اضطراب اپنی آخر ی حدوں کو چھونے لگا ، تشنگی نا قابل برداشت ہو گئی اور نیند کی دیوی کو روٹھے ہوئے ہفتہ ہو چلا تَواُس نے زندگی میں پہلی بار بڑے چائو سے اکٹھے کئے گئے سامانِ تعیشات کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا اور اپنے سنگ ِمرمر سے بنے محل کو الوداع کہہ کر کسی انجانی ڈگر پہ چل پڑا۔
اُس نے منبر پر بیٹھے خطیب سے سکون کی شاہراہ کا راستہ پوچھا اور پہلو میں ذہنی خلفشار سمیٹ کر لوٹ آیا، شاعر سے اپنے مسئلے کا تذکرہ کیا اور کھوکھلے جذباتی دلائل کا جواب ایک استہزائیہ قہقہے سے دیتا ہو ا آگے بڑھ گیا، فلسفی سے ملاقات کا نتیجہ تجرید کی ایک بے ڈھنگی عمارت کی تعمیر تھی جس نے اُس کے لاشعور کی چولیں ہلا ڈالیں ، موسیقار اُس کے سامنے سے وہی صدیوں پرانی دھنیں بجاتا ہو ا گزر گیا جن میں اب کوئی کشش اور مدھرتا باقی نہ رہی تھی، وہ چلتا ہو ا شہروں کی حدود سے باہر نکل آیا۔
وہ زمان ومکان کی کیفیتوں سے بے نیاز ہو کر چلتا رہا ۔ اُس کی جوتیاں گِھس گئیں،پائوںمتّورم ہو گئے، کپڑے چیتھڑوں کی صورت تن پر جھولنے لگے، بال مٹی سے اَٹ گئے اور چہرے کے خدوخال گرد نے گہنا دئیے یہاں تک کہ وہ ایک وسیع و عریض جنگل میں جا پہنچا۔
وحشت، اب اُس کے اختیار سے باہر ہو چلی تھی۔ اُس نے ایک نعرۂ مستا نہ بلند کر کے تن کے چیتھڑے اتار پھینکے اور پتوں کا لباس پہن لیا۔
اُس نے درختوں کی سر گوشیاں سنیں، کلی کا چٹکنا دیکھا، دھنک کے رنگ گنے اور چاندنی سے کلام کیا مگر سب بے سود۔فطرت کی مہربان آغوش میں کہیں کوئی غیبی اشارہ تھا بھی تَواُس کو نہ مل پایا۔ ہر نئے دن کے ساتھ افق کے اُس پار سے ابھر نے والا سورج امید کا استعارہ بن کر طلوع ہوتا اور مایوسی کی علامت بن کر ڈوب جاتا۔ تھک ہار کر اُس نے آنکھیں مو ند لیں اور اکڑوں بیٹھ کر تپسیا شروع کر دی ____جسم سے دل اور دل سے روح تک رسائی کی تپسیا۔
بالآخر اُس نے دل اور روح کے دو جہانوں تک رسائی حاصل کر لی مگر المیہ یہ ہو ا کہ دونوں ہی اندر سے خالی نکلے ۔ تہی دامانگی کا احساس اِتنا گہرا اور گھمبیر تھا کہ خودی اور بے خودی،امید اور مایوسی، سبھی اپنے مفہوم کھو بیٹھے اور جب سکوت اور کلام میں فرق نہ رہ جائے تَو شہر اور جنگل بھی ایک ہو جاتے ہیں۔
وقت آگیا تھا کہ مکتی کو دیوا نے کا خواب اور نروان کو مجذوب کی بڑ قرار دے کر واپسی کی راہ اختیار کی جائے ____ سفر شروع ہوا !
اُسے معلوم تھا کہ واپسی کا راستہ سہل نہ ہوگا ۔ بچے اُسے دیکھ کر تالیاں بجاتے، لونڈے لپاڑے پتھر مارتے، شرفاء راستہ بدل لیتے اور عورتیں حقارت سے دیکھتیں۔ پہلی بار وہ اپنی بد ہیئتی پر کڑھا اور محل کی جانب بڑھتے قدم تیز سے تیز تر ہوتے چلے گئے۔ آخرکار وہ اپنے محل کی دہلیز پر جا پہنچا۔
کچھ دیر تک وہ اپنے عالی شان محل کی دیواروں کو بہ غور دیکھتا رہا۔ سب کچھ ویسا ہی تھا۔ کچھ بھی تَو نہ بدلاتھا۔ مگر جو نہی اُس نے محل کی چوکھٹ پر پہلا قدم رکھا ، رائیگانی کا احساس ایک دم اپنی پوری شدت کے ساتھ حملہ آور ہوا۔ اُسے یوں لگا جیسے اب تک وہ محض ایک دائر ے میں گھومتا رہا ہو اور یہ خیال اِتنا ہیبت ناک تھا کہ اُس کا نحیف بدن، ہوا کی زد پر آئے پتوں کی طرح کپکپانے لگا۔
ٹھیک اُسی لمحے، ایک مدھم سی آواز اُس کی سماعتوں سے ٹکرائی۔ اُس نے فی الفور آواز کے تعاقب میں نظریں دوڑائیں۔ سامنے فٹ پاتھ پر، میلی سی چادر میں لپٹا، ایک شیر خوار بچہ رو رہا تھا۔
فٹ پاتھ کی دوسری جانب سے ایک پکھی واسن دوڑتی ہوئی آئی اور اُس میلے کچیلے بچے کو اپنی چھاتیوں سے لپٹا کر دودھ پلانے لگی جو ایک دم یوں خاموش ہو گیا جیسے کبھی رویا ہی نہ ہو؛ آسمان سے نور کا ایک ہالہ اترا اور اُن کے مد قوق اور پیلے چہروں پر روشنی بن کے جگمگا اُٹھا ۔
نروان کی تلاش میں نگری نگری پھرنے والے سیلانی نے اپنے سنگِ مر مر سے بنے سفید محل کی چوکھٹ پر کھڑے ہو کر یہ سارا منظر دیکھا اور نروان کی حقیقت جان گیا۔