Laaltain

جمہوریت پر کارل پوپر کا تبصرہ

28 مارچ، 2021
Picture of طارق عباس

طارق عباس

1988 میں ہفتہ وار دی اکانومسٹ نے فلسفی کارل پوپر کو جمہوریت کے موضوع پر ایک مضمون لکھنے کی دعوت دی۔ یہ مضمون 23 اپریل 1988 کو شائع ہوا۔ اور ٹو پارٹی سسٹم (دو جماعتی نظام) کا حامی تھا۔اس مضمون کو نومبر 2020 میں امریکی صدارتی انتخاب کے تناظر میں دی اکانومسٹ نے مکرر شائع کیا ۔

 

پروفیسر سر کارل پوپر کی پہلی انگریزی کتاب کو اشاعت کیلئے لندن میں تب منظوری حاصل ہوئی جب ہٹلر بم برسا رہا تھا۔ کتاب 1945 میں “The Open Society and its Enemies” کے نام سے شائع ہوئی۔ کتاب کو بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی۔ لیکن زیرِ نظر مضمون میں سر کارل یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ آیا اس شہرۂ آفاق کتاب میں جمہوریت (جسے وہ ‘عوام کی حکومت ‘نہیں کہتے) سے متعلق اُن کا  بنیادی مقدمہ سمجھا بھی گیا تھا یا نہیں۔

 

کارل پوپر: جمہوریت سے متعلق میرے مفروضات بہت سادہ اور عام فہم ہیں۔ لیکن ان مفروضات کا بنیادی مقدمہ جمہوریت کے قدیم نظریے سے  اس قدر مختلف ہے (اورہم سب اسے پہلے سے متعین اور درست سمجھتے ہیں) کہ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے سادہ لوحی کے باعث میرے پیش کردہ مفروضات اور جمہوریت کے فرق  کو درست طریق پر نہیں سمجھا گیا۔ میرا پیش کردہ نظریہ بلند آہنگ الفاظ ، مثلاً “حکمرانی”، “آزادی”، اور “عقلیت” وغیرہ سے احتراز برتتا ہے۔(جہاں تک میرا تعلق ہے) یقیناً میں بھی آزادی اور عقل پر یقین رکھتا ہوں ، لیکن میں نہیں سمجھتا کہ کوئی بھی شخص ان اصطلاحات کی مدد سے ایک  ایسا نظریہ وضع کر سکتا ہے جو سادہ، قابلِ عمل ، اور نتیجہ خیز ہو۔ مذکور اصطلاحات بہت حد تک تصوراتی ہیں، اور یوں ان کے غلط طریق پر استعمال ہونے کا اندیشہ لاحق رہتا ہے۔، میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ  ‘حکمرانی’، ‘آزادی’، ‘عقلیت’ ایسی اصطلاحات پر مبنی تعریفات بے سود و بے مقصد ہوں گی۔ اور ہم ان سے کسی بھی درجے میں کوئی خیر کشید نہیں کر سکتے۔

 

میرا یہ مضمون تین اجزاء میں منقسم ہے۔ پہلا جزو، جمہوریت کے کلاسیکی نظریے سے متعلق ہے، وہ نظریہ جو عوام کی حاکمیت کا ہے۔ دوسرا جزو نسبتاً حقیقی نظریے کا ایک مختصر سا خاکہ ہے۔ تیسرا جزو بنیادی ہے اور میرے نظریے کی کچھ عملی جہات کی تصویر کشی اور اس سوال کا جواب ہے کہ: “اس نئے نظریے سے عملاًکیا فرق رونما ہوتا ہے؟”

 

کلاسیکی نظریہ

اپنے اجمال میں کلاسیکی نظریہ یہ ہے کہ جمہوریت عوام کی حکومت ہے، اور عوام حکومت کا حق رکھتے ہیں۔ یہ دعویٰ کہ عوام حکومت کا حق رکھتے ہیں، اس کے حق میں بہت سے دلائل دئے گئے ہیں۔ تاہم میرے لئے یہاں ضروری نہیں کہ میں اُن وجوہات کا ذکر بھی کروں۔ اس کی بجائے میں یہاں اس نظریے اور اصطلاح کے تاریخی پس منظر کا تجزیہ کروں گا

 

افلاطون وہ پہلا نظریہ ساز تھا جس نے شہری ریاستوں (city states) کی بنیادی اصناف کے مابین تفریق کے اصول وضع کئے ۔ افلاطون نے درج ذیل امور کے تحت حکمرانوں کے مابین فرق روا رکھا:

 

اول: بادشاہت ، یعنی ایک اچھے شخص کی بادشاہت؛ اور مطلق العنانیت، جو کہ بادشاہت کی ایک بگڑی ہوئی شکل تھی

دوم: اشرافیہ (aristocracy)، چند اچھے اشخاص کی حکومت، اور چند سری حکومت (oligarchy) جو کہ اشرافیہ کی بگڑی ہوئی شکل تھی۔

سوم: جمہوریت، یعنی تمام لوگوں کی حکومت۔ (یہاں غور کیجئے کہ بادشاہت اور اشرافیہ کی طرح)جمہوریت کی دو اقسام نہ تھیں۔ بہت سے لوگوں کے اکٹھ سے ہمیشہ ایک ہجوم ہی وجود میں آتا تھا اور ہجوم فی نفسہٖ ایک بگڑی ہوئی شے تھی۔

 

اگر ہم اس درجہ بندی پر مزید غور کریں ، اور خود سے سوال کریں کہ وہ کیا مسائل تھے جن کی بابت افلاطون سوچ رہا تھا تو ہمیں یہ معلوم ہو گا کہ یہ مسائل صرف افلاطون کے ہاں نہ تھے بلکہ ہر مفکر کو یہی مسائل درپیش تھے۔ افلاطون سے لے کر کارل مارکس اور اس کے بعد بھی، بنیادی مسئلہ اور سوال یہی رہا ہے: “ریاست کی حکمرانی کسے کرنی چاہئے؟” (میرے بنیادی نکات میں سے ایک نکتہ یہی ہو گا کہ اس مسئلے کو یکسر مختلف سوال سےتبدیل کیا جانا چاہئے۔) افلاطون کا جواب سادہ تھا کہ “بہترین” کو حکمران ہونا چاہئے۔ اور اگر ممکن ہو تو “سب سے بہترین” تنِ تنہا حکمرانی کرے ۔بعد ازاں، اگلا انتخاب “چند سمجھ دار لوگ” ہونگے، لیکن ہجوم یقیناً نہیں ہو گا، جمِ غفیر بالکل بھی نہیں ہو گا۔

 

یونانیوں کا طریقۂ کار افلاطون کی پیدائش سے قبل بھی اس کے برعکس تھا(اور وہ یہ تھا کہ): عوام کو حکومت کرنی چاہئے۔ تمام اہم سیاسی فیصلے جیسا کہ جنگ و امن سے متعلق فیصلے وغیرہ، تمام شہریوں کی رائے سے کئے جاتے تھے۔ آج اس طریقۂ کار کو “براہ راست جمہوریت” (direct democracy) کہا جاتا ہے؛ لیکن ہمیں یہ کبھی نہیں بھولنا چاہئے کہ یونانی شہری وہاں کے باسیوں کی ایک اقلیت تشکیل دیتے تھے، یہاں تک کہ ایک مخصوص علاقے کے مقامیوں تک کی بھی الگ سے اقلیت بنائی جاتی تھی ۔ اور جو نظریہ یہاں زیرِ بحث ہے اس میں اہم  امر یہ ہے کہ یونانی جمہوریت پسند تھے،اور جمہوریت کو مطلق العنان اورآمرانہ  طرزِ حکومت کا متبادل قرار دیتے تھے؛ درحقیقت وہ بخوبی جانتے تھے کہ ایک مقبول راہنما اپنی مقبولیت کے باعث مطلق العنان بن سکتا ہے۔

 

اوروہ یہ بھی جانتے تھے کہ عوامی مقبولیت بھی حماقت پر منتج ہو سکتی ہے، حتیٰ کہ اہم ترین معاملات میں بھی۔اور یونانی اس ضمن میں درست بھی تھے: وہ فیصلے جمہوری طریق پر کرتے تھے ۔ (اُن کا یہاں تک بھی خیال تھا کہ) حکومت کو جمہوری طور پر سونپی گئی طاقتیں بھی غلط ہو سکتی ہیں اور ایک ایسا قانون وضع کیا جانا جو اغلاط سے مبرا ہو، نا ممکن نہیں تو بہت مشکل ضرور ہے ۔اور جمہوری نظریے کے درست ہونے کی وجہ یہ نہیں ہے کہ یہ اخلاقی طور پر بلند وبالا یا کوئی آسمانی وظیفہ ہے، بلکہ یہ ہے کہ ہمیں استبداد سے بچاتا ہے۔

 

میری رائے میں قانون سازی کا (ظالمانہ) اصول، یورپ کی تاریخ میں بہت وسیع کردار رکھتا ہے (ایسے علاقے جہاں روم کی عسکری طاقت مضبوط تھی )۔قیصرِ روم اپنی طاقت کی بنیاد اس اصول پر رکھتے تھے کہ فوج کی بھرپور تائید کسی بھی راہنما کو حکمرانی کا جواز بخشتی ہے۔ لیکن سلطنت روم کے زوال کے ساتھ ،رائج قوانین کی آئینی حیثیت کا مسئلہ فوری طور پر حل طلب ٹھہرا، اسے ڈیوکلیٹیئن (Diocletian) نے بہت شدت سے محسوس کیا اور “خدائی بادشاہت ” (Imperium of the God)کے نئے ڈھانچے کو سہارا فراہم کرنے کی کوشش کی ۔اور انسانوں کا یہ دیوتا نظریاتی طور پر روایتی اور مذہبی امتیازات اور القابات سے مملو تھا، جیسا کہ قیصر، شہنشاہ، ہرکولیس، جوپیٹر وغیرہ

 

اس سب کے باوجود ایسا لگتا ہے کہ شاید مروجہ قانون سازی سے بھی زیادہ معتبر اور گہری ضرورت مذہبی قانون سازی کی تھی۔ اگلی نسل کے آنے تک، (وحدانیت پر مبنی مذاہب میں سب سے وسیع پیمانے پر پھیلنے والے مذہب ) عیسائیت کی شکل میں ایک خدا پر ایمان، قسطنطنیہ کے سامنے بطور مسئلے کے حل کے پیش کیا گیا۔ اس کے بعد جس نے بھی حکمرانی کی، “خدا کے فضل” کے تحت حکمرانی کی، جو کہ یکتا تھا، اور اس کائنات کا واحد مالک و مختار تھا۔ قانون سازی کے اس نئے نظریے کی مکمل کامیابی یہ واضح کرتی ہے کہ روحانی اور مادی دنیا کے مابین اتفاقات و اختلافات کے باوجود دونوں ایک دوسرے پر مکمل طور پر منحصر تھے ،( وہی  دنیائیں جو قرونِ وسطیٰ میں ایک دوسرے کی دشمن تھیں )

 

قرون وسطیٰ میں اس سوال کا جواب کہ “کسے حکمرانی کرنی چاہئے؟” ایک اصول بن گیا:  (اور جواب یہ تھا کہ )خدا مقتدرِ اعلیٰ ہے، اور وہ اس کائنات پر اپنے موزوں نمائندگان کے ذریعے حکمرانی کرتا ہے۔ قانون سازی کا یہ اصول پہلی مرتبہ اصلاحی تحریک نے چیلنج کیا اور بعد ازاں 1648ء تا 1649ء کے انگریزی انقلاب (English Revolution)نے اس  کا قلع قمع کیا۔ انگریزی انقلاب کے مطابق حکمرانی کا حق عوام کے پاس تھا (نہ کہ آفاقی نمائدگان کی شکل میں چنیدہ افراد کے پاس)

 

مطلق العنان حکمرانی کے تصور کی موت کے بعد، قانون سازی کا قدیم دور لوٹ آیا؛ اور یہ پروٹسٹنٹ قوانین کی خلاف ورزی کی شکل میں تھا جو جیمز دوم نے کی تھی ۔ جیمز خود قانونی طور پر ایک بادشاہ تھا اور 1688 کے “عظیم انقلاب “کا پیش خیمہ بھی ، ساتھ ہی وہ پارلیمنٹ کے بتدریج طاقتور ہونے سے برطانوی جمہوریت کے پنپنے میں مزید معاون ثابت ہوا، اور یہ پارلیمنٹ ہی تھی جس نے ولیم اور مَیری کو قانونی طور پر( بادشاہ اور ملکہ کے) عہدوں سے نوازا تھا۔ اس پیش رفت کی بنیادی خصوصیت یہ تھی کہ یہ اس تجربے پر مبنی تھی جو یہ ثابت کر چکا تھا کہ حکومت کے معاملات میں مذہبی اور نظریاتی جھگڑے ہمیشہ تباہ کُن ثابت ہوتے ہیں۔ شاہی قانون سازی اور عوامی حکومت، دونوں اب مزید قابلِ بھروسہ اصول نہیں تھے۔ عملاً ایک نا سمجھ بادشاہت کا وجود تھا جو کہ پارلیمنٹ کی مقرر کردہ تھی۔ساتھ ہی پارلیمنٹ کی طاقت میں روز افزوں اضافہ ہورہا تھا۔ برطانوی ان مجرد اصولوں کے بارے میں بے یقینی میں مبتلا ہو گئے اور افلاطون کا اٹھایا گیا سوال کہ “کسے حکومت کرنی چاہئے” ہمارے دور سے قبل، دوبارہ کبھی سنجیدگی سے نہیں لیا گیا۔

 

کارل مارکس، جو ظاہر ہے کہ برطانوی سیاست دان نہیں تھا، وہ اب تک افلاطونی مسئلے سے دو چار تھا کہ “کسے حکومت کرنی چاہئے” اچھے کو یا برے کو – مزدور کو یا سرمایہ دار کو؟ حتیٰ کہ وہ بھی جو خود کو انارکسٹ (ہر طرح کی حکومت کے مخالف)کہتے تھے،اور آزادی کے نام پر ریاست کے نظریے کو یکسر رد کرتے تھے، ایک (غلط طور پر سمجھے ہوئے ) مسئلے کی زنجیروں سے آزاد نہ ہو پائے ۔ ہم ان کی اس قدیمی مسئلے (“کسے حکومت کرنی چاہئے”) سے خلاصی کی ناکام کوشش پر صرف اظہارِ ہمدردی ہی کر سکتے ہیں۔

 

ایک حقیقت پسندانہ نظریہ

 

اپنی کتاب “The Open Society and its Enemies” میں،میں نے یہ تجویز سامنے رکھی کہ ایک یکسر نئے مسئلے کو پہچاننا چاہئے، جو عقلیت پر مبنی ایک بنیادی  سیاسی نظریہ ہے۔نیا مسئلہ پرانے مسئلے “کسے حکومت کرنی چاہئے” کے برعکس کچھ اس طرح سے بیان کیا جا سکتا ہے: ریاست کی ساخت کس نوعیت کی ہونی چاہئے کہ بغیر خون بہائے ہم برے حکمرانوں سے نجات حاصل کر سکیں۔

 

پرانے سوال کے برعکس، یہ سوال مکمل طور پر عملی اور تکنیکی سوال ہے۔ اور تمام نام نہاد جدید جمہوریتیں اس مسئلے کے عملی حل کی اچھی مثالیں ہیں، اگرچہ ان کی تخلیق شعوری طور پر اس مسئلے کو ذہن میں رکھ کر نہیں کی گئی تھی۔ یہ تمام جمہوریتیں نئے مسئلے کا سادہ ترین حل  پیش کرتی ہیں، یعنی یہ اصول کہ حکومت اکثریت کے ووٹ سے کالعدم کی جا سکتی ہے۔

 

تاہم نظری اعتبار سے یہ تمام جدید جمہوریتیں پرانے مسئلے پر ہی مبنی ہیں، جو کہ مکمل طور پر ایک غیر عملی نظریے پر اپنی بنیاد رکھتی ہیں کہ تمام بالغ عوام کا مجموعہ ہی حقیقی معنوں میں حکمرانی کر سکتا ہے۔لیکن ہم دیکھ سکتے ہیں کہ یقیناً کہیں بھی عوام کی حکمرانی نہیں ہے۔ ہر جگہ حکومت ہی کی حکمرانی نظر آتی ہے۔ (اور افسوس ناک طور پر بیوروکریٹ، جو ہمارے عوامی خادم ہوتے ہیں، یا بقول ونسٹن چرچل، ہمارے غیر مہذب آقا– ان سب کو ان کے اعمال کا جوابدہ بنانا مشکل ہے۔)

 

طرزِ حکومت کےاس سادہ اور عملی نظریے کے نتائج کیا ہونگے؟ مسئلے کو پیش کرنے کا میرا طریقۂ کار اور اس کا حل، دونوں مغربی جمہوری طریقہ ہائے کار سے متصادم ہیں، جیسا کہ برطانیہ کا غیر تحریر ی قانون، اور بہت سے تحریری قوانین (جنہوں نے کم و بیش برطانوی ماڈل کو ہی اختیار کیا)۔ میرا نظریہ اور اس میں پنہاں حل ، انہی عوامل (نہ کہ نظریات) کو بیان کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اور اسی وجہ سے میرا خیال ہے کہ میں اسے “جمہوریت کا نظریہ” کہہ سکتا ہوں، اگرچہ یہ کسی بھی حال میں “لوگوں کی حکومت” کا نظریہ نہیں ہے، بلکہ “قانون کی حکومت ” کا نظریہ ہے

 

میرا نظریہ بآسانی پرانے نظریے کے تضادات اور اشکالات سے محفوظ ہے۔مثلاً “اگر لوگ ایک آمر کو منتخب کرنے کا فیصلہ کر لیں تو کیا کیا جانا چاہئے؟” یقیناً ایسا ہونا بہت مشکل ہے اگر آزادانہ طور پر ووٹ ڈالا جائے۔ لیکن ایسا ہو چکا ہے۔ اور اگر ایسا ہو جائے تو کیا ہو گا؟ قوانین میں سے زیادہ تر آئین عوام کی کثیر تعداد کے ووٹ کے بغیر تبدیل نہیں ہو سکتے اور جمہوریت کے خلاف کم از کم دو تہائی یا تین چوتھائی ووٹوں کی ضرورت ہو گی۔ لیکن یہ مطالبہ ظاہر کرتا ہے کہ ایسی تبدیلی کی سہولت فراہم کی جائے ؛ اور بیک وقت وہ اس اصول کے بھی قائل نہ ہوں کہ غیر تعلیم یافتہ اکثریت طاقت کا حقیقی منبع ہے –یا یہ کہ لوگ اکثریتی ووٹ کے ذریعے حکمرانی کا حق رکھتے ہیں۔

 

ان تمام نظری مشکلات سے بچا جا سکتا ہے اگر ہم اس سوال کو نظر انداز کر دیں کہ “کسے حکمرانی کرنی چاہئے؟” اور اسے ایک نئے اور عملی سوال سے تبدیل کردیں: ہم کس طریق پر ایسی صورت حال سے بچ سکتے ہیں کہ ایک برا حکمران ہمارا بہت زیادہ نقصان نہ کر پائے ؟ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ ہماری معلومات کے مطابق سب سے بہترین حل ایک ایسا آئین ہے جو اکثریت کے ووٹ سے ایک حکومت کو ختم کر سکتا ہے، تو اس بناء پر ہم یہ نہیں کہیں گے کہ اکثریتی ووٹ ہمیشہ درست ہی ہوتا ہے۔ ہم یہ بھی نہیں کہیں گے کہ یہ بالعموم درست ہوتا ہے۔ ہم صرف یہ کہیں گے کہ یہ  نامکمل اور خام طریقِ کار اب تک کے تخلیق کردہ نظریات میں سب سے بہتر ہے۔ ونسٹن چرچل نے ایک مرتبہ ازراہِ تفنن کہا تھا کہ جمہوریت حکومت کی بدترین شکل ہے، ما سوائے اُن نظریاتِ حکومت کے جو ہمیں پہلے سے معلوم ہیں۔

 

اور یہی بنیادی نکتہ ہے: کوئی بھی شخص جو جمہوریت کے علاوہ کسی اور طرزِ حکومت کے تحت رہ چُکا ہے، بالفرض ایک آمر کے تحت جسے بغیر خون بہائے نہیں ہٹایا جا سکتا تھا، وہ شخص یقیناً یہ جانتا ہو گا کہ جمہوریت، اگرچہ غلطیوں سے مبرا نہیں ہے مگر اس کے باوصف اس کے لئے وہ لڑ بھی سکتا ہے اور مر بھی سکتا ہے۔ تاہم یہ میرا ذاتی تیقن ہے۔ اور ابتداً مجھے اسے غلط قرار دینا چاہئے تاکہ میں دوسروں کو اس کے بارے میں قائل کر سکوں۔

 

ہم اپنے نظریے کی تمام تر بنیاد اس امر پر رکھ سکتے ہیں کہ ہمیں صرف دو متبادل معلوم ہیں: آمریت یا جمہوریت۔ اور ہم اپنا فیصلہ جمہوریت کی اچھائی کی بناء پر نہیں لیں گے، جو کہ شک سے مبرا نہیں ہے، لیکن آمریت کی شیطنت کی بنیاد پر کریں گے، جو کہ یقینی ہے۔ نہ صرف ایک آمر اپنی طاقت کا غلط استعمال کرے گا بلکہ اگر وہ عوام پر مہربان بھی ہوا، تب بھی وہ لوگوں سے اُن کے حقوق اور ذمہ داریاں غصب کر لے گا، کیونکہ وہ ایک آمر ہے۔ اور یہ جمہوریت کے حق میں ایک بھاری دلیل ہے، یعنی جمہوریت ایک ایسا قانون ہے جو ہمیں استبدادی حکومت سے جان چھڑانے میں معاون ہوتا ہے۔ کوئی بھی اکثریت، چاہے وہ کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو، آئین کی اس حکمرانی کو ترک کرنے کی اہل نہیں ہو سکتی۔

 

متناسب نمائندگی

 

پرانے اور نئے نظریے میں یہ نظری فرق ہے۔ان نظریات میں عملی فرق کی ایک مثال کے طور پر، ہم نسبتی نمائندگی کے مسئلے کا تجزیہ کرتے ہیں ۔

 

سابقہ نظریہ، اور اس نظریے کا یہ عقیدہ کہ عوامی حکومت، عوام کےذ ریعے،اور عوام کیلئے ہونی چاہئے۔اس پر مستزاد کہ یہ ایک قدرتی حق ہے، یا آفاقی حقیقت ہے؛ اس سب کے پس منظر میں  نسبتی نمائندگی کی دلیل پنہاں ہے۔ کیونکہ اگر لوگ اپنے نمائندوں کے ذریعے حکومت کریں گے، اور اکثریتی ووٹوں کے ذریعے، تب یہ لازم ہے کہ آراء کی شماریاتی تقسیم اور اکثریتی ووٹوں کے ذریعے آئین سازی کا تناسب برابر ہو۔ اس کے علاوہ کوئی بھی دوسرا طریقۂ کار غیر منصفانہ ہو گا۔

 

اگر ہم پرانا نظریہ ترک کر دیں تو یہ دلیل منہدم ہو جاتی ہے، اور غیر جانب دار ہو کر اور تعصب سے ہٹ کر ہم یہ سوچ سکتے ہیں کہ نسبتی نمائندگی کے وہ کونسے نتائج ہیں جن سے ہم پیچھا بھی نہیں چھڑا سکتےاور ساتھ ہی میں یہ تباہ کُن بھی ہیں۔

 

سب سے پہلے، نسبتی نمائندگی سیاسی جماعتوں کو ایک آئینی رتبہ عطا کرتی ہے جو وہ اس کے علاوہ کسی بھی طریق سے حاصل نہیں کر سکتیں۔ چونکہ میں مزید ایسا شخص نہیں چُن پاؤں گا جو میری نمائندگی کر سکے، میں ایک جماعت ہی کا انتخاب کر وں گا۔ اور جو لوگ جماعت کی نمائندگی کرتے ہیں انہیں جماعت منتخب کرتی ہے۔ ااگرچہ لوگ اور ان کی آراءواجب الاحترام ہیں، مگر  سیاسی جماعتوں کی آراء  کو ایک عام انسان کی رائے قرار نہیں دیاجا سکتا: کیونکہ جماعت رائے نہیں بلکہ ایک منشور اور نظریہ رکھتی ہے۔

 

ایک ایسا آئین جو نسبتی نمائندگی کی سہولت فراہم نہیں کرتا، وہاں سیاسی جماعتوں کی ضرورت نہیں رہتی۔ انہیں آفیشل سٹیٹس دیے جانے کی بھی ضرورت نہیں رہتی۔ ہر انتخابی حلقے کے رائے دہندگان اپنا ذاتی نمائندہ چیمبر میں بھیجتا ہے یا وہ اکیلا کھڑا ہوتا ہے ،یا پھر چند لوگوں کے ساتھ مل کر ایک جماعت تشکیل دیتا ہے۔ اور ان میں سے کسی بھی طریقۂ انتخاب ایک ایسا فیصلہ ہوتا ہے جو اسے اپنے رائے دہندگان پر واضح کرنا ہوتا ہے۔

 

اس کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنی بھرپور صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئےان تمام لوگوں کے مفادات کی نمائندگی کرے جنہوں نے اس پر اعتماد ظاہر کیا ہوتا ہے ۔ اور یہ مفادات کم و بیش تمام صورتوں میں ملک کے تمام لوگوں کے، پوری قوم کے مفادات کے مماثل ہوتے ہیں ۔ یہ وہ مفادات ہیں جن کا اسے اپنی تمام صلاحیتوں کے ساتھ تعاقب کرنا ہو گا۔ اور عملاً وہ لوگوں کا ذاتی طور پر ذمہ دار ہو گا۔

 

نمائندے کا یہ واحد فرض اور واحد ذمہ داری یہ ہے کہ آئین اس کو تسلیم کرے۔ اگر وہ یہ سمجھتا ہے کہ وہ ایک سیاسی تنظیم کا بھی ملازم ہے، تو ایسا صرف اس وجہ سے ہونا چاہئے کہ وہ اس امر پر یقین رکھتا ہے کہ پارٹی سے اس تعلق کے ذریعے وہ اپنی بنیادی ذمہ داری بطریق احسن نبھا سکتا ہے۔ نتیجتاً یہ اس کا فرض بنتا ہے کہ جونہی اسے یہ احساس ہو کہ وہ اپنی ذمہ داری پارٹی سے تعلق کے بغیر بھی نبھا سکتا ہے، تو اسے پارٹی سے علیحدگی اختیار کر لینی چاہئے۔

 

اگر ریاست کا آئین نسبتی نمائندگی کی اجازت دے تو ایسا ہو سکتا ہے۔ کیونکہ نسبتی نمائندگی کے تحت کوئی بھی امیدوار کسی سیاسی جماعت کے نمائندے کے طور پر ہی الیکشن لڑتا ہے، قطع نظر اس کے کہ آئین کیا کہتا ہے۔ اگر وہ منتخب ہوتا ہے تو بنیادی طور پر اس وجہ سے کہ وہ ایک خاص جماعت کا رُکن اور نمائندہ ہے۔ لہذاٰ اس کی پہلی وفاداری اس کی جماعت اور اس کے منشور سے ہونی چاہئے؛ نہ کہ عوام سے (سوائے اُن “عوام” کے جو پارٹی کے راہنما ہیں)

 

لہذاٍ یہ کبھی بھی اس کی ذمہ داری نہیں ہو سکتی کہ وہ اپنی جماعت کے خلاف ووٹ دے۔ اس کے برعکس وہ اخلاقی طور اُس پارٹی سے وفاداری کا پابند ہے جو اسے پارلیمان تک لے کر آئی۔ اور اگر اس کا ضمیر اسے اس امر پر ملامت کرتا ہے تو میری رائے میں اسے نہ صرف جماعت بلکہ پارلیمان سے بھی استعفیٰ دے دینا چاہئے، اگرچہ ملکی آئین اس پر اس طرح کی کوئی پابندی عائد نہیں کرتا۔

 

در حقیقت، وہ نظام جس کے تحت وہ منتخب ہوا، اسے ذاتی ذمہ داری سے آزاد کر دیتا ہے (یا بقول میکس ویبر، جوابدہی سے۔ مترجم)؛ اور اسے ایک فہم و شعور رکھنے والے شخص کی بجائے ایک ووٹنگ مشین میں تبدیل کر دیتا ہے۔ میری نظر میں، یہ نسبتی نمائندگی کے خلاف فی نفسہٖ ایک شافی دلیل ہے کیونکہ ہمیں سیاست میں وہ افراد درکار ہیں جو معاملات کو خود سے سمجھ سکتے ہیں اور جو ذاتی ذمہ داریاں نبھانے کیلئے بھی تیار ہوتے ہیں۔

 

ایسے افراد کا کسی جماعتی نظام کے تحت وجود محال ہے خواہ ہم نسبتی نمائندگی کو بھی ختم کر دیں۔ اور ہمیں اس کا بھی اقرار کرنا چاہئے کہ ہم پارٹی سسٹم کا متبادل فراہم کرنے میں ہنوز ناکام ہیں۔ لیکن اگر ہمیں پارٹیاں رکھنی ہیں، تو ہمیں چاہئے کہ نسبتی نمائدگی کو آئینی طور پر نافذ کر کے اپنے نمائندگان کو ان کی جماعتوں کا غلام نہ بنائیں۔

 

نسبتی نمائندگی کا فوری نتیجہ یہ ہو گا کہ یہ سیاسی جماعتوں کی تعداد بڑھانے کا موجب بنے گا۔ پہلی نظر میں شاید یہ مطلوب محسوس ہو؛ کہ زیادہ جماعتیں ہونے سے انتخاب کے زیادہ مواقع، محدودیت کی کمی، اور زیادہ تنقید؛ یہ سب ممکن ہوں گے اور یہ کہ اس سے طاقت کی تقسیم بھی ممکن ہو گی۔

 

تاہم، یہ پہلا تاثر مکمل طور پر غلط فہمی پر مبنی ہے۔ بہت سے پارٹیوں کا وجود، لازمی طور پر، اتحادی حکومت کو ناگزیر بنا دیتا ہے۔ اور اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ کسی نئی حکومت کے قیام میں، اور ایک حکومت کو طویل مدت تک قائم رکھنے میں — مشکلات پیش آئیں گی

 

اقلیت کی حکومت

جہاں نسبتی نمائندگی اس تصور پر مبنی ہے کہ ایک پارٹی کی طاقت اس کی ووٹنگ پاور سے متناسب ہے، اور ایک اتحادی حکومت کا مطلب ہے کہ زیادہ تر ، چھوٹی جماعتیں حکومت کے قیام اور خاتمے میں فیصلہ کُن اہمیت کی حامل ہونگی۔ ان میں سب سے اہم امر ذمہ داریوں میں کمی کا ہے۔ کیونکہ ایک اتحادی حکومت میں تمام اتحادیوں کی ذمہ داریوں میں کمی آ جاتی ہے۔

 

اسی وجہ سے نسبتی نمائندگی، اور نتیجے کے طور پر پارٹیوں کی زیادہ تعداد فیصلہ کن امور پر مضر اثرات کی حامل ہوتی ہے، بطور مثال ایک حکومت کو پارلیمنٹ الیکشن کے ذریعے اقتدار سے بے دخل کرنا ایسی صورت میں بہت مشکل ہو گا۔ ووٹر کو یہ توقع دلائی جاتی ہے کہ شاید کوئی بھی جماعت اکثریتی ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے۔اپنے ذہن میں یہ توقع لئے، لوگ کسی ایک مخصوص پارٹی کے خلاف شاذ ہی ووٹ دیتے ہیں۔ اور نتیجے کے طور پر الیکشن کے روز کوئی بھی پارٹی ناکام نہیں ٹھہرتی اور نہ ہی کوئی مجرم ٹھہرتی ہے۔ لہذاٰ کوئی بھی الیکشن کے دن کو روزِ جزاء نہیں سمجھتا؛ ایسا دن جب کوئی ذمہ دار حکومت اپنے کئے پر جوابدہ، اپنی کامیابیوں پر نازاں اور ناکامیوں پر نالاں ہوتی ہے، اورنہ ایک ذمہ دار اپوزیشن حکومت کے اس ریکارڈ پر نقد کرتی ہے اور نہ ہی یہ بتاتی ہے کہ حکومت کو کامیابی کے لئے فلاں اقدامات کرنے چاہئے تھے۔

 

کسی بھی پارٹی کے پانچ یا دس فیصد ووٹوں کا نقصان ووٹر کے ذہن میں اس کے ناکام ہونے کی وجہ قرار نہیں پاتا۔ وہ اسے کامیابی میں ایک عارضی اونچ نیچ سمجھتے ہیں۔ اور وقت کے ساتھ ساتھ لوگ اس تصور کے عادی ہو جاتے ہیں کہ کوئی بھی سیاسی پارٹی اور اس کے راہنما اپنے ان فیصلوں کے ذمہ دار نہیں ٹھہرائے جا سکتے، جو ان پر اتحادی حکومت کی وجہ سے زبردستی عاید کئے گئے ہوں گے۔

 

نظریاتی نقطۂ نظر سے، الیکشن کا دن روزِ جزاء ہونا چاہئے۔ جیسا کہ430 قبل مسیح کو Pericles of Athens میں کہا گیا تھا کہ “اگرچہ چند لوگ کوئی بھی پالیسی تشکیل دیتے ہیں لیکن اس پر فیصلہ ہم سب دے سکتے ہیں”۔ یقیناً ہماری رائے غلط بھی ہو سکتی ہے، درحقیقت اکثر اوقات ہم غلط ہی ہوتے ہیں۔ لیکن اگر ہم نے ایک حکومت کے اقتدار کا دوردیکھ رکھا ہے اور اس کی بازگشت کو ہم محسوس کر چُکے ہیں، اس بنیاد پر ہم بہرحال فیصلہ دینے کی کچھ نہ کچھ صلاحیت ضرور رکھتے ہیں۔

 

یہاں اس بات کو پہلے سے فرض کر لیا جاتا ہے کہ مقتدر پارٹی اور اس کے راہنما ،جو کچھ وہ کر رہے تھے اس کے مکمل طور پر ذمہ دار تھے۔ اور نتیجے کے طور پر مفروضہ اکثریتی حکومت کو فرض کر لیتا ہے۔ تاہم متناسب نمائندگی اور کلی اکثریت کی حامل ایک جماعت جو کلی اکثریت کے ساتھ اقتدار کی مالک ہے نیز خوش افزاء نعروں کے شکار نہ ہونے والے شہریوں کی اکثریت کے ہاتھوں مسترد ہوئی ہو، (پھر بھی) عین ممکن ہے کہ ایسی حکومت ایوان اقتدار سے باہر نہ نکل پائے، ایسی صورت میں یہ چھوٹی سے چھوٹی پارٹی کی بھی مدد مانگیں گے تاکہ وہ اقتدار میں رہ سکیں۔

 

اور ایک بڑی پارٹی کا ملامت زدہ راہنما اقتدار میں رہے گا – قطع نظر اس کے کہ عوام کی کثیر تعداد اس کے خلاف ہے، اور ایسا وہ صرف ایک معمولی سی جماعت کی مدد سے کر پائے گا جس کا منشور، عین ممکن ہے کہ “عوام کی خواہش” کا دور دور تک بھی نمائندہ نہ ہو۔یقیناً ایسا ہو گا کہ ایک چھوٹی جماعت نئی حکومت کی پارلیمنٹ میں مضبوط نمائندہ نہیں ہو گی، لیکن اس کی طاقت بہت زیادہ ہو گی کیونکہ یہ حکومت کو کسی بھی وقت تہس نہس کر سکتی ہے۔ اور یہ سب اس تصور کو ملیا میٹ کر دیتا ہے جو نسبتی نمائندگی کی جڑ ہے: یہ تصور کہ جتنے زیادہ ووٹ ہوں گے اتنی ہی زیادہ ایک جماعت کا اثر رسوخ ہو گا۔

 

دو جماعتی نظام

 

اکثریتی حکومت  کو ممکن بنانے کیلئے ہمیں two-party نظام کی ضرورت ہے، جیسا کہ برطانیہ اور امریکہ میں ہے۔ کیونکہ ایسے نظام کی موجودگی نسبتی نمائندگی کا حصول بہت مشکل بنا دیتی ہے۔میری تجویز یہ ہے کہ پارلیمنٹ کے مفاد میں ہمیں نسبتی نمائندگی کے اس پر کشش تصور کے خلاف مزاحمت کرنی چاہئے۔ اور اس کی بجائے ہمیں two-party سسٹم یا اس سے ملتے جلتے نظام کیلئے کوشش کرنی چاہئے کیونکہ ایسا نظام دونوں پارٹیوں کیلئے خود پر  تنقید کا ایک دائمی سلسلہ قائم رکھتا ہے ۔ “دو جماعتی نظام نئی سیاسی جماعتوں کی تخلیق میں رکاوٹ ہوتا ہے۔ ” یہ بات درست ہے۔ لیکن برطانوی اور امریکی دو جماعتی میں تبدیلیوں کا ظہور واضح ہے۔ لہذاٰ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ایک نئی پارٹی کے وجود پر پابندی عاید کر کے ہم دو جماعتی نظام کو بھی زنجیروں میں جکڑ دیں گے۔

 

یہاں نکتہ یہ ہے کہ دو جماعتی نظام میں شکست کھانے والی سیاسی جماعت انتخابات میں اپنی شکست کو سنجیدگی سے لے گی۔ اور اپنے مقاصد کی اندرونی اصلاحات کی کوشش کرے گی جو کہ ایک طرح کی نظریاتی اصلاح ہو گی۔ اگر ایک سیاسی جماعت لگاتار دو یا تین مرتبہ شکست کھا جائے، تو اس میں نئے تصورات کی تلاش خوفناک حد تک بڑھ جائے گی، جو کہ ایک صحت مندانہ عمل ہو گا۔

 

ایک ایسا نظام جس میں بہت سی سیاسی جماعتیں ہوں، اور اتحادی ہوں، ایسا ہونا نا ممکن ہے (جو دو جماعتی نظام میں ممکن ہے) ، بالخصوص تب جب ووٹ کا نقصان بہت تھوڑا ہو، جماعتی راہنما اور رائے دہندگان اس تبدیلی کو زیادہ محسوس نہیں کریں گے۔ بلکہ وہ اسے کھیل کا حصہ سمجھیں گے – کیونکہ کسی بھی جماعت کی کوئی واضح طور پر متعین ذمہ داریاں نہ تھیں۔ لیکن جمہوریت کو ایسی جماعتوں کی ضرورت ہے جو ہمہ وقت متنبہ ہوں اور مذکور صورتحال سے زیادہ حساس ہوں۔ صرف اسی طرح سے وہ خود پر ایک ناقدانہ نگاہ رکھ سکتی ہیں۔ الیکشن میں شکست کے بعد خود پر ناقدانہ نگاہ رکھنا ایسے ممالک میں بہت واضح ہے جہاں دو جماعتی نظام ہے بہ نسبت اُن ممالک کے جہاں دو سے زیادہ سیاسی پارٹیاں اقتدار کی جنگ لڑتی ہیں۔ لہذاٰ ابتدائی تاثر کے برعکس، عملاً دو جماعتی نظام کثیر جماعتی نظام کے مقابلے میں کہیں زیادہ لچک دار ہونے کا امکان ہے۔

 

ایسا کہا جاتا ہے کہ “نسبتی نمائندگی ایک نئی جماعت کو سامنے آنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ اور اس کے بغیر ایسا ہونے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا، اور تیسری جماعت کی محض موجودگی ہی پہلے سے موجود دو بڑی جماعتوں کی کارکردگی کو بہتر کرنے میں معاون ثابت ہو گی۔” ایسا یقیناً ہو سکتا ہے، لیکن اگر پانچ یا چھ نئی جماعتیں ابھر آئیں تب کیا ہو گا؟ جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں کہ ایک چھوٹی سی سیاسی جماعت، یہ فیصلہ کرتے وقت کہ اُسے کس اتحادی حکومت کا حصہ بننا ہے، اپنے ووٹ کے مقابل کہیں زیادہ طاقت حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکتی ہے

 

اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ “دو جماعتی نظام ایک اوپن سوسائٹی کے تصور سے موافقت نہیں رکھتا – کیونکہ ایک اوپن معاشرے میں تصورات کی بہتات ہونی چاہئے اور تکثیریت(pluralism) کا احساس ہونا چاہئے۔” الجواب: “برطانیہ اور امریکہ دونوں نئے تصورات کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ مکمل کشادگی یا قبولیت کی صلاحیت سے تو قبولیت کا مقصد ہی فوت ہو جائے گا، مزید یہ کہ معاشرتی کشادگی اور سیاسی کشادگی دو مختلف معاملات ہیں۔ اور سیاسی بحث کو وسیع سے وسیع تر بنانے سےزیادہ اہم یہ امر ہے کہ ہم سیاسی روزِ جزاء کے لئے ایک سنجیدہ رویہ اختیار کریں”

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *