Laaltain

ہمارے لیے لکھیں۔

بوئے خوں (رفاقت حیات)

test-ghori

test-ghori

12 جولائی, 2020

وہ اندھیرے میں دکھائی نہ دینے والی سرخ اینٹوں کے کھردرے فرش پر گھٹنے ٹیک کر اس طرح بیٹھا تھا، جیسے نماز پڑھ رہا ہو۔ گھٹنوں پر رکھے ہوئے بائیں ہاتھ کی انگلیاں کانپ رہی تھیں اور کاندھے میں بھی تیز دُکھن تھی جب کہ اس کا دایاں ہاتھ فرش پر بے حس لٹکا پڑا تھا۔ ایک لمحے کے بعد اس کی اوپر کو اٹھی ہوئی گردن آہستگی سے نیچے آئی اور ڈھلک کے رہ گئی۔ دھونکنی کی طرح چلتے اس کے سینے کو قرار آگیا اور دھیرے دھیرے اس کی سانسیں ہموار ہونے لگیں۔ اپنے جسم اور چہرے کی مختلف جگہوں پر جلن اور درد کو محسوس کرتے ہی اس کے ہاتھ یہاں وہاں زخموں کو ٹٹولنے لگے۔ کہیں پرناخنوں کی کھرونچوں سے اس کا گوشت سلگ رہا تھا اور کہیں پر دانتوں کے کاٹنے سے اسے تکلیف ہورہی تھی۔ کچھ دیر پہلے تک اس کی نگاہ میں گھمبیر تاریکی کے سوا کچھ نہیں تھا۔ لیکن دھیرے سے آنکھیں مچ مچا کر، پھیلا کر اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے وہ کمرے کی چیزوں کو ان کی جگہ پر دیکھنے اور پہچاننے لگا۔ کمرے کی چھت اور دیواریں، بند کھڑکی اور دروازہ، الماری، صندوق اور پلنگ۔ وہ ہر طرف دیکھتا رہا مگر جب اس نے اپنے بہت قریب فرش کو دیکھا تو چونک پڑا۔”یہ۔۔۔یہ کیا تھا”؟ اس نے سوچا۔ “شاید کوئی چیز پڑی ہوئی تھی۔ لیکن نہیں، وہ تو ایک جسم تھا”۔

اس کے ٹوٹے ہوئی جسم کی طرح اس کا ذہن بھی ٹکڑوں میں بٹا ہوا تھا۔ اس لیے کچھ دیر پہلے کے واقعے کو یاد کرنا یا اس کے بارے میں سوچنا فی الحال ممکن نہیں تھا۔ لیکن اسے معلوم تھا اور وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ نزدیک پڑا جسم بھولے کا تھا۔ اس کی انگلیوں کی کپکپاہٹ تھم گئی اور کندھے کی دکھن بھی ختم ہو گئی۔ اس نے جھک کر ہاتھ آگے بڑھایا تو اس کی انگلیاں ایک پیر سے ٹکرائیں اور اس پر رینگنے لگیں۔

وہ پیر مٹی اور گرد سے اٹا ہوا تھا۔ اس پر ایک موٹی سی تہہ جمی ہوئی تھی۔ اس نے پیر کو ہلایا، جلایا لیکن بے حرکت جسم بے حرکت ہی رہا۔ اپنے گھٹنے گھسیٹ کر وہ آگے بڑھا۔ اب اس کا ہاتھ اس کے پیر کی پنڈلی کو ٹٹولنے لگا۔ وہ پنڈلی بہت نرم تھی اور اس پر کوئی بال نہیں تھا۔ گوشت کو دباتے ہوئے اس کی آہ نکل گئی اور دفعتاً اس کا ہاتھ پھسلا تو اس نے فرش پر رینگتے ہوئے سیال کو محسوس کیا۔ وہ بھولے کا خون تھا۔

وہ یک دم سناٹے میں آ گیا اور کمرے کی تاریکی میں آنکھیں پھیلا کر آس پاس دیکھنے لگا۔ پھر وہ اپنی جیبیں ٹٹولتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا۔ ماچس کی تلاش میں اِدھر اُدھر ہاتھ مارتے ہوئے اس کا پاؤں فرش پر کسی چیز سے ٹکرا گیا اور وہ چیز گھسٹتی ہوئی، خاموشی میں تیز آواز پیدا کرتی ہوئی پلنگ کے نیچے چلی گئی۔ اس نے پرواہ نہیں کی اور صندوق، الماری اور پلنگ پر ہاتھ مارتا رہا۔ اسے ماچس مل گئی۔ لیکن پچھلی موم بتی بہت پہلے ختم ہو چکی تھی اور نئی موم بتی کے بارے میں وہ کچھ نہیں جانتا تھا کہ وہ کہاں رکھی ہوئی تھی۔ وہ دیا سلائیاں جلا کر، بھڑکا کر، کونوں کھدروں میں ڈھونڈ تا ٹٹولتا رہا۔ دیا سلائیوں کی بجھتی بھڑکتی روشنی میں اس نے یونہی بھولے کی طرف دیکھا تو نجانے کیوں وہ اسے پہلے سے زیادہ خوب صورت معلوم ہوا۔

پلنگ کے نیچے اسے آدھی موم بتی کا ٹکڑا مل گیا۔ وہیں فرش پر گری ہوئی چھری بھی اس کے ہاتھ لگ گئی۔ چھری کو فوراً پھینک کر، اس نے موم بتی روشن کی اور بھولے کے پاس پہنچا۔ زرد اور پھیکی سی روشنی میں اس نے دیکھا کہ ابھی تک اس کی آنکھوں میں نفرت تھی اور چہرے پر غصیلا پن جھلک رہا تھا۔ اس نے بھولے کی کھلی ہوئی آنکھوں اور ادھ کھلے ہونٹوں کو بند کر دیا۔ اچانک اس کے پیٹ میں مروڑ اٹھا اور غم کی تیز لہرنے اس کے پورے بدن کو جکڑ لیا۔ اس نے بمشکل مو م بتی فرش پر رکھی اور سسکیاں لینے لگا۔ اس کی آنکھوں میں پہلا آنسو جگمگایا اور اس نے بلند لہجے میں ماتم شروع کر دیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس دن صبح سے بوندا باندی ہورہی تھی۔ وہ شام ڈھلنے سے ذرا پہلے کارخانے سے باہر نکلا تھا اور کیچڑ سے چپچپاتی گلیوں میں آہستگی سے چلتا فوارے والے چوک تک پہنچا تھا۔ بازار کی دکانیں وقت سے پہلے بند ہو گئی تھیں اور خریداروں کے بجائے راہگیروں کی تعداد زیادہ تھی۔ وہ بھی اسٹینڈ پر تانگے کے انتظار میں کھڑی بھیڑ میں شامل ہوگیا تھا۔ ہجوم کی دھکم پیل کی وجہ سے آنے والا ہر تانگہ فوراً بھر جاتا اور تھوڑی سی دیر میں واپس چلا جاتا۔ تین مرتبہ تانگے پر سوار ہونے کی کوشش میں اسے ناکامی ہوئی تھی۔ چوک سے اس کی رہائش کا فاصلہ زیادہ نہیں تھا۔ لیکن وہ تھکاوٹ محسوس کر رہاتھا۔ اور اسے مکان پر پہنچنے کی جلدی بھی تھی۔

ایک پرانے اور خستہ حال تانگے کو دیکھ کر لوگ اس پر سوار ہونے سے کترائے اور وہ پیچھے ہٹ گئے کیونکہ اس میں بیٹھ کر بوندا باندی اور ہوا کے سرد جھونکوں سے بچنا محال تھا۔ اس تانگے کا نو عمر کو چوان آوازے لگا رہاتھا۔ لوگوں کو دھوکہ دینے کے لیے اس نے اگلی نشست پر اپنے ایک دوست کو بٹھا دیا تھا۔

وہ ٹھٹھرنے اور بھیگ جانے کی پرواہ کیے بغیر تانگے پر سوار ہو گیا تھا۔ اس کی دیکھا دیکھی تین اور لوگ بھی چڑھ کر بیٹھ گئے تھے۔ اسے کوچوان کے دوست کے پہلو میں جگہ ملی تھی، جو سر سے پاؤں تک برسات میں بھیگا ہوا تھا۔ وہ بہت کم عمر دکھائی دیتا تھا۔ اس کا رنگ سفید اور جسم صحت مند تھا۔ اس کے سرخ ہونٹوں میں کوئی کشش تھی کہ وہ اسے غورسے دیکھے بنا نہیں رہ سکا تھا۔

تانگے کا مریل گھوڑا سست رفتاری سے بازار کی مرکزی سڑک پر دوڑنے لگا۔ آگے اور پیچھے بیٹھے لوگ، ایک دوسرے سے منہ موڑ کر شام کے دھندلکے میں گم ہوتی اِدھر اُدھر کی معمولی چیزوں کو دیکھ رہے تھے۔ ہوا کے ٹھنڈے جھونکے اور پانی کی پھوار ان کے چہروں کو چومتی اور سہلاتی رہی۔ خنکی سے بچنے کے لیے وہ خود بخود اپنے جسموں کے اندر ہی اندر سمٹتے رہے۔

اس کے جسم کا دایاں حصّہ کو چوان کے دوست کے بائیں حصے کے ساتھ چپکا ہوا تھا۔ لڑ کھڑا کر اور ڈگمگا کر چلتے تانگے کی وجہ سے ان دونوں کے گھٹنے، کولہے اور کندھے آپس میں رگڑ کھا رہے تھے۔ تھکاوٹ کے سبب سردی اس کے جسم پر غالب آرہی تھی۔ اس کی مندی ہوئی نگاہ سامنے تھی اور دھیرے سے کم ہوتے فاصلے کو ناپ رہی تھی۔

کوچوان اور اس کا دوست آپس میں سرگوشی اور کبھی دھیمے لہجے میں باتیں کر رہے تھے، مشینوں کے درمیان دن بھر کی مشقت کی وجہ سے وہ تھوڑا سا بہرا ہوگیا تھا اور یوں بھی اس کا دھیان اس قابل نہیں تھا کہ کسی بھی چیز پر دیر تک لٹکا رہ سکے۔ مگر ان دونوں کا کوئی آدھا پورا جملہ خود بخود اس کے کان پڑ جاتا تھا۔

کوچوان دھیرے سے چابک چلاتے ہوئے اپنے دوست سے مخاطب ہوا۔ “تونے چاچا رحیم کی نوکری چھوڑ کر اچھا نہیں کیا۔ سوچ لے۔ وہ شہر کے آدھے تانگوں کا مالک ہے”۔ اس کے لہجے میں پر خلوص تنبیہ تھی اور نصیحت بھی۔

اس کا دوست پہلو بدلنے کے لئے تلملاتے ہوئے بولا۔ “تجھے نہیں پتہ۔ وہ ایک نمبری کنجوس ہے رات دن افیم چرس پیتا رہتا ہے۔ نشے کے بعد وہ بندہ تو رہتا ہی نہیں”۔

“تجھے کیا ؟ وہ جو بھی کرتا رہے”۔

“سارا غصہ سارا زور تو وہ مجھ پر نکالتا تھا”۔ اس نے چپکے سے آنکھوں کے کونوں سے اپنے ساتھ بیٹھے لوگوں کو دیکھا۔ ان کے جسم اس طرح جھول رہے تھے، جیسے وہ خواب میں چل رہے ہوں۔

“وہ تو بڈھا ہے اس میں زور کہاں”؟ کوچوان نے گھوڑے کو ہشکارتے ہوئے کہا۔

“وہ خبیث بڈھا نہیں ہے ڈنڈا ہے ڈنڈا۔ ابھی تک میرے درد ہو رہا ہے کوئی رات خالی نہیں گزاری۔”

دونوں دوست آپس میں بولتے رہے۔

ایک آدھ جملہ سن کے نجانے کیوں وہ پوری طرح اس کی طرف متوجہ ہوگیا تھا۔ ایک تجسس کے ہاتھوں مجبور ہو کر اس نے پہلے جھک کر اور بعد میں پہلو بدل کر کوچوان کے دوست کو اچھی طرح دیکھا۔ اس نے جان بوجھ کر اپنے کندھے اور گھٹنے کو اس کے ساتھ زور سے رگڑا اور اس کے داہنے ہاتھ کی انگلیاں اپنے آپ اس کی ران کے خوشگوار لمس کی جھیل میں بھٹکنے لگیں۔ چڑھائی اترتے وقت اس نے ہاتھ پھیلا کر نرم گوشت کو دبایا۔ نرمی کو چھوتے ہوئے اس کے اندر کی کھردراہٹ کو چین تو ملا لیکن اس کی بے قراری میں جیسے کھلبلی سی مچ گئی۔

تھوڑی دیر کے بعد تانگا اس پل کے نزدیک پہنچ گیا، جہاں اسے اترنا تھا۔

اترتے ہوئے اس نے کوچوان کے دوست کی آنکھوں میں جھانکا تو اسے ایک غصیلی بے بسی دکھائی دی۔ اس کے ہونٹوں پر ایک بدمعاش مسکراہٹ پھیل گئی جو سڑک پر چلتے ہوئے بدمعاش ہنسی میں تبدیل ہوگئی۔ اس نے کالے آسمان کو دیکھ کر ٹھنڈی آہ بھری اور اپنی تاریک اور گھٹن زدہ رہائش کی طرف اترنے والی غلیظ گلی میں چلنے لگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فرش پر رکھی موم بتی کے اوپر نیچے ہوتے شعلے کی روشنی میں اس کا سایہ کانپتا رہا۔ ایک پتنگا تھوڑی دیر تک شمع کے گرد منڈلایا اور اس کی پھڑ پھڑاہٹ کمرے کی خاموشی میں دوچار لمحے گونجی لیکن پھر وہ شعلے میں راکھ ہوگیا۔ دھیرے دھیرے اس کا رونا مدہم پڑ گیا اور کچھ آنسو گالوں سے پھسل کر اس کی ٹھوڑی سے اس کی جھولی میں گرے اور اس کے بعد اس کی آنکھیں خشک ہو گئیں۔

ہاتھ چہرے سے ہٹا کر وہ ایک مرتبہ پھر بھولے کو غور سے دیکھتا رہا۔ وہ آہستگی سے اپنا ہاتھ اس کے نزدیک لے گیا۔ اس کے گالوں کو چھوتے ہوئے پہلی بار اسے اپنے دانتوں کے نشان دکھائی دیے۔ نشان، جو گہرے تھے اور جنہیں شمار کرنا ممکن نہیں تھا، جو پیشانی اور آنکھوں کے سوا تمام چہرے پر پھیلے ہوئے تھے۔

موم بتی ہاتھ میں لے کر اس نے گالوں کی سرخی کو دیکھا تو اس کی نگاہ ہونٹوں کی سرخی پر جم کے رہ گئی۔ ابھی تک وہ گیلے تھے اور سوجے ہوئے بھی، وہ ان کی نیم گرم نرمائیت کو انگلیوں کی پوروں میں جمع کرتا رہا۔ اس کے بعد اس کی کپکپاتی ہوئی انگلیاں بھولے کے بغیر بالوں والے سینے پر گھومنے لگیں۔

اس کے جسم کے خفیہ ترین گوشوں میں کوئی شے سرسرانے لگی۔ کوئی مانوس اور گمنام سی شے۔ اس نے موم بتی فرش پر رکھ دی اور لمبے سانس لینے لگا۔ یہ کیفیت اس کے لیے بالکل نئی تھی اور انوکھی بھی۔ اچانک اسے چرس بھرے سگریٹ کی طلب محسوس ہوئی۔ نادانستہ اس نے داہنی طرف اپنا ہاتھ بڑھایا۔ اپنی جیب کو غائب پا کر اسے اپنی حماقت پر ہنسی آگئی۔ بھولے کی طرح وہ بھی ننگا تھا۔ اس نے یہاں وہاں نظر پھینکی تو اپنی قمیض کو پلنگ پر پڑے ہوئے دیکھا۔

اس نے قمیض اٹھائی اور اس کے بعد سگریٹ کی ڈبیا نکال کر لپک جھپک میں اس نے چرس کا سگریٹ بنایا۔

پہلا کش لیتے ہی اس کی بند ناک کھل گئی اور ایک بدبو کی بھبک زبردستی اس کے نتھنوں میں داخل ہوئی۔ اس نے فورًا اٹھ کر کمرے کی اکیلی کھڑکی کھول دی لیکن اگلے ہی لمحے اسے احساس ہوا کہ اگر کسی نے جھانک کر دیکھ لیا تو۔

وہ سہم گیا اور اس نے کھڑے کھڑے ایک دو کش لگانے کے بعد اپنے سر کو سلاخوں کے پاس لے جاکر باہر کی طرف دیکھا۔ وہ کچھ دیر تک پوری آنکھیں کھول کر کوئی مشتبہ چیز دیکھنے کی کوشش کرتا رہا اور کان لگا کر خطرے کی کوئی آواز ڈھونڈتا رہا۔

کھڑکی کے سامنے کچی اور غلیظ ڈھلان تھی، جس کے نیچے گندا نالہ بہتا تھا۔ دوسری طرف قبرستان تھا۔ اور اس کے ٹنڈمنڈ وحشت ناک درخت، پور امنظر تاریک تھا لیکن اسے سب کچھ نظر آرہا تھا۔ زمین کی چیزوں کو غور سے دیکھنے کے بعد وہ آسمان کو دیکھنے لگا۔ سگریٹ ختم ہوا تو اس نے کھڑکی بند کر دی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ جمعرات کی شام تھی اور ابھی تک بونداباندی رُک رُک کر جاری تھی۔

بوندا باندی کی یک رنگی نے اس کی زندگی کو بے مزہ بنا دیا تھا۔ کام سے فراغت کے بعد اپنے تاریک کمرے میں دبک کر بیٹھنے کے سوا اس کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا۔ اس کے کمرے میں شام سے بہت پہلے رات اتر آئی تھی اور بہت دیر تک کونوں کھدروںمیں چھپی رہتی تھی۔وہ کارخانے کے جس کمرے میں کام کرتا تھا، وہ بھی کھوہ جیسا تھا۔ اس کا پورا دن ہزار وولٹ کے بلب کی روشنی میں مولڈنگ مشین کے سرخ شعلے کو گھورتے ہوئے گزر جاتا تھا۔ شام کو وہ اپنی آنکھوں میں جلن اور جوڑوں میں دکھن لیے باہر نکلتا تو اسے رات کے رنگ کے سوا کچھ بھی دکھائی نہیں دیتا تھا۔ ایک سال ہونے کو آیا تھا، اس کے لیے شہر کی اجنبیت ابھی تک ختم نہ ہو سکی تھی۔ دوستی کے بجائے لوگوں سے اس کے تعلق کی بنیاد صرف ضرورت پر قائم تھی۔ ہوٹل پر کھانے کی ضرورت، مانڈلی پر سگریٹ خریدنے کی ضرورت۔ اس کی ضرورتیں پوری کرنے والے لوگ اس کے لیے غیر اہم تھے۔

اس نے اس شام فوارہ چوک کے بجائے شاہ چن چراغ کے مزار کا رخ کیا تھا۔ وہاں سے مزار زیادہ دوری پر واقع نہیں تھا۔ درمیان میں صرف چند آڑی ترچھی گلیوں کا راستہ تھا۔

گلیاں نیم تاریک اور بھیگی ہوئی تھیں۔ جا بجا کیچڑ اور برساتی پانی کی بہتات تھی۔ مٹی اور سرخ اینٹوں کی سوندھی مہک تمام راستے میں پھیلی تھی۔ آسمان سرمئی اور سیاہ بادلوں سے بھرا ہوا تھا۔ ہوا بالکل بند تھی۔ ایک چھوٹے اور تنگ سے ہوٹل میں بیٹھ کر اس نے چائے پیتے ہوئے کیک پیس کھایا اور چلنے لگا۔مزار کی جنوبی دیوار ایک چڑھائی سے شروع ہو کر کشادہ گلی کے نکڑ تک جاتی تھی۔ دیوار پیلی تھی مگر اس وقت سرمئی نظر آرہی تھی۔ وہ دیوار کے ساتھ چلتا مرکزی دروازے تک پہنچا اور اندر داخل ہوا۔ احاطے میں چند بکھری ہوئی روشنیاں تھیں مگر اندھیرے کی کیفیت غالب تھی۔ دا ہنی طرف ذرا اونچائی پر ایک حجرہ بنا ہوا تھا۔

حجرے کے ساتھ خالی زمین پر درخت اور پودے لگے ہوئے تھے۔ بائیں طرف نیچے مزار تھا اور اس کا برآمدہ اور صحن بھی۔ یہ چیزیں سفید سنگِ مرمر کی تھیں، نیم اندھیرے میں بھی سنگِ مر مر کا میلا پن دکھائی دے رہا تھا۔ پورے احاطے میں گلاب کے سوکھے پھولوں اور اگربتیوں کی گاڑھی خوشبو تھی۔ وہاں سوگوار چہروں والے چند لوگ بھی تھے، جو دبے پاؤں چلتے تھے اور سرگوشیاں کرتے تھے۔

وہ برآمدے کے ستون سے پیٹھ لگا کر بیٹھ گیا اور شاہ چن چراغ کی قبر کو دیکھتے ہوئے درود شریف پڑھنے لگا۔

اس سے ذرا فاصلے پر ایک نو عمر لڑکا فرش پر گہری نیند میں لیٹا ہوا تھا۔ ایک اچٹتی نگاہ ڈالنے کے بعد اس نے لڑکے کی طرف دوبارہ نہیں دیکھا۔ لڑکے کا لباس بہت گندا تھا اور سر کے بال آپس میں چپکے ہوئے تھے۔

کچھ لوگ چاولوں کی دیگ اٹھائے مرکزی دروازے سے داخل ہوئے تو ذرا سی دیر میں پورے احاطے میں لنگر بٹنے کا شور مچ گیا۔

وہ اپنی جگہ پر بیٹھا چپ چاپ بھوکے لوگوں کا تماشا دیکھتا رہا۔

کسی نے اس لڑکے کو بھی جگا دیا تھا۔ وہ اپنی نیند سے بوجھل آنکھیں مسلتا، جماہی لیتا اٹھ کھڑا ہوا اور بے ترتیب قدم اٹھاتا دیگ کی طرف چلنے لگا۔

نا گاہ اس نے لڑکے کو دیکھا اور فورًا پہچان لیا۔ پھر اس کی نظریں اس کا تعاقب کرنے لگیں۔

مڑے تڑے اخبار کے ٹکٹرے پر گرما گرم چاول سمیٹے وہ لڑکا وہیں آ بیٹھا اور اپنی انگلیوں کے جلنے کی پرواہ کیے بغیر وہ بے صبری سے اپنی غذا کھانے لگا۔ اس کی آنکھوں میں چمک تھی اور پورے جسم میں عجیب سی حرکت۔ چاول ختم ہو گئے تو اس نے پہلے اخبار کے ٹکڑے کو اور بعد میں اپنی انگلیوں کو اچھی طرح چاٹا۔ اسے پانی کی طلب کا بھی احساس نہیں تھا۔

وہ اسے مسلسل تکے جارہا تھا۔

لڑکے نے قمیض سے ہاتھ صاف کئے اور پھر اپنا سر کھجانے لگا۔

وہ اس کے پاس جا بیٹھا۔

لڑکا اپنے آپ میں مگن رہا۔

اس نے سگریٹ سلگایا تو لڑکے نے اس کی طرف دیکھا۔ اس نے لڑکے کو سگریٹ پینے کی پیشکش کی تو اس نے فورًا قبول کر لی۔

وہ ایک لمبا کش لیتے ہوئے لڑکے سے مخاطب ہوا۔ “یہاں کا لنگر مزیدار ہوتا ہے نا”۔

بہت سی دیا سلائیاں ضائع کرنے کے بعد وہ لڑکا سگریٹ سلگانے میں کامیاب ہو ہی گیا۔ وہ اناڑی کی طرح کش لیتے ہوئے بولا۔ “بہت مزیدار۔ میں تین دن سے یہاں پر ہوں صبح، دوپہر، شام لنگر بٹتا ہے میں تو موج اڑاتا ہوں۔ سگریٹ کا دھواں اس کے گلے میں اٹک گیا۔ اپنی کھانسی پر قابو پاکر اس نے کہا۔ تم نے کھایا نہیں؟”

وہ ہنستے ہوئے بولا۔ “آج میری جیب گرم ہے۔ اس لیے میرے پلے جب کچھ نہیں ہوتا ۔ تب یہاں سے کھاتا ہوں”۔

“تو کرتے کیا ہو”؟
“ڈھلائی کے کارخانے کا م، اور تم”؟

“میں کوچوان تھا۔ اب کچھ بھی نہیں ہوں”۔

“تمہارا گھر کہاں ہے ” ؟

“یہ مزار میرا گھر ہے۔ یہیں پر کھاتا ہوں اور سوتا ہوں”۔

“میرے ساتھ چلو گے”؟

کوچوان زور سے ہنسا۔” تمہارے ساتھ چلا گیا۔ پھر تم مجھے نہیں چھوڑو گے”۔ اس کی ہنسی قہقہے میں تبدیل ہو گئی۔

“کیا مطلب”؟

“تم جانتے ہو”۔ اس کی طرف دیکھے بغیر وہ لڑکا اٹھ کھڑا ہوا۔

وہ اسے پانی کی ٹینکی کے پاس جاتے ہوئے دیکھتا رہا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کھڑکی بند کرنے کے بعد بھی تیز بد بو کی بھبھک زائل نہیں ہو سکی اور وہ چرس کی خوشبو کے ساتھ مل کر کمرے کی فضا میں تیرتی رہی۔ وہ کمرے کے دروازے سے لگ کر کھڑاہوگیا اور جھک کر آڑی تر چھی درزوں سے باہر جھانکنے لگا۔ اسے اندھیرے کی تجرید کے سوا کچھ بھی دکھائی نہیں دیا۔ اس کی آنکھوں اور دماغ پر سرا سیمہ کیفیت چھائی تھی۔ جو باہر کی خاموشی میں غیر محسوس آوازوں کا شور سن رہی تھی۔

وہ دبے پاؤں کمرے میں ٹہلنے لگا۔ اسے وہم تھا کہ چلتے ہو ئے اس کا پاؤں کسی اینٹ سے ٹھوکر کھا کر زخمی ہو جائے گا۔ وہ ہر قدم اٹھا اٹھا کر چلتا رہا۔

موم بتی پگھلتی جارہی تھی اور اس کے ٹمٹماتے شعلے کی روشنی اور مدھم پڑ گئی تھی۔

وہ بھولے کے پاس آ بیٹھا اس نے چرس کا ایک اور سگریٹ بنا کر سلگایا۔

سگریٹ پیتے ہوئے وہ بھولے کے ابھرے ہوئے پیٹ کی طرف دیکھتا رہا۔ ابھی تک اس کا خون بہہ رہا تھا اور فرش پر کچھ گہری لکیریں رینگتی ہوئی دور تک چلی گئی تھیں۔ اس نے اٹھ کر کپڑے سے لکیروں کو صاف کر نے کی کوشش کی وہ مٹ گئیں اور ان کی جگہ ایک دھبہ سا بن گیا اس کے بعد اس نے بڑی مشکل سے آنتوں کو اندر دبا کر وہی کپڑا بھولے کے پیٹ پر باندھ دیا۔ ذرا دیر بعد کپڑے سے بھی خون رسنے لگا۔ پھر وہ دیوار سے پیٹھ لگا کر بیٹھ گیا۔

وہ بھولے کے ساتھ گزارے ہوئے شام کے وقت کو یاد کر کے ہنستا رہا اسے شدید بوسے یاد آئے اور تیز جھٹکے بھی، گالوں پر کاٹنا اور بدن کو نوچنا بھی۔ وہ بھولے کی سسکیوں اور گالیوں کو فراموش نہیں کر سکا تھا۔

اچانک اپنے خون میں عجیب سنسنی خیزی کو محسوس کرتے ہوئے وہ اپنی رانوں اور پیٹ کو زور سے کھجاتا رہا۔ اس نے بڑے جتن سے بھولے کا مردہ اٹھایا اور اسے اپنی کھاٹ پر لٹا دیا۔ کچھ لمحوں کے بعد وہ بھی اس کے پہلو میں لیٹ گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اگلے ہفتے وہ تین مرتبہ مزار پر گیا تھا اور ہر بار کوچوان لڑکے سے اس کی ملاقات ہوئی تھی۔ وہ اس سے دوستی کی کوشش کرتا رہا۔ جس میں اسے کامیابی ہو ئی تھی۔ کوچوان لڑکے کی حالت خراب ہوتی جا رہی تھی۔ اس کی چپل چوری ہو گئی تھی۔ کپڑے پھٹنے لگے تھے اور اس کی جیب میں کبھی ایک دھیلا نہیں ہوتا تھا۔ وہ ہر وقت مزار کے کسی کونے میں پڑا اونگھتا رہتا تھا۔

وہ اسے اپنے ساتھ ہوٹل لے گیا اور اس نے کڑاہی مرغ سے اس کی تواضع کی۔ اگلی بار اس نے پچاس روپے کا نوٹ زبردستی اس کی جیب میں ڈال دیا اور تیسری ملاقات میں اس نے چپل خرید کر اسے لے دی۔اس کے بعد وہ جان بوجھ کر کچھ دنوں کے لیے مزار پر نہیں گیا تھا۔

وہ پانچ روز کے بعد پہنچا تو کوچوان لڑکا اسے کہیں بھی نظر نہیں آیا۔برآمد ے کے پاس وہ اس کا انتظار کرتا رہا۔ جب وہ لڑکا آیا تو پہلی نگاہ میں وہ اسے پہچان نہیں سکا۔

کسی حمام میں غسل کے بعد اس کی رنگت نکھر آئی تھی۔ سرخ و سپید چہرہ اور چمکتی آنکھیں۔ بال ترشے۔ وہ بالکل نئے کپڑوں میں اس کے سامنے کھڑا ہوا تھا۔
تھوڑی دیر کے بعد وہ برآمدے سے اٹھ کر خالی زمین پر درختوں اور پودوں کے درمیان جا بیٹھے وہاں روشنی نہیں تھی اور کوئی ان کی باتیں نہیں سن سکتا تھا۔

اپنی فکر مندی چھپاتے ہوئے اس نے پوچھا۔”آج بہت لش پش ہو؟ کیا بات ہے”؟

کوچوان لڑکا شرما کر مسکرایا “تمہارے جیسے یار کی مہربانی ہے”۔

“کتنے یار بنا لیے؟”

ایک وہ اور ایک تم۔”

“اس کے ساتھ باہر چلے گئے میرے ساتھ جاتے ہوئے ڈرتے ہو۔” اس نے دو سگریٹ سلگائے ایک خود پینے لگا اور دوسرا کوچوان لڑکے کو دے دیا۔

“تمہارے ساتھ بھی جاؤں گا۔”

“کب۔”

“جب کہو۔”

“آج ہی چلو۔”

“سو روپے لوں گا وہ بھی ایک بار کے۔”

“اگر دو سو دوں، تو پھر دو مرتبہ؟ ٹھیک ہے ـ”

“نہیں صرف ایک بار سو روپے میں۔”

“جیسے میرے یار کی مرضی، وہ اپنی خوشی ضبط نہیں کر سکا۔”

وہ ایک دوسرے کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر چلتے ہوئے مزار سے باہر آئے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اور بالاآخر وہ نڈھال ہو گیا اور اس کی خواہش بھی مر گئی۔ اس کی پنڈلیوں اور گھٹنوں میں تیز درد ہونے لگا۔ وہ بہت دیر تک اپنی کھاٹ پر گم صم اور بے حس بیٹھا رہا پھر چونکتے ہوئے اٹھا ادھر ادھر ہاتھ مارتے ہو ئے اس نے اپنے کپڑے ڈھونڈے اور فوراً پہن لیے۔

کمرے میں ٹہل کر وہ لگاتار سگریٹ پینے لگا بڑبڑاتے ہوئے اس نے اپنے آپ کو بے شمار گالیاں دیں۔

وہ غسل خانے میں گھس گیا اور اپنے بدن پر پانی بہاتا رہا باہر نکلا تو اسے وہ بات سجھائی دی بہت دیر سے وہ جس کے بارے میں سوچ رہا تھا۔

اس نے بھولے کے بھاری جسم کو اٹھایا اور اسے غسل خانے میں لے گیا اس نے تمام جگہوں پر چپکا ہوا خون دھو ڈالا پانی کے لوٹے بھولے کے بدن پر بہاتے ہوئے وہ درود شریف اور سورتیں پڑھتا رہا جو اسے ٹوٹی پھوٹی یاد تھیں۔

اس نے کھاٹ کو صاف کیا اور ناپاک بستر کو تہہ کر کے فرش پر رکھ دیا۔

بھولے کو چارپائی پر لٹانے کے بعد اس نے پہلے صندوق اور پھر الماری کو چھان مارا بڑی مشکل سے پاؤڈر کا ڈبہ اور عطر کی شیشی ہاتھ آئی اس نے مردہ جسم پر دونوں چیزیں خالی کر دیں۔

کھڑکی کھول کر وہ کچھ دیر اس کے سامنے کھڑا ٹھنڈے سانس لیتا رہا۔

گندے نالے کے پانی کی سرسراہٹ سنائی دے رہی تھی۔ قبر ستان کے منظر کی وحشت اور گھمبیرتا میں اضافہ ہو گیا تھا۔

اس نے پلنگ کے بہت نیچے رکھی ہوئی کدال اٹھائی اور دروازہ کھول کر کمرے سے نکل گیا۔