معمول کے کام نمٹاکر وہ سستانے بیٹھی تو سوچ رہی تھی ’’کھا نا پودینے کی چٹنی سے کھالوں گی، بیٹے کے لیے انڈا بنا نا پڑے گا۔ پرسوں والا گوشت رکھا ہے۔ آلو ساتھ ملا کر شام کو سالن بنالوں گی۔‘‘ اس نے فریزر کھول کر گوشت کو ٹٹولا کہ پو را پڑ جائے گا یا نہیں۔پھر اسے ایک نیا کام یاد آ گیا۔

اس نے الماری سے بیٹے کے کپڑے نکالے اور استری کا سوئچ آن کر دیا۔اسے معلوم تھا کہ دھلا ہو ا پرانا جوڑا دیکھ کر وہ خفا ہو جائے گا۔ استری گرم ہوئی تو زردبتی بجھ گئی۔ وہ اسے قمیض پر پھیر رہی تھی کہ کسی نے گھنٹی بجائی۔ایک مردکی آواز بھی سنائی دی۔ وہ پریشانی میں سوچنے لگی۔ پڑو سیوں کا بچہ تو نہیں ہو سکتا کہ پتنگ چھت پر اٹک گئی ہو یا گیند آگری ہو۔ یہ تو مرد کی بھاری آواز تھی۔ اجنبی مرد کا خیال آتے ہی وہ سہم گئی۔

دوبارہ وہی آواز گھنٹی کے بغیر سنائی دی۔ ’’پوسٹ مین، رجسٹری آئی ہے۔‘‘

شہر میں گزا ری آدھی عمر کے بعد اب وہ پوسٹ مین کا مطلب سمجھنے لگی تھی۔ کچھ چیزیں۔کچھ الفاظ اب بھی ایسے تھے جو اس کی سمجھ سے بالا تر تھے۔مثلاً میٹر ریڈر، ٹی وی لائسنس انسپکٹر وغیرہ۔ اس نے دوہرا یا ’’ڈاکیہ۔‘‘ لیکن دوسرے لفظ ٹھیک طرح سن نہیں سکی۔

سیڑھیاں اتر تے ہوئے اسے اپنی اور گھر کی تنہائی کے علاوہ مرد کی اجنبیت کا مکمل احساس تھا۔

اس نے دروازہ کھولا تو چہرے کو دوپٹے سے ڈھانپ لیا اور اس کی آنکھیں خود بخود جھک گئیں۔

پوسٹ مین بڑبڑایا۔ ’’اور جگہ بھی ڈاک بانٹنی ہوتی ہے، رجسٹری ہے۔ یہاں دستخط کر دو۔‘‘ وہ آخری دو لفظ سمجھ سکی۔اس کا چہرہ لال بھبھو کا ہو گیا اور جسم انجانے احساس سے لرزنے لگا۔

کچھ سال پہلے اس کے بیٹے نے لکھائی پڑھائی شروع کروائی تھی۔ اس نے بھی حروف تہجی سے دو چارکاپیاں بھردی تھیں۔ پھر بیٹے کی سستی اور اپنی کاہلی کے سبب یہ سلسلہ ٹھپ ہو گیا۔

اس نے نام لکھنا تو سیکھ لیا مگر یہ نہیں سوچا تھاکہ غیر مرد کے سامنے دستخط کر نے پڑجائیں گے۔ وہ جانتی تھی کہ جب نام لکھے گی تو وہ آڑی ترچھی لکیروں جیسا نظر آئے گا۔

اس نے احتیاط کے ساتھ پوسٹ مین سے قلم لیا اور رعشہ زدہ ہاتھوں سے دستخط کیے۔

رجسٹری اس کے شوہر کے نام تھی۔ اس نے لفافے کو الٹ پلٹ کر دیکھا۔اس کا رنگ اور سائز عام لفافوں سے مختلف تھا۔ دروازہ بند کر تے ہی اس نے لفافہ کھولا تو ایک کارڈبرآمد ہوا۔ وہ کارڈ نہیں پڑھ سکتی تھی، اس نے اندازہ لگایا، کسی شادی کا دعوت نامہ ہے۔ وہ بیٹے کی قمیض استری کرنے لگی۔ اس کا ذہن شادی کے متعلق قیافے لگا رہا تھا کہ کسی رشتہ دار کی ہے یا اس کے شوہر کے دوست کی۔ اس نے خود کو ملامت کیا کہ ڈاکیے سے پوچھ لیتی۔ یہ رجسٹری کہاں سے آئی ہے۔ اس تشویش سے اس نے پودینے کی چٹنی بنائی۔ انڈا تلا اور روٹی پکائی۔ بیٹے نے کالج سے آنے میں دیر کر دی۔ اس نے گلی میں بھی جھانک لیا۔

بیٹے نے سلام کر تے ہوئے کتابیں میز پر پھینک دیں اور بوٹ اتار نے لگا۔ وہ بوٹ کا تسمہ کھول رہا تھا کہ اس نے کارڈاس کے ہاتھوں میں تھما دیا۔

’’ذرا دیکھنا یہ کیا ہے۔‘‘ اپنے تجسس کو چھپاتے ہوئے اس کا چہرا سرخ ہو گیا۔

’’آپ کے بھائی کی بیٹی کی شادی ہو رہی ہے امی جان۔‘‘ وہ مسکراتے ہو ئے بولا۔

وہ ہنسنے لگی۔ ’’میں کہوں مجھے لگ رہا تھا کہ ضرور کسی رشتہ دار کی شادی ہے۔ گاؤں والوں نے بھی تر قی کر لی۔پہلے تو آدمی بھیجتے تھے بتانے کے لیے۔‘‘

’’میں کبھی گاؤں نہیں گیا۔امی میں جاؤں گا۔‘‘

’’تم کیوں، ہم ساتھ جائیں گے۔‘‘بیٹے نے خوشی کا نعرہ لگایا۔ انہو ں نے سفر کی منصوبہ بندی کر تے ہوئے دوپہر کا کھانا کھایا۔ وہ ذرا لیٹی تو سو نہیں سکی۔گرچہ فجر سے پہلے کی جاگی ہوئی تھی۔اس نے گاؤں والے مکان میں لاٹھی کے سہارے چلتی ماں کی تنہائی کو محسوس کیا۔ جس سے ملے بہت سال گزر گئے تھے۔ کیا ہوا، جو اسے چھوٹی بہن زیادہ عزیز ہے۔ کیا ہوا، جو مجھ سے محبت نہیں کر تی۔ اس نے خود کو نافرمانی پر کوسا۔ اس نے اپنے والد کو یاد کیا۔سفید داڑھی،سفید کرتا اور دھوتی۔

اس نے دیکھا کہ ان کے گرد فرشتے منڈلارہے تھے اور ان سے سرگوشیاں کر رہے تھے۔ ان کے ماتھے پر نماز کا نشان چمک رہا تھا۔ اس نے ان کے شکوؤں اور افسردگی کے متعلق سوچا جو انہیں اپنی قبر کی ویرانی کے متعلق تھی۔وہ جس کا خوابوں میں کئی مرتبہ اظہار کر چکے تھے۔ وہ کروٹیں لیتی رہی۔ وہ سوچ رہی تھی کہ اس کا شوہر کام سے آجائے تو حتمی پروگرام کی تشکیل کی جاسکے۔ بیٹا شام کی چائے پی کر ٹیوشن پڑھانے چلا گیا۔

وہ گھر کے خالی کمروں میں ٹہلتی رہی سیڑھیوں میں شوہر کے قدموں کی آواز سنتے ہی اس کے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی۔ اس نے فوراً اس کے ہاتھ میں کارڈ تھما نا مناسب نہیں سمجھا۔وہ اسے چائے پیتے ہوئے دیکھتی رہی۔ کچھ دیر بعد بولی۔ ’’بھائی محمد خان کی بیٹی کی شادی کادعوت نامہ آیا ہے۔‘‘ اس نے کارڈ اپنے شوہر کو دے دیا۔اس نے پڑھتے ہوئے تیوری چڑھائی، پھر کھنکار کر ایک نظر اسے دیکھا۔ اسے اپنے شوہر کی آنکھیوں میں اندیشوں کی جھلک دکھائی دی۔ وہ صفائی پیش کر نے لگی۔ ’’تمہیں تو وطن کی یاد نہیں آتی،مردوں کا دل تو پتھر ہو تا ہے۔ کتنے سال گزر گئے۔ میرے دل سے تو ہوکیں اٹھتی ہیں۔ ماں کے لیے،بہنوں کے لیے اور موقع ایسا ہے کہ مجھے جانا ہی پڑے گا۔‘‘ اس کا شوہر چپ رہا۔ اس کے سوکھے ہونٹ مضبوطی سے جڑگئے۔ اس کا دایاں گال ایک دو بار تھر کا اور ساکن ہو گیا۔

وہ پہلو بدلتے ہوئے بولا۔ ’’محمد خان میر ی ماں کی فوتگی پر نہیں آیا تھا۔ تمہیں یاد ہے نا۔ اور ہماری بیٹی کی شادی پر بھی کچھ گھنٹے ٹھہر کر چلا گیا تھا۔ تمہیں کتنا افسوس ہوا تھا کہ اس نے جو کپڑے دیے تھے، کتنے گھٹیا سے تھے۔‘‘

اس نے بادل نخواستہ ہاں میں ہاں ملائی اور بھائی کے مزاج کی سخت گیری کو یاد کیا۔

اس کے شوہر نے کھنکار کر بات جاری رکھی۔ ’’دیکھو، کوٹ قاضی نزدیک تو نہیں ہے۔ صبح جائیں شام کو لوٹ آئیں۔ ایک دن اور ایک رات کا سفر ہے، پھر سردیوں کا موسم ہے۔تمہیں یہاں کے موسم کی عادت پڑگئی ہے۔ تمہاری بوڑھی ہڈیاں پالابرداشت نہیں کر سکیں گی۔ تمہاری صحت بگڑ گئی تو کوٹ قاضی میں ڈاکٹر بھی نہیں ہو گا جو تمہارا علاج کر سکے۔‘‘ وہ ڈاکٹر والی بات سن کر ہنسی اور اپنے شوہر سے مکمل اتفاق کیا۔

’’تم برادری والوں کے مزاج کو سمجھتی ہو۔ باتوں میں تیر پھینکتے ہیں۔ تم حساس ہو ان کی باتوں کا جواب نہیں بن پڑے گا۔ تم کڑھتی رہو گی، اسی وجہ سے تمہیں ٹی بی ہو نے لگی تھی۔ اچھا ہوا وقت پر پتہ چل گیا اور دوا شروع کر دی۔مجھے ڈر ہے کہ تمہاری بیمار ی نہ بڑھ جائے۔‘‘

اس نے اثبات میں سر ہلایا۔ ’’تم جانتی ہو، ہمارے حالات اچھے نہیں کہ دو آدمیوں کے سفر کے اخراجات برداشت کر سکیں۔پھر بہنوں میں تم سب سے بڑی ہوا اور مد ت کے بعد جاؤگی تو کچھ دینا پڑے گا۔ نہیں دوگی تو وہ باتیں بنائیں گی اور دیکھو، دور رہتے ہو ئے حالات پر جو پردہ ہے اسے پڑا رہنے دو۔ہم ساجد کو بھیج دیں گے وہ بڑا ہو گیا ہے۔ کیوں، کیا خیال ہے۔‘‘

وہ اختلاف کر نا چاہتی تھی۔شوہر کی بیان کر دہ حقیقتوں کو مسترد کر نا چاہتی تھی لیکن اس نے چونک کر اس کی طرف دیکھے بغیر کہہ دیا ’’ہاں ٹھیک ہے۔‘‘ پھر وہ ان چیزوں کی بات کر نے کرنے لگی جو شادی کے لیے بھجوانی تھیں۔ اس نے ان چیزوں کا بھی ذکر کیا جو بھائی نے ان کی بیٹی کی شادی پر دی تھیں۔

وہ ان کی مالیت کا اندازہ لگاتے ہو ئے بولی۔ ’’وہ جوڑے چھ سو روپے سے زیا دہ کے نہیں۔ہاں دونوں کو ملا کر اور پانچ سو نقد بھی دیے تھے۔‘‘
وہ سوچ میں پڑگئی،وہ چاہتی تھی کہ زیادہ مہنگے کپڑے بھجوا ئے۔

اس نے اپنے شوہر کو بتایا تو اس نے اختلاف نہیں کیا۔ انہوں نے طے کر لیا کہ پانچ سو والے دو جوڑے خرید ے جائیں۔ ایک لڑکی اور دوسرا اس کے والد کے لیے اور ہزارروپیہ نقد بھجوایا جائے۔

اس نے تصور میں دیکھا کہ اس کی بھابھی کپڑوں کی خوبصورتی پر خوشی کا اظہار کر رہی ہے اور قیمت کا تعین کر تے ہو ئے اپنی نند کی امیری کا ذکر کر رہی ہے۔

اس کے شوہر نے اس کے تصور میں جھانک لیا۔
وہ بولا ’’ہمارے کپڑے عمدہ اور قیمتی ہوں گے اور ہماری کمی کی تلافی کر دیں گے۔‘‘
اس نے مسکراتے ہو ئے اپنے شوہر کو دیکھا۔

انہوں نے ساجد کو اپنے فیصلے سے آگاہ کیا تو وہ بہت خوش ہوا۔ایک لمبے عرصے کے متعلق سوچتے ہو ئے ساجد کو جو خیال سب سے پہلے سو جھا وہ سفری بیگ کے بارے میں تھا۔

وہ بولا ’’گھر میں کوئی بیگ نہیں ہے، میں سامان کیسے لے کر جاؤں گا۔‘‘ اس نے شوہر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’ہم اپنے وقتوں میں گٹھڑی استعمال کرتے تھے۔‘‘ پھر بیٹے کو بتا نے لگی کہ جہیز کے تین کپڑے لے کر جب وہ سسرال پہنچی تو اس کی گٹھڑی بہت میلی ہو گئی تھی۔

’’لیکن میں تو گٹھڑی لے کر نہیں جا سکتا۔‘‘
وہ متفکر لہجے میں بولی ’’ایک بیگ تھا تو سہی۔‘‘

’’وہ ابو کا پرانا بیگ ہے۔ میں جسے موچی سے سلوایا کرتا تھا۔ میں وہ لے کر جاؤں گا۔‘‘
’’تم نیا بیگ لے کر جاؤ گے۔‘‘ اس کے والد نے کہا۔

اگلے دن اس کا شوہر کام سے لوٹا تو ایک بیگ اس کے ہاتھ میں تھا۔ وہ ساجد کے ٹھاٹھ کے متعلق گاؤں والوں کے ردعمل کی باتیں کر تے رہے۔
دو روز بعد وہ مارکیٹ گئی تو خفیہ طور پرپس انداز کی ہوئی رقم لیتی گئی۔

ساجد نے اپنے لیے کپڑے پسند کیے جبکہ شادی والے کپڑے خریدتے ہوئے اس نے بیٹے کا کوئی مشورہ نہیں مانا۔اس نے بیٹے کے لیے دوسری چیزیں بھی خریدیں۔ مثلاً جرا بیں، رومال اور بنیانیں اور اسے سمجھا دیا کہ اپنے والد کو ان کی بھنک نہ پڑنے دے۔

شام کو اس کے شوہر نے چیزیں دیکھیں تو خوب تعریفیں کر تا رہا۔ساجد کی روانگی سے دو روز پہلے انہوں نے رات گئے تک باتیں کیں۔
اس کا شوہر بیٹے کو بتاتا رہا کہ اس نے کتنی مشکلوں سے میٹرک تک تعلیم حاصل کی۔ اسکول گاؤں سے دس میل دور قصبے میں واقع تھا۔

جہاں سواری نہیں جاتی تھی۔وہ جمعے کی چھٹی گزار کر آدھی رات کو سفر کا آغاز کر تا۔ ہاسٹل میں پانی بھی نہیں تھا اس کے پاس یونیفارم کے علاوہ ایک اور جوڑا تھا۔وہ جسے گاؤں آتے ہو ئے پہنتا تھا۔

وہ بھی گزری ہوئی زندگی کے تار چھیڑتی رہی۔اس کا والد اسے فجر سے پہلے جگا دیتا تھا۔ نماز پڑھ کے وہ مویشیوں کو چارہ ڈالتی تھی۔ وہ ناشتے کے بعد کھیتوں پر چلی جاتی تھی۔ اسے فخر تھا کہ وہ بیٹوں کی طرح باپ کے ساتھ کام کر تی تھی۔ساجد جماہیاں لیتے ہوئے ان کی گفتگو سنتا رہا۔
اس نے جاڑے سے کڑکتی رات کا پرانا قصہ دوہرا یا۔ وہ لوٹا اٹھائے رفع حاجت کے لیے کھیت میں گئی تھی۔ اسے نزدیک ہی، دھیمی سی شو نکار سنائی دی تھی۔ اس نے پیتل کے لوٹے سے ایک سانپ کا سر کچل دیا تھا۔ اس نے بتایا کہ پالے کے باوجود اسے پسینہ آگیا تھا۔

وہ الماری سے نیلی شال اٹھا لائی۔اسے اپنے گرد لپیٹ کر چومتے ہوئے بولی یہ میرے جنتی باپ کی نشانی ہے۔وہ اسے اوڑھ کر عبادت کر تا تھا۔ شام کو چوپال میں بیٹھتا تھا۔ میں اس شرط پہ دوں گی کہ تم ہر حال میں اسے واپس لاؤ گے۔ بیٹے نے ہنستے ہوئے وعدہ کیا کہ وہ کسی کو شال ہتھیانے نہیں دے گا۔اس کا شوہر اپنی واسکٹ پہن کر سامنے آ یا تو اسے دیکھ کر وہ ہنسی میں لوٹنے لگی۔ وہ کسی ماڈل کی طرح پوز مارتے ہوئے کہنے لگا۔ ’’آٹھ سال پہلے خریدی تھی، مگر دیکھو نئی لگتی ہے۔ تم اسے پہن کر دیکھو، کسی وزیر کے بیٹے لگو گے۔‘‘

نہ چاہتے ہوئے بھی ساجد نے واسکٹ پہن لی۔سپر ایکپریس میں ریزرویشن کرائی گئی، ساجد کو اگلے دن روانہ ہونا تھا۔

وہ جانتی تھی، ریل پچیس گھنٹے میں آخری اسٹیشن تک پہنچے گی۔ پھر تین گھنٹے بس کا سفر تھا۔ اسے بس وہیں اتار ے گی جہاں سے پچیس سال پہلے اس کی رخصتی ہوئی تھی۔ سڑک پر دو ویران ہوٹل، کریانے کی دوکان اور شیشم کے دو ٹنڈمنڈ درختوں کے نیچے سائیکل والے اور موچی کا بکھرا ہو ا سامان۔وہ جگہ اسے اچھی طرح یادتھی۔ وہاں پہنچتے ہی دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی تھی۔

ذہن میں یادیں اور سانسوں میں خوشبو امڈآتی تھی۔ بل کھاتی سڑک کے آخری کونے پر ٹیلے کے پیچھے گاؤں کی ہر گلی اور مکان آنکھوں میں گھس آتے تھے۔اسے معلوم تھا وہاں کوئی چیز نہیں بدلی ہو گی۔صرف کچھ بوڑھے مر گئے ہوں گے اور نئے بچے پیدا ہو ئے ہوں گے۔
بیگ میں سامان رکھتے ہوئے اسے کچھ نہ کچھ بھول جاتا۔ٹوتھ برش، کنگھی، تو کبھی پالش۔
اس نے بیگ کو گنجائش سے زیادہ بھر دیا۔وہ مشکل سے بند ہو سکا۔
ساجد چیخ اٹھا۔ میں ہفتے کے لیے جا رہا ہوں، عمر بھر کے لیے نہیں۔
سفر میں بیٹے کے کھانے کے لیے اس نے مزید اور چیزیں بنائیں۔آلو کے پراٹھے اور میٹھے آٹے کی ٹکیاں۔

رات کو وہ اسے نصیحتیں کر تی رہی کہ نانی کے ہاں قیام کرے۔ ایسا نہ ہو کہ کسی پھوپھی کے گھر سامان رکھ دے۔ جو کوئی بھی ان کے حالات کے متعلق پوچھے وہ بتادے کہ بہت اچھے ہیں۔ اگر کوئی اس کی دعوت کر نا چاہے تو رواج کے مطابق کہہ دے۔ پہلے نانی سے اجازت لے لیں۔اس نے سمجھایا کہ وہ ساری خالاؤں کے گھر جائے۔اگر کوئی پیسے دینا چاہے تو مت لے۔ البتہ دوسری شے ہو تو قبول کر لے۔

اس نے اپنے شوہر سے چھپ کر سرگوشی میں اسے بتایا کہ اس نے اس کی نانی کے لیے سفید چادر بیگ میں ڈال دی تھی اور اگر بتیوں کا پیکٹ بھی۔ جس کے لیے اس نے تاکید کی کہ وہ قبرستان جائے اور نانا کی قبر پر انہیں لگائے۔ اور تین درود شریف اور تین قل ھو اللہ پڑھ کر ان کے ایصال ثواب کے لیے دعا کرے۔

اس نے دھیمے لہجے میں ایک بات کہی جسے سن کر اس کا بیٹا ہنسی میں لوٹنے لگا۔ اس کا شوہر بھی مسکرادیا۔ اس نے نصیحت کی تھی کہ ان کے کھیت میں ایک بے کار کنویں کے پاس مٹی کی ایک ڈھیری تھی۔ وہاں اس کے والد کی گدھی دفن تھی۔ جس نے بار برداری کے لیے ان کی خدمت کی تھی۔ وہ اس کے لیے بھی دعا کرے۔

گمشدہ نیند کی وجہ سے وہ دیر تک اپنے شوہر سے باتیں کر تی رہی۔بیٹا تو کب کا سو چکا تھا۔وہ شکایت کر تی رہی کہ اس نے گاؤں والی زمین بیچ دی۔ مکان اپنی بہن کو دے دیا اب ہم اجنبیوں کی طرح وہاں جائیں گے جیسے اس مٹی سے عارضی تعلق ہو۔ اپنا گھر ہو تا تو مہمان بننے کی نوبت نہ آتی۔
وہ شوہر کی نیند سے بے خبر بولتی رہی۔

وہ کھاٹ سے اتری تو شوہر کا سویا ہوا چہرہ دیکھ کر بڑبڑا ئی۔

غسل خانے سے نکل کر بیٹے کے کمرے میں گئی۔اس کی پیشانی پر بوسہ دیا۔پھر وہاں ٹھہر کر سوچنے لگی۔ کل رات سفر میں گزرے گی۔پرسوں وہ گاؤں پہنچ جائے گا۔
اس نے آہ بھر تے ہوئے اپنے بیٹے کو دیکھا اور دو بارہ کھاٹ پر جا لیٹی۔

Leave a Reply