رفاقت حیات کا یہ مضمون اس سے قبل "ہم سب” پر بھی شائع ہو چکا ہے۔
بعض رخصت ہونے والے، ہمارے وجود کا کچھ حصہ نہیں، بلکہ پورا وجود ہی اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔ یہ تحریر، ایک ایسے ہی شخص کو یاد کرنے کے ساتھ ساتھ، اس کے وجود سے نتھی اپنا وجود کھوجنے کی ایک سعی لاحاصل بھی ہے، جو اس کے جانے بعد گم ہو چکا ہے۔
اُنیس سو پچانوے چھیانوے میں کراچی وارد ہوا تو، فکشن، شاعری اور دیگر سنجیدہ موضوعات کےمطالعے کی چاٹ پہلے سے لگی ہوئی تھی، اگر چہ شاعری ترک کرکےافسانہ نگاری کی طرف مائل ہوچکا تھا اورچند خام سے افسانے چھپ بھی چکے تھے لیکن یہاں کے ادیبوں سے ابھی ذاتی جان پہچان نہیں تھی، مگر اتنی تھی کہ ان میں سے بہت سوں کی تحریریں اور کتابیں راول پنڈی قیام کے دوران پڑھ چکا تھا، اسی لیے فطری طور پر سب سے ملنے کی خواہش تھی۔
اب سوچتا ہوں، توان برسوں کے کراچی کا ادبی(خصوصاً نثری) منظر نامہ خاصا دل چسپ اور وقیع لگتا ہے۔ غلام عباس، عسکری صاحب اور سلیم احمد آسودہِ خاک ہوچکے تھے۔ ادب میں جدیدیت آخری سانسیں لے رہی تھی اور اب مابعد جدیدیت کا دورشروع ہورہاتھا۔ جدیدیت کے سرخیل، قمر جمیل صاحب کی بیٹھک اور ان کا پرچہ بند ہوچکے تھے اور وہ اپنی صحت اور یادداشت کے مسائل سے نبرد آزما تھے۔حمید نسیم مرحوم شاعری پر دو تنقیدی کتابیں لکھنے کے بعد اب نثر پر ایک طویل تنقیدی کتاب لکھنے میں رات دن مصروف تھے، جو بوجوہ آج تک شایع نہ ہوسکی۔افسانے کی دنیا میں کہانی کی واپسی کا چرچا تھا، لیکن جو حقیقت پسند افسانہ لکھا جارہا تھا، وہ واقعاتی سطح سے بلند ہی نہیں ہوپاتا تھا اور دوسری جانب جو لوگ علامتی اور تجریدی افسانہ لکھ رہے تھے، وہ ابہام کے ساتھ ہیئت کے مسائل سے بھی دوچار تھے۔ افسانہ نگاروں کی اکثریت کا تعلق ساٹھ اور ستر کی دہائیوں میں نمایاں ہونے والے فکشن نگاروں سےتھا۔انیس سو اسی کے بعد منظر عام پر آنے والے افسانہ نگار چند ایک ہی تھی۔
اس عرصے میں،ایک طرف فہیم اعظمی صاحب صریر نکالنے کے ساتھ تجریدی فکشن بھی لکھ رہے تھے، دوسری طرف احمد ہمیش کے جریدے تشکیل اور ان کے افسانے "مکھی”کا بھی شور تھا۔ محمود واجد صاحب نے افسانہ نگاری نے تائب ہو کر” سہ ماہی آئندہ” نکالنا شروع کر دیا تھا۔ سخی حسن کے قریب علی حیدر ملک کے ہاں فکشن گروپ(جسے بہاری گروپ بھی کہا جاتا تھا) کے اجلاس منعقد ہو رہے تھے۔ پی ایم اے ہاؤس میں انجمن ترقی پسند مصنفین بھی فعال تھی، جس کے اجلاسوں میں حسن عابدی، نعیم آروی، ڈاکٹر شیر شاہ سید اور دیگر ترقی پسند لکھنے والے باقاعدگی سے شرکت کیا کرتے تھے۔آواری ہوٹل کے کونے پر واقع "بیک اینڈ ٹیک” نامی ریسٹورینٹ میں بھی چند معتبر ادیبوں کا اکٹھ ہوا کرتا تھا، جن میں سے چند ایک کے علاوہ اکثر مردم بے زار محسوس ہوتے تھے۔ اجمل کمال صاحب اپنا اشاعتی ادارہ سٹی پریس بک شاپ قائم کرچکے تھے اور اکثر وہاں پر محمد خالد اختر بھی آنکلتے تھے۔ اجمل صاحب نے فلم کلب بنایا تو وہاں پر فہمیدہ ریاض، افضال احمد سید تنویر انجم، سعید الدین اور کبھی کبھار ذی شاحل سے بھی ملاقات ہوجاتی۔پیرا ڈائز پیلس میں، ایک طرف عذرا عباس نثری نظمیں لکھ رہی تھیں، ان کے ساتھ انور سن رائے ناول، افسانہ، شاعری، تینوںمیں مصروفِ عمل تھے اور دوسری طرف افتخار جالب مرحوم بھی،اپنی بھاری بھر کم تنقیدی بصیرت کے ساتھ موجود تھے۔ آرٹس کونسل کراچی پر یاور مہدی اور ان کے یاروں کا اجارا تھا۔ اس کے سوا اور بھی بہت کچھ ہورہاتھا۔ کئی ادبی پرچے نکل رہے تھے۔کئی ادبی تنظیموں اور انجمنوں کے اجلاس باقاعدگی سے ہورہے تھے۔
ابتدائی برسوں میں بہت سی جگہوں پر جانا ہوا، لیکن اس کے بعدا چانک ملاقات، ایک چھتیس سینتیس سالہ خو برو اور وضع دارصاحبِ علم و ادب سے ہوگئی، جن سے ملنے کے بعد یہ ضرور محسوس ہوا تھاکہ ادبی آوارا گردی اب اپنا ثمر لے آئی ہے۔یاد نہیں آرہا کہ کب، کیسے اور کہاں، پہلی بار ان سے ملاتھا لیکن اتنا یاد ہے کہ گلشن اقبال کے بلاک نمبر چار میں واقع ان کے آبائی گھر میں ہی ملاتھا۔
ان کے تین افسانوی مجموعے اور کئی ناولوں اور افسانوں کے تراجم شایع ہو چکے تھے اورمیں ان میں سے کچھ ہی تراجم، مضامین اور ایک افسانوی مجموعہ "چیزیں اور لوگ” پڑھ چکا تھا، جسے میں آج بھی ان کا بہترین افسانوی مجموعہ خیال کرتا ہوں۔اگرچہ اس کے بعد ان کے افسانوی مجموعے” میں شاخ سے کیوں ٹوٹا”، "شہر ماجرا”،” شہر بیتی”، "ایک آدمی کی کمی” اور میرے دن گزر رہے ہیں” شایع ہوئے۔ اپنے مجموعے "ایک آدمی کی کمی” میں انہوں نے کچھ سندھی لوک کہانیوں کو کامیابی سے اردو میں ڈھالتے ہوئے انہیں ہم عصر زندگی کے پیچیدہ واقعات سے، کامیابی کے ساتھ جوڑا ہے۔شاید کچھ لوگ جانتے ہوں کہ انہوں نے ایک ناول لکھنے کا آغاز بھی کیا تھا، جس کا صرف ایک ہی باب رقم کیا جاسکا اور وہ آگے نہ بڑھ سکا۔
آصف صاحب انتظار حسین سے مرعوب و متاثر ضرور تھے لیکن انہوں نے افسانے میں اپنے لیے الگ راہ نکالنے کی بھرپور کوشش کی اور وہ اس میں کامیاب بھی ہوئے۔وہ نئے ماخذات کی تلاش میں سندھی زبان کی لوک روایات میں اندر تک چلے گئے۔اور صرف سندھی پر ہی کیا موقوف، نجانے کتنی زبانوں کی پوری پوری روایات وہ گھول کر پیئے ہوئے تھے۔ان کافکشن اور نان فکشن پڑھ کر کم از کم مجھے تو یہی لگتا ہے۔
ان کا گلشن اقبال والاوہ گھر اور اس کا ڈرائنگ روم،کبھی فراموش نہیں کیے جاسکتے، جہاں آصف صاحب سے ہونے والی پہلی ملاقات ہی،ملنے ملانے کے ایک طویل سلسلے میں تبدیل ہوگئی۔اس گھرکے گراؤنڈ فلور پر آصف صاحب کے والدین اور پہلی منزل پر وہ خود رہتے تھے۔ گھر کی گھنٹی بجانے پر کبھی آصف صاحب تو کبھی ان کی اہلیہ اورکبھی ڈاکٹر اسلم فرخی مرحوم ( جن کے چہرے پر ہمیشہ ایسی سنجیدگی، متانت اور رعب دکھائی دیتا کہ علیک سلیک کے سوا ان سے کوئی بات کرنے کی ہمت کبھی نہ ہوسکی) آکر گیٹ کا پھاٹک کھولا کرتے اور پھاٹک سے اندر آنے کے بعد مہمان کے لیے ڈرائنگ روم کا دروازہ کھول دیاجاتا۔مہمان اندر بیٹھ کر انتظار کرتے ہوئے سامنے کی دیوار پر نصب شمس العلما، ڈپٹی نذیر احمد کی تصویر دیکھتا رہتا۔ پھر کچھ دیر بعد ڈرائنگ روم کے کونے پر بنا ہوا دروازہ کھلتااور کج مج سی بھوری آنکھوں پر نظر کا چشمہ لگائے،طویل قامت، ہلکے سے گھنگھریالے بالوں والے آصف صاحب برآمد ہوتے اور دیکھتے ہی پوچھتے : ہاں، بھئی کیا حال ہے؟ کیسے ہو؟ کیا لکھا اور پڑھا جارہا ہے؟۔ ان سوالوں کے جوابوں کے ساتھ ہی سلسلہ کلام دراز ہوتا چلاجاتا۔ اردوادب کے ساتھ عالمی فکشن نگاروں کا تذکرہ چل نکلتا۔
یہ ان کی اپنی شخصیت کاطمطراق تھا کہ والد صاحب کا اثر، ابتدا میں آصف صاحب سے مل کر میں ایسا مرعوب ہوا تھا کہ ان سے بات کرنے سے پہلے مجھےکئی بار سوچنا پڑتا تھا کہ کیا بات کی جائے اور اس پر مستزاد یہ کہ میری زبان میں لکنت بھی ہے، لیکن ان کا رعب داب وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زائل ہوکر برابر کی دوستی میں تبدیل ہوتاچلاگیا۔ایک مرتبہ ان سے اس کا اظہار بھی کیا کہ جب آپ سے شروع میں ملتا تھا تو آپ کے رعب میں رہتا تھا لیکن اب وہ ختم ہوگیا۔ جواب میں انہوں نے ہنستے ہوئے کہاتھا : یہ تو بہت برا ہوا۔
جب تک آصف صاحب گلشن والے گھر میں رہے، ہم سے ادب کے پیاسے بار بار اس گھر کا طواف کرتے رہے۔ اور کیوں نہ کرتے۔ اس گھرکے ڈرائنگ روم میں کیسی کیسی شان دار ادبی اور فکری محفلیں برپاہوتی تھیں، جو شہر بھر میں ہونے والی تمام ادبی تقریبات پر بھاری تھیں۔ اکثر محفلوں کے روحِ رواں وہ خود ہی ہوا کرتے تھے۔میں نے وہیں پر پاکستان انڈیا کے ایٹمی دھماکوں سے حوالے سے لکھا گیا انتظار حسین کا تازہ افسانہ”مور نامہ” سنا۔ اسد محمد خان نے جب اپنا طویل افسانہ”رگھوبا اور تاریخ ِ فرشتہ” مکمل کیا تو آصف صاحب نے اسے اسد صاحب کی زبانی سننے کے لیے اپنے گھر میں باقاعدہ اہتمام کیا۔ اس افسانے کی قرات دو گھنٹے سے زیاد دیر تک جاری رہی۔ سب سنتے رہے اور اسد صاحب کی اعلیٰ نثر سن کر اپنا سر دھنتے رہے۔ اردو کے مایہ نازشاعر محبوب خزاں، جو شہر میں کسی جگہ نظر نہیں آتے تھے، انہیں بھی یہیں دیکھا اور ان سے ان کا کلام بھی سنا۔انڈیا سے تشریف لانے والے شمس الرحمن فاروقی، شمیم حنفی، سید محمد اشرف، ساجد رشید اور محسن خاں سے بھی یہیں ملاقات ہوئی۔ وہ گھر اردو ادب کا ایسا مرکز و محور تھا کہ بہت سے ادبی ستارے وہاں آکر اپنی آب و تاب دکھاتے۔کس کس کا نام لوں۔
وہ مجھے ہمیشہ تاکید کرتے رہتے۔لکھتے اور پڑھتے رہو۔پڑھنے کے لیے وہ ہمیشہ نت نئی کتابیں تجویز کرتے اور اپنے کتب خانے سے بھی فکشن کی بعض کتابیں نکال کر پڑھنے کے لیےمستعار دے دیا کرتے۔ ایک بار ان کے آگےتورگنیف کے طویل افسانوں کے اردو ترجمے "جھونکے بہار کے” کی تعریفوں کے پل باندھےتو وہ سنتے ہی بےچین ہو گئے اور کہنے لگے۔ کیسی شان دار کتاب ہے لیکن وہ کتاب مجھ سے کہیں کھو گئی ہے۔اگر تم اپنی وہ کتاب مجھے دے دو، تو اس کے بدلے تمہیں چیخوف کے تراجم دے سکتا ہوں۔چند روز بعد "جھونکے بہار کے” ان کے حوالے کردی۔
دھیرے دھیرے میرے افسانوں کے متعلق ان کی رائے بہتر ہونے لگی تھی۔جب میں نے افسانہ ”خوامخواہ کی زندگی ” لکھا، تو اسے پڑھنے کے بعد کہنے لگے: اس کا ماحول ایڈ گر ایلن پو کے افسانوں کی طرح گھمبیر اور تاریک ہے، لیکن افسانہ بن گیا ہے۔ بہت بعد میں یہی افسانہ جب لاہور میں زاہد ڈار کو پڑھنے کے لیے دیا تھا، تو ان کا جواب تھا: مجھے لگتا ہے،تم نے یہ افسانہ مجھ پر لکھا ہے۔”
کتابوں کی اشاعت کا کام وہ بہت پہلے سے شروع کرچکے تھے۔ پہلے احسن مطبوعات کےنام سےکچھ کتابیں چھاپیں، جن میں افسانہ نگار ضمیر الدین احمد کی اردو شاعری کے جنسیاتی مطالعے پر مبنی کتاب” خاطرِ معصوم” بھی شامل تھی۔اس کے علاوہ ان کے اپنے ایک دو افسانوی مجموعے بھی اسی ادارے سے چھپے۔اس کے بعد انہوں نے سین پبللیکیشن کے تحت کچھ کتابیں شایع کیں،جن میں مصطفیٰ ارباب، اکبر معصوم اور امر محبو ب ٹیپو کی کتابیں مجھے یاد ہیں۔
ان دنوں امر محبوب ٹیپو اور عرفان خان نے ریگل چوک کے بیچوں بیچ ایک قدیم عمارت” نرائن داس بلڈنگ” میں” سماوار” نامی تنظیم کے بینر تلے ہفتہ وار ادبی بیٹھک کا آغاز کیا۔ اس عمارت کا نام سین پبلشرز کے پتے کے طور پر بھی لکھا گیا۔ وہاں کچھ عرصے تک باقاعدگی سے تنقیدی نشستیں منعقد ہوئیں۔ ممتاز رفیق مرحوم نے اپنے ابتدائی خاکے وہیں پڑھ کر سنائے۔ایک افسانہ میں نے بھی پیش کیا تھا۔آصف صاحب،فہمیدہ ریاض، فاطمہ حسن، مبین مرزا اور کچھ احباب نےبھی وہاں اپنی نگارشات تنقید کے لیے پیش کی تھیں۔ لیکن یہ سلسلہ چند ماہ بعد ہی ختم ہوگیا۔
ایک شام کبھی فراموش نہیں کی جاسکتی۔ پیراڈائز پیلس میں چوتھی منزل پر واقع انورسن رائے اور عذرا عباس کے گھر میں احمد فواد، وسعت اللہ خان اور آفتاب ندیم کے ساتھ میں بھی موجود تھا۔ آصف صاحب اکبر معصوم کی کتاب ” اور کہاں تک جانا ہے۔”کا مسودہ بغل میں دبائے وارد ہوئے۔ ان کے آتے ہی محفل کا رنگ بدل گیا۔ انہوں نے اکبر کی شاعری کے پل باندھنے شروع کردیے۔ اس کے بعد آفتاب ندیم نے بیٹھے بیٹھے تقریباً پورا مسودہ پڑھ کر سنا دیا۔تمام سننے والے تازہ کار شاعر کا کلا م سن کر عش عش کر اٹھے۔اس کے بعد وہ کتاب شایع ہوئی اور اس کی تقریبِ رونمائی آرٹس کونسل، کراچی میں ہوئی۔ اکبر معصوم اردو کے مین اسٹریم ادب میں شامل ہوگئے۔
شایدسن دو ہزار میں آصف صاحب نے ادبی رسالہ نکالنے کا ارادہ باندھا۔ مجھے حکم ہو ا کہ ایک افسانہ دنیازاد کے لیے انہیں دوں۔ ان دنوں میں افسانے” چریا ملک” پر کام کر رہا تھا۔اچانک مجھے چھوٹے بھائی کے ساتھ پشاور جانا پڑگیا۔وہاں ایک ہوٹل میں قیام کے دوران وہ افسانہ مکمل کیا اور پشاور سے ان کے پتے پر پوسٹ کردیا، جو انہیں مل گیا۔کراچی واپسی پر ان سے پوچھا: افسانہ کیسا لگا؟ کہنے لگے: اسے پڑھتے ہوئے مارکیز کا کرنل یاد آتا رہا، مگر افسانہ اس سے مختلف ہے۔چند ہی روز کے بعد دنیا زاد کا اجرا ہوگیا اور بہت جلد وہ اردو کے ایک وقیع رسالے کے طور شہرت پانے لگا۔دنیا زاد شروع کرنے سے پہلے وہ ایک نیا اشاعتی ادارہ "شہر زاد پبلشر” کے نام شروع کرچکے تھے۔اس ادارے کے زیرِ اہتمام انہوں نے باقاعدہ اور مسلسل کتابیں چھاپنا شروع کیں۔
لاہور میں جب عاصم بٹ سے پہلی ملاقات ہوئی تو آصف صاحب کا تذکرہ نکلا۔ عاصم نے کہا کہ وہ جب ان کے بارے سوچتا ہے تو اس کے سامنے ایک ایسا شخص آتا ہے، جس نے ایک بہت بڑے میز کو کئی خانوں میں تقسیم کر رکھا ہے۔ ایک خانہ افسانہ نگاری کے لیے ہے، وہاں بیٹھ کر وہ افسانے لکھتا ہے۔ دوسرا ترجمے کے لیے مخصوص ہے، جہاں سے وہ تراجم کرتا ہے۔ تیسرا مضامین سے مختص ہے، وہاں بیٹھ کر وہ مضامین لکھتا ہے۔ چوتھا خانہ انگریزی کی تحریروں کے لیے ہے، جہاں سے وہ اپنے انگریزی تراجم اور مضامین تحریر کرتا ہے۔
دو ہزار ایک میں میری شادی ہوگئی۔ شادی کے بعد ایک بار اپنی شریک ِ حیات کے ساتھ ان کے گھر گیا۔ تب سیمی بھابھی بھی آکر ہمارے ساتھ بیٹھ گئی تھیں۔انہوں نے باتوں باتوں میں آصف صاحب کی شکایت کی: انہیں عید کے لیے کپڑے اور جوتے خریدنے کے رقم دی، تو یہ ان کے بجائے ٹامس اینڈ ٹامس سے مہنگی کتابیں خرید کر لے آئے۔ بعد میں ان کے لیے کپڑے اور جوتے مجھے خریدنے پڑگئے۔مجھے یاد ہے کہ بھابھی کا لہجہ آصف صاحب کے متعلق کچھ تلخ سا تھا۔اس سے پہلے تک میں یہی سمجھتا رہا تھا کہ بھابھی آصف صاحب کی ادبی قدو قامت کو نہ صرف پسند کرتی ہیں بلکہ ان کی مدد بھی کرتی ہوں گی، لیکن اس دن کے بعد میرا یہ خیال خام ثابت ہوا۔
مجھے اپنا افسانوی مجموعہ شایع کرنے کا مشورہ آصف صاحب نے ہی دیا تھا۔ان کا خیال تھا کہ اب تمہارا پہلا مجموعہ آجانا چاہیے۔ان دنوں میری کتاب کے ساتھ سید کاشف رضا کا پہلا شعری مجموعہ” محبت کا محلِ وقوع” بھی زیر طبع تھا۔مجھے اپنی کتاب کے لیے مناسب نام نہیں مل رہا تھا۔ ایک روز آصف صاحب کے ہاں انعام ندیم بھی موجود تھے۔جب اس مسئلہ کا انہیں پتا چلا تو انہوں نے افسانوں کے عنوانات دیکھتے ہوئے کتاب کا نام” خوامخواہ کی زندگی” تجویز کیا، جو مجھے اور آصف صاحب دونوں پسند آیا، اس طرح کتاب کا نام طے ہوگیا۔
کچھ عرصے بعد آصف صاحب کا فون آیا کہ تمہاری اور کاشف کی کتابیں چھپ گئی ہیں۔ میں چند کاپیاں لے کر آرہا ہوں۔ کس جگہ ملا جائے؟ میں نے جبیں ہوٹل، صدر میں ملنے کے لیے کہا۔ آصف صاحب نے وہاں مجھے اور کاشف کو شایع ہونے اولین کتابیں پیش کیں۔ ہمیں محسوس ہوا کہ ہم سے زیادہ خوشی آصف صاحب کو ہورہی ہے۔وہ بہت پرجوش تھے۔انہوں نے کتابوں کی تقریب کروانے کے لیے کہا۔ کاشف کی دوکتابوں، محبت کا محل وقوع اور نوم چومسکی کے تراجم والی کتاب اور میری افسانوں کی کتاب کی تقریبِ رونمائی ایک ساتھ ہوئی تھی، جس کے بینر پر لکھا ہوا تھا: دو ادیب، تین کتابیں۔ شرکائے گفتگو میں آصف صاحب کے علاوہ، افضال احمد سید، غازی صلاح الدین، پروفیسر سحر انصاری اور دیگر لوگ شامل تھے۔ تھیٹر کے مایہ ناز اداکار خالد احمد نے میری ایک کہانی اور کاشف کی چند نظمین پڑھ کر سنائیں۔
ایک بار آصف صاحب کے چچا انور احسن صدیقی مرحوم کی کتاب”ایک خبر، ایک کہانی” کی تقریب اجرا کراچی پریس کلب میں جاری تھی۔ میں انور سن رائے صاحب کے ساتھ آخری رو میں بیٹھا تھا۔آصف صاحب اپنا مضمون پڑھ چکنے کے بعد ہمارے پاس ہی آخر بیٹھ گئے۔ انور صاحب نے انہیں جملہ دیاتھا: یار تمہارے ہرمضمون میں محاوروں اور اشعارکی بھرمار ہوتی ہے، کبھی سیدھی بات بھی کرلیا کرو۔اپنے نان فکشن میں آصف صاحب کی نثر کا انداز کچھ ایسا ہی تھا۔
ان دنوں آصف صاحب اقوام ِ متحدہ کے ادارہ برائے اطفال سے وابستہ تھے۔ایک بار انہوں نے بتایا کہ ایم بی بی ایس کرنے کے بعد ہاؤس جاب کےدوران انہوں نے ہسپتالوں میں ڈاکٹروں اور طبی عملے میں جو بے حسی، منافع خوری، حرص و طمع دیکھی تو پھر اس کے بعد انہوں نے زندگی بھر پریکٹس نہ کرنے کا تہیہ کرلیا اور اپنی ملازمت کے لیے بالکل الگ راستہ منتخب کیا۔
ایک سے زائدبار انہوں نے مجھ سے ایک بات کہی، جو میرے ذہن میں اٹک کر رہ گئی۔ انہوں نے کہا: زندگی میں کبھی سرکاری نوکری مت کرنا۔وہ جانتے تھے کہ میں پی ٹی سی ایل میں ملازمت کرتا ہوں۔ دوہزار آٹھ میں،میں نےوہ جاب چھوڑ دی اور فری لانس ڈرامہ رائٹر کے طور پر کام کرنے لگا اور آج تک یہی کچھ کر رہا ہوں۔دشواری تو پیش آتی ہےلیکن آزادی بڑی چیز ہوتی ہے۔
بعدمیں آصف صاحب گلشن اقبال سے نقل ِ مکانی کر کے ڈیفنس میں منتقل ہوگئے۔جب میں وہاں ان سے ملنے کے لیے گیا تو باتوں باتوں میں میرے منہ سے نکلا:شادی کے بعد جوائنٹ فیملی میں رہنا مشکل ہوجاتا ہے۔ آپ نے مسائل کا سامنا کیا ہوگا؟ یہ سن کر وہ مخصوص انداز میں مسکرائے اورکہنے لگے: اگر میں الگ ہوکر یہاں نہ آتا تو بڑے مسائل ہوجاتے۔
آصف صاحب،ہمہ وقت متحرک رہنے والے ادیب تھے۔ان کی دلچسپی ادب کے کسی ایک شعبے سے مخصوص نہیں تھی۔یہ ٹھیک ہے کہ انہیں زیادہ لگاؤ فکشن سے تھا لیکن غزل، نظم، تنقید، ترجمہ،آپ بیتی، خاکے وغیرہ سب چیزوں کو وہ اہم سمجھتے تھے۔انہوں نے نثری نظم کے سات بہترین شاعروں کا انگریزی میں ترجمہ کیا تھا، جو آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے شایع کیا تھا۔ادب کے تمام شعبوں کے حوالے سے ایسا پرجوش، سرگرم اور مستعد میری نگاہوں سے نہیں گزرا۔
آکسفورڈ ادارے کے لیے انہوں نے بہت سی کتابیں ترتیب دیں اور ترجمہ کیں۔ امینہ سید صاحبہ سے تعلق کی بنا پر ان کے ساتھ مل کر آصف صاحب نے کراچی لٹریچر فیسٹول کی بنیاد رکھی اور کئی برس اسے کامیابی سے منعقد کرکے ملک بھر میں ادبی میلوں کی نئی روایت قائم کی، جس سے ادب اور ادیبوں دونوں کا بھلا ہوا۔
میرا ناول” میرا واہ کی راتیں” آج میں شایع ہوا تو فون کر کے پر جوش انداز میں مبارک باد دی۔انہیں مجھ سے ایک شکایت تھی، ناول کی تقریب کے دوران بھی انہوں نےجس کا برملااظہار کیا تھا، اور وہ یہ کہ مجھے زیادہ فکشن لکھنا چاہیے جو شاید میں اب تک نہ لکھ سکا ہوں۔ اسی تقریب میں اجمل کمال صاحب بھی پچھلی سیٹ پر بیٹھے ہوئے تھے۔کاشف رضا کا ناول "چاردریش اور کچھوا” شایع ہوا تو سب سے زیادہ خوشی کا اظہار ان کی جانب سے کیا گیا اور وہ اس کی تعریف کرتے رہے۔
خالد جاوید صاحب کا ناول ” نعمت خانہ” انہوں نے شہر زاد سے شایع کیا تھا۔ایک جوش کے ساتھ انہوں نے مجھے پڑھنے کے لیے دیا۔میں نے پڑھ کر مکمل کیا تو ان سے اور کاشف رضا سے بہت تعریف کی۔ کاشف نے ناول پڑھنے کے لیے مانگ لیااور میں نے بھی اسے دے دیا۔ بعد میں وہ کہنے لگا کہ تم دوسرا لے لینا۔ میں نے جب آصف صاحب سے اس بات کا ذکر کیا تو اگلی ملاقات میں انہوں نے مجھے ناول کی نئی کاپی دے دی۔ لیکن وہ کاپی،عاصم بٹ کراچی آیا تو وہ لے اڑا۔آصف صاحب جیسا پبلشر دنیا میں شاید ہی گزرا ہو جو اپنے ادارے کی کتابیں دوستوں، پڑھنے والوںمیں مفت بانٹا کرتا تھا۔
میں اور اکثر دوست اس خوش فہمی میں مبتلا تھے کہ آصف صاحب کے ہاں سب بہت اچھا چل رہا ہے۔وہ شہر کے پوش علاقے میں رہائش پذیر ہیں۔ یونی سیف کی ملازمت چھوڑ کر وہ حبیب یونی ورسٹی جوائن کرچکے تھے۔ وہاں جانے کے بعد ان کی شوخی گفتار میں اضافہ ہوتا چلا گیا تھا۔ وہاں کبھی اسد محمد خاں، باسودے کی مریم سنا نے کے لیے آ رہے ہیں، کبھی حسن منظر اپنا کوئی افسانہ پڑھنے۔ کبھی عذرا عباس کی نثری نظموں کا ترجمہ کیا جارہا ہے اور کبھی شمیم حنفی صاحب لیکچر دینے کے لیےتشریف لارہے ہیں۔ افضال صاحب، تنویر انجم صاحبہ اور انعام ندیم یو نیورسٹی میں ہمہ وقت ان کے ساتھ ہوتےتھے۔ہم سمجھے بیٹھے تھے کہ آصف صاحب ہمیشہ رہیں گے اور ایسے ہی رہیں گے۔
پھرفیس بک پر ان کی بعض تصویریں دیکھ کر میں ششدر رہ گیا اور سوچنے لگا کہ آصف صاحب کو اچانک کیا ہوگیا؟ان کےچہرے کی شادبی، آنکھوں کی مخصوص چمک اور لہجے کا غیر متزلزل اعتماد غائب ہوچکے تھے۔آصف صاحب سے ملنے پر پوچھنے کی ہمت بھی نہ ہوسکی۔ایک روز یارِ عزیز عرفان جاوید سے ملنے گیا تو باتوں میں انہوں نے آصف صاحب پر بیتنے والی قیامت کی خبر دی۔ جب یہ ذکر کاشف رضا سے کیا تو اس نے پراسرار طریقےاپنے دو خوابوں کے بارے میں سرسری سا بتایا، جو اس نے آصف صاحب کے بارے میں دیکھے تھے۔میرے پوچھنے پر بھی اس نے تفصیل نہ بتائی۔
آصف صاحب دوبارہ ڈیفنس سے گلشن اقبال منتقل ہوچکے تھے، ایک کرائے کے گھر میں، جو ان کے آبائی گھر کے قریب ہی واقع تھا۔اس گھر میں جب ان سے ملا تو عرفان جاوید کی سنائی ہوئی خبر کی تصدیق کرنا چاہی۔اس کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ ان پر ڈپریشن کے شدید دورے پڑ رہے ہیں۔دو بار خودکشی کی کوشش کرچکے ہیں۔انہوں نے یہ سب اتنے سرسری طریقے سے بتایا کہ میں حیرت سے انہیں تکتا رہ گیا لیکن وہ دوسری طرف دیکھنے لگ گئے تھے۔
وہ اپنے ذاتی معاملات پر کم ہی بولتے تھے اور دوسروں کو بھی بات کرنے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ جب ان سے آخری بار مل کر اٹھاتو سوچ رہا تھا کہ پچیس برس پہلے بھی یہی گلشن تھا، لیکن تب یہ اس طائرِ خوش الحان کی شوخی و طراری سے کیسا گونجتا رہتا تھا، لیکن اب اسے کس کی نظر لگ گئی۔
اس کے بعد تو پوری دنیا کوہی کسی کی نظر لگ گئی۔ایک وبا جنگل کی آگ سے بھی تیزرفتاری کے ساتھ ملکوںملکوں پھیلتی چلی گئی۔ آصف صاحب نے پبلک ہیلتھ میں ڈگری لی ہوئی تھی۔ جب کراچی میں لاک ڈاؤن کا علان ہوا تو انہوں نے دوسرے ہی دن سے "تالہ بندی کا روز نامچہ ” لکھنا شروع کردیا، جو عنقریب کتابی صورت میں شایع بھی ہونے والا ہے۔عرفان جاوید کے مطابق آصف صاحب گلشن والے کرائے کے گھر میں بے چینی محسوس کرتے تھے۔ دل نہیں لگتا تھا۔ اس لیے وہ زیادہ سے زیادہ وقت یونیورسٹی میں رہنے کی کوشش کرتے۔ دیر تک بیٹھ کر پڑھتے رہتے تھے۔
آج انعام ندیم فون پر کہہ رہا تھا کہ اگر یونیورسٹی بند نہ ہوتی، تو مجھے یقین ہے کہ آصف صاحب ہمارے درمیان ہوتے۔ لیکن ایک بڑا صدمہ ہم سب دوستوں کے لیے یہ ہے کہ وہ اب ہماری تحریریں نہیں پڑھ سکیں گے۔ ہم ہمیشہ کے لیے کتابوں پر ان کی بیش قیمت رائے سے محروم ہو گئے اور یہ محرومی چھوٹی محرومی نہیں ہے۔
Leave a Reply