ہوگا۔’

چائے پینے کے بعد سنگیت سوامی سے اجازت لے کر سپرا گھر کی طرف چل پڑا۔ سوای نے مستقبل کا ذکر کرکے ان وحشتوں کو جگا دیا تھا، جس کے بارے میں سپراا بھی سوچنا نہیں چاہتا تھا۔ خانہ بدوش یہ لفظ دوبارہ اس کی زبان پر آیا۔ اور وہ بگ مین بھی جو کبھی ناتھانی کے لیے چائے لایا کرتا تھا۔ وقت کے ساتھ ناتھانی، جوشی حاشیہ پر چلے گئے تھے۔ گھوڑا جو ہوا میں اڑتا ہے، اسے زمین پر بھی اپنے پاؤں رکھنے ہوتے ہیں۔

پیچھے چھوٹی چھوٹی عمارتیں ہیں۔ سڑک اچھی ہے۔ سڑک کے دوسری طرف درختوں کی قطار ہے۔ سوامی جس جگہ رہتے ہیں وہاں کئی فلیٹ سابق فوجی افسروں کے ہیں۔ یہ فوجی افسر بھی اس مسخرے سے خوش نہیں جو آخری حد تک اقتدار پر قابض ہونے کے خواب دیکھتاہے۔ سپرا، سوامی کی گفتگو کے بارے میں سوچتا ہے تو آسمان سے اترتی ہوئی ایک دھند نظر آتی ہے۔ چھوٹی چھوٹی عمارتیں چھپ گئی ہیں۔ درختوں کی قطار بھی۔ اپنی گاڑی تک پہنچنے میں سپرا کو وقت لگتا ہے۔ یہ دھند کیوں پیدا ہوئی؟

اب دھند نہیں ہے۔ مگر دوسرے دن دھند کے اچانک پیدا ہونے کا جواز مل گیا۔ فون پر خبر ملی۔ سنگیت سوامی چلے گئے۔ رشتہ داروں کو شک ہے کہ کسی نے زہر دیا۔ پوسٹ مارٹم ہوگا۔ لاش مردہ خانے میں رکھی جائے گی۔ گھر نہیں آئے گی۔ وہیں سے شمشان لے جایا جائے گا۔ دنیا احمق انسان پر خرچ نہیں کرنا چاہتی۔ سوامی راجیہ سبھا میں ابھی بھی ہوتے تو شان کے ساتھ انہیں آخری آرام گاہ تک پہنچایا جاتا۔ مگر اب۔ ۔ ۔ ۔

سوامی کل تھے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پرانی عمارت کی باتیں کررہے تھے۔ ملک کے مستقبل کی۔ کتنے گھنٹے گزرے ہیں؟ زیادہ نہیں۔ کل وہ زندہ تھے۔ اس کی طرف کاجو کی پلیٹ بڑھائی۔ دوبار اٹھ کر اندر گئے۔ کل تک گوشت پوست کے انسان تھے۔ کچھ گھنٹے پہلے تک مگر اب۔ ۔ ۔ ۔ سپرا موت سے ہمکلام تھا۔ اس پر وحشت طاری تھی وہ کافی دیر تک بستر پر لیٹا رہا۔ سوامی کا چہرہ یاد آتا رہا۔ سوامی کی آنکھیں، سوامی کے ہونٹ، سوامی کے لباس، مگر اب سوامی نہیں ہے۔ پوسٹ مارٹم کے بعد مردہ گھر۔ مردہ گھر سے شمشان۔ ایک زندہ انسان دیکھتے ہی دیکھتے غائب۔ ۔ ۔

شام کا وقت ہے۔ سپرا اسپتال کے مردہ گھر کے سامنے کھڑا ہے۔ کنارے گاڑیاں لگی ہوئی ہیں۔ سوامی کے دوچار رشتے دار کھڑے ہیں۔ وہ اسپتال کے چاروں طرف دیکھتا ہے۔ سامنے ایک چھوٹا سا دروازہ ہے۔ دروازے کے آس پاس بدبو ہے۔ یہ بدبو کہاں سے آرہی ہے؟ وہ دیر تک مردہ گھر کے پیچھے کھڑا رہتا ہے۔ ایک سگریٹ جلاتا ہے۔ بدبو ابھی بھی ہے۔ اور یہ طے ہے کہ بدبو مردہ گھر سے نہیں آرہی، پھر کہاں سے آرہی ہے؟

وہ مریضوں اور رشتے داروں کو دیکھتا ہے۔ ہر کچھ فاصلے پر ایک نئی عمارت بنی ہوئی ہے۔ اور ایسا خیال آتا ہے، جیسے دنیا کے سارے مریض ایک ہی اسپتال میں جمع ہوئے ہوں۔ کوئی رو رہا ہے۔ کچھ لوگ ایک خاتون کو چپ کرانے میں لگے ہیں۔ بدبو؟ سپرا کو پھر بدبو کا خیال آتا ہے۔ یہ بدبو زندہ لوگوں کے جسم سے تو نہیں آرہی؟ زندہ لوگ جو سوامی کی طرح غائب ہونے والے ہیں۔

اب وہ مردہ گھر کے گیٹ پر ہے۔ دروازے پرانے ہیں۔ اس وقت دروازے پر کوئی نہیں۔ وہ دروازے سے اندر جاتا ہے۔ اندر جاتے ہی احساس ہوتا ہے وہ کسی اور دنیا میں آگیا ہے۔ اس دنیا کا تعلق باہری دنیا سے نہیں ہے۔ یہ خاموش لوگوں کی بستی ہے۔ یہاں جو لائے جاتے ہیں وہ ہر برائیوں سے پاک ہوجاتے ہیں۔ سفید ٹائلس لگے ہیں۔ دیواریں بھی سفید اور ٹھنڈی ہیں۔ یہاں کئی کمرے ہیں۔ ایک شخص نظر آتا ہے، جو ایک اسٹریچر لیے جارہا ہے۔ ۔ ۔ ۔ وہ غور سے مردہ گھر کا جائزہ لیتا ہے۔ یہاں ٹھنڈ کافی ہے۔ مردہ جسم کی حفاظت کے لیے کمرے کو زیادہ سرد رکھا گیا ہے۔ پاس والے کمرے میں سفید چادریں رکھی ہیں۔ یہ اسٹور روم ہے۔ سامانوں سے بھرا ہوا— اس کے آگے ایک کمرہ ہے اور کمرے میں کئی اسٹریچر ہیں، جن پر مردے رکھے ہیں اور مردوں کے جسم پر سفید چادریں پڑی ہیں۔ ایک، دو، تین،چار۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اسے ایک جسم میں حرکت نظر آئی۔ ممکن ہے یہ وہم ہو لیکن سپرا خوفزدہ ہوکر باہر نکل آیا۔

سات بجے سوامی کے مردہ جسم کو آگ کے حوالے کردیا گیا۔ ایک جسم اب آگ کے شعلوں کے درمیان جھلس رہا تھا۔

‘ شکریہ کہ تم مرگئے ہو۔ ہم سب بھی بہت جلد مر کھپ جائیں گے۔’

مسیح سپرا باہر نکل آیا۔ ۔ ۔ ۔ اور قیاس ہے کہ سڑک پر چلتے لوگوں کے درمیان اس نے موت کو دیکھا تھا اور اسے اس بات کا احساس ہورہا تھا کہ موت اس کے تعاقب میں ہے۔ کچھ دور جانے کے بعد وہ مڑا تو سپرا کو اس کا قیاس صحیح معلوم ہوا۔ کوئی اس کا پیچھا کررہا تھا اور یہ یقیناً موت کا فرشتہ ہوگا۔ اب اسے اس بات سے کوئی الجھن نہیں تھی۔

[divider](3)[/divider]

[dropcap size=big]۲۰۱۳[/dropcap]

کی سردیوں کا آغاز ہوچکا تھا۔ اس درمیان دوبار اس نے مورچری کے چکّر لگائے۔ کیوں؟ وہ نہیں جانتا۔ اس نے مورچری اور مردہ گھروں کے بارے میں بہت ساری کہانیاں پڑھ ڈالیں۔ کچھ کہانیاں ہیبت ناک تھیں۔ لاش پر کیمیائی عمل کے بعد کسی مردہ کوگھر کے ڈرائنگ روم میں اس طرح رکھا جاتا جیسے وہ کرسی پر بیٹھا ہے یا صبح کا اخبار پڑھ رہا ہے۔ لیکن اب ان کہانیوں میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ نہ کوئی پیدا ہوتاہے نہ مرتا ہے۔ یہ سب وہم ہے۔ جیسے بچے کرکٹ یا فٹ بال کھیلتے ہیں، ایک زمین یا ایک گھر مل جاتا ہے۔ کچھ دن کھیلئے پھر مردہ گھر—پھر مردہ گھر آجائیے اور زندگی کی مدت کس قدر کم ہوتی ہے۔ دنیا میں آنے والا وہ شخص خود سمجھاتا ہے کہ وہ زندہ ہے اور سانس لے رہا ہے اور باہر کمانے جارہا ہے۔ اس نے گھر تعمیر کیا ہے۔ وہ صبح کو اخبار پڑھتا ہے۔ جسم کو ترو تازہ رکھنے کے لیے جاگنگ کرتا ہے۔ وہ کھانے کے لیے منہ میں نوالے ڈالتا ہے اور سارا دن گھرسے باہر بھاگتا رہتا ہے۔ گھر میں ایک بیوی لے آتا ہے۔ پھر بچے آجاتے ہیں اورپھر ایک بچوں کی پرورش کے بعد سیر کرتا ہوا وہ شمشان یا قبرستان میں نکل جاتا ہے۔ پھر وہاں سے واپس نہیں آتا۔

اس درمیا ن ریحانہ کی طبیعت بھی خراب رہنے لگی تھی۔ سپرا پر بھی بزرگی چڑھنے لگی تھی۔ سردی کا موسم اس کے لیے خاصہ تکلیف دہ ثابت ہوتا۔ وہ جرابیں، دستانے نکال لیتا۔ رات اور دن میں بندروں والا کیپ لگائے رہتا۔ جسم کی بنیاد کمزور ہوچکی تھی۔ سردی سے بچنے کے لیے وہ دودو سویٹر اندر ڈال دیتا۔ گرم لباسوں کے باوجود سارا دن اس کے بدن میں درد رہتا۔ اب یہ درد روز کا معمول بن گیا تھا۔ کبھی کبھی لگتا کہ پاؤں میں خون جم گیا ہے۔ گھٹنوں کا درد لاعلاج ہوچکا تھا۔ کبھی کبھی اچانک اٹھنے میں بھی تکلیف ہوتی تھی اور اسے احساس تھا کہ موت کا فرشتہ اسے دیکھ رہا ہے۔

ریحانہ کے پاس اب کاشف کے لیے زیادہ باتیں تھیں۔ وہ کاشف کو لے کر فکر مند رہتی تھی۔

‘ وہ گھر سے باہر کیا کرتا ہے؟’

‘ اس کے دوست کیسے ہیں؟’

‘ گھر کے باہر وہ کچھ کھاتا پیتا تو نہیں ؟’

‘ تم اس سے کچھ پوچھتے کیوں نہیں؟’

کاشف کے پاس ہر بات ایک ہی جواب تھا۔

‘ اتنے سوال مت پوچھا کرو ممی۔ ۔ ۔ ۔ ۔’

‘ اب میں بڑا ہوگیا ہوں۔’

‘ بس مجھے ڈرایا مت کرو۔’ کاشف غصے میں، اپنے کمرے میں چلا گیا۔ ریحانہ چونک کر بولی ‘ابھی کیا کہا اس نے؟’

‘ کچھ نہیں کہا۔’

‘ نہیں۔ کچھ کہا ہے۔’

‘ کچھ کہا ہوتا تو میں نے بھی سنا ہوتا۔’

ریحانہ کا چہرہ سپید تھا۔ بچے بڑے ہوجائیں تو خوف ہوتا ہے۔ وہ کہاں جارہے ہیں۔ کس کے ساتھ ہیں، یہ سب سوچنا پڑتا ہے۔ مگر کاشف کسی کی سنتا کہاں ہے۔ اپنی مرضی کا مالک ہے۔

کھڑکی ہوا سے کھل گئی ہے۔ اس وقت سپرا کے پاس کہنے کے لیے کچھ نہیں۔ کچھ دیر بعد سناٹا چھا جاتا ہے۔ ریحانہ اپنے کمرے میں چلی جاتی ہے۔ اس سناٹے میں سپرا اکیلا نہیں ہے،اس کے ساتھ سوامی بھی ہے۔ پرانی عمارت بھی ہے۔ نئی سیاست کا شور بھی ہے۔ انتخابات میں اب کم دن رہ گئے ہیں اور یہ قدیم خانہ بدوش جنگلوں سے نکل کر شہر شہر قریہ قریہ پھیلتے جارہے ہیں۔

ریحانہ کو سپرا سے شکایت تھی۔ تم انہیں خانہ بدوش کیوں کہتے ہو؟یہ قدیم قبائل میں شمار ہوتے ہیں۔ حضرت مسیح، حضرت یعقوب کے زمانے میں بھی تھے۔ سردی، گرمی، بارش میں کھلے آسمان کے نیچے رہتے ہیں۔ محنت کرتے ہیں۔ ان کی ہنرمندی کی ہزاروں مثالیں موجود ہیں۔ ان کی عورتیں محلے گلیوں میں پھیریاں لگاتی ہیں۔ اور ان کے دلچسپ قصے ساری دنیا میں مشہور ہیں۔

‘ یہ وہ خانہ بدوش نہیں۔’سپرا نے ہنس کر کہا۔ یہ وہ ہیں جہاں تہذیب نے پردہ کرلیا ہے۔ وہ یہ ہیں جن کا استعمال حکومتیں کررہی ہیں۔ یہ وہ ہیں جو منشیات کا کاروبار کرتے ہیں اور انسانوں کو کئی حصوں میں تقسیم کررہے ہیں۔ یہ فرقہ پرست ہیں اور گروہوں میں آباد ہیں اور اب یہ پھیل رہے ہیں۔ ناسور بن رہے ہیں۔ اس کے لہجے میں سختی ہے۔ ۔ ۔ اور یہ موت فروخت کررہے ہیں۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور یہ بے رحم کی سردیاں تھیں، جب حقیقتاً سڑکوں چوراہوں پر موت فروخت کی جارہی تھی۔ ایک طبقہ گھروں میں خوفزدہ تھا اور پارٹی نے آسانی سے خود کو ان کا شکار بننے دیا تھااور ایک تصویر تھی جو ہر دو قدم پر لہراتی تھی اور جارج آرویل کے بگ برادر کی یاد دلاتی تھی۔
‘ یہ ہم کہاں آگئے؟’

مسیح سپرا کو احساس تھا کہ وقت اس فکر سے کہیں زیادہ خوفناک ہے، جو اس کی سوچ میں سفر کرتا ہے۔ سپرا کو ان اندھیروں کا احساس نہیں تھا جو سیّال کے مانند اس کے جسم میں اتر رہے تھے۔ تاہم اسے احساس تھا کہ کچھ ہونے والا ہے۔ جب آپ خود سے سوال کرتے ہیں کہ کیا ہونے والا ہے تو آپ کی چھٹی حس میں ایک اسکرین پر کچھ تصویریں جھلملاتی ہیں۔ یہ تصویریں کبھی کبھی یقیناً آپ کو خوفزدہ کردیتی ہیں۔ کبھی کبھی انسان اس احساس سے باہر ہوتا ہے کہ ایک سونامی تیزی سے اس کی طرف بڑھ رہی ہے اور یہ سونامی ایک لمحہ کے اندر گھر کے شیرازے کو بکھیر سکتی ہے۔ آنکھوں کے آگے جو ایک فریم فریز ہے، کبھی کبھی ہم اس سے آگئے نہیں دیکھتے۔ جبکہ تیز رفتار وقت اچانک اس فریم کو تبدیل کردیتا ہے۔

فریم اچانک تبدیل ہوا تھا

‘ تو تم جارہے ہو؟’ ریحانہ نے کاشف سے پوچھا

‘ ہاں۔’

‘ اور تم ہمیشہ کی طرح دیر سے آؤگے۔’

‘ ہاں۔’

‘ زیادہ دیر تو نہیں ہوگی؟’

‘ نہیں ممی۔’

‘ پھر ٹھیک ہے۔ زیادہ دیر ہوتی ہے تو میری الجھن بڑھ جاتی ہے۔’

کاشف مسکرایا۔’ تم بھول جاتی ہو کہ تمہارابیٹا بڑا ہوگیا ہے۔’

‘ اب اتنا بھی بڑا نہیں۔’ریحانہ نے حکم دیا۔’موٹر سائیکل آرام سے چلانا۔ زیادہ تیز بھگانے کی ضرورت نہیں۔ اور اپنا خیال رکھنا۔’

اس دن آسمان کی رنگت اچانک تبدیل ہوگئی۔ سیاہ بادل آسمان پر چھاگئے۔ کچھ دیر میں تیز بارش ہونے لگی۔ کھڑکی کے باہر خانہ بدوشوں کا ایک’جتھا’ تھا جو بھیگتا ہوا، نعرے لگاتا شور کرتا ہوا گزر رہا تھا۔ بارش کے رم جھم کی آواز آرہی تھی۔ کھڑکی کے باہر ایک چھت پر دو کبوتر بھیگتے ہوئے اڑے اور درخت کے پتوں کے درمیان جگہ بنانے کی کوشش کرنے لگے۔

کو ئی ویرانی سی ویرانی ہے
دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا

دونوں صوفے پر بیٹھے تھے اور ماحول میں خاموشی تھی۔ سپرا نے ریحانہ کی طرف دیکھا، اس کی آنکھیں گہری سوچ میں گرفتار نظر آرہی تھیں۔ ریحانہ نے اچانک سپرا کی طرف دیکھا۔

‘ خیال کیا ہے ؟’
‘گاؤں کی پگڈنڈیوں پر چلتی ہوئی سائیکل۔’

‘ اور جنون ؟’
‘ڈگمگاتا ہوا ڈرون۔’

‘ زندگی کیاہے ؟’
‘ واہمہ۔’

‘ خوف کیا ہے؟’
‘ جسم میں ہر لمحہ اٹھنے والی سونامی لہر۔’

‘ موت کیا ہے؟’
‘ آہ۔ ۔ ۔ اس کا جواب میرے پاس نہیں۔’

‘ اور میرے پاس بھی نہیں۔’
ریحانہ کھڑکی سے باہر کی طرف دیکھ رہی تھی۔

سپرا کو اس کے سوالوں سے کوئی حیرانی نہیں تھی۔ اس کے برعکس وہ بھی اپنے دل کو ڈوبتا ہوا محسوس کررہا تھا۔ مگر کیوں؟ اس کا جواب اس کے پاس نہیں تھا۔ کھلے دروازے سے غرّاتی ہوئی ایک بلّی کمرے میں داخل ہوگئی تھی۔ ریحانہ کو، بلی کو باہر بھگانے میں کافی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس نے دروازہ بند کیا۔ بارش ابھی بھی تیز تھی۔ آسمان سیاہ بادلوں کے نرغے میں تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بارش کے باوجود خانہ بدوشوں کا شور کان کے پردے پھاڑ رہا تھا۔ بھیگتے ہوئے خانہ بدوش زور زور سے نعرے لگاتے ہوئے سڑک سے گزر رہے تھے۔ ان کے لہجے میں سختی تھی اور جسم میں بارود کے بھرے ہونے کا احساس ہورہا تھا۔ اب یہ خانہ بدوش مطمئن تھے کہ یہ سڑک ان کی ہے، عمارتیں ا ن کی ہیں اور کچھ دن بعد ملک کی ہر شے پر ان کا حق ہوگا۔ بے خوف سڑک پر ادھر ادھر آتے جاتے انہیں ٹریفک کے ہونے نہ ہونے کا ذرا بھی احساس نہیں تھا۔ یہ پرچم ہوا میں لہراتے اس طرح ادھر ادھر اجارہے تھے جیسے مقابلہ انہوں نے جیت لیا ہو اور اب ملک کی تقدیر لکھنے کی ذمہ داری ان کی ہے۔

یہی وقت تھا جب ایک خانہ بدوش کو بچاتے ہوئے ایک موٹر سائیکل ہوا میں اچھلی اور پھسلتی ہوئی کراسنگ سے ٹکرائی۔ اس سے قبل کہ پولیس آتی یا لوگ جمع ہوتے، موٹر سائیکل چلانے والا کراسنگ کے کھمبے سے ٹکرانے کے بعد بیہوش ہوچکا تھا۔ پولیس نے زخمی نوجوان کو کنارے کیا۔ کچھ دیر بعد شور کرتی ایمبولنس آئی اور زخمی نوجوان کو لے کر اسپتال روانہ ہوگئی۔ جہاں ڈاکٹروں نے معائنہ کے بعد اس کے مردہ ہونے کا اعلان کردیا۔

سپرا نے فون پر خاموشی سے یہ خبر سنی۔

جذباتی لہجہ میں اس نے ریحانہ کو بتایا کہ اب خانہ بدوشوں سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ ریحانہ کو ہوش میں لانے میں کافی وقت گزر گیا۔

سپرا ایک بار پھر اسپتال کی عمارت میں تھا۔ چاروں طرف اسے مردے نظر آرہے تھے۔ مورچری کا دروازہ ابھی بھی کھلا ہوا تھا۔ اسے یقین کرنا مشکل تھا کہ ایک دن اپنے پیارے بیٹے کے لیے اسے مورچری میں آنا ہوگا۔ اس کے قدموں میں لڑکھڑا ہٹ تھی۔ آنکھوں کے آگے دھند میں اضافہ ہوچکا تھا۔ وہ گہری نیند میں چل رہا تھا۔ اسے یقین تھا، کارروائی مکمل ہونے میں کافی دیر لگ جائے گی۔ رات ۳ بجے کی لاش کو لے جانے کا کلیرنس ملا۔ ظہر بعد تجہیز وتکفین کے لیے وقت مقرر ہوا۔ اس وقت تک دونوں ہوش میں نہیں تھے۔ بلکہ دونوں نیند کے مسافر تھے۔ انہیں گمان بھی نہیں تھا کہ وقت کے دریا نے انہیں کہاں اور کس مقام پر لا کھڑا کیاہے۔

تجہیز وتکفین کے بعد سپرا جب گھر آیا تو گھر خالی خالی لگ رہا تھا۔ ریحانہ کسی مجسمہ میں تبدیل ہوگئی تھی۔ اس نے ہزاروں پتھروں کو دیکھا ہے۔ ریحانہ پتھروں کا ایک ایسا مجسمہ تھی، جس میں نہ حرکت تھی، نہ زندگی۔ وہ بستر پر نڈھال پڑی تھی۔ سپرا گول گول گھومتا ہوا کاشف کے کمرے میں آیا۔ ۔ ۔ ۔

وہ ابھی یہیں تھا۔ ۔ ۔
اسی کرسی پر بیٹھا ہوا۔ ۔ ۔
کل اسی وقت وہ گھر سے نکلا تھا۔ اس نے جینس پہن رکھی تھی اور وہ دنیا کا سب سے خوبصورت شہزادہ لگ رہا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔
مگر اب۔ ۔ ۔ وہ نہیں ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔
پکارنے پر بھی نہیں آئے گا۔ ۔ ۔ ۔ ۔

سپرا دیر تک ادھر ادھر ٹہلتا رہا۔ اسے سکون نہیں تھا۔ جیسے کاشف اپنے ساتھ اس کے صبرو سکون کو بھی سمیٹ کر لے گیا ہو۔ وہ ایک بار پھر خیالوں کے مردہ گھر میں تھا۔ اور اس مردہ گھر میں لاشیں سجی تھیں۔ سوامی کی۔ ۔ ۔ کاشف کی۔ ۔ ۔ ایک خالی اسٹریچر تھا۔ سپرا اس اسٹریچر پر آنکھیں موند کر لیٹ جانا چاہتا تھا۔

خود کو سمجھنے سمجھانے کی تمام دلیلیں ناکام ثابت ہوگئی تھیں۔ آنکھوں کے آگے دھند بڑھ گئی تھی۔ سپرا کو احساس تھا، اب اس دھند سے باہر نکلنا دونوں کے لیے مشکل ہوجائے گا۔ کچھ دنوں تک ریحانہ کی دماغی حالت ٹھیک نہیں رہی۔ جیسے ایک دن رات میںاچانک وہ اٹھ کر بیٹھ گئی۔ پھر سپرا کو جھنجھوڑ کر اٹھایا۔

‘ ہاں وہ آیا تھا۔ اور اس نے مجھ سے بات بھی کی۔’

‘ سوجاؤ ریحانہ۔’

‘ نہیں۔ وہاں اسے کھانے پینے کی تکلیف ہے۔ پزا اور برگر نہیں ملتا۔’

‘ میں اسے کچھ اچھا سا بناکر بھیجنا چاہتی ہوں۔’

‘ صدقہ کردو۔’

‘ صدقہ کرنے سے کاشف تک پہنچ جائے گا؟’

‘ کیوں نہیں۔’

‘ اچھا پھر آرام کرو۔’

کچھ حادثوں کا اثر زندگی پر پڑتا ہے۔ کچھ حادثے آپ کے جسم کے ساتھ چپک جاتے ہیں۔ ایسے ہی کچھ چہرے ہر وقت آپ کے ساتھ چلتے ہیں۔ وقت گزرنے کے بعد بھی یادوں کا سلسلہ منقطع نہیں ہوتا اور ایسی یادیں بھی ساتھ چھوڑدیں تو پھر زندگی کا مطلب کیا ہے۔ سپرا ان یادوں کے ساتھ چلتا رہا۔ مردہ خانے کا تصور پہلے سے کہیں زیادہ جگہ گھیرتا رہا۔ اب یہ گھر بھی اسے مردہ خانہ لگتا تھا۔ لیکن اس وقت تک اسے یہ یقین نہیں تھا کہ یہ گھر ایک دن حقیقت میں مردہ گھر ثابت ہوگا۔

وقت نے صفحے تیزی سے تبدیل کردیے تھے۔

[divider](4) ۲۰۲۰ جنوری[/divider]

[dropcap size=small]۲۰۱۴[/dropcap]

بھی آیا۔ پھر وقت نے ۲۰۱۹ کا فاصلہ بھی طے کرلیا۔ ۔ ۔ اور ۲۰۲۰ کی صبح نمودار ہوئی۔ اس صبح کے آنے تک منظر صاف ہوچکا تھا۔ خانہ بدوش حکومت میں تھے۔ بگ برادر اور بگ مین کے علاوہ پارٹی میں اور کوئی بھی نہیں تھا، جس کے پاس طاقت ہو یا جس کی آواز میں ارتعاش ہو، کچھ کہنے کی ہمت ہو۔ خانہ بدوش سڑکوں پرآزادانہ گھوم رہے تھے۔ قتل کررہے تھے اور ایک بڑی آباد ی کو شہریت سے محروم کرنے کے میپ بنائے جاچکے تھے۔ عدلیہ کے فیصلوں پر حکومت کی مہر تھی اور تمام ایجنسیاں حکومت کی نگرانی میں کام کررہی تھیں۔ میڈیا بھونپو بن کر رہ گیا تھا اور شہر میں جگہ جگہ چوراہے پر نفرت کی قندیلیں روشن تھیں۔ پرانی عمارت کا فیصلہ آچکا تھا۔ اور آیندہ کے انتخابات کے لیے اس فیصلے نے تمام راستے صاف کردیے تھے۔ اور جن دنوں فیصلے کی ۴۰ دن تک سنوائی ہورہی تھی، یہ حاثہ انہی دنوں پیش آیا۔

ریحانہ کی طبیعت بگڑتی جارہی تھی۔ کاشف کی موت کے بعد وہ ایک دن بھی خوش نظر نہیں آئی۔ کئی بار وہ کمزور لفظوں میں کہہ چکی تھی کہ اسے کاشف کے پاس جانا ہے۔ کاشف اسے یاد کرتا ہے۔ اور جس دن عدلیہ مسلم ثبوتوں کا اعتراف کررہی تھی اور یہ احساس ہورہا تھا کہ پرانی عمارت کے فیصلے میں انصاف سے کام لیا جائے گا، اس دن ریحانہ کی طبیعت بگڑ گئی۔ اس کاچہرہ سرخ تھا اور اس کی پیشانی گرم۔ اس کو اٹھنے، چلنے میں پریشانی ہورہی تھی۔ سپرا خاموشی سے اس نظام کو دیکھ رہا تھا،جہاں چپکے سے یا اچانک لوگ گم ہوجاتے ہیں۔ پھر نظر نہیں آتے۔ وہ شکست خوردہ ایک گوشہ میں بیٹھا تھااور ذہن ودماغ پر مردہ گھر کے سوا کوئی تصور نہیں تھا۔

ان دنوں کا موسم کچھ اور تھا۔ موت انسانی حیرانیوں سے طلوع ہورہی تھی۔ ۔ ۔ ۔ اور یہی وقت تھا جب سپرا نے اپنے کئی عزیزوں اور جاننے والوں کندھا دیا تھا۔ لوگ ایسے بھی جاتے ہیں کیا کہ کل تھے اور آج نہیں۔ صبح تھے۔ شام نہیں۔ ایک گھنٹہ قبل گفتگو کررہے تھے اور ایک گھنٹے بعد کرہ ارض سے غائب۔ موت نے سپرا کا اعتبار کھویا تھا۔ وہ گھنے جنگلوں میں بھٹک رہا ہے۔ کوئی دور سے دوڑتا ہوا آتا ہے۔ سپرا اسے پہچانتا ہے۔

‘ چلومیرے ساتھ۔’

‘ مگر کہاں ؟’

‘ سوال مت پوچھو۔ ۔ ۔ ۔ چلو میرے ساتھ۔ ۔ ۔’

‘ اس جنگل سے باہر۔’

‘ اب چاروں طرف گھنے جنگل ہیں۔ جہاں جاؤگے وہاں جنگل۔ آواز سنو۔’

‘ یہ آواز تو بھیڑیے کی ہے۔ ۔ ۔ ۔’

‘ نہیں خانہ بدوش کی، یہ سارے خانہ بدوش بھیڑیے بن گئے ہیں۔’

‘ مگر ان کے بارے میں کچھ بھی بولنا ممنوع ہے۔’

‘ اوراسی لیے۔ ۔ ۔ ۔ چلو بھاگو۔ ۔ ۔ ۔ نکلو یہاں سے۔’

کوئی اس کو تھامتا ہے۔ جنگلوں سے آگے پہاڑیاں ہیں۔ کچھ پہاڑیاں ایسی ہیں، جہاں سے بڑے بڑے پتھر کھسک کر ہزاروں فٹ نیچے کھائی میں گر رہے ہیں۔ ایک جگہ کچھ مزدور کھڑے ہیں۔ بارودی سرنگ اڑائی جارہی ہے۔ کچھ دوری پر پولیس کے سپاہی ہیں۔ اس علاقے میں کھدائی چل رہی ہے۔

‘ یہاں سے بھی نکلو۔ دھماکہ ہونے والا ہے۔’

‘ پھر ہم کہاں جائیں گے؟’

‘ وہ سامنے دیکھو۔ ۔ ۔ ۔ ۔’

‘ سامنے کیا ہے؟’

‘ مردہ گھر۔’

‘ مردہ گھر؟’وہ چونکتا ہے۔

یہاں پناہ ہے۔ سب کے لیے۔ ۔ ۔ ۔ جو مکانوں میں ہیں، سڑکوں پر ہیں، چوراہوں پر ہیں، دفتروں میں ہیں، خطرے میں ہیں۔ اور سنو۔ ان کی جیب بہت بڑی ہوگئی ہے۔’

‘ جیب ؟’

‘ ہاں جیب۔ اس میں فلائی اوورز ہیں۔ نیشنل انٹر نیشنل بینک ہیں۔ عدلیہ ہے۔ ایجنسیاں ہیں۔ خانہ بدوش ہیں۔ مذہب ہے اور ہتھیار۔ ۔ ۔ ۔ ‘

‘ پھر باہر کیا ہے؟’

‘ موت۔ اس لیے سوچو مت بھاگ چلو۔ ۔ ۔ ۔ ۔’

سپرا دھند سے واپس آتا ہے توریحانہ کی کمزور آواز سنتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پانی۔ ۔ ۔ ۔ وہ ایک گلاس میں پانی لاکر دیتا ہے۔ تو ریحانہ اسے کافی کمزور نظر آتی ہے۔ کمزوروی کے باوجود ریحانہ اس کی طرف مسکرا کر دیکھتی ہے۔

‘ تم سے کچھ باتیں کرنی ہیں۔ زیادہ وقت نہیں ہے میرے پاس۔ ۔ ۔ ۔ میں اسے دیکھ رہی ہوں اور بہت قریب سے دیکھ رہی ہوں۔ ‘

‘ کس کو ؟’ سپرا زور سے چیختا ہے

‘ آہ۔ ۔ ۔ ۔ چیخو مت۔ میری روح کو تکلیف ہوتی ہے۔’

‘ کس کو دیکھ رہی ہو۔’

‘ وہ ہے ناکمرے میں، اس وقت بھی۔ موت کا فرشتہ۔ وہ آچکا ہے۔’

‘ ریحانہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔’سپرا کچھ کہتے کہتے ٹھہر جاتا ہے۔

‘ تمہیں اکیلا چھوڑ کر جارہی ہوں۔ اس کا صدمہ ہے۔ تم بہت اکیلے رہ جاؤگے —مجھے اس کا احساس ہے— مگر کاشف کے بعد۔ ۔ ۔ ۔ میں جینا بھول گئی۔ میں کاشف کے پاس جارہی ہوں۔ وہ بار بار مجھے آواز دیتا ہے۔’ریحانہ دھند میں دیکھ رہی تھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔’ یہ پہیلی کچھ سمجھ میں نہیں آئی۔ ۔ ۔ ۔ اس کی آواز سنتی ہوں تو وہ سامنے کھڑا نظر آتا ہے۔ کتنے دنوں کی بات ہے وہ مجھ سے ناراض تھا۔ تمہیں یاد ہے نا۔ ۔ ۔ ۔ مجھے اس کا چہرہ۔ ۔ ۔ ۔ اس کی باتیں سب یاد ہیں۔ ۔ ۔ بلکہ میں کچھ بھی نہیں بھول سکی۔ ۔ ۔ ۔ اور کیوں بھولوں میں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ مجھے آواز لگاتا تھا۔ ۔ ۔ ۔ بہت پیار سے۔ ۔ ۔ ۔ مجھ سے جھگڑا کرتا تھا۔ ۔ ۔ ۔ یہ ایک لمحہ زندگی کو کہاں لے جاتا ہے؟’

‘ ریحانہ۔ ۔ ۔ ۔’ سپرا نے آہستہ سے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا۔ ۔ ۔ ۔’ یہ سب کیوں سوچ رہی ہو۔ اور ہاں تم کہیں نہیں جارہی ہو۔ تم مجھے جانتی ہو نا۔ ۔ ۔ ۔ میرے بارے میں سوچتی ہو نا۔ ۔ ۔ ۔ میں اس تاریکی کے بوجھ کو اکیلے اٹھانے کے قابل نہیں ہوں ریحانہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔’

پہلی بار سپرا پھوٹ پھوٹ کر رویا۔ صبر ہونٹوں تک آکر باندھ توڑ گیا۔ آگ کی لپٹیں اٹھیں۔ اس نے ریحانہ کے چہرے کو غور سے دیکھا۔ یہ چہرہ ہر قسم کے تاثرات سے بے نیاز تھا۔ سرد۔ صرف آنکھیں تھیں، جن میں جان باقی تھی۔ جسم میں کوئی ہلچل نہیں۔ اس نے ریحانہ کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھ میں لیا۔ ایک لمہ کے لیے اسے گھر گھومتا ہوا نظر آیا۔ خلا میں ایک جسم جھول رہا ہے۔ ۔ ۔ اور یہ اس کا جسم ہے۔ سپرا نے محسوس کیا، ریحانہ کچھ کہنا چاہتی ہے۔ کچھ کہنے کے لیے خود کو سمیٹ رہی ہے۔ ایک نور کا دائرہ ہے جو اس کے سر پہ منڈلا رہا ہے۔

‘ کچھ بہت برا ہونے والا ہے۔ ۔ ۔ ۔’ ریحانہ کی آواز ابھری۔ ۔ ۔ ۔ مگر اس وقت تک میں نہیں رہوں گی۔ اب سوچتی ہوں، کاشف کا جانا غلط نہیں تھا۔ وہ اس ماحول میں زندہ نہیں رہ سکتا تھا۔ وہ معصوم تھا اور اب جو کچھ ہورہا ہے۔ ۔ ۔ ۔ تم سمجھ رہے ہو نا۔ ۔ ۔ تم سے کچھ باتیں کرلوں۔ ۔ ۔ جی ہلکا کرلوں۔ ۔ ۔ سنو۔ ۔ ۔ کافی اندھیرا جمع ہوگیا ہے آنکھوں کے پاس۔ ان میں اجالے کی کہیں بھی کوئی کرن نہیں۔ تیس کروڑ لوگوں کو نکالنا ان کے لیے کوئی مشکل کام نہیں۔ کیونکہ ان کو کسی بھی طرح کی خوں ریزی سے کوئی فرق نہیں پڑنے والا۔ ۔ ۔ مجھے خدشہ ہے کہ اس موسم میں تم کیسے رہوگے۔ ۔ ۔ تمہیں سیاست راس نہیں آئی۔ اور۔ ۔ ۔ ۔ ۔’

ریحانہ کے لفظ کھورہے تھے، سپرا نے محسوس کیا، ریحانہ کے چہرے پر سرخ رنگ کے ساتھ ایک تناؤ ہے۔ ۔ ۔ وہ گہری سوچ میں ہے۔ ۔ ۔ ۔ اور وہ خود نہیں جانتی کہ اس وقت وہ کیا کہہ رہی ہے۔ مگر وہ بہت کچھ سوچ رہی ہے اور اس کی فکر کا محور سپرا ہے۔ ۔ ۔ اس وقت ریحانہ جو کچھ بھی کہہ رہی ہے، وہ دیکھ سکتا ہے۔ اس کے اندر کی حرارت تھم رہی ہے۔ ہوا رک گئی ہے۔ ایک خوفناک ہوا ملک میں بہہ رہی ہے۔ ریحانہ کے چہرے پر اس ہوا کا اثر موجود ہے۔ اس کے چہرے کے آس پاس ایک جالہ سا بن گیا ہے وہ ایک ٹک سپرا کی طرف دیکھ رہی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ہوا ساکت۔ پانی سے بہتے ہوئے بلبلہ میں کچھ چہرے بنتے ہیں۔ مٹ جاتے ہیں۔ کسی کے مرجانے پر موت ایک لکیر چھوڑ جاتی ہے۔ ۔ ۔ یہ لکیر کبھی کبھی صاف نظر آتی ہے۔ جیسے کاشف نظر آتا ہے۔ کبھی اس کمرے سے اس کمرے میں جاتاہوا۔ ۔ ۔ کمرے میں روشنی اور ہوا کی ضرورت ہے۔ اس وقت تاریکی بہت زیادہ ہے۔ سپرا ہاتھ تھامے ہوئے ریحانہ کے چہرے کی طرف دیکھتا ہے۔ ۔ ۔

‘تمہیں کچھ نہیں ہوگا۔ بس، تم خوفزدہ ہوگئی ہو۔ کاشف کے صدمے سے تم باہر نہیں نکل سکی۔ میں تمہیں اسی وقت اسپتال لے چلوں گا۔ ڈاکٹر ہے نا۔ ۔ ۔ تم ٹھیک ہوجاؤگی۔ ۔ ۔ سنا تم نے ریحانہ۔ ۔ ۔’

‘ تم مجھے دھند سے باہر لانا چاہتے ہو۔ میں دھند میں پاؤں بڑھا چکی ہوں۔’ریحانہ کی آنکھیں خلا میں دیکھ رہی تھیں۔ ۔ ۔ ایک بڑھیا ہوتی ہے جو چاند پر بیٹھ کر چرخہ کاتتی ہے۔ میں اکثر اس کو دیکھا کرتی تھی۔ ۔ ۔ کاشف اس کے پاس ہی ہوتا تھا۔ اب چرخہ کاتنے والی بڑھیا مجھے آواز دے رہی ہے۔ ۔ ۔’

سپرا زور سے چلاّیا۔ کیا بک رہی ہو تم۔ ۔ ۔ ۔

اسے احساس ہوا، اس کے پاس لفظ نہیں ہیں۔ ایک گہری کھائی ہے اور ریحانہ اس کھائی میں گرتی جارہی ہے۔

‘ ٹھہرو۔ ۔ ۔ ۔’

سپرا اٹھا۔ موبائل سے اس نے قریبی ڈاکٹر دوست کو فون لگایا۔ ۔ ۔ یہی لمحہ تھا، جب وہ ریحانہ کے پاس سے دور ہوا تھا۔ ڈاکٹر نے کہا کہ فوراً آرہا ہے۔ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ دوبارہ ریحانہ کے پاس آیا تو ریحانہ کی آنکھیں ہوا میں معلق تھیں۔ اس نے ریحانہ کے پاتھوں کو چھوکر دیکھا۔ ہاتھ سرد اور بے جان تھے۔

سپرا گھبراکر پیچھے ہٹا۔ ۔ ۔ ابھی تھی۔ ۔ ۔ کچھ دیر پہلے تک۔ چاند والی بڑھیا کا ذکر کرتی ہوئی۔ ۔ ۔ ۔ ابھی۔ ۔ ۔ ابھی نہیں ہے۔ ۔ ۔ اس کا سر گھوم رہا تھا۔ وہ زور زور سے ریحانہ کا نام لے کر چلاّیا۔ ۔ ۔ مگر کوئی فائدہ نہیں۔

سپرا کو احساس تھا۔ وہ مردہ گھر میں ہے۔ یہاں کوئی زندہ نہیں۔ سب کے سب ابھی ہوتے ہیں اور ابھی نہیں۔ ایک دم سے اس طرح کھوجاتے ہیں، جیسے کوئی وجود کبھی رہا ہی نہیں ہو۔ یہ جسم نہ آواز۔ ۔ ۔ کچھ بھی نہیں۔ نہ نشانیاں۔ ۔ ۔ ۔ انسان جسم اور روح سے ہوتا ہے، نشانیوں سے نہیں۔ ریحانہ تھی۔ اب نہیں ہے۔ ۔ ۔ ۔ اور یہی سچ ہے۔ وہ ہے اور نہیں ہے۔ ۔ ۔ ایک مردہ گھر کا دروازہ کھلا۔ ۔ ۔ سپرا نے دیکھا۔ ۔ ۔ اس کے قدم مردہ گھر میں داخل ہورہے ہیں۔ یہاں کچھ لوگ پہلے سے ہیں، کچھ لاشوں پر جھکے ہوئے ہیں۔ ۔ ۔ اور لاشوں پر سفید چادریں پڑی ہیں۔ ۔ ۔ اور یہاں بھی وہ عورت موجود ہے۔ ۔ ۔ نقاب لگائے۔ وہ دیوار کے پاس چھپ کر کھڑی ہے۔

اس وقت مردہ گھر میں ہونا اس کو سکون دے رہا ہے۔ ۔ ۔ ۔ وہ بھی مردہ ہے۔ کاشف کی طرح۔ ۔ ۔ ریحانہ کی طرح۔ ۔ ۔ چاروں طرف دھند ہے۔ ۔ ۔ وہ دھند میں معلق ہے۔ ۔ ۔ ہوا میں لہراتے لباس کی طرح جھول رہا ہے۔

[divider](5)[/divider]

[dropcap size=big]ریحانہ[/dropcap]

کی تدفین کے بعد وہ گھر آ گیا۔ دروازے بند کرلیے۔ زندگی واہمہ ہے اور موت حقیقت۔ پھر نمائشی زندگی کیوں ضروری ہے۔

اب وہ ایک مردے کی طرح زمین پر لیٹا تھا اور اسے یقین تھا مجسمہ والی عورت اس کی طرف دیکھ رہی ہے۔ سفید چادر یں سرسرارہی ہیں۔ ۔ ۔ ۔ اور اس مردہ گھر میں کسی اور کا وجود نہیں۔ اس نے کہیں پڑھا تھا، مردو ں کو بھی بھوک لگتی ہے۔ اس لیے فلیٹ میں رکھے فریزر سے کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ کبھی کبھی گھر سے باہر جانے میں بھی۔ کیونکہ اسے یقین تھا، باہر جو لوگ ہیں، وہ بھی مردہ ہیں۔ ابھی ہیں۔ ابھی نہیں ہوں گے۔ ۔ ۔ ۔

اس نے آنکھیں بند کرلیں۔ اسے احساس ہوا، وہ کسی سرد خانے میں ہے۔ اور اس کے جسم کے اعضا بے جان اور بے حس ہوچکے ہیں۔

مسیح سپرا کی تیاری میں کوئی کمی نہیں تھی۔ گھر کے باہر مردہ خانے کا بورڈ لگانے کا بعد وہ مطمئن تھا کہ اب اس کے پاس کوئی نہیں آئے گا۔ مردہ خانے میں کون آتا ہے۔ سپرا کو یقین تھا کہ مردہ خانے کا بورڈ دیکھ کر اس سے ملاقات کے لیے آنے والے بھی راستہ بدل کر آگے بڑھ جائیں گے۔ اسے سکون کی ضرورت تھی۔ ایک ایسے سکون کی، جو صرف کسی مردے کے پاس ہوتی ہے، جس کے تمام اعضا اپنا کام بند کرچکے ہوتے ہیں۔ دماغ سوچتا نہیں۔ آنکھیں دیکھتی نہیں۔ ہونٹ بولتے نہیں اور وقفۂ سکون کو ابدیت تب نصیب ہوتی ہے جب یہ بولنا بند کردیتے ہیں۔ اس نے سنا تھا کہ بلوغت کی عمر کو پہنچنے تک انسانی جسم میں تقریباً دس کھرب خلیات، حیاتیاتی اکائی کی صورت میں ہوتے ہیں۔ عضو آپس میں مل کر نظام اعضاء کو تشکیل دیتے ہیں۔ اس وقت ان خلیوں کے ٹوٹ پھوٹ کا عمل جاری تھا۔ ایک دلچسپ کھیل سپرا کے ہاتھ لگا تھا جبکہ وہ چاہتا تھا کہ اس کے سوچنے کے تمام سلسلے بند ہوجائیں۔ اس نے اپنے دونوں پاؤں کو دونوں ہاتھوں کی جگہ محسوس کیا اور چہرے کو پیٹ کے درمیان لے آیا۔ اسے یقین نہیں ہے کہ اس کے چہرے پر اس احساس کے ساتھ مسکراہٹ پیدا ہوئی ہو تاہم اس وقت وہ پیوند کاری کے بارے میں سوچ رہا تھا اور اعضاء کی پیوند کاری اسے بالکل پسند نہیں تھی۔ اس نے خیال کیا، مردے سوچا نہیں کرتے اور اس نے آنکھیں بند کرنے کے بعد خود کو نور کے دائرے میں دیکھا کہ اس کا قیاس تھا کہ ایک نور کا ہالہ ہوتا ہے جو روح مقدس کو اپنے ساتھ لے جاتا ہے۔ مسیح سپرا نور کے ہالہ پر سوار تھا اور ٹھیک یہی وقت تھا جب دروازے پر دستک ہوئی۔ سپرا کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا تھا۔ اسے غصہ اس بات پر تھا کہ اس دنیا کے لوگ مردوں کو چین سے رہنے نہیں دیتے۔

اس نے دروازہ کھولا توسامنے ایک پولیس والا تھا۔ پولیس والے کے ہاتھ میں ایک ڈنڈا تھا اور وہ ڈنڈے سے بورڈ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھ رہا تھا۔

‘ یہ کیا ہے ؟’

سپرا کا لہجہ سرد تھا۔ مردہ خانہ

‘ کیوں۔ ۔ ۔ ۔’ پولیس والے کے چہرے پر نا راضی تھی۔

سپرا نے کہنا چاہا کہ میں ایک مردہ ہوں، اس لیے، مگر وہ پولیس والے سے اس وقت الجھنا نہیں چاہتا تھا۔ کچھ دیر تک وہ جواب سوچتا رہا۔ اس درمیان پولیس والا کھلے دروازے سے اندر کی طرف دیکھنے کی کوشش کررہا تھا۔

‘میں تنہائی چاہتا ہوں۔’

‘ تو گھر کے باہر مردہ خانہ لکھ دوگے؟’

‘ میں کسی سے ملنا نہیں چاہتا۔’

‘ تو۔ ۔ ۔ ؟’

‘ میں اکیلا رہتا ہوں’

‘ تو۔ ۔ ۔ ؟’

‘ مجھے دروازہ کھٹکھٹانے سے بھی دقت ہوتی ہے۔’

‘ تو۔ ۔ ۔ ؟’

پولیس والا گہری نظروں سے سپرا کی طرف دیکھ رہا تھا۔

‘ تمہارا نام ؟’

‘ مسیح سپرا’

‘ مسلمان ہو ؟’

‘ ہاں جی’

‘ اورہ۔ ۔ ۔ ۔’ پولیس والے کے چہرے پر ایک تناؤ نظر آرہا تھا تاہم وہ اپنے غصے کو چھپانے کی کوشش کررہا تھا۔ اچانک وہ زور سے ہنسا۔

‘ مردہ خانہ۔ ۔ ۔ ۔ جانتے ہو یہ بوڈ لگانا قانوناً جرم ہے۔’

‘ نہیں جانتا’

‘ تو اب جان لو۔ رہائشی علاقے میں مردہ گھر نہیں ہوسکتا۔’

‘ لیکن یہ مردہ گھر تو صرف میرے لیے ہے۔’

‘ تمہیں اس کے لیے اجازت نہیں ہوگی۔ ۔ ۔ اور پولیس سے اس کی اجازت نہیں ملے گی۔ کورٹ بھی تمہیں اجازت نہیں دے گا۔ کہیں کوئی غیر قانونی کام تو نہیں کرتے۔ ۔ ۔ ؟’

‘ میں مرچکا ہوں۔ ۔ ۔ ۔’ سپرا کا لہجہ اس بار برف سے زیادہ سرد تھا

‘ کیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔؟’

پولیس والا پہلے چونکا۔ پھر اس نے کچھ سوچتے ہوئے اندر کی طرف قدم رکھا۔ وہ حیرت سے ادھر ادھر دیکھ رہا تھا۔ اچانک اس نے قدم پیچھے کیے۔ پولیس والے لہجہ اس بار سہما ہوا تھا۔

‘ اس بورڈ کو ہٹا دو۔’

اس نے پولیس والے کو تیزی سے بھا گتے ہوئے دیکھا۔ سپرا کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ مردے کو دیکھ کر اکثر لوگ ڈر جایاکرتے ہیں۔ اسے بورڈ ہٹانا ہوگا۔ کیونکہ پولیس والا کہہ کر گیا ہے کہ قانون سے بھی اس کی اجازت نہیں مل سکتی۔ رہائشی علاقے میں مردہ گھر نہیں ہوسکتا۔ کیوں نہیں ہوسکتا؟ سپرا نے خود کو سمجھایا اور ذرا سی کوششوں کے بعد بورڈ اس کے ہاتھ میں تھا۔ بورڈ اس نے کچرے کے ڈبے میں ڈال دیا۔ اب اسے سکون و عافیت کے لمحے درکار تھے۔ اس کے گھر کے دو دروازے تھے، اس نے گھر کا پچھلا دروازہ کھولا۔ آگے کے دروازے پر قفل لگایا۔ پھر پچھلے دروازے سے اندر آکر دروازہ بند کردیا۔ دیواروں پر سفید چادریں جھول رہی تھیں اور ان سفید چادروں سے دھند کے جھاگ نکل رہے تھے اور ان چادروں کے پاس ایک طرف وہ مجسمہ تھا، جہاں حجاب والی عورت کو جگہ ملی تھی۔ موت کا فرشتہ، سپرا کو احساس ہوا کہ عورت کے چہرے پر بھی مسکراہٹ ہے گویا اس نے بھی پولیس والے کو بھاگتے ہوئے دیکھا ہے۔

سپرا دوبارہ زمین پر لیٹ گیا۔

آنکھیں بند کرلیں۔

اب وہ اپنی موت کی دنیا میں تنہائی چاہتا تھا اور اسے یقین تھا باہر قفل لگا ہوا دیکھ کر کوئی بھی اس سے ملنے کی کوشش نہیں کرے گا۔

سپرا نے خود کو ایک طویل نیند کے حوالے کردیا۔ مگر یہ کیا۔ آنکھوں کے پردے پر ایک تصویر ابھر رہی تھی۔ اس تصویر میں دولوگ تھے۔ کیا مردے خواب دیکھتے ہیں۔ ۔ ۔ ؟کیا مردے چلتے پھرتے ہیں؟ یہ دو لوگ جو باتیں کررہے تھے، سپراان کی باتوں کو سن سکتا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک کا سر گنجا تھا۔ پستہ قد۔ موٹا بھائی۔ دوسرے کے چہرے پر گھنی داڑھی تھی۔ یہ ایک عالیشان کمرہ تھا۔ میز پر بریانی اور کباب کی خالی پلیٹ پڑی تھی۔ دروازے بند تھے۔ شیشے کے باہر صرف نیلا آسمان نظر آرہا تھا۔ گھنی داڑھی والا اس وقت کسی گہری سوچ میں مبتلا تھا۔ جبکہ موٹا آدمی عینک صاف کرتا ہوا پرسکون تھا۔ وہ اتنا پرسکون تھا جتنا کوئی سمندر یا دریا ہوسکتا ہے۔ اس کے پرسکون رہنے کی ایک وجہ اور بھی تھی۔ کوئی بھی اس کے سامنے کچھ بھی بولنے کی ہمت نہیں کرسکتا تھا۔ ایسا وہ سوچتا تھا اورعملی طور پر ہوتا بھی یہی تھا۔ بساط اس کے کرتے کی داہنی جیب میں تھی اور بائیں جیب میں سکّے۔ وہ سکے اچھالتا تھا اور پھر اپنی مرضی مطابق بساط سمیٹ لیتا تھا۔ موٹے آدمی کو اس بات کی کوئی فکر نہیں تھی کہ سامنے والا آدمی کیا سوچتا ہے؟ لوگ کیا سوچتے ہیں؟ اس کے حریف اس کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں؟ اگر وہ یہی سب سوچتا رہتا تو شاید ملک کا سب سے طاقتور آدمی ثابت نہیں ہوتا۔

اور اس وقت جب سامنے، کھڑکی سے باہر نیلا آسمان تھا۔ میز پر بریانی کی خالی پلیٹ پڑی تھی، موٹے آدمی نے داہنی جیب سے لیمنیشن کرائی ہوئی بساط نکالی اور گھنی داڑھی والے کے سامنے میز پر رکھ دی۔

گھنی داڑھی والا مسکرایا۔’یہ بساط تمہاری جیب میں آجاتی ہے؟’

‘ میری جیب میں تو دنیا آجاتی ہے۔’

‘ ہو ہو۔ ۔ ۔ ۔’ گھنی داڑھی والا ہنسا۔’ لیکن تمہاری جیب تو چھوٹی ہے۔ ۔ ۔ ۔’

‘ ہاتھ تو لمبے ہیں۔’ موٹی بھائی نے اس بار چشمہ ٹھیک کیا۔

‘ پھر بھی۔ یہ بساط جیب میں رکھنے سے مڑ تڑ سکتی ہے۔’

‘ سوال ہی نہیں۔’ موٹا آدمی مسکر ایا۔’لیمینشن پر خون کے چھینٹے اور اس پر اسپرٹ۔ لیمنیشن مضبوط رہتا ہے۔’

‘ ہو ہو۔ ۔ ۔ ۔’ گھنی داڑی والا مسکرایا۔ ‘تم خون کے بغیر کوئی کام نہیں کرتے؟’

‘ کیا خو ن کے بغیر کوئی کام ہو سکتا ہے سر۔’

‘ لیکن بساط پر خون کے چھینٹے اور اس پر اسپرٹ؟’

‘ اصل تو بساط ہے۔ سارا کام تو اس بساط کا ہے۔ خون کا چھینٹا دینا پڑتا ہے۔’

‘ پورا بنیا۔’ گھنی داڑھی والا ہنسا۔’ تو تم کو ہر کھیل میں خون کے چھینٹے کی ضرورت ہوتی ہے؟’

‘ ایسا نہیں ہے۔’موٹا بھائی ہنسا۔’بلڈ اسپرے، یہ جلدی کام کرتا ہے۔’

‘ ہونہہ۔ ملک بیمار ہوگیا ہے۔’ گھنی داڑھی والا کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا۔ ٹہلتا ہوا کھڑکی کے پاس آگیا، جہاں سے نیلا آسمان جھانک رہا تھا۔’۔ ۔ ۔ ۔ کیا تم کو لگتا ہے کہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔’

‘ سر، کیا اب تک ہم ناکام ہوئے؟’

‘ نہیں۔’

‘ پہلے دن سے۔ اب تو بیس برس گزر گئے۔’

‘ ہاں۔’

‘ مگر کبھی کبھی تم سے ڈر لگتا ہے۔ ۔ ۔ ۔’

‘ کیوں سر۔’

‘ تم ذرا تیز بھاگتے ہو۔’

‘ آپ سے بھی تیز۔ ۔ ۔ ؟’

‘ ہاں۔’داڑھی والا مڑا۔ اب وہ موٹے آدمی کی طرف دیکھ رہا تھا۔ گو تمہارے فیصلے سے میں کبھی ناخوش نہیں ہوا۔ اور میں جس مقام پر ہوں، اس میں صرف تمہارا ہاتھ ہے۔ مجھ سے بھی کہیں زیادہ۔ میں کامیاب ہی نہیں ہوتا اگر تمہاراساتھ نہ ہوتا اور یہی بات مجھے ڈراتی بھی ہے۔

‘ کیوں سر ؟’

‘ سیاست۔’ گھنی داڑھی والے کا چہرہ ا ب بھی سنجیدہ تھا اور وہ اب عقاب جیسی نظروں سے موٹے آدمی کی طرف دیکھ رہا تھا۔

‘ آپ کوڈرنا نہیں چاہیے سر۔’

‘ کیوں؟’

‘ مجھے آپ کے بغیر کوئی نہیں جانتا۔ لوگ آپ کو جانتے ہیں۔ مقبولیت آپ کی ہے اور میں فقط کیشئر ہوں۔ اس مقبولیت کو کیش کرتا ہوں۔ میں کبھی آپ نہیں بن سکتا۔ لوگ مجھے قبول بھی نہیں کریں گے۔’

‘ لیکن تم پتے تیز چل رہے ہو۔’

‘ تاش کے پتے ہیں سر۔’

‘ ہاں۔ مگر ساری جیت تم اکیلے اپنے نام کررہے ہو۔ ۔ ۔ ۔’

موٹے بھائی کے چہرے پر تبدیلی آئی۔’’نہیں سر۔ تاش بھی آپ کا۔ پتے بھی آپ کے۔ میں وہی کررہا ہوں، جس کی اجازت آپ سے ملی۔’

‘ چنار کی اجازت کیا مجھ سے ملی تھی؟’

‘ صد فی صد تو نہیں۔’

‘ اور ڈلواما کی۔ ۔ ۔ ۔ ؟’

‘ وہ میری پلاننگ تھی مگر کام کرگئی۔’

گھنی داڑھی والے نے ٹہلنا جاری رکھا۔’اور اسی لیے اب تم خطرہ بنتے جارہے ہو۔ ۔ ۔ ۔’

‘ ایسا نہیں ہے سر۔’

گھنی داڑھی والا مسکرایا۔ ‘خطرہ مت بننا۔ سب ہمارے دشمن ہیں۔ ایک نہیں دو جانیں جائیں گی۔’

‘ میں سمجھتا ہو ں سر۔’

‘ کبھی کبھی میں ڈر جاتا ہوں۔ ۔ ۔ ۔’گھنی داڑھی والا کہتے کہتے رک گیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔

‘ کیا۔ ۔ ۔ ؟’

‘ نئے انتخاب سے پہلے۔ کیا مجھے امید تھی۔ ۔ ۔ ۔’

موٹا بھائی ہنسا۔’ آخری پریس کانفرنس میں آپ نروس تھے سر۔ مگر بساط۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں نے مہرے چل دئے تھے۔’

‘ ہاں۔ اور تمہارے سارے مہرے کامیاب رہے۔’

‘ مجھ پر یقین قائم رکھیے سر۔’

‘ میں بھی تو بنیا ہوں۔’ گھنی داڑھی والا مسکرایا۔ ‘تم کو اب کیسا لگتا ہے، یہ لوگ مان جائیں گے؟’

‘ کس بات پر ؟’

‘ پلّوں کو آؤٹ کرنے کے معاملے میں۔’

موٹا بھائی مسکرایا۔ میرے مہرے کبھی نہیں پٹے سر۔ یہ عبارت تو کانگریس نے لکھی تھی۔ ملک کا بٹوارہ مذہب کے نام پر ہوا۔ آزادی کے بعد میں نے مذہب کا صفحہ کھول دیا۔’

‘ اس دلیری کے ساتھ۔ ۔ ۔ ۔’

‘ دلیری تو آپ سے سیکھی ہے سر۔’

‘ زلزلہ آجائے گا۔’

‘ آنے دیجیے سر۔ مندر ہمارا ہوگیا۔ اب بہت کم مہرے بچے ہیں۔’

‘ معیشت کی کشتی میں سوراخ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟’

‘ اس سے کچھ نہیں ہوگا۔ لوگ سوکھی روٹی کھائیں گے مگر ہمارا ساتھ دیں گے۔’

‘ اتنا اعتبار کہاں سے لاتے ہو۔ ۔ ۔ ۔ ؟’

‘ بنیا ہوں سر۔ آپ سے سیکھا ہے۔’

گھنی داڑھی والا دوبارہ کرسی پر بیٹھ گیا۔’بہت تیز جارہے ہو اور اسی لیے کبھی کبھی تم سے ڈر لگتا ہے۔’

‘ ابھی اور بھی تیز جانا ہے سر۔ بلڈ اسپرے۔ ۔ ۔ ۔ ۔’

‘ بلڈ اسپرے۔’گھنی داڑھی والا مسکرایا۔ ۔ ۔ ۔’ ابھی کچھ دن تک اس اسپرے کو بند رکھو۔ حالات کا جائزہ لو۔’

‘ یس سر۔’

میز کے آمنے سامنے دونوں بیٹھ گئے تھے۔ سامنے غروب آفتاب کا منظر تھا کمرے میں خاموشی چھا گئی تھی۔

مسیح سپرا کا چہرہ کھلا تھا۔ سفید چادروں کے درمیان موت کے فرشتہ نے جب اس کی طرف دیکھا تو اس نے آنکھیں بند کرلیں۔ اب وہ کچھ دیر نیند کی آغوش میں جانا چاتا تھا۔ مگر اب اس کی نیند ٹوٹ گئی تھی۔ وہ اندھیرے کے دائرے میں تھا۔ موبائل، ٹی وی، اخبار۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ سب سے کٹ چکا تھا۔ وہ ایک مردہ تھا بس۔ ۔ ۔ ۔ ۔

اس نے پھر آنکھیں بند کرلیں۔ اس بار کچھ لوگ تھے جو ایک مینارے پر چڑھے ہوئے تھے۔ جن کے پاس اسلحے تھے۔ ہتھوڑے تھے۔ کچھ لوگ نعرے لگارہے تھے۔ وہ مینار کو مسمار ہوتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ پھر اس نے کبوتروں کے جھنڈ کو دیکھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو اڑتے ہوئے کسی سیاہ سوراخ میں سمانے کی کوشش کررہے تھے۔ پھر اس نے جلتی ہوئی آگ دیکھی۔ کچھ قبائلی تھے جو ڈھول بجارہے تھے اور رقص کر رہے تھے۔ وہ جس زبان میں گفتگو کررہے تھے، مسیح سپرا اس سے واقف نہیں تھا۔ پھر اس نے کچھ سلگتے ہوئے گھر دیکھے۔ ۔ ۔ ۔ کچھ لوگوں کو جان بچاکر بھاگتے ہوئے دیکھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مسیح سپرا کو یقین تھا۔ موت ہر جگہ ہے اور موت کے فرشتے ہر اس جگہ پہنچ چکے ہیں جہاں ایک بھی انسان باقی ہے۔ ۔ ۔

ایک دن مینار ٹوٹ جاتے ہیں۔ ۔ ۔

ایک دن پرندے اڑ جاتے ہیں۔ ۔ ۔
‘ اُڑ۔ ۔ ۔ اُڑ۔ ۔ ۔ چل خسرو گھر آپ نے سانجھ بھئی چودیس۔’

اب مسیح سپرا گہری نیند میں تھا۔

[divider](6)[/divider]

[dropcap size=big]باہر[/dropcap]

کسی کے آہستہ آہستہ چلنے کی آواز تھی۔ پھر ایک ساتھ بہت سارے فوجی بوٹ کی آواز سنائی دی۔ جیسے کوئی لشکر گزر رہا ہو۔ کچھ دیربعد سناّٹاچھاگیا۔ دروازے کے باہر کچھ لوگوں کے چلنے کی ہلچل تھی۔ سناٹے میں اچانک فائرنگ کی آوازگونجی۔ اس کے بعد پھر سناٹا چھا گیا۔ فائرنگ کس نے کی؟ فوجی کہاں جارہے تھے؟ یا یہ سب دماغ کا وہم ہے۔ دماغ اندھیرے میں کچھ زیادہ ہی سوچتا اور کام کرتا ہے۔ کہیں وہ پولیس والا دوبارہ ادھر نہ آجائے۔ دروازے پر قفل ہے۔ اس لیے وہ نہیں آسکتا۔ وہ مر چکا ہے تو پھر ایسے خیال اسے کیوں آرہے ہیں۔ مسیح سپرا کو پیاس محسوس ہوئی۔ فریزر سے بوتل نکال کر ایک گھونٹ پیا۔ پھر زمین پر آکر لیٹ گیا۔ کل اس نے برگر کھایا تھا۔ سامان کم ہورہے ہیں۔ ایک ہفتہ میں شاپنگ کے لیے اسے باہر جانا پڑ سکتا ہے۔ مگر وہ مطمئن تھا۔ وہ مردہ ہے اور ادھر ادھر گھوم سکتا ہے۔ کھاپی سکتا ہے۔ مگر وہ مر چکا ہے۔ حقیقت یہی ہے۔ اس نے دوبارہ آنکھیں موند لیں۔ وہ ہرطرح کی فکر سے نجات حاصل کرنا چاہتا تھا۔ مگر یہ کیا۔ سامنے دونوں کھڑے تھے اور یہ کسی محل کی عمارت تھی۔ کمرہ بند تھا۔ وہ دونوں پھر سے موجود تھے۔ ایک گنجے سروالا۔ دوسرا گھنی گھنی داڑھی والا۔ دونوں عجب انداز میں ہنس رہے تھے اور اس وقت ان کے چہرے ڈارون کے قدیم بندروں جیسے تھے۔ ۔ ۔ ۔

‘ کیا تمہیں لگتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔’ داڑھی والا کچھ پوچھتے ہوئے خاموش رہ گیا۔

‘ ایک سوراخ برابر غفلت اور ہم دونوں نہیں ہوں گے۔’

‘ ہاں۔’ گھنی داڑھی والا خیالوں میں کھویا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ہم نہیں ہوں گے۔

‘ اور ہمارا ہم دونوں کے سوا کوئی نہیں۔’ گنجے سروالے نے کہا۔

‘ یہ بھی صحیح۔ مگر ہمارا ایک ایک قدم۔ ۔ ۔ ۔ ۔’

‘ ہم صحیح راستے پر ہیں۔ بس یہی راستہ ہمیں زندہ رکھ سکتا ہے۔’

‘ شاید تم ٹھیک کہتے ہو۔’ گھنی داڑھی والے کی آنکھیں چھوٹی تھیں۔ فکر کے دوران یہ آنکھیں اتنی چھوٹی ہوجاتی تھیں کہ ان آنکھوں کے نہ ہونے کا گمان ہوتا تھا۔ ۔ ۔ ۔ وہ ٹھہر ٹھہر کر بول رہا تھا۔

‘ ایک تاریخی فیصلہ۔ ۔ ۔ ۔’

‘ اور بہت سارے مردے۔’گنجے سروالا ہنسا۔ اب دوہی ذات ہیں۔ ‘زندہ اور مردہ۔’

‘ کیا مردے بولیں گے؟’

‘ کیا مردے بول سکتے ہیں۔’ گنجے سر والا زور سے ہنسا۔

‘ تم نے چتر بنیا کہا تھا۔’

‘ اس چتر بنیے کی لاش کو بھی دفن کردیں گے۔’

‘ اب تک سبھی کچھ ہماری مرضی سے ہورہا ہے۔ یعنی جیسا ہم نے چاہا۔’

‘ آگے بھی اپنی مرضی سے ہوگا۔ یعنی جیسا ہم چاہیں گے۔’

‘ گڈ۔’گھنی داڑھی والا کچھ سوچ رہا تھا’۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم وہ مرگ نیتی لائے ہو۔ ۔ ۔’

‘ کاغذ کہیے سر۔’

‘ ہاں۔ کاغذ کا ڈھیر۔ لائے ہو؟’

‘ اس کی ضرورت نہیں تھی۔’

‘ ہاں اس کی ضرورت نہیں تھی۔ اور مجھے یقین ہے۔ ۔ ۔ ۔’

‘ نئی تاریخ نئے کاغذ پر لکھی جائے گی۔’

‘ سچ۔ بالکل سچ۔ یہی ہوتا رہا ہے۔ ہم ان سے سیکھ رہے ہیں، جنہوں نے ہم سے پہلے کچھ غلطیاں کیں۔’

‘ نئے کاغذ پر نیا نقشہ بنے گا۔’

‘ اوہ۔ ۔ ۔ میں زندہ ہوں۔ مجھے یقین نہیں آتا۔ مگر تم سے۔ ۔ ۔ ۔’

‘ تم سے کیا سر۔ ‘

‘ تم سے ڈر لگتا ہے۔ تم جسمانی طور پربھی مجھ سے زیادہ طاقتور ہو۔’

‘ ہو ہو۔ ۔ ۔ ۔’گنجے سر والا ہنسا مگر بولا کچھ نہیں۔

‘ گھوڑوں کی ریس ہے سر۔’

‘ کچھ کمزور گھوڑے بھی ہوں گے۔’

‘ ہاں انہیں پیچھے رکھا گیاہے۔’

‘ چلو۔ ریس دیکھتے ہیں۔’

محل نما کمرے میں اب سناٹا تھا۔ مسیح سپرا کی آنکھیں کھل گئی تھیں۔ اب بہت سے گھوڑے تھے، جنہیں وہ ریس کورس میں دوڑتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ کچھ گھوڑے تیز دوڑ رہے تھے۔ کچھ گھوڑے نقاہت کی وجہ سے گر گئے تھے۔ کچھ گھوڑے آدھے راستے میں ہی دم توڑ گئے تھے۔ ۔ ۔ ۔ سفید چادروں کے درمیان والی عورت اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔

مسیح سپرا نے آنکھیں بند کرلیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *