تم لوگوں کو قتل کرتے رہے
یہاں تک کہ
احساس تحفظ تمہاری گولیوں کا نشانہ بن گیا
تم نے بے گناہوں کو
ان کے بستروں کے سکون سے جھپٹ لیا
ان کی سواریوں کی راحت سے نیچے دھکیل دیا
ان کی خاندان کی عافیت سے کھینچ نکالا
اور ان کے دوستوں کی راحت سے اچک لیا
باقی بچ جانے والوں کو خاموشی کا گھن اندر ہی اندر کھانے لگا
یہاں تک کہ انہوں نے اپنی آواز سننا شروع کر دی
وہ کسی کا انتظار کیے بغیر
اپنی آرام گاہوں سے نکل آئے
اور انہوں نے اپنے جیسوں کو اپنے گرد پایا
انہوں نے سواریوں روک دیں
عافیت کو ترک کر دیا
راحت کو کسی اور دن کے لیے اٹھا رکھا
اور تمہارے دروازوں پر اپنی آوازیں بلند کر دیں
تمہارے ہتھیار خوف کھانے لگے
ان کی لبلبی پر رکھی انگلیاں
حیرت سے اکڑ گئیں
تم نے احساس تحفظ کو قتل کرتے ہوئے نہیں سوچا
کہ لوگ گھروں میں خوفزدہ ہو جائیں
تو سڑکوں پر نڈر ہو جاتے ہیں۔۔۔۔

Leave a Reply