ہم قیدی ہیں
اور ہمارے چاروں طرف دیواریں ہیں
قیدی قیدی !!
ان دیواروں سے باہر بھی اک پنجرہ ہے
پنجرے میں دیواریں ہیں
اور قیدی ہیں
قیدی قیدی !!
وہ آتے ہوں گے
تازہ پھلوں کی خوشبو ہم کو پاگل کر دیتی ہے
ہونٹوں کو کاٹنے لگتی ہیں
اور دہرانے لگتی ہیں
ہم کچی پکی جھول رہی تھیں شاخوں سے جب توڑی گئیں
کانٹا چبھا اور سو گئیں ہم
آنکھ کھلی تو دیواریں
چاروں جانب دیواریں تھیں
قیدی قیدی !!
جب رنگ برنگے خوشبو بیچنے والے آتے ہیں
تو گدگدی ہونے لگتی ہے
تب ہم ٹانگوں کو بھینچ کے سوتی ہیں
اور ہماری مائیں اپنی قبروں میں دہرانے لگتی ہیں
بِٹیا۔۔۔۔ بِٹیا۔۔۔۔
خوشبو بیچنے والے سوداگر پھولوں کا مول بھی جانت ہیں
تم بچ کے رہیو
اکھین کو نیچا رکھیو
اور چھپ کے رہیو
ان دیواروں کے بھیتر
جن کے باہر بھی دیواریں ہیں
قیدی قیدی !!
سنتے ہو ؟؟
کہتے ہیں دور سمندر پار بھی ایک سمندر ہے
جس کی لہریں ان دروازوں سے ٹکراتی ہیں
جن کے باہر کوئی دیوار نہیں
اور وہاں انسانوں جیسی اک جاتی ہے
جس کو ہنسنا آتا ہے
جو اپنی مادہ کے سنگ کُھش کُھش رہتا ہے
پر ہم کاہے جانیں
ہم نے تو ان دیواروں بھیتر آنکھیں کھولیں
جن کے باہر بھی دیواریں تھیں
قیدی قیدی !!
او قیدی قیدی۔۔۔
پر تم بھی کاہے جانو۔۔۔